دیوبند(ملت ٹائمزسمیر چودھری)
دیوبند میں فرضی نام و پتہ پر بنا ئے گئے پاسپورٹوں کی جانچ کی خبر سے پر انٹیلی جنس اور پولیس محکمہ میں ہی نہیں بلکہ پاسپورٹ بنوانے والے ایجنٹوں میں بھی خاصی افراتفری مچی ہوئی ہے ،حالانکہ ابھی تک پولیس کے پاس اعلیٰ کمان کی جانب سے کوئی ایسے ناموں کی فہرست نہیں آئی ہے جس کی بنیادپر پاسپورٹوں کی جانچ کی جائے مگر خبر ہے سال 2001 سے 2017 کے درمیان بنائے گئے پاسپورٹوںکی جانچ ہوگی۔ الیکٹرانک میڈیا میں یہ خبر بڑی بحث کا موضوع بن گئی ہے ۔بتادیں کہ گزشتہ اگست ماہ میں مظفرنگر کے گاو¿ں کوٹیسرہ سے عبداللہ المامون نامی ایک مشتبہ بنگلہ دیشی کو ایس ٹی ایس نے گرفتار کیاگیا تھا،جس نے علاقہ کے گاو¿ں انبہٹہ کے پتہ پر جعلی دستاویزات کے سہارے فرضی پاسپورٹ بنوایا تھا،جس کے بعد علاقہ میںمسلسل اے ٹی ایس سرگرم ہے، اتنا ہی نہیںبلکہ اب مقامی انتظامیہ نے اس سلسلہ میں بڑی کارروائی کا فیصلہ کرتے ہوئے دیوبند میں بنائے گئے تمام پاسپورٹ کی جانچ کی ہدایت دی ہے مگر اس خبر کی جتنی تشہیر کی جارہی ہے زمین پر ایسا کچھ نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ابھی تک ایسی کوئی فہرست مقامی پولیس اور خفیہ محکمہ کے پاس نہیں پہنچی ہے جس کی بنیاد پر پاسپورٹوں کی جانچ کی جائے گی۔ حالانکہ اس خبرکے بعد سے خفیہ محکمہ،پولیس اور ایجنٹوں میںضرور افرا تفری کی کیفیت پائی جارہی ہے۔ افسوس کن امر یہ ہے کہ کچھ بھگوا تنظیمیں حکومت کی جانب سے پاسپورٹ کی جانچ کو دینی اداروں سے جوڑنے کی کوشش کررہی جبکہ ا سلامی اداروں اور تنظیموں کے منتظمین نے واضح انداز میں دوٹوک کہاکہ معاملہ حکومت اور اس کے ملازمین کا ہے ،اسلئے پاسپورٹوں کے علاوہ ان کی ذہنیت اور رشوت خوری کی بھی جانچ ہونی چاہئے تبھی تودودھ کادودھ اور پانی کاپانی ہوگا۔ جن لوگوں نے فرضی نام وہ پتہ پر اپنے پاسپورٹ بنوائے ہیں ان کے خلاف اور جن سرکاری ملازمین اور حکام نے حکومت کو ایسے پاسپورٹ بنانے میں گمراہ کیاہے ان کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کرنی چاہئے۔اس سلسلہ میںممتاز دینی درسگاہ دارالعلوم زکریا دیوبندکے مہتمم مولانا مفتی شریف قاسمی نے کہا کہ دیوبندکے دہشت گردی کے کنکشن کو لیکر وزیر اداخلہ راجناتھ سنگھ کلین چٹ دے چکاہے اور پوری دنیا جانتی ہے کہ دیوبند سے امن وسلامتی کاپیغام دیاجاتاہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ دوبارہ جانچ کرے مگر کسی قوم یا شہر کو ٹارگیٹ کرکے اس طرح کی کارروائی ٹھیک نہیں ہے۔





