سیاست نے مشاعروںکو کاروبار بنادیا،اردو ہندو۔ مسلم کے درمیان تقسیم ہوگئی : بزرگ شاعر مجیب بستوی

دیوبند(ملت ٹائمزسمیر چودھری)
معروف بزرگ شاعر مجیب بستوی نے کہا کہ صحیح معنوںمیں اردو کی خدمت جیسی ہونی چاہئے ویسی نہیں ہورہی ہے ، اردو ہمارے مدارس اردو کی خدمت زیادہ کررہے ہیں ،مشاعروں میں سیاست داخل ہوگئی ہے اور مشاعرے کاروبار بن کر رہ گئے ہیں، سیاست کے چلتے اردو کو بھی ہندو اور مسلم میں تقسیم کردیا گیا ہے، جو لوگ اردو کو فرقہ واریت اور تنگ نظری سے جوڑتے ہیں وہ اردو کو مزاج شناس نہیں ہیں، اردو گزشتہ ایک ہزار برس کی مخلوط تہذیب کی امین ہے ۔ مشرقی یوپی کے معرو شاعر مجیب بستوی آج یہاں نامہ نگاروں سے خصوصی گفتگو کررہے تھے۔ انہوں نے کہاکہ آزادی سے قبل اردو پورے برصغیر پر حکومت کرتی تھی مگر بعد میں یہ تقسیم کی زبان بنادی گئی ۔ مجیب بستوی نے کہاکہ ہر چند کہ زبانوں کا کوئی مذہب نہیںہوتا لیکن اردو اور ہندی دونوں زبانوں کو سیاسی رنگ دیدیا گیا اور اس پر سیاست کی جارہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اردو جہاں اپنی شیرینی اور تہذیب کے حوالے سے مشہور ہے وہیں سماج میں اتحاد واتفاق اور جذبہ حب الوطنی کے لئے بھی معروف ہے ۔ اردو کا یہ وصف اس باعث بھی ہے کہ اردو کی ترویج واشاعت میں سماج کے تقریباً ہر طبقے کا کردار رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اردو ہماری مشترکہ گنگا جمنی تہذیب کی روشن علامت ہے اور اردو ہماری متحدہ قومیت کی پاسدار اور ہند اسلامی تہذیب کی علمبردار بھی ہے ۔ اردو کی ہردلعزیزی کا سبب یہ بھی ہے کہ اردو نے ہر زبان کے الفاظ، محاورے اور تراکیب کے لئے دروازے ہمیشہ کھلے رکھے ہیں اور دیگر زبانوں کے الفاظ اپنی تہذیب وثقافت کے پس منظر کے ساتھ اردو نامی سمندر میں آکر ضم ہوگئے ۔ انہو ںنے کہا کہ اردو کو اس مقام تک پہنچانے میں جہاں ہمارے ادبائ، شعراءاور دانشوروں کا ہاتھ رہا ہے وہیں ہمارے مدارس اور علماءکی کاوشوں سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا، اردو زبان کی ترویج وترقی میں ان علماءکی اہم خدمات ہے جنہوں نے مذہب کی تبلیغ واشاعت کے لئے اردو کو ہی ذریعہ بنایا ۔ انہوں نے کہا کہ اردو صرف ہماری زبان ہی نہیں ہماری وراثت بھی ہے جسے بغیر کسی خیانت کے اگلی نسل تک منتقل کرنا ہمارا فرض ہے ۔ مجیب بستوی نے کہا کہ اب نئی نسل میں اردو کا رجحان بڑھ رہا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ حکومتوں نے اردو کو روٹی روزی سے جوڑنے کا کام کیا اب ہندو طبقہ بھی زیادہ اردو پڑھ رہا ہے ، ایک دن وہ آئے گا کہ ہر قوم اردو پڑھے گی ۔ ایک سوال کے جواب میں حق کانپوری نے کہا کہ آج کل مشاعروں میں ایسے شعراءآگئے ہیں جو اردو سے نابلد ہیں ، ہندی میں شعر لکھ کر لاتے ہیں اور اس کو سامعین کے سامنے پیش کرتے ہیں جن کے تلفظ بھی صحیح نہیں ہوتے ۔ انہوں نے کہا کہ آج کل ہندی شعراءاچھی غزلیں پڑھ رہے ہیں ۔ انہوں نے علامہ اقبال کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ علامہ اقبال آفاقی شاعر ہیں اور پوری دنیا کو انہوںنے اپنی شاعر میں مخاطب کیا ہے ۔ آخر میں نسل نو کو اردو کے فروغ کے لئے کام کرنے کی صلاح دیتے ہوئے کہا کہ وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جو اپنی زبان سے وابستہ رہتی ہیں ۔