معمار قوم : سرسید احمد خان

ساجد حسین ندوی

سر سید احمد خان17 اکتور1817 میں دہلی کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوے ان کے والد سید محمد متقی دہلی کے اہم آدمی مانے جاتے تھے۔ جس وقت سر سید احمد خان نے اس جہانِ فانی میں آنکھیں کھولی ہندوستان کی مسلمان کسمپرسی کی عالم میں زندگی گزاررہے تھے۔ کیونکہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے متعصب انگریز مسلمانوں سے انتہا درجے کی نفرت کرتے تھے، اور ان کو اپنی حکومت چھن جانے کا خطرہ سب سے زیادہ اسی قوم تھا ۔ بنگال کے مسلمان کے انگریزی سامراج کی رکاوٹ میں سب سے بڑے چٹان ثابت ہوئے، نواب سراج الدولہ سب پہلے مرد مجاہد ہیں جنہوں نے ڈٹ کر انگریزوں کا مقابلہ کیااور وہ آزدی ہند کے سب بڑے مجاہد اور محب وطن تھے لیکن افسوس درپردہ اپنوں کی سازش کی وجہ سے شکست سے دوچار ہوناپڑا۔نواب سراج الدولہ کے بعد سب سے بڑا مرد مجاہد جس نے انگریزوں کے دانت کھٹے کردئے وہ شیر میسور ٹیپو سلطان شہید کی ذات گرامی ہے ۔
حضرت مولانا واضح رشید ندوی رقمطراز ہیں
’’یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی اپنے لیے سب سے زیادہ خطرہ سلطنت خداد کے استحکام کو سمجھتی تھی، سلطان ٹیپو شہید کو راستہ کا ایک بڑا پتھر خیالل کرتی تھی ، جو اس کے مقاصد اور منافع تک رسائی میں پوری طرح حائل اور ان کے غلبہ کے نقصانات کو سب سے زیادہ سمجھنے والے تھے، یہی وجہ تھی کہ وہ انگریزوں کے سلسلہ میں ذرا بھی لچک اور نرمی روا نہ رکھتے تھے، اس لیے انگریز کسی بھی صورت میں سلطنت خداد اد کو تہس نہس کرنے کاارادہ کرچکے تھے ، اس کے انہوں نے تمام ترترکیبیں ارو صورتیں اختیار کیں‘‘(سلطان ٹیپو شہید ایک تاریخ ساز شخصیت)
الغرض ملت فروشوں کی غداری کی وجہ سے انگریز اس حکومت کو تہس نہس کرنے میں کا میاب ہوگئے اور سری رنگا پٹنم میں۳؍ مئی ۱۷۹۹ کو شیر میسور ٹیپو سلطان نے جام شہادت نوش کیا ۔جنرل ٹیپو سلطان کی لاش کے پاس کھڑے ہوکر فرط مسرت چینخ اٹھا کہ ’’آج سے ہندوستان ہمارا ہے۔‘‘
اس کے بعد انگریزوں نے مسلمانوں کو سیاسی اور سماجی طور پر کمزور کرنا شروع کردیا اور مسلمانوں کی تباہی کے تمام سامان مکمل کرلیے۔سب سے پہلے انہوں نے مسلمانوں کے تعلیمی نظام پر شب خون مارا اور سلیقے کے ساتھ ان کے تعلیمی اداروں کو تباہ و بر باد کرنا شروع کر دیا۔انکی جگہ پر عیسائی مشنری اسکول قائم ہونے لگے مسلمانوں کے خلاف بچوں کے ذہن ودماغ میں زہر گھولنا شروع کردیا۔
اس پُر آشوب دور میں سید محمد متقی نے اپنے ہونہار بیٹے کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ جن کے دل میں مسلم قوم کا درد کوٹ کوٹ کر بھر دیا گیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جب وہ اس دنیا سے27 مارچ 1898,کورخصت ہوے تواطمینان قلبی کے ساتھ اللہ حضور پیش ہوئے۔
سر سید احمد خان ملت اسلامیہ کے معمار اعظم تھے۔کیونکہ 1857کی جنگِ آزادی کی ناکامی کی وجہ سے اُس پُر آشوب دور میں کوئی ایک بھی مرد مجاہد ایسا نہ تھا جو ہند کی تباہ حال ملت اسلامیہ کی ابتر حالت کوسنوارنے کی طاقت رکھتا ہو۔ مسلمانوں کے تعلیمی ادارے پہلے ہی برباد کئے جا چکے تھے۔ راسخ العقیدہ مسلمان رہنماؤں کو چن چن کر پھانسیوں پر چڑھایا جا چکا تھا۔ مسلمان نانِ شبینہ کے محتاج بنا دیئے گئے تھے۔ کہیں بھی کو ئی امید کی کرن دکھائی نہ دیتی تھی۔ معاشرتی معاشی اور سیاسی لحاظ سے ان کی کوئی حیثیت نہ تھی انگریز کی نفرت اس وقت مسلمانوں کے خلاف بامِ عروج پر تھی۔ تعلیم یافتہ طبقے کی اکثریت کو پھانسیوں پر چڑھاکر ان کا پورا نظام پلٹ چکا تھا۔ کوئی مسلمانانِ ہند کا پرسانِ حال نہ تھا۔جو لوگ خوش حال تھے وہ انگریز کی غلامی میں حمیتِ ملت سے عاری تھے۔1757کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی جو تاجروں کا ٹولہ اپنے آپ کو ظاہر کر رہی تھی وہ تمام کے تمام مغرب کے لُٹیرے تھے جنہوں نے ہندوستان کی ہر چیز پر آہستہ آہستہ قبضہ جما لیا تھا۔ یہ مسلمانوں کے جذبہِ حریت سے ہمیشہ سے ہی خائف رہے ہیں۔ جن لوگوں میں غیرت کی ذرا بھی رمق نہ تھی انہوں نے اپنی بساط کے مطابق اپنے ہم وطنوں سے غداری کا فریضہ ادا کیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کی آٹھ سوسالہ حکومت کا خاتمہ ہوگیا اور ۱۸۷۵ کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کو شکست سے دوچار ہوناپڑا۔
ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍْْ۵۷ ۱۸کی جنگ آزادی کے بعد مسلمان کافی غم زدہ اور پریشان تھے،ان کا پرسان حال اور داسا دلانے والا تھا۔لیکن ان ہی کے درمیان سر سید احمد خان ایک باریش مذہبی شخصیت کے حا مل موجود تھے، اپنی قوم کی بد حالی کو بدل دینے کے لئے وہ ہر حد عبور کرنے کے لئے بھی تیار تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ ہندوستان کے مسلمانوں کی ڈوبی ہوئی کشتی کو ناصرف تہہ سے اُپر لائے بلکہ اس کو کنارے لگانے کی ہر ممکن کوشش بھی کی، یہاں تک کہ انہوں نے انگریزحکومت کی ہاں ہاں میں ملائی ۔
ایک جگہ انہوں نے لکھا ہے :
’’میں ہندوستان میں انگلش گورنمنٹ کا استحکام کچھ انگریزوں کی محبت اور ان کی ہوا خواہی کی نظر سے نہیں چاہتا بلکہ صرف اس لئے چاہتا ہوں کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی خیر اس کے استحکام میں سمجھتا ہوں اور میرے نزدیک اگر وہ اپنی حالت سے نکل سکتے ہیں تو انگلش گورنمنٹ ہی کی بدولت نکل سکتے ہیں۔‘‘
وہ مسلمانوں کی حالت سے بہت زیادہ فکر مند تھے۔ان کا بس نہیں چلتا تھا کہ کس طرح اس گرداب سے مسلمانوں کو نکالیں۔ مگر وہ شحص ہمت جوان رکھتا تھا جس کے سہارے اُس نے تباہ حال مسلمانوں کی بد حالی کو ختم کرنے کے راستے تلاش کئے۔انگریز جو ہندستان کا غاصب حکمران بن چکا تھااس کی نفرت کے خاتمے کی غرض سے اسبابِ بغاوت ہند لکھ کر اُس پر یہ بات واضح کی کہ مسلمانوں نے انگریزوں کے خلاف طبلِ جنگ کیوں بجایا تھا؟دوسری جانب ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر کی متعصابانہ تحریر Our Indian Muslims میں مسلمانوں پر لگائے گئے بے بنیاد الزامات کا مدلل جواب دے کر ان کے تعصابانہ ذہن کی تلخی کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا،اور بتایا کہ انہوں نے انگریز کے خلاف جنگ کا آغاز کیوں کیا؟اس کے ساتھ ہی انہوں مسلمانوں کے علمی جہل کا خاتمہ اور معاشی بد حالی ختم کرنے کے لئے اپنے آپ کو کمر بستہ کیااور کسی بھی موقعے پر انگریز کی ناراضگی کو قریب نہیں لگنے دیا۔انہوں نے زہر کا توڑ زہر سے ہی کیا۔ایک جانب مسلمانوں کی تعلیمی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے تعلیمی ادارے قائم کئے تودوسری طرف انگریز کو اپنا ہمنوا بنایا۔ مسلمانوں کے معاش کے راستے نکالے تاکہ علم کے حصول کے بعد مسلمان بچے بے روزگاری کے عذاب میں اپنے اجداد کی طرح مبتلا نہ رہیں اور سب سے پہلے ان کی معاشی بد حالی کا خاتمہ کیا جا سکے۔اس کام میں سر سید احمد خان نے کبھی بھی شرم محسوس نہ کی،گو کہ اُن پر بے تحاشہ الزمات بھی لگے۔ مگر یہ بطلِ جلیل ،باہمت شخص اور کردار کا سچا تھا اس لئے کوئی رکاوٹ اس کے راستے کی دیوار نہ بن سکی۔ علم کے میدان میں اس نے مسلمانانِ ہند کو اُن کی منزل پر ہی پہنچا کر دم لیا۔
لائل محمڈنز آف انڈیا میں سر سید لکھتے ہیں:
’’میں نے اپنی گورنمنٹ کی خیرخواہی اور سرکار کی وفاداری پر چست کمر باندھی، ہر حال اور ہر امر میں مسٹر الیگزینڈر شیکسپیئر صاحب بہادر کلکٹر و مجسٹریٹ بجنور کے شریک رہا۔ یہاں تک کہ ہم نے اپنے مکان پر رہنا موقوف کر دیا۔ دن رات صاحب کی کوٹھی پر حاضر رہتا تھا اور رات کو کوٹھی پر پہرہ دینا اور حکام کی اور میم صاحبہ اور بچوں کی حفاظت جان کا خاص اپنے ذمہ اہتمام لیا۔ ہم کو یاد نہیں ہے کہ دن رات میں کسی وقت ہمارے بدن پر سے ہتھیار اترا ہو‘‘ (لائل محمڈنز آف انڈیا حصہ اول مطبوعہ 1860ء، میرٹھ، صفحہ 13، 14)
الغرض سرسیدنے مسلمانوں کی نمائندگی کا حق ادا کیا اور سب سے پہلے انہوں نے مسلمانوں کی معاشرتی بے راہ روی کا راستہ روکنے کی کوشش کی۔ دوسرا اہم ترین فریضہ انہوں نے یہ ادا کیا کہ اپنے ہم مذہبوں اور ہم وطنوں پر اُن کی کمزوریوں کو اپنی تہذیب الاخلاق کی تحریر وں اور تقریروں کے ذریعے واضح کرتے ہوے بتایا کہ:
’’ مسلمان اپنی معاشرتی حالت کو بدلیں اور یہ ذہن نشین کر لیں کہ اس وقت وہ نہایت ہی کمزور ہیں وہ طاقت کے بل پر کچھ بھی نہیں کر سکتے ہیں۔ انہیں اپنے بچوں کی علمی ترقی پر توجہ ہر حال میں دینا ہوگی۔ اگر ایسا نہ ہوا تو مسلمانوں کی اس غلامی کا سورج کبھی غروب نہ ہوگا۔‘‘
ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍسر سید احمد خان کروڑوں کے انبوہ میں اس وقت اکیلے تھے جنہوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کی بد حالی ختم کرنے پراپنے آپ کو کمر بستہ کر لیا تھا۔ان کے ساتھ بقول شاعر ’’لوگ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا‘‘کے مصداق درد مند مسلمانوں کے وہ افراد اکٹھا ہوگئے جو مسلمانان ہند کی بد حالی پر خون کے آنسو روتے تھے۔ یہ وہ دور تھا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنا غاصبانہ طریقے پر حاصل کیا ہوا اقتدر اپنی ملکہ کو منتقل کر کے ہندی مسلمانوں کی مُشکیں مزید کسنے کا پروگرام مرتب کرلیا تھا اور ہندوستان کو برطانیہ کی غلامی کا طوق پہنا دیا تھا۔ کیونکہ وہ مسلمانوں کو اپنا حریف اول تصور کرتے تھے۔
سر سید احمد خان کی سماجی تعلیمی اور سیاسی خدمات کا اگر ہم بغور مطالعہ کریں تو ہمیں ان کی بلندی کا اندازہ آسانی کے ساتھ ہو جائے گا۔ محمڈن ایجوکیشنل کانگریس بنیاد رکھ کر اور ہند کے مسلمانوں کو وقتی طور پر سیاست سے الگ رکھ کر اور اپنے آپ کو انگریزوں کا وفادار ظاہر کر کے سر سید احمد خان نے انگریز کوبھی مسلمانوں کی تعلیمی اور معاشی خدمت کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ اس خدمت کے صلے میں سر سید احمد خان پر انگریز کا غلام ہونے کی تہمت اکثر ایسے مسلمانوں کی طرف سے لگائی جاتی رہی تھی جو مسلمانوں کو بد حالی سے نکالنے کا کوئی باقاعدہ منصوبہ نہ رکھتے تھے۔انہوں نے ہر موقع اور ہر منزل پر ملک و قوم کی فلاح و بہبود کے لئے عملی طور پر کوششیں کیں۔ بلاشبہ سر سید ہندوستان میں ملّت اسلامیہ کے وہ پہلے مسیحا ہیں جنہوں نے مسلمانوں پر مصیبتیں نازل ہونے کے اسباب اور اُن کے سدباب پر غور کیا۔ انہوں نے یہ محسوس کیا کہ قوم کو اب بدلے ہوئے حالات میں نئے طرز اور نصابِ تعلیم کی ضرورت ہے۔ لہذا انہوں نے اس سلسلے میں عملی اقدام کئے۔ انہوں نے رسالے نکالے، تعلیمی سوسائٹیاں قائم کیں، محمڈن اینگلو اورینٹل پبلک اسکول کی بنیاد ڈالی اور سب سے اہم اقدام سائینٹفک سوسائٹی کی شکل میں کیا تاکہ مغربی علوم و فنون کو اردو زبان میں منتقل کیا جا سکے۔ اس طرح سر سید کی ان تھک کوششوں سے ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے احیاء ملی کا سامان فراہم ہوا اور اسلامی دنیا کو بھی فکر و نظر کے نئے زاویے انہوں نے دئے۔
مسلمانان ہند کی تعلیمی پسماندگی کو سنوارنے کے لیے ایک کمیٹی ’’خواستگار ترقی تعلیم مسلمانان ہندوستان‘‘ منعقد کی گئی جس کے سیکرٹری سر سید قرار پائے۔ اس کمیٹی کا کام یہ تھا کہ وہ جہاں تک ہو سکے اس بات کو دریافت کرنے کی کوشش کرے کہ سرکاری کالجوں اور اسکولوں میں مسلمان طالبِ علم کس لئے کم پڑھتے ہیں؟ علومِ قدیمہ ان میں کیوں گھٹ گئے اور علومِ جدیدہ ان میں کیوں نہیں رواج پاتے۔ اور جب یہ موانع ٹھیک ٹھیک دریافت ہو جائیں تو ان کے رفع کرنے کی تدبیریں دریافت کرے اور ان تدبیروں پر عمل درآمد کرنے میں کوشش کرے۔
نواب محسن الملک کا بیان ہے کہ:
’’جس تاریخ کو کمیٹی مذ کور کے انعقاد کے لئے جلسہ قرار پایا تھا اس سے ایک روز پہلے میں بنارس میں پہنچ گیا تھا۔ رات کو سر سید نے میرا پلنگ بھی اپنے ہی کمرے میں بچھوایا تھا۔ گیارہ بجے تک مسلمانوں کی تعلیم کے متعلق باتیں ہوتی رہیں، اس کے بعد میری آنکھ لگ گئی۔ دو بجے کے قریب میری آنکھ کھلی تو میں نے سر سید کو ان کے پلنگ پر نہ پایا۔ میں اُن کے دیکھنے کو کمرے سے باہر نکلا، دیکھتا کیا ہوں کہ برآمدے میں ٹہل رہے ہیں اور زار و قطار روتے جاتے ہیں، میں نے گھبرا کر پُوچھا کہ کیا خدانخواستہ کہیں سے کوئی افسوسناک خبر آئی ہے؟ یہ سن کر اور زیادہ رونے لگے اور کہا کہ:’’اس سے زیادہ اور کیا مُصیبت ہو سکتی ہے کہ مسلمان بگڑ گئے، اور بگڑتے جاتے ہیں، اور کوئی صورت ان کی بھلائی کی نظر نہیں آتی۔‘‘پھر آپ ہی کہنے لگے کہ:’’جو جلسہ کل ہونے والا ہے، مجھے امید نہیں کہ اس سے کوئی عمدہ نتیجہ پیدا ہو۔ ساری رات اُدھیڑ بن میں گزر گئی ہے کہ دیکھیے، کل کے جلسے کا انجام کیا ہوتا ہے اور کسی کے کان پر جوں چلتی ہے یا نہیں۔‘‘
نواب محسن الملک کہتے ہیں کہ سر سید کی یہ حالت دیکھ کر جو کیفیت میرے دل پر گزری اس کو بیان نہیں کر سکتا اور جو عظمت اس شخص کی اس دن سے میرے دل میں بیٹھی ہوئی ہے اس کو میں ہی خوب جانتا ہوں۔‘‘
مسلمانوں کی تعلیمی حالت کو بہتر بنانے کے لیے انہوں نے مختلف مدارس ، اسکول اور کالج قائم کئے اور اس کے لیے انہوں نے اس کے لئے انہوں نے بڑے بڑے لمبے سفر کئے ہزارہا روپیہ ان سفروں میں ان کا صرف ہوا۔ ایک بار اُن کے ایک دوست نے اُن سے کہا کہ آپ راجپُوتانہ کا بھی ایک بار دورہ کیجئے۔‘‘ سر سید نے کہا، ”روپیہ نہیں ہے۔” اُن کے منہ سے نکلا کہ جب آپ کالج کے واسطے سفر کرتے ہیں تو آپ کا سفرِ خرچ کمیٹی کو دینا چاہئے۔‘‘ سر سید نے کہا:
’’میں اس بات کو ہرگز گوارہ نہیں کر سکتا، مدرسہ چلے یا نہ چلے مگر میں اسی حالت میں مدرسہ کے لئے سفر کر سکتا ہوں جب سفر کے کل اخراجات اپنے پاس سے اُٹھا سکوں۔”
قومی حمیت اور قوم کے پیسہ کا صحیح استعمال ان کے رگ وریشہ میں پیوست تھا اس کی ایک بڑی مثال درج ذیل واقعہ سے لگایا جاسکتاہے۔
ایک دفعہ کالج کے بعض یورپین پروفیسروں نے یہ تحریک کی کہ یہاں بھی ولایت کے کالجوں کی طرح فاؤنڈرز ڈے (یعنی بانی مدرسہ کی سالگرہ کا دن) کے طور پر منایا جائے اور ایک خوشی کا دن قرار دیا جائے جس میں ہر سال کالج کے متعلقین اور طلباء جمع ہو کر ایک جگہ کھانا کھایا کریں اور کچھ تماشہ تفریح کے طور پر کیے جائیں۔ سر سید نے اس کو بھی منظور نہیں کیا اور یہ کہا کہ:
”ہمارے ملک کی حالت انگلستان کی حالت سے بالکل جداگانہ ہے۔ وہاں ایک ایک شخص لاکھوں کروڑوں روپیہ اپنے پاس سے دے کر کالج قائم کر دیتا ہے اور یہاں سِوا اس کے کہ ہزاروں لاکھوں آدمیوں سے کہ چندہ جمع کر کے کالج قائم کیا جائے اور کوئی صُورت ممکن نہیں۔ پس کوئی وجہ نہیں کہ جو کالج قوم کے روپیہ سے قائم ہو اُس کے کسی خاص بانی کے نام پر ایسی رسم ادا کی جائے، اس لئے میرے نزدیک بجائے فاؤنڈرز ڈے کے فاؤنڈیشن ڈے (کالج کی سالگرہ کا دن) مقرر ہونا چاہئے۔‘‘
جب علی گڑھ کے تعلیمی ادارے کی تعمیر کے لئے پیسے کی ضرورت پڑی تو قوم کے ہرچھوٹے بڑے فرد سے سر سید احمد خان نے جھولی پھیلا کر بھیک مانگا۔ اس با ریش مسلمان نے باوجود پابندِ صوم و صلوۃ ہونے کے مسلمانوں کے تعلیمی ادارے علی گڑھ اسکول و کالج کی تعمیر وترقی کے لئے فنڈز حاصل کر نے کی غرض سے اسٹیج پر ٹھمکے بھی لگائے۔ کیا آج کا کوئی عالم ایسا کرنے کا سوچ بھی سکتا ہے؟اور عالم بھی وہ جو تفسیر قرِِآن کا بھی حامل ہو!اس کا جواب نفی کے سوائے اور کچھ مل بھی نہیں سکتا ہے۔جس کے نتیجے میں 1875 میں علی گڑھ شہر میں ایک مثالی اسکول قائم کیا اور 1877میں ایک عظیم الشان کالج کی بنیاد وائسرائے ہند لارڈ لٹِن کے ہاتھوں رکھوائی گئی تاکہ ہندوستان کی تباہ حال مسلم ملت کی شیرزہ بندی کی جا سکے اور اس میں انگریز اساتذہ رکھے گئے جس کے تین مقاصد تھے ایک تو انگریز کی مخالفت سے بچنا،
دوسرے مسلمان بچوں کی جدید تعلیمی ضروریات کو پورا کرنا، تیسرے فارغ التحصیل طلبا کو انگریز کے ذریعے بہترین ملازمتیں دلوانا۔ تاکہ ہندوستان کے مسلمانوں کی معاشی پریشانیوں کو کم سے کم کیا جاسکے۔
سر سید احمد خان بلا شبہ ایک نا بغہ روزگار شخصیت تھے۔ ایک ایسی شخصیت جو رنگا رنگ تھی اور منفرد و ممتاز بھی اور نہایت پُروقار بھی۔ بے شک وہ انسانیت کے مسیحا، عالموں کے مداح، بے عدیل صحافی، مصلح قوم و ملّت، صاحبِ طرز ادیب، بلند پایہ مفسر، ماہر تعلیم اور عظیم مفکر تھے۔ ان کے افکار اور نظریات آج بھی ہمارے لئے مشعلِ راہ ہیں کیونکہ انہوں نے ہمیں نئے حالات کا مقابلہ کرنا اور نئے حالات کے ساتھ با عزت سمجھوتا کرنا سکھایا۔ بے شک وہ اپنے جملہ اہلِ وطن خصوصاََ مسلمانوں کو نئے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا چاہتے تھے، اس کے لئے ان سے جو بھی ہو سکا وہ کیا۔ چنانچہ اس سلسلے میں انہوں نے کتابیں بھی لکھیں، رسالے بھی جاری کئے، انجمنیں بھی قائم کیں، تلاش و تحقیق کی نئی راہیں بھی دکھائیں، قوم کو ماضی کا نقشہ دکھا کر اصلاحِ حال پر آمادہ بھی کیا۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ اُن کے افکار و تصوّرات اور تحریک کے سیاسی کردار کو کھلے ذہن کے ساتھ سمجھا جائے اور اس پر عمل بھی کیا جائے۔
کسی اہم قلم نے سرسید کے متعلق لکھا ہے :
’’اگر سر سید صرف قران و حدیث کی طرف توجہ کرتے تو بلند پایہ عالمانِ دین میں شمار ہوتا۔ اگر سیاست پر توجہ کرتے تو اس میدان میں کارواں سالار ہوتے۔ اگر صرف تعلیم پر غور کرتے تو دنیا کے مشہور ماہرِ تعلیم کے صف میں جگہ پاتے۔ اگر شاعری کرتے تو غالب و اقبال کے ہم پلہ ہوتے۔ ہندوستانی مسلمانوں کو پستی سے نکالنے کے لئے اور ہندوستانی مسلمانوں کو ایسے ماہر طبیب کی ضرورت تھی۔ جس کے پاس ہر مرض کا علاج ہو اور ہر درد کا دوا ہو۔’’
سر سید نے 1869 ء میں انگلستان کا سفر کیا اور یہ سفر تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ لندن میں انہوں نے انگریزی نظامِ تعلیم کا بغور مطالعہ کیا اور ان کے دل میں یہ بات گھر کر گئی کہ مسلمان حصول علم کے بغیر ترقی نہیں کر سکتے۔ ہندوستان لوٹ کر انہوں نے علی گڑھ میں جدید طرز کا ایک کالج کھولا۔ یہ سر سید کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ 1838 ء میں سر سید نے پہلی ملازمت کی اور اسی زمانے میں اپنی مشہور کتاب ’’آثار ا لصنا دید’’لکھی۔ جس میں دہلی کے مشہور مقامات اور شعراء وغیرہ کا ذکر کیا گیا۔ اس کتاب کی شہرت اتنی ہو گئی کہ اسکا ترجمہ انگریزی میں ہوا۔ سر سید نے 1857 ء میں اپنا مشہور پمپلٹ pumplet ’’اسباب بغاوت ہند’’تصنیف کیا۔ سر سید نے ایک مشہورو معروف ماہوار رسالہ ’’تہذیب ا لا خلاق’’جاری کیا جس کے مطالعہ سے ہندوستان کے مسلمانوں کے خیالات میں ایک انقلاب عظیم رونما ہوا۔ سر سید محض مسلمانوں کی ترقی و خوشحالی کے لئے فکر مند نہیں تھے بلکہ ان کے دل میں ہندوستانی قوم کے لئے سچا درد تھا چنانچہ انہوں نے بنارس میں ہو میو پیتھک دوا خانہ اور اسپتال قائم کیا تاکہ غریب ہندوستانیوں کی مفت طبی امداد ہو سکے۔
۱۷؍کتوبرکو اس مصلح قوم کا یوم ولادت ہے جس نے مسلمانوں کی اصل کمزوری تعلیمی پسماندگی پر توجہ دی اور اس کو دور کرنے کے لئے اپنی زندگی صرف کردی۔ سرسید احمد خاں علیہ الرحمہ نے جب آنکھ کھولی تو ہندوستان میں مغلیہ حکومت کا چراغ ٹمٹما رہا تھا، انہوں نے صرف مسلمانوں کی حکومت کو ہی نہیں پوری مسلم تہذیب وتمدن کو روبہ زوال دیکھا اور اس حالت پر سنجیدگی سے غور وخوض کرنے کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہونچے کہ اگر قوم نے عصری تعلیم کے میدان میں پیش رفت کرلی تو وہ اس مرحلہ سے سرخرو ہوکر گزر جائے گی ۔
لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ سر سید احمد کا اڑھنا بچھونا مسلمانوں کی تعلیمی معاشی سماجی اور ان کی سیاسی ترقی تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ابوالکلام جیسا بڑا اسکالر سر سید احمد خان کی بڑائی کے حوالے سے یہ کہنے پر مجبور ہوا کہ:
’’اگر اسلام میں بت پرستی جائز ہوتی تو میں سر سید کا بت بنا کر اسکی پوجا کرتا ’’لہٰذا ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ سر سید احمد خان مسلمان قوم کے معمارِ اعظم تھے۔ ایسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔میر تقی میر نے ایسے نابغہ روزگار شخصیت کے لیے بجا کہاہے۔ ؂
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتا ہے
(مضمون نگار مدراس یونیورسٹی میں ریسرچ اسکالرہیں)

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں