موسم بہار ربیع الاول کی آمد اور مسلمانوں کے سیرت نبوی سے تعلق و نسبت کے تقاضے

غلام مصطفی رضوی، نوری مشن مالیگاؤں 

توحید و رسالت کی عظمتوں کے ضمن میں امتِ مسلمہ پر جو ذمہ داریاں صاحبِ ایمان ہونے کی حیثیت سے عائد ہوتی ہیں ان سے چشم پوشی نے قومی شناخت کو مجروح کیا ہے۔ جس کا تجزیہ زمانی حالات اور مشاہدات کی روشنی میں بہ آسانی کیا جا سکتا ہے۔ اس تحریر کا مقصد اسی گوشے سے اپنی قوم کے خوابیدہ جذبات کو جگانے کی فکر دینا ہے۔
نظام مسرت: ہم جس عہد میں جی رہے ہیں یہ بڑا لرزہ خیز ہے۔ مسلمانانِ عالم کرب و اضطراب سے دوچار ہیں۔ کہیں تہذیبی طور پر ہمیں مٹانے کی منصوبہ بندی ہے؛ کہیں جغرافیائی سطح پر ہماری زمیں تنگ ہے، کہیں معاشی، تمدنی و معاشرتی سطح پر ہمیں کم زور کیا جا رہا ہے، ایسے حالات کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مسلمان اپنے مذہب سے وابستگی و تعلق میں مخلصانہ جذبات کو راہ دیں تب مسرتوں کی صبح طلوع ہو گی اور حقیقی خوشیاں میسر آئیں گی؛ ایسا نظام مسرت پاکیزگی کا موجب ہے۔رسول کریم ﷺ کی ماہِ ربیع الاول میں آمد بلا شبہہ مسرت کی صبح تابندہ ہے جس کا تقاضا ہے کہ اپنے مذہب سے وابستگی کا جذبہ مزید مستحکم ہو۔
اخلاقی خوبیاں: نبوی سیرت کا اہم پہلو اخلاقی قدروں کی تکمیل ہے۔ جس عہد کے سرے پر خواتین کے حقوق کی تباہی ہو اور ان کے حقوق کی پامالی ہو وہاں اصلاحی فکر سازی کے نبوی اسلوب کی افادیت اور نکھر کر سامنے آتی ہے۔اخلاقی تعلیمات کی ترویج سے ہم نبوی تعلیمات کی روشنی پہنچا کر تاریک دلوں کو پُر نور بنا سکتے ہیں۔
پیغام عمل: ماہِ ربیع الاول کو چوں کہ نسبت رسول گرامی ﷺ کی آمد سے ہے، اس لیے تمام حقائق کا دامن ربیع کی فصلِ بہار سے جُڑا ہے، تمام عیدیں اسی عید کا صدقہ و عطیہ ہیں اور تمام اسلامی عبادات و معمولات اسی مبارک ماہ سے فیض پاتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ:
[۱] اس ماہِ مبارک کے آغاز سے ہی اپنی زندگی کی رفتار کو پاکیزگی سے مرصع کر لیں۔
[۲]امن و اخوت کی فکر دوسروں تک پہنچائیں تا کہ دنیا سے تشدد کی فکر کا خاتمہ ہو۔
[۳] اس زمانے میں جب کہ مستشرقین، مصنفین، ادبا و یورپی ناقدین، ٹی وی اینکر، صحافتی ذرائع سے منسلک بعض تنگ نظر و شدت پسند عناصر رسول گرامی ﷺ کی پاکیزہ حیات سے متعلق بے باکی و جسارت کا ارتکاب کر کے اسلا م دشمنی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، اس لیے لازم ہے کہ ماہِ ربیع النور کو پیغامِ سیرت کی ترسیل کا ذریعہ بنایا جائے۔ دلوں کی دنیا محبت رسول ﷺ کے نور سے روشن کی جائے۔جہاں محافلِ ذکر رسول سجائیں وہیں سیرت پاک کی عظمتوں کا نقش دلوں پر ثبت کر دیں۔
[۴] ذرائع ابلاغ کی منفی پالیسیوں کا جواب صحیح و درست اسلامی تعلیمات کا ابلاغ و ترسیل ہے۔ جس سے بہت سے پروپیگنڈوں کی قلعی کھل جائے گی۔
[۵] ناموسِ رسالت مآب ﷺ میں بے ادبی کو برداشت و گوارہ کر لینا قومی وجود کی تنزلی کی علامت ہے۔ اس کا ازالہ یہی ہے کہ ناموسِ رسالت ﷺکا تحفظ مقدم رکھا جائے جس کے لیے قربانیوں سے گریز نہ کیا جائے۔ گستاخی و توہین کی تمام تگ و دو کو ناکام بنا دیا جائے۔ ملکی قانون کے مو ¿ثر استعمال سے بھی گستاخوں کی گردن قانونی سطح سے ناپی جا سکتی ہے۔ اس بابت توجہ بھی چاہیے اور ٹیم بھی۔
[۶] ماہِ ربیع الاول میں تربیتی فکر پروان چڑھتی ہے، اس لیے چاہیے کہ ان پاکیزہ ایام سے تعلق کی بنیاد پر اپنے اخلاق، کردار، اطوار کی اصلاح کی جائے۔ تربیتی پہلوو ¿ں کو اجاگر کر کے قومی دھارے کو منفی راہوں سے بچایا جائے۔معاشرتی برائیوں کے خلاف صالح مہم چلائی جائے۔ شراب، جوا، غلط کاری کے مضرات سے قوم کو آگاہ کیا جائے۔جلوسِ مبارک کے توسط سے بھی اس نہج پر پیغام دیا جا سکتا ہے۔
[۷] سیرت طیبہ پر معتبرکتابوں کی توسیع و تبلیغ کی جائے۔ کتابوں کا انتخاب عصمت انبیا کے مبارک پہلوو ¿ں کے پاس و لحاظ کے ساتھ ہو۔جیسا کہ مالیگاو ¿ں اردو کتاب میلے میں نوری مشن اسٹال کا ایک اہم پہلو سیرت طیبہ پر وافر لٹریچر کی فراہمی تھا تا کہ جذبات کو صحیح رخ ملے۔
حلال کا عزم: انسانی زندگی میں خرابیوں کے پیدا ہونے کا ایک سبب رزق کے ذرائع سے غفلت و لقمہ ¿ حرام ہے۔ ماہِ ربیع النور کی ساعتیں محبوب پاک ﷺ کی آمد کے توسل سے ایسے گناہوں سے ندامت و توبہ کی نوید لاتی ہیں۔ چاہیے کہ معاشرے سے حرام کی وبا ختم کروائی جائے۔حلال کا مزاج دیا جائے۔ حلال کے ثمرات بتائے جائیں۔
تقاضوں کی تکمیل کی ممکنہ صورتیں: امتِ اجابت ہونے کے ناطے جو ذمہ داریاں ہم پر عائد ہوتی ہیں ان میں ایک یہ ہے کہ رشتوں کا پاس رکھا جائے اس لیے کہ اسی کی تعلیم پیغمبر اعظم ﷺ نے دی۔حقوق کی ادائیگی کی جائے۔ معاشرے سے حق تلفی کی وبا نے بھی کئی مسائل کو جنم دیا ہے۔ جس کا حل یہی ہے کہ اپنی ذمہ داریاں صحیح صحیح ادا کی جائیں تا کہ مسائل کا تصفیہ ہو اور ہماری سیرت سے وابستگی کا تقاضا بھی پورا ہو۔
اللہ تعالیٰ ہمیں صالح اعمال کی ادائیگی کی توفیق دے۔ محبت رسول ﷺ کے جذبات بیدار ہوں اور معاشرتی طور پر برائیوں کے سدِ باب کی عملی جہتیں تکمیل کی منزل پائیں۔ اصلاحِ احوال و اصلاحِ نفس بھی ہو
رضا نفس دشمن ہے دم میں نہ آنا
کہاں تم نے دیکھے ہیں چندرانے والے
٭٭٭