آزادئ رائے کی آڑ میں توہینِ اہل بیت کی ناپاک جسارت !

عبدالرشید طلحہ نعمانی ؔ

ملک کی موجودہ صورت حال کے تناظر میں اب یہ بات دو دو چار کی طرح عیاں ہوگئی کہ فرقہ پرست عناصر آزادئ اظہار رائےاورحریت فکر و خیال کے نام پرمنافقت اور دوغلے پن کے کینسر کا شکار ہیں، وقفے وقفے سے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہونچانا ،ان کی مذہبی شخصیات کو نشانہ بنانا اوران کو ذہنی کرب و اذیت میں مبتلاء کرنا ملک کی سازشی میڈیا کا آئے دن معمول بنتاجارہاہے۔اس ضمن میں مختلف نیوز چینلوں پر مساوات و روشن خیالی کا سبق پڑھانے والے ٹی وی اینکرز کا اصل چہرہ بھی اب بے نقاب ہو چکا ہے۔

حالیہ چند برسوں میں اسلام دشمنی کے پے درپے واقعات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ان تنگ نظروں کی اصطلاح میں آزادی اظہار رائے کا مطلب، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعےاجتماعی طور پر اسلام اور اس کی مقدس ہستیوں کی توہین وتحقیر، اسلامی تعلیمات کا تمسخرو مذاق اور مسلمانوں کی تذلیل وتنقیص ہے۔حیران کن بات یہ ہے کہ یہ مذموم حرکات کسی ایک فرد کے ذاتی عمل یا کوشش کا نتیجہ نہیں؛بلکہ ایک سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہے اور ایسی ناپاک جسارتیں موقع بہ موقع اسلامیان ہند کی دل آزاری ،ان میں اشتعال و بےچینی پیداکرنے کی غرض سے ہوتی رہتی ہیں۔

یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہرمسلمانــــ خواہ وہ عملی میدان میں کتناہی کوتاہ ہوــــ رسول اللہ ﷺ،ان کےمقدس خانوادے اور اصحاب اخیار سے غایت درجہ تعلق و وابستگی رکھتاہے،اس لحاظ سےیہ کیوں کر ممکن ہےکہ مسلمانوں کے قبلۂ رشد و ہدایت ، مرکز عقیدت و محبت اورمحسن انسانیتﷺیا ان سے متعلق کسی بھی فرد پر کوئی ناہنجار ،خدابیزار شقی القلب حرف اُٹھائے اور ان کی غیرتِ ایمانی اور حمیت دینی کو جوش نہ آئے؟؟؟جب کہ مسلمانوں کا مجمع علیہ عقیدہ ہےکہ رسولﷺ،آپ کی ازواج مطہرات ،بنات طاہرات اور جملہ صحابہ و صحابیات ربانی انتخاب کے نتیجہ میں پاکیزہ نفوس کی زندہ جاوید علامتیں ہیں، مسلمان دل وجان سے ان کی پیروی کرتےہیں اور ان سے اپنا قلبی، فکری و روحانی تعلق رکھتےہیں، اسی لیےمسلمان اپنی جان ،مال ،عزت و آبرو پرتو کوئی آنچ برداشت کرسکتاہے؛لیکن ان نفوس قدسیہ پر ایک حرف بھی برداشت نہیں کرسکتا۔

توہین اہل بیت کا مجرم :

اس وقت ہندوستان کا ایک شرپسند صحافی، الیکٹرانک میڈیا کے سنگھی چینل زی نیوز کا متششدداینکر ” روہت سردانا “اہل بیت اطہار کے حوالے سے ایسی گستاخیاں کررہا ہے جو مسلمانوں کی اجتماعی غیرت و حمیت کےلیےکھلا چیلنج ہیں،اس محروم القسمت شخص نے اماں جان عائشہ ؓ اور دختر رسولﷺ حضرت فاطمہؓ پر کیچڑ اچھالا ہے اس نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر یہ ٹوئیٹ کیا ہے کہ:”شخصی آزادی، فلموں کے نام سیکسی دُرگا، سیکسی رادھا رکھنے میں ہی ہے کیا؟ آپ نے کبھی سیکسی فاطمہ، سیکسی عائشہ یا سیکسی میری جیسے نام سنے ہیں فلموں کے ؟ “۔۔۔۔۔۔۔(معاذ اللہ،نقل کفر کفر نہ باشد) روہت سردانا کے اس ٹویٹ کے بعد نفرت کے پجاریوں نے دریدہ دہنی کی تمام حدیں پار کرتے ہوئے، امہات المؤمنین ؓ کو ہی نشانہ نہیں بنایا بلکہ ان کی گندی زبانیں آقاﷺ پر بھی دراز ہوئی اور ہورہی ہیں۔

کاروان امن وانصاف کے جنرل سکریٹری مولانا سمیع الدین لکھتے ہیں کہ ” پہلے پہل مجھے یہی محسوس ہوا کہ روہت سردانا کا یہ بیان شاید عمل کا ردعمل ہے اور سیکسی درگا اور رادھا نامی فلم کسی مسلمان نے بنائی ہوگی جس کی وجہ سے، ان لوگوں نے اس نام کے حوالے سے مسلمانوں کی مذہبی شخصیات کو نشانہ بنایا ہے، لیکن جب تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ، سیکسی دُرگا نامی فلم ایک غیر مسلم نے بنائی ہے، اس فلم کو بنانے والوں میں ” سنل کمار سَسیدھرن ” کا نام بتایا جارہا جس کا تعلق تمل سے ہے، اور ان کا کہناہے کہ ہماری یہ فلم کسی بھی طرح کے مذہبی تناظرمیں نہیں ہے، خیر ہمیں یہاں اس سے بحث نہیں، ہمارا مدعا تو یہ ہے کہ، جب اس فلم کا بنانے والا خود غیرمسلم ہے تو آخر اس میں مسلمانوں کا کیا قصور ہے، جو اس معاملے کو بہانہ بناکر ان کے جذبات پر حملے کیے جارہےہیں، چہ جائیکہ یہ حرکت اس صورت میں بھی جائز نہیں ہوتی جبکہ بفرض محال ایسی فلموں کے بنانے میں کسی بھی مسلمان نامی شخص کا ادنٰی سا بھی حصہ ہوتا تو بھی اس کی وجہ سے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی کیونکہ یہ اس کا اپنا عمل ہوگا اور وہ خود اس کو بھگتے گا، لیکن یہاں تو ایسا بھی کوئی پس منظر مجھے نظر نہیں آیا جس کا بہانہ کیا جاسکے، تو پھر آخر اس نفرت انگیز بیان کا کیا مطلب ہوگا؟ نیز مجھے سیکسی رادھا نامی کوئی فلم تلاش بسیار کے باوجود نہیں ملی”۔

موصولہ اطلاعات کے مطابق روہت سردانا کے خلاف پولیس تھانوں میں متعدد شکایات درج ہوچکی ہیں، ان شاءالله یہ سلسلہ دراز ہوتا جائے گا، اب پولیس کی ذمہ داری ہے کہ ملکی نظم و نسق کے پیش نظر مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح کرنے والوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرے۔

اسلام اور رائے کی آزادی :

آزادیٔ رائے انسان کا بنیادی اخلاقی حق ہے، جس سے معاشرے پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں اور یہ حق شعورکو پروان چڑھا کر بہت ساری گتھیوں کو سلجھانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔بہ نظر غائر دیکھا جائے تو اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس نے سب سے پہلے اظہار رائے کی آزادی کا فلسفہ دیا، اس سے پہلے لوگ غلام تھے، مصنوعی خداؤں کے آگے جھکتے تھے، ان کے بارے میں لب کشائی سے عاجز تھے، جو کوئی ان کے تعلق سے زبان درازی کرتا، پوری سوسائٹی اس کی دشمن بن جاتی۔ اسلام سے قبل روم و فارس میں لوگ حکمرانوں کے غلام تھے، ان کے خلاف ایک لفظ کہنے کی ہمت نہ تھی، یونان کا کلیسا مقدس خدائی کا دعویدار تھا، جس سے اختلاف رائے کا مطلب موت تھی۔ اسلام نے انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر آزاد کروایا اور صرف ایک معبود کی عبادت کا حکم دیا۔ چناں چہ اسلام ہی ایسا دین فطرت ہے؛ جس میں ہر انسان آزاد ہے،اعتدال کے ساتھ حدود و قیود کے دائرےمیں وہ جو چاہے کرسکتا ہے، جو چاہے بول سکتا ہےاور جو چاہے لکھ سکتاہے۔

خالق کائنات نےـــــ ”دین میں کوئی جبر نہیں“، ”اللہ کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ ذمہ داری نہیں سونپتا“، اور پیغمبر اسلام کو سماج چلانے کے لیے ”معاملات میں لوگوں سے مشورہ کرو“ جیسے سنہری اصولوں سےـــــ واضح کردیا کہ اسلام اظہار رائے کی آزادی کاحامی ہے؛ لیکن اعتدال و میانہ روی کے ساتھ فکر ونظر کی سلامتی کے ساتھ،حقیقت پسندی اور چنانچہ اس نے رائے کی آزادی کے ساتھ یہ فلسفہ بھی پیش کیا کہ انسان رائے دینے میں حیوانوں کی طرح شتر بےمہار نہیں، بلکہ اس کی اظہار رائے کی آزادی کچھ حدود کی پابند ہے۔ ان حدود پر تنبیہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ”انسان کوئی لفظ زبان سے نکال نہیں پاتا مگر اس پر نگران مقرر ہوتا ہے، ہروقت (لکھنے کے لیے) تیار۔“ سورہ حجرات میں اظہار رائے کی آزادی کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ انسان کسی کا تمسخر نہیں کرسکتا، کسی کی غیبت نہیں کرسکتا، کسی پر بہتان، الزام تراشی، یاکسی کی ذاتی زندگی کے عیب نہیں ٹٹول سکتا، حتی کہ کسی کو برے نام اور القاب سے نہیں پکارسکتا۔ اظہار رائے کی آزادی میں اسلام نے ایک طرف یہ بہترین اخلاقی اقدار فراہم کیں تو دوسری طرف انسان کو رائے دہی میں آزاد کیا اور جبر اور طاقت سے زیادہ ذمہ داری سونپنے کی حوصلہ شکنی کی۔

یہی وجہ ہے کہ آج چودہ صدیاں گزر گئیں اورمسلمانوں میں خواندہ و ناخواندہ ہر قسم کے افراد موجود ہی ؛مگر آج تک کسی مسلمان نے دیدہ و دانستہ کسی مقدس کتاب کی بے حرمتی نہیں کی،کبھی کسی نے نبی یا رسول یا کسی مقدس مذہبی شخصیت کی گستاخی کا اقدام نہیں کیا۔ اُن پرسخت سے سخت حالات بھی آئے اور گزر گئے؛ لیکن ان کے ایمان نے ایسی کوئی ہرزہ سرائی گوارا نہیں کی؛کیونکہ اُنہیں آقائے فوز وفلاح کے ابدی منشور ، کتاب حکمت و ہدایت سے یہ تربیت ملی کہ کسی بھی ”تم انہیں برا بھلا نہ کہو، جو خدا کو چھوڑ کر دوسروں کی پوجا کرتے ہیں“۔(الانعام)

فضائل اہل بیت :

جس طرح آپﷺ اپنی ذات کے اعتبار سے افضل ہیں، اس طرح آپ کا خاندان بھی تمام خاندانوں سے افضل و برترہے اور جس طرح آپﷺ کا خاندان سب خاندانوں سے اعلیٰ و افضل ہے، اس طرح آپﷺ کا گھرانہ بھی تمام گھرانوں سے اعلیٰ و ارفع ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:’’بے شک اللہ نے اسماعیل کی اولاد سے کنانہ کو چن لیا اورکنانہ سے قریش کوچن لیا اور قریش سے اولادہاشم کو چن لیا اورمجھے اولاد ہاشم سے چن لیا۔‘‘(صحیح مسلم)

چنانچہ آپ ﷺ کا خاندان صدق و صفا، جود وسخا، بذل و عطا، سیادت و قیادت اور فہم وفراست جیسے اوصافِ حسنہ میں اعلیٰ مقام پر فائز تھا۔ اس خاندان کے اوصافِ حمیدہ کی و جہ سے قبائل عرب اس کا احترام کرتے تھے اور اس خاندان میں سے جن لوگوں نے اسلام قبول کیا، وہ سیادت وقیادت اور کشورکشائی کے مرتبے پربھی فائز ہوئے اور انہوں نے خداداد صلاحیت سے اپنی قابلیت کا لوہا منوا یا۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت مسلمہ کو یہ درس دیا تھا کہ میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں انکو تھام لو یہ ہدایت کی ضمانت ہیں ایک اللہ کی کتاب اور دوسرے میری اہل بیت اطہار رضی اللہ عنھم۔(ابن ماجہ)

اہل بیت اطہار رضی اللہ عنھم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم دو ایسے طبقات ہیں ؛جن کی عزت، حرمت، تعظیم و تکریم کرنا بغیرکسی شک و شبہ ہر مومن کے ایمان کا حصہ ہے۔ اہل بیت اطہار رضی اللہ عنھم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی تعظیم و تکریم کا مطلقاً انکار کفرکےمترادف ہے؛ کیونکہ یہ احکامات قرآنی کا انکار ہے، قرآن مجید نے انکی تعظیم و تکریم امت مسلمہ پر واجب کی ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت نے بھی انکی تعظیم و تکریم کو لازم بتلایا ہے۔ اس لیےاہل سنت والجماعت کا متفقہ عقیدہ ہے کہ تمام انسانوں میں انبیائے کرام علیہم الصلوٰة والسلام کے بعد فضیلت میں حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی کا درجہ ہے ۔ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اگر چہ معصوم نہیں تھے؛مگر ان سے جو بھی گناہ (جانے انجانے میں ،کسی حکمت ومصلحت سے)سرزد ہوئے،اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف فرما کر تمام کو بلا تفریق اپنی رضا کا پروانہ عطا فرما یا،لہٰذا حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ذکر ہمیشہ اچھےلفظوں میں کرنا چاہے اوران کے تئیں زبان طعن دراز کرنے سے بچنا چاہیے۔

صحابہ پوری امت کےلیے باعث امن:

حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنا سر مبارک آسمان کی طرف اٹھایا ، رات کا وقت تھا، آسمان پر تارے کھلے ہوئے تھے ،آپ نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی اور آپ اکثر آسمان کی طرف سر اٹھاتے تھے، اکثرسر اٹھانا تو جبریل امین کی آمد کے انتظار میں ہوتا تھا ؛مگر اس وقت نگاہ اٹھائی تو فرمایا کہ ستارے آسمان کے لیے امن کا سبب ہیں ،آسمان کے لیے حفاظت کا سبب ہیں، جب آسمان میں ستارے چمک رہے ہیں ،آسمان محفوظ ہے، اگر ستارے چلے جائیں گے تو آسمان پر وہ حالت پیش آئے گی؛ جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔اس کا ذکر سورہ انفطار و انشقاق میں ملتاہےیعنی جب قیامت آئے گی تو سارے ستارے جھڑ جائیں گے،چاند ،سورج ٹوٹ پھوٹ جائیں گے،اور پھر آسمان بھی اسی طریقے سے ریزہ ریزہ ہوجائے گا جس طرح دھنی ہوئی روئی ہوتی ہے ۔اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ میں اپنے صحابہ کے لیے امن کا ذریعہ ہوں،جب تک میں ہوں میرے صحابہ محفوظ ہیں ،ان کی عزت اور ناموس پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا،اور جب میں چلا جاؤں گا تو میرے صحابہ پر وہ حالات آئیں گے جس سے ان کو ڈرایا گیا ہے،حضور ﷺ نے پیشین گوئی فرمائی کہ ایسے ایسے حالات اورطرح طرح کےفتنے پیش آئیں گے ۔مزیدفرمایا کہ میرے صحابہ امت کے لیے باعث حٖفاظت ہیں اور جب صحابہ نہیں رہیں گے تو میری امت پر وہ حالات آئیں گے جن کا ان سے وعدہ کیا جارہا ہے،یا جن سے ڈرایا جارہا ہے۔

غور کیجئے کہ جو حیثیت رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کے مقابلے میں اپنی قرار دی ہے وہی حیثیت صحابہ کرام ؓ کی پوری امت کے مقابلے میں بتلائی ہے۔جیسے آپ نے خود کواپنے صحابہ کے لیے امن کی پناہ گاہ بتلایا اسی طرح باقی پوری امت کے لیے صحابہ کرام کو ذریعہ امن قرار دیا ۔

سب سے بہترین زمانہ میرازمانہ ہے :

حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : میری امت کا بہترین طبقہ وہ لوگ ہیں جو کہ میرے زمانے والے ہیں ۔ پھر وہ جو ان کے بعد والے ( تابعین ) ہیں ۔ اور پھر وہ جو ان کے بعد والے ( تبع تابعین ) ہیں ۔ حضرت عمران رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے زمانے کے بعد دو زمانوں کا ذکر فرمایا یا تین کا ! ( صحیح بخاری )

صحابہ کی شان میں گستاخی :

صحابہ کرام(بہ شمول اہل بیت) کو برا بھلا کہنے والوں کے ساتھ ہمارا کیا معاملہ ہونا چاہئے؟اس سلسلہ میں خود حضورﷺ کی ہدایت موجود ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم دیکھو ان لوگوں کو جو میرے صحابہ کو برا کہتے ہیں تو یہ کہہ دو کہ اللہ کی لعنت ہو تمہارے شر پر ۔تمہارے شر یعنی تمہارے صحابہ کو برا کہنےکی وجہ سےجو تمہارا شر ہے اس پر اللہ کی لعنت ہو۔(ترمذی)

اس روایت کی شرح کرتے ہوئےمرشدالامت حضرت مفتی ابوالقاسم نعمانی ؔ مدظلہ فرماتے ہیں کہ :یاد رکھیے!کسی پر بھی نام لےکر لعنت بھیجنا شریعت میں جائز نہیں ہے۔ہمیشہ عمل کرنے والوں پر مطلق لعنت بھیجی جاتی ہے،لَعْنَتُ اللہِ عَلَی الْکاَذِبِیْنَ جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہے لَعْنَتُ اللہِ عَلَی الْفَا سِقِیْنَ ،لَعْنَتُ اللہِ عَلَی الْکَا فِرِیْنَ لعنت ہے فسق کرنےوالوں پر،لعنت ہے کفارپر وغیرہ ؛لیکن نام لے کر کہ فلاں شخص پر لعنت ہے اس سے منع کیا گیا ہے۔صحابہ کرام کو برا بھلا کہنے والا اتنا بڑا بد بخت ہے کہ مخاطب کر کے ان پر لعنت بھیجنے کو رسول اللہﷺ کہہ رہے ہیں۔یہاں دوسرا کوئی امکان ہے ہی نہیں،یقینی طورپر برا کہنے والا مستحق لعنت ہے۔صحابہ کرام ؓ کی ذوات قدسیہ اس کی ان غلط باتوں سے جو ان کی طرف منسوب کر رہا ہے با لکل پاک اور مبرا ہیں۔

ٹھوس اور مضبوط حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت :

اس سلسلہ میں نہایت ضروری ہے کہ ہمارے قائدین اور اکابرین آگےآئیں ،مل بیٹھ کر مشاورت کے بعد کوئی موثر اقدام کریں اور ہرزہ سرائیوں کے اس نہ تھمنے والے طوفان پر قد غن لگانے کی فکر کریں ۔

جوانوں کو چاہیے کہ وہ مشتعل ہوکر بے قابو ہوجانے کے بجائے صبر وتحمل کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیں اور کاروان امن وانصاف کے پلیٹ فارم سے ہونے والی قانونی کارروائیوں میں پوری مستعدی کے ساتھ حصہ لیں !

اس کے علاوہ اپنی اپنی بساط کے مطابق صحابہ کرام اور اہل بیت اطہار کی سیرت و سوانح سے اپنوں اور غیروں کو واقف کرائیں تاکہ لوگوں کو ان کے اخلاق وکردار سے واقفیت ہو اور وہ ان سازشوں کا شکار ہونے سے محفوظ رہیں ۔

اخیر میں علامہ سید سلیمان ندویؒ کے اس چشم کشا اقتباس پر بات ختم کرتےہیں ،مولانا رقم طراز ہیں :’’ مسلمانوں کی ترقی اورتنزلی، دونوں کا ایک ہی سبب ہے اوروہ ہے ان کا فوری اور وقتی جوش۔ وہ سیلاب کی مانند پہاڑ کو اپنی جگہ سے ہلا سکتے ہیں، لیکن کوہ کن کی طرح ایک ایک پتھر کو جدا کرکے راستہ صاف نہیں کرسکتے۔ وہ بجلی کے مثل ایک آن میں خرمن کو جلا سکتے ہیں، لیکن چیونٹی کی طرح ایک ایک دانہ نہیں ڈھو سکتے۔ وہ ایک مسجد کی مدافعت میں اپنا خون پانی کی طرح بہاسکتے ہیں، لیکن کسی منہدم مسجد کو دوبارہ بنانے کے لئے مستقل کوشش جاری نہیں رکھ سکتے۔ یہ ان سے ممکن تھا کہ محمد علی اورابوالکلام کے دائیں بائیں گرکر جان دیدیں؛ لیکن ا ن کے بس کی بات نہیں کہ مسلسل آئینی جدوجہد سے ان اسیران اسلام کو جیل سے چھڑا لائیں۔ ‘‘

آگے چل کر لکھتے ہیں:’’ ہماری ناکامی کا اصل سبب یہ ہے کہ ہم آندھی کی طرح آتے ہیں، اوربجلی کی طرح گذرجاتے ہیں، ہم کو دریا کے اس پانی کی مانند ہونا چاہئے جو آہستہ، آہستہ بڑھتا ہے اور سالہاسال میں کناروں کو کاٹ کر اپنا دہانہ وسیع کرتا جاتا ہے، کامیابی صرف مسلسل اور پائیدار کوشش میں ہے، ہمالیہ کی برفانی چوٹیاں آہستہ آہستہ پگھلتی ہیں، لیکن کبھی جمنا اورگنگا کو خشک ہونے نہیں دیتیں ، آسمان کا پانی ایک دو گھنٹے میں دشت وجبل کو جل تھل بنا دیتا ہے لیکن چند ہی روزمیں ہرطرف خاک اڑنے لگتی ہے۔‘‘(شذرات معارف :اکتوبر 1917)