مولانا سید احمد ومیض ندوی
اس حسین و جمیل کائنات کا اصل دلہا حضرت انسان ہے۔ رب کائنات نے کرہ ارض کے نظام کو بے پناہ توازن کے ساتھ اس لئے قائم کیا ہے تاکہ انسانی زندگی کو کسی طرح کا خطرہ لا حق نہ ہو۔ کائنات کی ہر چیز میں مکمل توازن ہے۔ سورج سیزمین کا فاصلہ اگر کمی بیشی کا شکار ہوتا تو روئے زمین پر زندگی کا تصور ممکن نہ ہوتا۔ زمین ۲۴ گھنٹوں میں اپنے محور کے گرد ایک چکر پورا کرتی ہے ۔ اگر یہ وقت ۲۴ گھنٹوں کے بجائے ۳۰ ہوجائے تو اتنی تیز ہوائیں چلیں کہ لوگوں کو عذاب الٰہی کا خوف ہونے لگے ۔ اسی طرح اگر یہ وقت گھٹ کر ۲۰ گھنٹے ہوجائے تو نباتات کے لئے خطرہ پیدا ہوجاتا۔ جس طرح کائنات کے سارے نظام میں حقیقی توازن ہے اس طرح ماحولیات میں بھی بھر پور توازن ملحوظ رکھا گیا ہے۔ ماحول اور آب و ہوا قدرت کے دو انمول تحفے ہیں۔ آلودگی سے پاک آب و ہوا اور صاف و شفاف ماحولیات اللہ کی بڑی نعمتیں ہیں۔ حیرت ہے کہ جس آب و ہوا کی پاکیزگی اورماحول کی صفائی پر انسانی زندگی کا انحصار ہے۔ حضرت انسان اس آب و ہوا اور ماحول کو آلودگی سے دوچار کرکے آفتوں کو دعوت دیتا ہے۔ اس وقت ماحولیاتی آلودگی ایک عالمگیر مسئلہ بن چکی ہے۔ آلودگی کے معاملہ کو لے کرساری دنیا پریشان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ اقوام متحدہ کے مستقل ایجنڈے میں شامل ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کی سنگینی کا اندازہ ان عالمی کانفرنسوں سے کیا جاسکتا ہے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کے زیر نگرانی ہوتی رہی ہیں۔ ۱۹۹۲ء میں برازیل میں’’ماحولیات کے حوالہ سے کرہ ارض کا تحفظ‘‘ کے زیر عنوان اقوام متحدہ نے دنیا کی پہلی سربراہ کانفرنس منعقد کی تھی جس میں ۱۲۰ سے زائد سربراہانِ مملکت اور قریب دس ہزار ماہرین ماحولیات اور سائنسدانوں نے شرکت کی تھی۔ پھر اقوام متحدہ کے ماحولیات کے ادارے نے ۱۹۹۷ء میں ماحولیات کو بہتر بنانے کے فوری اقدامات کے لئے ارکان ممالک کو کیوٹو پروٹوکول دستاویز پیش کی تھی۔ مئی ۲۰۰۷ء کی ابتدائی تواریخ میں ماحولیات ہی کے موضوع پر ایک کانفرنس بنکاک میں منعقدہوئی جس میں ۱۲۰ ؍ممالک کے نمائندے پانچ یوم تک گلوبل وارمنگ (عالمی حدت) کے موضوع پر مباحثوں میں حصہ لیتے رہے۔ اپریل ۲۰۰۷ء میں ماحولیات کی سالانہ عالمی کانفرنس کا انعقاد عمل میں آیا جس میں ۸۰۰؍ سے زائد ماہرین اور سائنسداں شریک رہے۔ اس طرح ۲۰۱۰ ء میں ڈنمارک کی راجدھانی کوپن ہیگن میں ۷ تا ۱۸؍ڈسمبر عالمی ماحولیاتی کانفرنس کا انعقاد عمل میں آیا، جس میں ماحولیاتی اور موسمی تبدیلی پر خوب اظہار خیال کیا گیا۔ انسانی زندگی کا اتلاف چاہے اس کی جو بھی شکل ہو قابل مذمت اور انتہائی افسوسناک ہے۔ دنیا کے سارے ممالک دہشت گردی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں پر واویلا کرتے تھکتے نہیں۔ دنیا کے کسی بھی ملک کے سربراہ کی جب دوسرے ملک کے سربراہ سے ملاقات ہوتی ہے تو سب سے بڑا زیر بحث مسئلہ دہشت گردی ہوتا ہے۔ میڈیا اور اخبارات کے صفحات دہشت گردی کی خبروں سے پر رہتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ دہشت گردی کی لعنت انسانی معاشرہ کے لئے کسی ناسور سے کم نہیں ہے۔ لیکن کیا انسانی جانوں کے اتلاف کی وہ صورت بھی قابل مذمت ہے جسے ماحولیاتی آلودگی نے جنم دیا ہے؟ جس طرح دہشت گردی کے نتیجہ میں ہونے والی ہلاکتوں پر فکر مندی کا اظہار کیا جاتا ہے اسی طرح ان ہلاکتوں پر اظہار افسوس کیوں نہیں کیا جاتا؟ بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی سے ہورہی آلودگی کے نتیجہ میں ہونے والی اموات کے حوالے سے گزشتہ دنوں ایک برطانوی طبی جریدے نے جو اعداد و شمار شائع کئے ہیں انہیں جان کر سب کے ہوش اڑ جائیں گے۔ طبی جریدے ’’دی لینسٹ‘‘ کی رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۵ء میں دنیا بھر میں آلودگی کی وجہ سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد ۹۰ ؍لاکھ تھی، جن میں ہندوستان کا حصہ سب سے زیادہ ہے جہاں ۲۰۱۵ء میں آلودگی اور اس سے پیدا ہونے والے امراض کے سبب ۲۵؍لاکھ افراد موت کا لقمہ بن گئے۔ یہ اعداد و شمار ایڈس ، ملیریا اور ٹی بی جیسی مہلک بیماریوں سے ہونے والوں کی تعداد سے تین گنا زیادہ ہے ۔آلودگی کے معاملہ میں دوسرے مقام پر چین ہے ،جہاں ۱۸ ؍لاکھ لوگ آلودگی کی لپیٹ میں آکر جان گنوا بیٹھے ہیں۔ یہ نتائج ۲ ؍سالہ منصوبہ سے اخذ کئے گئے ہیں جبکہ ہلاکتیں زیادہ تر متوسط اور کم آمدنی والے ممالک میں ہوتی ہیں۔ یہ وہ ممالک ہیں جہاں ایک چوتھائی اموات کی وجہ آلودگی ہوتی ہے۔ بنگلہ دیش اور صومالیہ سب سے متاثر ہ ممالک میں شامل ہیں جبکہ برونئی اور سویڈن میں آلودگی سے متاثر ہوکر مرنے والوں کی تعداد سب سے کم ہے۔ سروے رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں آلودگی کے باعث ۵۰ ہزار اموات ہوئیں ، جو کُل اموات کا ۸ فیصد ہیں۔ ۱۸۸ کی فہرست میں برطانیہ کا نمبر ۵۵ واں ہے تاہم امریکہ ، جرمنی، فرانس، اسپین، اٹلی اور ڈنمارک سمیت بہت سے یوروپی ممالک اس فہرست میں برطانیہ سے اوپر ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مشرقی ایشیائی ممالک میں فضائی آلودگی خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے اور آئندہ ۳۰؍ برسوں میں فضائی آلودگی سے جملہ اموات کا یہاں نصف حصہ رہے گا۔ رپورٹ میں مزید درج کیاگیا ہے کہ تیزی سے صنعتی ترقی کررہے ممالک میں آلودگی سے مرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ امریکہ میں ہونے والی ۸،۵ فیصد ہلاکتوں یعنی ایک لاکھ ۵۵ افراد کی موت کا سبب آلودگی سے جوڑا جاتا ہے۔ آلودگی کے سبب ہونے والی اموات میں سب سے بڑا حصہ فضائی آلودگی (یعنی آلودہ ہوا ، ٹرانسپورٹ انڈسٹری سے لے کر گھر میں چلنے والے چولہے) کا ہے۔ تقریباً ۶۵؍ لاکھ افراد کی موت خراب ہوا کی وجہ سے ہوتی ہے۔ دوسرا نمبر آلودہ پانی کا ہے جس نے ۱۸ ؍لاکھ افراد کی جان لی۔ جبکہ کام کی جگہ آلودگی کے باعث ۸ ؍لاکھ اموات ہوئیں۔ رپورٹ کے مطابق کل ۹۲ فیصد اموات غریب ممالک میں ہوئیں جو کہ معاشی ترقی کے تیز عمل سے گزر رہے ہیں۔ ہرسال پوری دنیا ماحولیاتی آلودگی جنگ اور تشدد سے زیادہ لوگوں کی جانیں لے رہی ہے۔ یہ اسموکنگ ، بھوک اور قدرتی آفات سے بھی زیادہ لوگوں کو موت کے منہ تک پہنچادیا ہے۔ ایڈس ٹی بی اور ملیریا تینوں مل کر بھی آلودگی سے زیادہ جان لیوا نہیں ہیں۔ حیات تک آلودگی کے سبب ہونے والے معاشی نقصان کا تعلق ہے تو آلودگی سے ہر سال تقریباً ۶،۴ ٹریلین ڈالر کا نقصان ہورہا ہے جو عالمی اقتصادی نظام کا ۲،۶ فیصد ہے۔ آلودگی کی اس سنگین صورتحال پرتشویش کا اظہار کرتے ہوئے نیو یارک کے اسکول آف میڈیسن سے وابستہ پروفیسر فلپ لینڈرہگن نے کہا کہ آلودگی ماحولیاتی چیلنج سے بہت بڑا مسئلہ ہے۔ یہ ایک بڑا اور عالمی مسئلہ ہے جو انسانی صحت اور بہبود کے بہت سے پہلوؤں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ایک نجی ادارہ پیو رارتھ سے وابستہ کارٹی سنڈیلا کا کہنا ہے کہ آلودگی غربت ، خراب صحت اور معاشی نقصان کا باہمی طورپر گہرا تعلق ہوتا ہے۔ آلودگی سے بنیادی انسانی حقوق مثلاً جینے کے حق صحت ، محفوظ کام اور اس کے علاوہ بچوں اور کمزوروں کی حفاظت کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔
آلودگی صحت انسانی کے لئے انتہائی مہلک اور مختلف جان لیوا امراض کا سبب ہے۔ حالیہ عرصہ میں آلودگی کے سبب ہوئی زیادہ تر اموات غیر متعدی امراض کی وجہ سے ہوئیں جن میں ہارٹ اٹیک، اسٹروک اور پھیپھڑوں کا سرطان شامل ہیں۔ انسانی زندگی کی بقا کے لئے صاف شفاف ہوا ضروری ہے۔ جب ہوا آلودہ ہو جاتی ہے تو ہر سانس کے ساتھ جسم میں زہریلی ہوا داخل ہونے لگتی ہے اور داخل ہوکر اپنی جگہ بنالیتی ہے ۔چونکہ جسم میں اس کی صفائی کا کوئی انتظام نہیں ہوتا ،اس لئے وہ مختلف بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔ سانس کے ذریعہ جسم میں داخل ہونے والی آلودگی کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دہلی میں پھیپھڑے کے امراض کے ڈاکٹر کہتے ہیں کہ راجدھانی میں آلودگی اتنی بڑھ گئی ہے کہ کوئی نان اسموک نہیں رہا ہر شخص جسم میں اتنی آلودہ ہوا داخل کرلیتا ہے جو ۲۰ ۔ ۲۵ سگریٹ پینے کے برابر ہو۔ آلودگی کی وجہ سے سانس اور کینسر کی بیماریاں بڑھ رہی ہیں اور ہارٹ اٹیک کی شرح میں غیر معمولی اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ آلودگی کے سبب صرف اموات ہی نہیں ہورہی ہیں بلکہ یہ صحت زمین اور پانی کو نقصان پہنچانے کے ساتھ دنیا کی معیشت پر بھی بوجھ بن رہی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق آلودگی کی وجہ سے ہر سال ۲۹۳ لاکھ کروڑ کا نقصان ہوتا ہے جو دنیا کی کل معیشت کا ۲،۶ فیصد ہے۔
آلودگی ایک عفریت ہے جو پورے عالم کو نگلنے کے لئے منہ کھولے کھڑا ہے ۔ آلودگی کی وجہ سے موسمی بحران، ماحولیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ ( عالمی حدت) جیسے سنگین خطرات لا حق ہورہے ہیں۔ خدشہ ہے کہ عالمی حدت کے نتیجہ میں ہورہی ماحولیاتی تبدیلی آبی وسائل پر موجود دباؤ کوتیز و تند کردے۔ پہاڑ ، برفستان اور برف کی چھوٹی چوٹیاں ، تازہ پانی کی فراہمی میں اہم رول ادا کرتی ہیں۔ حالیہ دہائیوں میں عالمی حدت اور ماحولیاتی تبدیلی کے نتیجہ میں گلیشروں کے حجم میں بڑے پیمانے پر کمی واقع ہوئی ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق قطب شمالی پر منجمد برف کے پہاڑوں کی چوٹیاں پگھل رہی ہیں۔ گزشتہ چند سالوں کے دوران خشک سالی ،بدترین غذائی بحران اور گلیشروں کے پگھلنے کے سبب شمالی اور جنوی امریکہ ایشیاء اور آسٹریلیا میں پانی کمیاب اور بعض مقامات پر نایاب ہونے لگا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی اور عالمی حدت کے سبب دنیا قلت آب کے مسئلہ سے دوچار ہوسکتی ہے۔ ماہرین کے مطابق برفانی تودوں کے پگھلنے کے نتیجہ میں بڑے پہاڑی سلسلوں میں پگھل کر آنے والے شہر میں پانی کی آمد میں کمی واقع ہوئی ہے۔ ایک سروے کے مطابق ۲۰۲۰ ء میں آفریقہ میں ۷۵ سے ۲۵۰ ملین افراد کو ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے قلتِ آب سے دوچار ہونا پڑے گا ،برفانی تودوں کے پگھلنے سے سمندروں کی سطح آب میں بے تحاشا اضافہ ہوتاجارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بحرالکاہل اور بحراوقیانوس میں آنے والے شدید طوفانوں کے سبب پورے شہروں کا وجود خطرہ میں پڑ گیا ہے۔ میکسیکو اور جنوبی ایشیاء کے ۱۸ ملکوں میں آنے والے لگاتار سیلابوں کی وجہ سے تاحال دسیوں لاکھ لوگ بے گھر ہوچکے ہیں۔ قطبین کی برف پگھلنے کے سبب نشیبی جزیرے بری طرح متاثر ہوسکتے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی ، غذائی سلامتی کے لئے خسارہ ثابت ہوسکتی ہے۔ خشک اور گرم خطوں میں ناقص غذا متاثرین کی تعداد میں اضافہ کرسکتی ہے۔ جن آفریقی ملکوں کی زراعت بارش کے پانی پر منحصر ہے وہاں کی پیداوار ۵۰ فیصد تک کم ہونے کا خدشہ ہے۔ اتنا ہی نہیں ماحولیاتی آلودگی زمین پر مختلف انواع حیات کے وجود کے لئے خطرہ ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کے سبب ہر روز ۱۰۰ سے لگ بھگ جانوروں کی اقسام ناپید ہوتی جارہی ہیں۔
ماحولیاتی آلودگی کی اتنی ساری ہلاکت خیزیوں کے باوجود آج دنیا صنعتی ترقی کے نشہ میں چور ہوکر عام انسان کو درپیش اس سنگین خطرہ سے انحراف کررہی ہے۔ ہر سال زمین پر ۴۰ ہزار ٹن ٹھوس غلاظتیں بکھیری جاتی ہیں۔ زہریلے کیمیائی مادے استعمال ہوتے ہیں جس کے مہلک ناکارہ فضلے کو غریب آفریقی ملکوں کے ساحلوں پر پھینک دیا جاتا ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی اور انسانی سرگرمیوں کے سبب ہم ہر سیکنڈ میں فٹ بال گراؤنڈ کے بقدر جنگلات سے محروم ہورہے ہیں۔ دنیا کے سمندروں اور دریاؤں میں روزانہ ہزاروں ٹن غلاظتیں بہاکر انہیں آلودہ کردیا جاتا ہے۔ آبی ذخائر میں پٹرولیم کے پھیلاؤ ، لاکھوں آبی جانوروں کی زندگیوں کو خطرات سے دوچار کردیا ہے۔ آئے دن صنعتی فضلات اور ماحولیاتی تبدیلی کے سبب زمین کا بڑا حصہ ناکارہ ہوتا جارہا ہے۔ اس وقت دنیا کی نصف آبادی کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں ہے۔
اس تشویشناک صورتحال میں کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ دنیا اس تعلق سے ہوش سے کام لے ؟ دہشت گردی ہی دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ دہشت گردی اور بھکمری سے زیادہ اموات ماحولیاتی آلودگی کے سبب ہورہی ہیں۔ ۲۰۱۵ء میں پوری دنیا میں دہشت گردی سے ۲۸۳۲۸ اور جنگوں سے ایک لاکھ ۶۷؍ ہزار اموات ہوئیں۔ ہندوستان میں اس سال دہشت گردی کی وجہ سے ۷۲۲ لوگوں کی موت ہوئی جبکہ آلودگی کی وجہ سے ۲۵ لاکھ لوگ موت کی نیند سوگئے۔ اس ۲۰۱۵ء میں بھکمری سے دنیا بھر میں ۷۹۶ ملین اور ہندوستان میں سب سے زیادہ ۱۹۴ ملین ہلاک ہوگئے۔ ان اعداد و شمار سے صاف واضح ہوتا ہے کہ آلودگی انسانیت کی سب سے بڑی قاتل ہے۔ ہندوستان کے لئے یہ بات کس قدر تشویشناک ہیکہ آلودگی کی وجہ سے سب سے زیادہ اموات یہیں ہوئیں۔ صرف ایک سال ۲۰۱۵ ء میں ۲۵ لاکھ لوگ آلودگی کی بھینٹ چڑھ گئے ۔آلودگی سے متعلق برطانوی طبی جریدے کی حالیہ رپورٹ ہندوستان کے لے انتباہ ہے۔ ہندوستان آلودگی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں پہلے نمبر پر ہے۔ آلودگی سے متعلق تازہ رپورٹ بھی اس وقت سامنے آئی جب ملک میں دیوالی کا تہوار منایا جانے والا تھا۔ ماحولیاتی آلودگی کے پیشِ نظر سپریم کورٹ نے پٹاخوں کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کی تھی۔ اس کے باوجود دہلی اور ملک بھر میں پٹاخے پھوڑنے میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ آلودگی کے مسئلہ پر باتیں بہت کی جاتی ہیں، عملی میدان میں کسی قسم کی پیش رفت نہیں ہوئی۔ گزشتہ دیوالی کو سب سے پہلے پٹاخے چھوڑنے سے دہلی کی آلودگی میں ۹؍ فیصد کا اضافہ ہوگیا تھا جوکہ دیوالی کی رات ۱۲؍فیصدکو متجاوز کر گیا۔ آلودگی کے معاملہ میں حکومت کی سردمہری افسوسناک ہے۔ انتظامیہ پرانی گاڑیوں کو ہٹانے سے پس و پیش کرتا ہے۔ پولیوشن کنٹرول کے نام پر بنائے گئے دفاتر کا حال یہ ہے کہ شکایت درج کرنے کے لئے عہدیدار تک نہیں ملتے۔اثر و رسوخ رکھنے والی فیکٹریوں کے مالکوں کے خلاف حکومت کچھ کرنے سے قاصر ہوتی ہے۔ ندیوں کی صفائی پر اربوں روپئے بہائے گئے، مگر گندگی میں کمی نہیں آئی۔ سوچھ بھارت کا نعرہ لگاکر کچھ علامتی کام کرلینے سے آلودگی سے نجات ممکن نہیں۔ آلودگی سے متعلق عوامی شعور کی بیداری بھی ضروری ہے۔
آلودگی کے حوالے سے جہاں تک اسلامی نقطۂ نظر کی بات ہے کہ وہ بالکل واضح ہے۔ اسلام پاک مذہب ہے پاکی کو آدھا ایمان قرار دیتا ہے۔ احادیث میں گھروں کے صحنوں کو تک پاک صاف رکھنے کی تاکید ہے۔ آبی ذخیروں میں نجاست کرکے انہیں آلودہ کرنے سے روکا گیا ہے۔ اسلام میں شجر کاری کی ترغیب دی گئی ہے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے ’’جو کوئی مسلمان درخت لگاتا ہے یا کھیتی کرتا ہے اور اس سے کوئی انسان ، پرندہ یا جانور کھاتا ہے تو یہ لگانے والے کے لئے حصہ ہے۔‘‘ (بخاری) معروف امام اوزاعی کا قول ہے کہ درختوں کا کاٹنا مکروہ ہے کیونکہ حضرت صدیق اکبر نے کسی درخت کو کاٹنے خصوصاً پھلدار اور کسی عمارت کو برباد کرنے سے منع فرمایاکہ آپ کے بعد مسلمانوں نے اس پر عمل کیا ( سنن ترمذی) قرآن مجید صاف کہتا ہے کہ خشکی و تری میں فساد و بگاڑ دراصل انسانی کرتوتوں کی وجہ سے آتا ہے۔قرآن ، زمین میں فساد برپا کرنے سے روکتا ہے۔ اسلام ہر اس حرکت سے روکتا ہے جس سے صحت انسانی کو خطرات لاحق ہوتے ہوں۔ ایک مسلمان شہری کو آلودگی کے حوالہ سے حساس ہونا چاہئے۔ عالمی سطح پر آلودگی کے اثرات سے محفوظ رہنے کے لئے عالمی طاقتوں کو مضر گیسوں کے اخراج میں کمی لانا چاہئے ، نیز جنگلات کے تحفظ کو یقینی بنانا چاہئے۔ شجرکاری اور نباتات کی افزائش پر خصوصی توجہ دی جائے، آبی ذخائر کو آلودہ کرنے سے گریز کیا جائے۔