نئی دہلی(ملت ٹائمز پریس ریلیز)
سپریم کورٹ نے آج دواہم مقدمات میں اپنا تاریخ ساز فیصلہ سناتے ہوئے آسام میں غیر ملکی شہریت تنازعہ کوحل کرنے کی راہ کونہ صرف ہموار کر دیا ہے بلکہ فرقہ پرست اور متعصب عناصر کی سازشو ںکو بھی سبوتاژ کرڈالا۔سپریم کورٹ نے آج آسام ہائی کورٹ کے اس فیصلہ کوخارج کر دیا جس میں اس نے شادی شدہ خواتین کی شہریت کے لئے پنچایت سرٹیفکیٹ کو بطور ثبوت تسلیم کرنے سے انکارکر دیا ۔اس سے27لاکھ خواتین کے سر پر لٹکی غیر ملکی شہریت کی تلوار ہٹ گئی ہے۔ اس کے علاوہ عدالت نے اپنے دوسرے انتہائی اہم فیصلہ میں کہا کہ این آرسی کا استعمال صرف ملکی اور غیر ملکی کی نشاندہی کے لئے ہے ،اس میں اصل مقیم کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ این آ ر سی ملکی اور غیر ملکی کی شناخت کے لئے بنایا گیا ہے ۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ پرخوشی کا اظہار کرتے ہوئے جمعیة علما ءہندکے صدر مولانا سید ارشدمدنی نے کہا کہ انہیںاپنی جماعتی زندگی میں اتنی خوشی پہلے کسی چیز پر نہیں ہوئی جتنی کہ آج سپریم کورٹ کے آسام سے متعلق اس فیصلہ پر ہوئی ہے۔ واضح ہو کہ ان دونوں ہی معاملوں میں جمعیة علما ہند بھی بطور مداخلت کار ایک فریق تھی ۔
جسٹس رنجن گوگوئی اور جسٹس روہنٹن نریمن کی دو رکنی بنچ نے آج آسام سے متعلق محفوظ دو انتہائی اہم مقدموں کا فیصلہ سنایا ۔ان میں پہلا مقدمہ پنچایت سرٹیفکٹ دوسرا اصل مقیم (Original in Habitant ) کے تعلق سے تھا۔ سپریم کورٹ نے پنچایت سرٹیفکیٹ کو شہریت کا ثبوت تسلیم کرنے سے انکار کرنے والے آسام ہائی کورٹ کے فیصلے کو خارج کردیا اور پنچایت سرٹیفکیٹ کو بحال کرنے کی راہ صاف کر دی ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میںاستغاثہ کے وکلاءکی دلیل مان لی اور آسام ہائی کورٹ کے آرڈر کو خارج کردیا ۔عدالت نے یہ کہا کہ پنچائت سرٹیفکٹ میں جس مواد کا اندراج ہے اگرشبہہ ہو تو دوبارہ چیک کرلیا جائے لیکن اس کے باوجود پنچائت سرٹیفکٹ باضابطہ طور پر تسلیم شدہ ہے۔عدالت کے اس فیصلے کے بعد تقریبا27لاکھ شادی شدہ خواتین کے سر پرلٹک رہی غیر ملکی شہریت کی تلوار ہٹ گئی۔واضح ہو کہ آسام ہائی کورٹ کا یہ کہنا تھا کہ گرام پنچائت کاسرٹیفکٹ این آر سی کے لئے قابل قبول نہیں ہے ۔ آسام ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے بعد وہاں 27لاکھ عورتوں کی شہریت مشکوک ہوگئی تھی۔ سپریم کورٹ میں جمعیةعلماءہند ، آمسو، اور خواتین کی دیگر تنظیموں کی جانب سے آسام ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف کئی اپیلیں داخل کی گئی تھیں۔ فضل ایوبی ایڈوکیٹ ذریعے دائر ان اپیلوں میں یہ کہا گیا تھا کہ پنچائت سرٹیکٹ کا قانونی درجہ تمام بحث مباحثہ کے بعد آسام حکومت نے منظورکیا تھا جس کو مرکزی حکومت کی تائید بھی حاصل تھی اور اسے رجسٹرار جنرل آف انڈیا نے نافذ کیا تھا ل۔ اس سرٹیفکٹ کو ہائی کورٹ کو خارج نہیں کرنا چاہئے تھا کیونکہ وہ نافذ ہوچکا تھا اور 47لاکھ خواتین نے سرکارپر بھروسہ کرکے اس پنچائت سرٹیفکیٹ کو حاصل کرکے داخل کیا تھا ۔سپریم کورٹ میں جمعیةعلماءہند کی طرف سے سینئر وکلا ءنے بحث میں حصہ لیاجن میںکپل سبل ، سلمان خورشید ، سنجے ہیگڑے اور وویک کمارتنخواہ وغیرہ شامل تھے ۔
بنچ نے دوسرے اہم فیصلہ اصل مقیم معاملے میں سنایا جواس نے دو روز قبل ہی محفوظ کیا تھا۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ این آرسی اصل مقیم کی نشاندہی اور شناخت کے لے نہیں بنایا گیا ہے بلکہ ملکی اور غیر ملکی کی شناخت کے لئے بنایا گیا ہے لہذاکوئی آسام کا رہنے والا ہو یا ملک کے کسی اورحصہ کا رہنے والا ہوںوہ این آرسی کی نگاہ میں برابرہے ۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ این آرسی کا استعمال صرف ملکی اور غیر ملکی کی نشاندہی کے لئے ہے۔ اس سے اصل مقیم کی کوئی اہمیت نہیں ہے اس فیصلے کے ساتھ سپریم کورٹ نے یہ بحث ختم کردی کہ مول باشندہ ( Original in Habitant)اور عام ملکی برابرنہیں ہیں بلکہ دونوں ایک جیسے ہیں ۔اس فیصلے کے آجانے سے این آرسی میں جو گربڑی کا اندیشہ تھا وہ ختم ہوگیا ہے ۔اس معاملے میں جمعیة علما ہند کی جانب سے فضل ایوبی نے اپیل دائرکی تھی۔ اس مقدمے کی بحث میں جمعیةعلماءہند کی طرف سے کپل سبل ، سلمان خورشید ،اور سنجے ہیگڑے ، اندراجے سنگھ وغیرہ نے مکمل بحث کی تھی ۔
جمعیةعلماءہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی جوان دنوں غیر ملکی دورہ پر ہیں ، موبائل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ سپریم کورٹ کے ان دونوں اہم فیصلوں کا خیر مقدم کرتے ہیں ۔انہوں نے سپریم کورٹ کو اس بات کے لئے مبارکباد پیش کی کہ سپریم کورٹ نے دستورکی روشنی میں قانون کی بہت ہی مناسب اور صحیح وضاحت کی ہے ۔ ا س کی وجہ سے جواندیشے کے بادل تھے وہ چھٹ گئے۔آسام میں بد انتظامی اور تعصبانہ روش میں اضافہ کو جو خدشہ پیدا ہونے لگا تھا،اس سے بھی نجات مل گئی ۔عدالت کے اس فیصلہ کا فائدہ سماج میں رہنے والے ہرشخص کو پہنچے گا۔ مولانا مدنی نے کہا کہ انہیں اپنی جماعتی زندگی میں اتنی خوشی کسی چیز پر نہیں ہوئی جتنی آج سپریم کورٹ کے آسام کے سلسلہ میںدئے گئے فیصلہ پر ہوئی ہے۔ جمعیةعلماءہند اور اس کے خدام سماج کی 27لاکھ بے سہارا عورتوں کے لےے سہا را بن گئے، یہ اتنی بڑی سعادت ہے جس کو ہم اپنے لئے نجات کا ذریعہ سمجھتے ہیں ۔نفرت اور تعصب کے سیاست کے اس دورمیں جہاں اس طرح کے مسائل کھڑاکرنے والے لوگ ہیں سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ بتاتاہے کہ آگ پر پانی ڈالنے والے لوگ بھی موجودہیں ۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ در اصل انصاف کی جیت ہے۔ امید ہے کہ ا س فیصلے کے بعد ہمارے ملک اور خاص طور سے آسام میں پیارومحبت اورامن وآشتی کا دیپ جلے گا۔علاوہ ازیں اس فیصلہ سے عام لوگوں کا عدلیہ میں اعتماد اور بڑھا ہے۔اس کے لےے ہمارے وکلاءبھی قابل مبارک بادہیں جنہوں نے اس مقدمہ کو بڑی محنت اورنظم کے ساتھ لڑا ہے۔ جمعیةعلماءصوبہ آسام کے صدرمولانا مشتاق عنفر نے بھی فیصلہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ آسام کے عوام اور انصاف کی جیت ہے ۔