ذرائع ابلاغ: تحلیل و تجزیہ، ضرورت و اہمیت

مولانا ڈاکٹر محمد شکیب قاسمی 

کون ہوگا جو ’’ذرائع ابلاغ‘‘ کی اہمیت وافادیت اور اس کی ضرورت سے انکار کرے گا،ہر زمانہ میں اس کی اہمیت وافادیت اور اس کی ضرورت مسلّم رہی ہے؛ کیوں کہ ذرائع ابلاغ ہی ایک ایسی چیز ہے جس کی ترقی نے دوریوں کو سمیٹ کر رکھ دیا ہے۔ علم و خبر کی ترسیل میں آسانیاں پیدا ہوئی ہیں۔ افکار و آرا کی ترویج اور ابلاغ کے لئے دائرۂ عمل وسیع تر ہو گیا ہے۔ صاحبان علم و ہنر کے تعارف اور اثر پذیری میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ اسی ذرائع ابلاغ کو انگریزی میں ’’میڈیا‘‘ کہا جاتا ہے۔ آج کے دور میں یہ میڈیا کی ترقی ہی ہے کہ دوریاں سمٹی ہوئی معلوم ہوتی ہیں، دنیا کے کسی خطہ میں کوئی واقعہ رونما ہوتا نہیں کہ اگلے لمحہ خبر ہم تک پہنچ چکی ہوتی ہے۔
یہ بات بھی ارباب دانش اور اصحاب فکر ونظر خوب جانتے ہیں کہ انسانی معاشرے کی بقاء اور تعمیر وترقی کے لیے اِبلاغ و ترسیل اتنا ہی اہم اور ضروری ہے، جتناکہ غذا اور پناہ گاہ۔انسانی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے، تو ترسیل دو طرفہ سماجی عمل ہے اور اُس دور میں بھی جب منہ سے نکلی ہوئی آواز نے الفاظ اور منقش تحریر کاجامہ زیب تن نہیں کیا تھا اور انسان اشارے کنایے، حرکات و سکنات اور لمس و شعور کی مددسے اپنی ترسیل وابلاغ کی ضروت کی تکمیل کیا کرتاتھا۔ ابلاغ اور ترسیل کے وسائل انسانی معاشرے میں اہمیت کے حامل تھے، اور آج کے برق رفتار عہدمیں تو اس کی اہمیت سے بالکل صرف نظر نہیں کیا جا سکتا ہے۔ عوامی ذرائع ترسیل دنیا کا نقشہ بدل سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوری نظام میں انتظامیہ، عدلیہ اور مقننہ کے ساتھ ساتھ ذرائع ترسیل وابلاغ کو چوتھے ستون کی حیثیت دی گئی ہے۔ ذرائع ابلاغ کی ترقی کے ساتھ انسانی معاشرے کی ترقی مربوط ہے،اگر یہ ذارئع ترسیل نہ ہوتے، تو انسانی معاشرہ تہذیب وثقافت کے شائستہ تصور سے محروم رہتا اورجہالت و ناخواندگی کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں بھٹک رہا ہوتا۔

vڈائریکٹر حجۃ الاسلام اکیڈمی و استاذ دارالعلوم وقف دیوبند
اگر ہم اپنا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم من حیث القوم، ہمہ جہت زوال کا شکار ہیں۔ اقدار و روایات مٹ گئی ہیں۔ مفاد پرستی کا غلبہ ہے۔ سفلی جذبات اور نفسانی محرکات کو انگیخت کرنے والے ایک تحریک کی صورت اختیار کرچکے ہیں۔ جرائم کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ پس ماندہ اور مظلوم طبقات بے چین ہی نہیں بلکہ منفی نفسیات میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ انسانیت موت کے دہانے پر پہونچ چکی ہے، انسانی خون پانی سے بھی زیادہ سستا ہوچکا ہے، خوف وہراس اور دہشت واضطراب کا ماحول بپا ہے۔ نئی نسل، ناراض نسل ہے، وہ شکایت کے لہجے میں بولتی اور شکایت ہی کے انداز میں عمل کرتی ہے۔ انسانیت کی اعلیٰ اقدار کو پس پشت ڈالتے ہوئے دولت، اقتدار اور شہرت نے منتہائے مقصود کا درجہ حاصل کرلیا ہے، عزت ان سے وابستہ ہو گئی ہے۔ علم و ہنر اور بر و تقویٰ باعث شرف نہیں رہے۔ جس کے پاس دولت اور اقتدار ہے، وہ ’’بڑا آدمی‘‘ ہے، خواہ وہ خدا اور معاشرے کا مجرم ہو اور جس کا اثاثہ محض شرافت، دیانت اور وطن پرستی اور انسانیت نوازی ہے، وہ ہیچ اور فرومایہ ہے، خواہ دین داری اور نیک روی میں اس کا کوئی ثانی نہ ہو۔ معاشرہ کی موجودہ شبیہ یہی ہے۔
مذاہب محض تفرقہ بازی کا ذریعہ بن کر رہ گئے ہیں۔ جس کے علم برداروں کو امن و آشتی اور محبت و الفت کا پیامبر ہونا چاہیے تھا، ان کی زبانوں پر دشنام طرازیاں اور ان کے ہاتھوں میں آتشیں اسلحہ ہے۔ عفو و درگزر اور رواداری تو ایک طرف، وہ اپنے مخالف کو زندگی کا حق دینے کے لیے بھی تیار نہیں۔
ذرائع ابلاغ اور نظریۂ اسلام
اسلام چوں کہ رہتی دنیا تک لیے ایک جامع کامل واکمل دین اور دستور حیات بن کر آیا ہے؛ اس لیے اس میں میڈیا کے حوالے سے بھی ضابطہ وقانون موجود ہے،اسلام میں میڈیا کی کتنی اہمیت ہے اور ان ذرائع ابلاغ کو انسانی زندگی میں کتنا بڑا اور اہم مقام حاصل ہے، اس کا اندازہ کرنے کے لیے ہمیں ان آیات وروایات کا مطالعہ اور ان کے مفاہیم میں غور کرنا چاہیے، جن سے اسلام کے داعیانہ پہلو پر روشنی پڑتی ہے: ’’اُدْعُ الیٰ سَبِیْلِ رَبِّکَ۔ترجمہ :اپنے رب کی راہ کی طرف بلائیں(۱)۔ وَلْتَکُنْ مِنْکُمْ اُمَّۃٌ یَدْعُوْنَ الیٰ الْخَیْرِترجمہ : تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہئے جو بھلائی کی طرف بلائے(۲)۔ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ۔ترجمہ: تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہے، تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور برائی سے روکتے ہو(۳)۔

(۱)نحل:۱۲۵ (۲)آل عمران، ۴۰۱ (۳)آل عمران، ۱۱۰
وَذَکِّرْ فَان الذِّکْریٰ تَنْفَعُ المُؤمِنِیْنَ ترجمہ: اور نصیحت کرتے رہیں یقیناًیہ نصیحت ایمان والوں کو نفع دے گی(۱)۔ بَلِّغُوْ عَنّی وَلَوْ آیۃً۔(۲)اور نَضَّرَ اللّٰہُ امْرَءً ا سَمِعَ مَقَالَتِيْ‘‘الخ(۳) وغیرہ میں اسلام کے جس آفاقی پیغام کے ابلاغ وترسیل کا امت مسلمہ کو حکم دیا گیا ہے، کیا اس کی وسیع اور عالمی پیمانے پردعوت اور اشاعت، سائنس وٹکنالوجی کے اس دور میں ذرائع ابلاغ کے سہارے کے بغیر ممکن ہے؟
اسلامی نظریۂ ابلاغ کسی انسانی فکر کا اختراع یا محض عقلی بنیادوں پر انسانوں کا تیار کردہ نہیں ہے؛ بلکہ وہ قرآ ن وحدیث سے ماخوذ و مستنبط ہے۔ انسان کی فطری آزادی سے لے کر ذرائعِ ابلاغ کی آزادی تک کا سارا نظام عمل ان ہی اسلامی احکامات و ہدایات پر مبنی ہے۔اسلامی نظریۂ ابلاغ میں جہاں ذرائع ابلاغ کو اظہار رائے کی آزادی دی گئی ہے، وہاں اس کو بہت سی اخلاقی شرائط اورسماجی و معاشرتی قوانین کا پابند بھی بنایا گیا ہے تا کہ دیگراسلامی نظریات کی طرح یہاں بھی توازن و اعتدال برقرار رہے۔اسلامی نظریۂ ابلاغ میں نہ مقتدرانہ نظریۂ ابلاغ کی طرح انسانوں کی آزادی کو مکمل طور پر سلب کیا گیا ہے اور نہ ہی آزاد پسندانہ نظریۂ ابلاغ کی طرح ایسی آزادی دی گئی ہے کہ فرد کی آزادی کے پردے میں دوسرے انسانوں کی آزادی پر انگشت نمائی کی جائے اور ان کی پرائیویٹ اور نجی زندگی (Personal Life) میں بھی مداخلت کی جائے۔ اگر اظہار رائے کی آزادی کی آڑ میں ذرائع ابلاغ کے اس سر کش گھوڑے کو بے لگام چھوڑ دیا جائے، تو یہ ایمانیات کے ساتھ انسانوں کی اخلاقیات کو بھی پیروں تلے روند کر رکھ سکتا ہے۔
اسلام میں اظہار رائے کی آزادی محض ایک انسانی حق ہی نہیں؛ بلکہ یہ امتِ مسلمہ اور ذرائعِ ابلاغ کا ایک دینی اور اخلاقی فریضہ بھی ہے؛ اس لیے نہ کوئی فرد، نہ کوئی حکومت اور نہ ہی کوئی ادارہ انسانوں سے ان کی فطری آزادی کو سلب کرسکتا ہے، اور نہ اس کو چیلنج کرسکتا ہے؛ البتہ اتنی شرط ضرور عائد کی جائے گی کہ کوئی بھی ذریعۂ ابلاغ ایسی خبر یا بات کی تشہیر نہ کرے، جس سے مفادِ عامہ کو زد پہنچے، جو انسانی اقدار کے منافی ہو، اور جس میں انسانیت اور انسانی سماج کی تعمیرکے بجائے تخریب کے عوامل پنہاں ہوں۔ اسلام میں ذرائع ابلاغ کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اس کے ذریعے عوام الناس تک سچی اور صحیح خبر پہنچائی جائے۔ ذرائع ابلاغ سچ کے اظہار میں کسی لالچ یا مداہنت کا شکار نہ ہوں۔ ذرائعِ ابلاغ صرف ایسی معلومات کی اشاعت کرے، جن سے سامعین اور قارئین کے اندر نیکی اور تقویٰ کا عنصر پیدا ہو۔ وہ کسی ایسی خبر کی اشاعت سے باز رہیں جس کا مقصد دوسروں کی دل آزاری یا دوسرے ادیان و ملل کی تحقیر ہو۔ مذہب اسلام کسی ایسے ہی میڈیا کا خواہاں بھی ہے اور اسی کی مدح سرائی بھی کرتا ہے۔

(۱)ذٰریٰت، ۵۵ (۲)کنزالعمال، حدیث۲۹۱۷۵ (۳)سنن ترمذی ۲۶۵۸
آزادئ فکر ونظراور آزادی رائے(Freedom Of Expressions)
اسلام نے فکر و نظر کی آزادی کے ساتھ ہمیشہ آزادئ رائے (Freedom Of Expressions) کا احترام کیا ہے اور ہر کس و ناکس کو اپنی بات رکھنے کا فطری حق دیا ہے۔ عہدِ نبوی اور خلفائے راشدین کے عہد سے لے کر، عہدِ بنی امیہ اور بنی عباسیہ تک کی پوری اسلامی تاریخ اس قسم کے واقعات سے لبریز ہے، جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے کس درجہ شدت کے ساتھ حریتِ رائے کے تصور کی پرورش کی ہے اور اس کو انسانی معاشرے کا لازمی جز بنانے کی سعی کی ہے۔اسلام نے صرف آزاد مردو خواتین ہی نہیں؛ بلکہ معاشرہ کے کمزور ترین طبقے کو بھی اس حق سے محروم نہیں رکھا ہے۔ غزوۂ احد کا وہ واقعہ جب جلیل القدر صحابۂ کرامؓ کی یہ رائے تھی کہ کفارِ مکہ سے جنگ کے لیے مدینے سے باہرنکلنا مناسب نہیں ہے اور یہیں رہ کر جنگ کی جائے؛ لیکن معقول اسباب کی بنیاد پرچند نوجوان صحابہؓ کی یہ رائے تھی کہ جنگ کے لیے مدینے کی آبادی سے باہر نکلنا زیادہ مناسب ہے۔اسی طرح غزوۂ خندق کے موقع پر مدینے سے باہر خندق کھودنے کا فیصلہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذاتی عمل نہیں تھا، بلکہ صحابۂ کرامؓ اور حضرت سلمان فارسیؓ کے باہمی مشورے سے خندق کھودی گئی تھی۔ حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ جنگی قیدیوں کے قتل اور انھیں فدیہ لے کر چھوڑ دینے کے بارے میں مختلف الرائے تھے۔اسلام میں فکر و نظر کی آزادی کی ہی دین ہے کہ ایک عام آدمی بھی اپنے خلیفہ کا دست و بازو پکڑ سکتا ہے۔اور جب ایک قبطی نے حضرت عمرو بن عاصؓ اور ان کے بیٹے کی شکایت دربارِ عمری میں پیش کی، تو حضرت عمرؓ نے نہ صرف اس غلام کو فوری انصاف دلایا؛ بلکہ ان کی سخت تنبیہ بھی فرمائی اور اس وقت کے حضرت عمرؓ کے ارشادت پر مبنی یہ مفہوم تو ہر کسی کے ذہن میں ہوگا کہ:’’ماں کے پیٹ سے آزاد پیدا ہونے والے بچے کو کسی کو غلام بنانے کا حق نہیں‘‘حضرت عمرؓ کے الفاظ تھے: ’’مَتیٰ اسْتَعْبَدْتُمْ النَّاسَ وَقَدْ وَلَدَتْہُمْ أمَّہَاتُہُمْ أحَرَارًا‘‘(۱) اسی قسم کا واقعہ خلیفۂ رابع حضرت علیؓ سے بھی منقول ہے۔ انھوں نے فرمایا تھا: ’’أیُّہَا النَّاسُ أنَّ آدمَ لَمْ یَلِدْ عَبْدًا وَلاَ أمَۃً وَ أنَّ النَّاسَ کُلُّہُمْ أحْرَارًا‘‘، ’’لوگو!آدم کی کوکھ سے غلام یا باندی نے جنم نہیں لیا، سبھی لوگ آزاد ہیں‘‘۔ (۲)
با اثر افراد کے خلاف اظہارِ رائے کی آزادی
موجودہ دور میں جتنے بھی ذرائع ابلاغ ہیں، ان سب پر چند با اثر افراد یا سیاست دانوں کا کنٹرول ہے۔ آج کل کے اخبارات کارپوریٹ گھرانے (Corporate Houses) نکالتے ہیں، نیوز چینلز
(News Channels) پر بھی ان ہی کا مالکانہ کنٹرول ہے۔ جو کسی نہ کسی سیاسی پارٹی سے سمجھوتہ کرکے

(۱) موسوعۃ الدفاع عن رسول اللہ B جزء۷، ص۱۸۶ (۲)نہج السعادۃ، ج:۱
ان کی تشہیر اور حمایت میں فضا سازگار کرنے کے لیے کام کرتے ہیں۔ مشہور صحافی سنتوش بھارتی کی مانیں، تو ’’آج کا میڈیا بکا ہوا ہے۔ اس نے اپنی بولی لگادی ہے‘‘(۱)آج کا میڈیا صرف اسی خبر کی ترسیل وتشہیر کرتا ہے، جس سے اس کے مخالف کی شبیہ شکنی(Image Ruining) اوراس کے موافق کی شبیہ سازی (Image Building) ہوتی ہو۔ موجودہ عہد کے صحافی اور رپورٹر ان مشتبہ خبروں کو منظرِ عام پر لانے سے گھبراتے ہیں، جو با اثر افراد سے تعلق رکھتی ہیں، مشہور صحافی ہرتوش سنگھ بل جو کہ دی کاروان کہ پولیٹیکل ایڈیٹر(Political Editor, The Caravan) ہیں کہتے ہیں:
’’میں نے اپنے بیس سال کے کیریئر (Carrier)میں وہ حالات نہیں دیکھے جو آج میں دیکھ رہا ہوں، جو دباؤ ہمارے اوپر ڈالا جا رہا ہے سیاسی سطح کا ہو یا کارپوریٹ گھرانوں کی جانب سے وہ انتہائی خطرناک ہے، اور در حقیقت یہ ایک دوسرے سے مربوط ہے، آج کل میڈیاکے مالکانہ حقوق ((Media Ownershipپر کوئی روک نہیں ہے، اس کے بڑے بڑے مالکوں کوصحیح اور مصدق خبروں کی اشاعت اور ان کی ترسیل سے کہیں زیادہ دلچسپی میڈیا سے تاجرانہ منافع حاصل کرنے سے ہے اور جیسا کہ ہم سبھی اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں اس ملک میں حکومت کے بغیر کوئی بڑا کاروبار نہیں پنپ سکتا، اس لئے حکومت کی مداخلت بھی ایک بدیہی امر ہے اور یہ بالواسطہ مداخلت(Indirect Interferance) انتہائی خطرناک ہے، براہ راست سیاسی قوت اتنی اثر انداز نہیں ہوسکتی جتنی یہ کارپوریٹ گھرانوں کے ذریعہ مداخلت ہو رہی ہے‘‘(۲)۔
ان ہی اسباب کی وجہ سے جو سب سے بڑا مسئلہ ہمارے سامنے ہے وہ یہی ہے کہ آج ہر بڑے میڈیا ہاوز (Media House)میں جو ایڈیٹر ہیں یعنی وہ شخص جو نیوز روم (News Room) کو کنٹرول کرتا ہے وہ صحافی نہیں بلکہ وہ کارپوریٹ (Corporate) کی دنیا کا نمائندہ ہے، اس وجہ سے اس نظام کو میڈیا سوچنا ہی غلط ہے، یہ درحقیقت کارپوریٹ ہاوزیز(Corporate Houses) کی زبان ہے، اسی کے مفادات کو آگے بڑھاتے ہیں، انہی کو تحفظ فراہم کرتے ہیں تبھی آپ دیکھیں گے حال کے گزشتہ دس پندرہ سالوں میں جتنی بھی بڑی خبریں یا انکشافات سامنے آئے ہیں وہ چھوٹے میڈیا کے ذریعہ ہی وجود میں آئے ہیں، صورت حال یہ ہے کہ بڑے میڈیا ہاوزیز چھوٹی اسٹوری اور چھوٹے میڈیا ہاوزیز بڑی اسٹوری پیش کرتے ہیں، وجہ صاف ہے کہ ان پر کارپوریٹ کا دباؤ نہیں ہے، یہ اس سے آزاد ہیں، آزادانہ کام کرتے ہیں، اس لئے ہمیں ان چھوٹے میڈیا ہاوزیز کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ کارپوریٹ مفادات کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے اور میڈیا پر مالکانہ حقوق پر قوانین کی ضرورت ہے۔ یہ آج کے میڈیا کی تصویر حال ہے، جب کہ اسلامی نقطۂ نظر اس سے یکسر مختلف ہے وہ یہ ہے کہ ان خبروں کی

(1) Santosh bhartiya, National Media Conclave 2017, https://www.youtube.com/watch?v=H2v0RTp8668
(2) /Hartosh singh Bal, https://thewire.in/183807/media-bol-episode-17-corporate-bullying-indian-media
اشاعت’’جس سے مفادِ عامہ و ابستہ ہو، اور اس سے کسی پر ذاتی تنقید اور کیچڑ اچھالنا مقصود نہ ہو‘‘ کو کسی ملامت اور خوف کی پرواہ کیے بغیر مشتہر کیا جائے۔ وہ اس خبر کی اشاعت میں اس شخص، ادارے، تنظیم، حکومت کے اثرو رسوخ، جنگی ساز و سامان اور طاقت و قوت کو خاطر میں نہ لائے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’ألاَ لاَ یَمْنَعَنَّ رَجُلاً ھَیْبَۃُ النَّاسِ أنْ یَقُوْلَ بِحَقٍ اذَا عَلِمَہ‘‘(۱)’’خبر دار!جو تم کسی شخص کے اثر و رسوخ کی وجہ سے حق کے اظہار میں تردد سے کام لو۔
سیکولر میڈیا ہاؤس کے قیام کی اشد ضرورت
جب حالات اس حد تک نازک اور حساس ہو چکے ہیں کہ منفی افکار ونظریات انسانی معاشرہ میں مہلک عناصر کی طرح سرایت کر چکے ہیں۔ ایسے میں سیکولر ذہنیت کے حامل افراد پر لازم ہے کہ غفلت کی چادر اتار کر میدان عمل میں آئیں، اپنی حصہ داری دکھائیں اور معاشرہ کو تباہ ہونے سے بچائیں۔ اگر ایسا نہ کیا گیا، تو یاد رکھیں ہم اپنے آپ کو ہی کبھی معاف نہیں کرپائیں گے، اور اپنی تباہی اور بربادی پر منھ چھپانے اور کف افسوس ملنے کے سوا کوئی چارۂ کار نہ ہوگا؛ اس لیے وقت رہتے ہی آنکھیں کھولی جائیں اور سیکولر میڈیا ہاؤز کے قیام پر غور وخوض کیا جائے۔اس سلسلہ میں سنجیدہ مسلمانوں کو آگے آنا ہوگا اور اپنے ساتھ اکثریتی طبقہ سے سلیم الفکربرادران وطن کو ساتھ لیکر ایک سنجیدہ کوشش کی ضرورت ہے، اس بات کو آج ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کو اپنے مسائل کے لیے ہر محاذ پر ایسے اداروں اور افرادکی ضرورت ہے،جس کا ظاہر (Front) سیکولرہو،جس کے افراد انسانی محبت سے سرشار اور مذہبی ہم آہنگی کے روادار ہوں ،اس کے ضمن میں نہ صرف ہمارے مسائل پر ہی گفتگو ہو بلکہ معاشرہ کے ہر مظلوم اور پچھڑے طبقہ کی آواز بنے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں برادرانِ وطن میں سے بھی راست فکر اور مثبت سوچ کے حامل افراد کا انتخاب کرکے ان کواپنے ساتھ لینا ہوگا اورہرمسئلہ کومذہبی رنگ دینے سے پرہیزکرناہوگا۔
ایسا میڈیا ہاؤز قائم کیا جانا زیادہ ضروری ہے، جس میں ہر طبقہ کی نمائندگی ہو، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اگرہم اپنے مسائل کومذہبی رنگ میں پیش کرتے ہیں، تو اس سے ایک بڑاطبقہ جو آپ کے ساتھ آسکتاتھا، اس کو آپ نے مشترک اسٹیج (Common Stage) نہ فراہم کرنے کی وجہ سے اپنے سے
پہلے ہی مرحلہ پردور کردیا ہے، جب کہ وہ آپ کی مدد کے لیے بھی تیار ہے، بس بینر (Banner) ایسا ہونا چاہیے، جومشترکہ ہو،جس پران کے لیے بھی آناآسان ہو، اس ضمن میں ہمارے مسائل خود بخود عوام کے مسائل بن کر ایک مضبوط آواز کے ساتھ ملک گیر پیمانے پر لوگوں کے سامنے آئیں گے، جس سے رائے عامہ کی ہمواری

(۱)سنن ترمذی، حدیث نمبر۲۱۹۵
میںآسانی ہوگی،یعنی کہ ا س کاظاہرایساہوگا،جس سے ہرانسانیت نواز شخص بلاتفریق مذہب و ملت جڑ سکتاہے۔
ہندوستان میں سیکولر ذہنیت کا فروغ ایک اہم ضرورت
ایسے میں سیکولر ذہنیت کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ موجودہ احوال میں ہرکامن اسٹیج پرہماری نمائندگی ہو، جو بھی مسئلہ عوامی سطح کا ہو، ہمیں وہاں دکھنا ہوگا۔ صرف اپنے مسائل کے لیے نہیں؛ بلکہ ہم معاشرہ کے ہرپچھڑے طبقے کی آواز کے ساتھ ہیں ان کے ساتھ قدم بقدم ہیں اس تأثر کو عام کیا جائے، یہ ایک اچھی شروعات ہوسکتی ہے، بڑی تبدیلی دیکھنے کومل سکتی ہے۔،انشاء اللہ!
جب ہم برادارن وطن کے مسائل میں دلچسپی لیں گے تو وہ لوگ بھی ہماری طرف متوجہ ہوں گے، یہ ایک فطری جذبہ ہے، اور اس جذبہ کاعملی نمونہ ’’آؤ ہم تم ساتھ چلیں، ہمارے ساتھ تم چلو، تمہارے ساتھ ہم چلیں‘‘ ہونا چاہیے؛ ورنہ صورت حال اس سے کچھ الگ نہ ہوگی، جیسا کہ پیسٹر مارٹن (Pastor Martin)نے جنگ عظیم دوم کے لیے کہاتھا:
First they came for the Communist
And I did not speak out
Because I was not a Communist
Then they came for the Socialists
And I did not speak out
Because I was not a Socialist
Then they came for the trade unionists
And I did not speak out
Because I was not a trade unionist
Then they came for the Jews
And I did not speak out
Because I was not a Jew
Then they came for me
And there was no one left
To speak out for me (1)
ترجمہ : پہلے وہ کمیونسٹ کے لیے آئے،میں چپ رہا؛اس لیے کہ میں کمیونسٹ نہیں تھا۔
پھروہ سوشلسٹ کے لیے آئے،میں چپ رہا،اس لئے کہ میراتعلق سوشلسٹ سے نہیں تھا۔
اس کے بعدوہ ٹریڈیونینسٹ کے لیے آئے،میں خاموش رہا؛اس لیے کہ میں ٹریڈیونینسٹ بھی نہ تھا۔

(1) https://en.wikipedia.org/wiki/First_they_came_…
پھروہ یہودیوں کے لیے آئے، میں تب بھی خاموش رہا؛ کیوں کہ میں تویہودی بھی نہ تھا۔
پھروہ میرے لیے آئے، اوراب وہاں میرے حق میں بولنے والاکوئی نہ بچاتھا۔
ہندوستان کے موجودہ احوال میں سیکولرزم کے ساتھ کسی آواز میں کتنی مضبوطی آسکتی ہے،اس کی واضح مثال ابھی حال ہی میں#Not in My name نامی تحریک میں دیکھنے کو ملی کہ وزیراعظم کوبھی اپنی تین سالہ خاموشی توڑنی پڑی،اس سے کچھ نہیں توکم سے کم آوازکی اہمیت کا تو اندازہ لگایا ہی جا سکتا ہے، اس سے پہلے وہ اس بیان کی بھی ضرورت محسوس نہیں کررہے تھے،جس کو اس ملک گیر تحریک کودبانے اور اس کو روکنے کے لئے ان کو دیناپڑا۔ اس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ وہ آوازایک مشترکہ پلیٹ فارم(Platform)سے اٹھی ہوئی آوازتھی۔
ابھی حال ہی میں این ڈی ٹی وی (NDTV News) کے متعلق خبر نشر ہوئی جس کے بعد ملک کے سنجیدہ طبقہ میں ایک عجیب وغریب قسم کی بے چینی واضطراب کی کیفیت پیدا ہوئی کہ ملک میں کسی درجہ جو میڈیا ہاوز بغیر کسی دباؤ کیساتھ کام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور کسی خاص فکر اور نظریہ کی ترجمانی سے آزاد ہوکر کام کر رہے ہیں ان کے لئے راہیں تنگ ہوتی چلی جا رہی ہیں، جس کے بعد اس ضرورت کو شدت کے ساتھ محسوس کیا گیا کہ ہمارے پاس اس ملک میں ’’جو اس دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا علمبردار ہے، جہاں سیکولرزم کی حکمرانی ہوتی ہے، یعنی یہاں کی حکومت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور نہ حکومت کسی خاص مذہب کا نمائندہ ہوتی ہے‘‘ اس قسم کے متعدد میڈایا ہاوزیز (Media Houses) کی ضرورت ہے، ان سیکولر آوازوں کی ہمیں ضرورت ہے جس کے ناظرین (viewers) کسی ایک خاص طبقہ سے متعلق نہ ہوں؛ بلکہ معاشرہ کا ہر سلجھا ہوا شخص اس کا دلدادہ ہو، وہ ایک ملک گیر پیمانہ پر کام ہو، تبھی جاکر مسائل کے اصل حل تک ہم لوگ پہنچ سکتے ہیں اور یہ جب ہی ممکن ہے کہ پلیٹ فارم (platform) مشترک ہو؛ ورنہ جو حال آج مسلم سیاسی پارٹیوں کا ہے ان کا حال بھی اس سے کچھ الگ نہ ہوگا۔
تقسیم کار کی اہمیت وضرورت
یہ بات بھی مخفی اور پوشیدہ نہیں ہے کہ جس طرح کسی ایک ہی فرد سے ہر کام کی توقع نہیں کی جاسکتی اور نہ ہی کوئی ایک ہی فرد ہر کام کو انجام دے سکتا ہے، اسی طرح ہر ہر ضرورت کی تکمیل کے لیے صرف کسی ایک سے امید لگانا ایک غیر معقول بات ہوگی؛ بلکہ اس کے لیے تقسیم کار بیحد ضروری ہے۔ ہمیں کچھ ایسے اداروں کی ضرورت ہے، جو ہمیں راء مٹیریل(Raw Material) مہیا کریں گے، یعنی ایسے راست فکرفضلاء جو ان اسالیب سے واقف ہوں اورجن کے اندریہ لیاقت اور صلاحیت ہو کہ مثبت انداز فکر کے ساتھ اسلام کی صحیح تصویر پیش کرسکیں اوراسلام کے انسانیت نوازی کے پیغام کوعام کریں، کیوں کہ ہر میدان میں اپنی بات پیش کرنے کا انداز اور اسلوب جداگانہ ہوتا ہے، ہر اسٹیج کے اصول وضوابط مختلف ہوا کرتے ہیں، ہر جگہ کا ایک ہی لب ولہجہ اور اندازِ تکلم نہیں ہوا کرتا؛ لیکن اس کے باوجود عام طور پر دیکھا یہ گیا ہے کہ اگر ہمارے طبقہ سے کسی کو میڈیا کے سامنیکبھی اپنی بات رکھنے کا موقع ملتا بھی ہو، تووہ ان اسالیب سے ناواقفیت اور مشق نہ ہونے کے سبب جس انداز سے نمائندگی کی ان حضرات سے توقع کی جاتی ہے وہ اس کو انجام نہیں دے پاتے، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جس مسئلہ کی وضاحت درکار تھی،اس میں مزیدغلط فہمی اورکامپلیکیشن (Complication) پیدا ہوجاتی ہے،اورکسی نہ کسی درجہ میں شبیہ اثر انداز ہوتی ہے۔
اس کی بنیادی وجہ میری نظر میں صرف اورصرف ممارست اور مشق کا نہ ہونا ہے، یہی حضرات جب مائک پرآتے ہیں اور اسٹیجوں کی زینت بنتے ہیں توخوب اچھے انداز میں نمائندگی کر سکتے ہیں اور کرتے ہیں، الحمدللہ!
اسی کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے اداروں کی بھی ہمیں ضرورت ہے، جو اس کو استعمال میں لاسکیں، اور صحیح سمت میں ان کے لیے اسٹیج فراہم (Provide)کریں،یہ ادارے ان کی قدر شناسی کریں۔ ان کی مہارت اور صلاحیت واستعداد سے معاشرے کو روشناس کرائیں، ان کے کام او رتخلیقات کو موثر طریقے سے معاشرے تک پہنچانے کا ذریعہ بنیں۔ اس سے نہ صرف یہ کہ ان لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے؛ بلکہ نئی نسل میں ان ہی کاموں میں آگے بڑھنے کا عزم پیدا ہوتا ہے اور یہ دونوں پہلو انتہائی اہم ہیں۔ ناقدری کے باعث پہلا طبقہ سکڑتا جا رہا ہے اور نئی نسل صحیح معنی میں تعمیری کام میں اپنا حصہ ڈالنے سے گریزاں ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا یہ مشترکہ کوششیں ہیں، کسی پر تنقید کرنا مسئلہ کا حل بالکل نہیں۔ اب ضرورت ہے، توایک منظم کوشش کی اوراس کے لیے باقاعدہ لائحۂ عمل کی۔
ارباب مدارس اور اہل ثروت کی ذمہ داری
دور حاضر میں ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی کے باعث ہونے والی معاشرتی تبدیلیوں نے میڈیا کی اہمیت کو مزید اجاگر کرنے میں اہم ترین کردار ادا کیا ہے۔ معاشرے کے ہر طبقے کے لیے ضروری ہو چکا ہے کہ وہ اپنے پیغام اور نظریات سے آگاہی اور ان کے فروغ کے لیے ذرائع ابلاغ کو زیادہ سے زیادہ استعمال میں لائے۔ یہ حقیقت ہے کہ آج کے دور میں صرف وہی اقوام اور نظریات عالمی منظر نامے پر حاوی نظر آتی ہیں جو میڈیا کے میدان میں بھرپور صلاحیتوں کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔ میڈیا میں کم سرگرمی کا مظاہرہ کرنے والے دینی، سیاسی، سماجی غرض ہر قسم کے طبقات کی مقبولیت میں کمی آئی۔ میڈیا بھی ایک ٹیکنالوجی کی مانند ہے کہ جسے استعمال کرنے سے پہلے اس کی بنیادی باتوں کا علم ہونا ضروری ہے۔میڈیا کے بہتر استعمال کے لیے ماہرین سے رائے طلب کی جائے کہ جو عام لوگوں کو میڈیا کا بہتر طریقے سے استعمال سیکھائیں۔ مثالوں اور حقائق کے ذریعے پروپیگنڈے سے بچنے کا ہنر عام کیا جائے۔ اسی طرح مدارس کے اساتذہ کے لیے ورکشاپ (workshop)اور سیمینار (seminar)کا اہتمام کیا جانا چاہیے کہ جہاں انہیں ذرائع ابلاغ کے چیلنج سے آگاہ کیا جائے۔ جی ہاں ہمیں اپنا معاشرہ بچانے کے لیے یہ سب کرنا ہوگا!
ہمیں چاہیے کہ اس ٹیکنالوجی کو دعوت دین کے لیے استعمال کرنے کی تدبیر کریں۔ اگر مدارس کے طلبہ اور دینی شعور رکھنے والے افراد پروفیشنل(Professional)طریقے سے میڈیا کو دینی تبلیغ کرنے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیں، تو یقیناًفحاشی و عریانی اور کفر و الحاد کی یلغار کو کسی حد تک روکا جاسکتا ہے اور اگر ہماری ہمت جواب نہ دے تو معاشرتی تباہی پھیلاتے اس میڈیا کو اسلامی ثقافت و روایات کا امین بھی بنایا جا سکتا ہے۔ ہمیں اپنی نوجوان نسل کو بتانا ہوگا کہ کیسے تفریح اور غیر جانبداری کی آڑ میں گمراہی پھیلائی جاتی ہے۔ ان غیر ملکی چینلوں(Channels) کے اصل کردار اور مقاصد سے آگاہ کرنا ہو گا کہ جو مخصوص ایجنڈے کی تکمیل میں مصروف ہیں اور ہمارے معاشرے پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔
’’مغربی دنیا میں ذرائع ابلاغ کے تمام قابل ذکر اور بڑے اداروں پر یہود ی مالکان یا تو قابض ہیں یا پھر اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے ان کی پالیسی پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی میڈیا ہی یہودی مذہب اور عیسائی مذہب کی جدید تشریحات کا ترجمان نظر آتا ہے۔سیکولرزم کے سب سے بڑے دعویدار امریکہ میں میڈیا کو کس حد تک مذہبی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے سابق امریکی صدر جانس کی تقریر نویس خاتون صحافی گریس ہالسلز کی نئی صلیبی جنگ سے متعلق کتاب Forcing God’s Hand سے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں۔ یہ کتاب ۲۰۰۱ء میں لکھی گئی۔ کتاب میں اس موضوع پر گفتگو کی گئی ہے کہ کس طرح امریکہ کی اندرونی اور خارجہ پالیسیاں عیسائی بنیاد پرستوں کے زیر اثر بنتی ہیں۔ یہ طبقہ میڈیا کے میدان میں بھی بھرپور اثر و رسوخ رکھتا ہے۔ کتاب کے اقتباسات مندرجہ ذیل ہیں۔
رائل اولس شیگن کے جیک وین امپی ہر ہفتے اپنی تقریر نشر کرتے ہیں اور نوے سے زیادہ چینل پر خطاب کرتے ہیں۔ ان میں ٹرینی براڈ کاسٹنگ مذہبی نیٹ ورک، امریکہ کے ۴۳ ریڈیوا سٹیشن اور ٹرانس ورلڈ ریڈیو، جو دنیا بھر میں سنا جاتا ہے، شامل ہے
چارلس ٹیلر جن کا تعلق ننگٹن بیچ (کیلیفورنیا) سے ہے۔ اپنے نشرئیے میں ’’بائبل کی پیشن گوئی آج کے لئے‘‘ نامی پروگرام کرتے ہیں جو کہ سیٹلائیٹ کے ذریعے بیس سے زیادہ نشرگاہوں سے دنیا بھر میں دیکھا جاتا ہے۔
چک اسمتھ کا ریڈیو پروگرام سینکڑوں نشرگاہوں سے سنا جاتا ہے اور کالوری سیٹلائیٹ نیٹ ورک سے بھی نشر ہوتا ہے۔
پال کراو چ کا ٹرینٹی براڈ کاسٹنگ نیٹ ورک ہے جو یوم قیامت کے بارے میں پیش گوئیاں نشر کرتا ہے۔ یہ پورے امریکہ میں دیکھا جاتا ہے‘‘۔
کس کس طرح پوشیدہ پیغام معاشروں کے بدلنے میں کردار ادا کرتے ہیں۔ ابلاغ عامہ کے مختلف نظریات اور اس شعبے میں ہونے والی تحقیق آسان الفاظ میں سب کو بتانے کی ضرورت ہے۔ یہ سب اس لیے ضروری ہے کہ ہمارے لوگ صرف معصوم صارف ہی بن کر نہ رہ جائیں اوریہ بھی کہ غیر لوگ ان کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال نہ کر سکیں۔ میڈیا کے مندرجات کو سمجھنے والے ہی مخالف پروپیگنڈے سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ اور اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ مخالف ذہنوں سے مقابلے کے لیے ہمارے ہر اول دستے یعنی مدارس دینیہ کے طلبہ کو یہ ہنر سیکھنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ہمیں اپنے معاشرے کو اتحاد و یکجہتی کے رشتے میں پرونے او ر اسلامی روایات کے فروغ دینے کے لیے میڈیا کی مدد چاہیے۔ ٹیکنالوجی کے اس ترقی یافتہ دور میں ہمیں اب مسلم الفکر میڈیا ہاؤس کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ چھوٹے پیمانے پر ہونے والی یہ صحافت ہی وہ اصل طاقت ہے کہ جو معاشرتی تبدیلی لاسکتی ہے۔
جب ہم میڈیا ہاؤس کے قیام کی ضرورت کی بات کرتے ہیں تو فطری طور پر افراد سازی کے عمل کی بھی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے، چونکہ ہر میدان میں بات کہنے کے انداز جداگانہ ہوا کرتے ہیں، تو اس جداگانہ اور منفرد وممتاز لب ولہجہ اور اسلوب کو سیکھنے کی بھی ضرورت ہے، اور اسی کو ’’فن صحافت‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔اس نوعیت سے’’صحافت‘‘ موجودہ وقت کا مطالبہ بھی ہے اور ضرورت بھی؛ کیوں کہ صحافت ہی وہ فن ہے، جس کے ذریعہ کسی بھی نظریہ کی ترویج واشاعت بہ سہولت ہوسکتی ہے، اور صحافت کے وسیلہ سے اپنی بات بہت دور تک پہونچائی جا سکتی ہے نیز اس لیے بھی کہ ایک بہترین قلم کار حالات کی جو منظر کشی اورسچائی کا جو آئینہ دکھا سکتا ہے، وہ شایدکوئی دوسرا نہیں کرسکتا۔ صحافت کی ضرورت ہر دور میں مسلّم رہی اور رہے گی۔ دنیا کے حالات، فکر وخیالات؛ حتی کہ حکومت تک کو جھنجھوڑنے کا فن ہے، مثبت اور مؤثر ترین صحافت سے انقلابات رونما ہوتے ہیں اور حالات کا رخ تبدیل سکتا ہے۔
خاتمہ
دارالعلوم وقف دیوبند اس سلسلہ میں متفکر بھی ہے اور کوشاں بھی کہ شعبۂ صحافت کی باضابطہ داغ بیل ڈالی جائے۔ ابھی سردست یہ کام گزشتہ تین سالوں سے دارالعلوم وقف کے شعبۂ بحث تحقیق حجۃالاسلام اکیڈمی سے انجام دیا جارہا ہے، جس میں ہر سال چند فضلاء کا انتخاب کیا جاتا ہے اور ان کو موجودہ احوال سے روشناس کراتے ہوئے ان کی فکری تربیت کرائی جاتی ہے۔ سوشل میڈیا (Socail Media) کا مثبت اور مفید استعمال اسی فکری تربیت کا حصہ ہے۔ طلبۂ مداراس کو ان آلات (tools) سے واقف کرانا بیحد ضروری ہے۔ دارالعلوم اس سلسلہ میں فکرمند ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی سطح پر عملی اقدامات بھی کر رہا ہے، باقاعدہ ڈیجیٹل خواندگی پروگرام ( Digital Literacy Program) چلایا جارہا ہے،جس کے بنیادی مقاصد میں ایسے فضلا تیارکرنا ہے جوسوشل میڈیا کے ذریعہ اسلام کی صحیح شبیہ پیش کرسکیں، انشاء اللہ! جلد ہی اس کے لئے باقاعدہ انتظام کر تے ہوئے مستقل شعبہ کی حیثیت سے اس ضرورت کا نظم کیا جائے گا، جس میں طلبہ مدارس کو موجودہ دور میں رائج ڈیبیٹ(Debate)کے طریقوں اور اس کے اسالیب سے واقف کرانا نیز کم وقت میں بلاتمہید کے اپنی مافی الضمیرکو ادا کرنا اور اپنے مدعا کو صاف اور کھلے انداز میں رکھنا؛ یہ سب اسی ٹریننگ کا حصہ ہوگا۔
اب باتوں سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کی ضرورت ہے؛ لیکن اس کے لیے بنیادی طورپر ہمیں ایک مشترکہ کوشش کرنی ہوگی،بیٹھنااورسنجیدہ غوروفکرکرناہوگا، اور ہاں ماضی میں بھی اس طرح کوششیں کی جاچکی ہیں؛ اس لیے ہمیں ان عوامل پربھی سنجیدگی سے غورکرناچاہئے کہ وہ کیااسباب رہے ہیں جن کی وجہ سے یہ منصوبے (Projects) کامیاب نہ ہوپائے۔ اس کے لیے میری نظر میں جو اہم چیز ہے، وہ یہی کہ ہمیں اپنے بڑے بجٹ کوانفراسٹکچرInfrastructure)) وغیرہ پرنہیں لگاناہے، کرسٹ افیکٹو (Cost Effective) پروگرام پیش کرنا ہوگا، کم بجٹ کے ساتھ کام کرناایک بہترین متبادل ہوگا، ایک بار نتائج درآمد ہوں گے، تو سرمایہ خودبخود آسکتا ہے۔ اور آج کے دور میں یہ سب بہت آسان ہے، کام کرنے کے لیے بہت بڑے پیمانے پراس کی شروعات کی ضرورت نہیں ہے، آج کے ترقی یافتہ دور میں اس کی بہت سی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں کہ کھربوں روپیہ لگائے بغیر آپ کس طریقہ سے کام کر سکتے ہیں،دی وائر The Wire دی کوینٹ The Quintدی للن ٹاپ The Lallantop وغیرہ اس کی بہت عمدہ مثالیں ہیں۔
اب بہترہے کے اس کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔اور اصحاب فکر و نظر اور ذی رائے افراد کی راست فکری اور سنجیدہ غور کے ساتھ ساتھ چند ایسے لوگوں کی بھی ضرورت ہے، جواس کے لیے باقاعدہ نظام اور لائحہ عمل بنا سکیں،یقیناًاس عمل میں صحافی بھی درکار ہیں، علماء کی رہنمائی کی بھی ضرورت ہے اور جدید تعلیم یافتہ افراد بھی ہمیں چاہئیں اور سب سے اہم بات ٹیکنیکل فیلڈ سے وابستہ افراد جن کوان مسائل اوراحوال کاکسی درجہ ادراک ہو،ان کی معیت بھی نا گزیر ہے۔
۔