عصرِ حاضر کا بڑا المیہ ادیان و مذاہب سے دوری

رضاءاللہ قاسمی

خادم جامعہ اشاعت العلوم – کرہوا، کلیانپور، سمستی پور (بہار)
یوں تو دنیا کی آبادکاری کے فوراً بعد ہی سے توحید و تفرید، معرفتِ الہٰی، مشیتِ ایزدی اور الحاد وکفر کی حقیقت و عدمِ حقیقت کی کشمکش عارف بااللہ، و معتصم باالادیان ،اور وقت کے دیگر دانشوران قوم کے مابین جاری رہی ہے، کوئی ایک خدا کی پرستش کے وجوب کو مدلل ثابت کرتا ، تو کوئی تعدد آلہہ ، اور معبودانِ باطل کے آگے سجدہ ریز ہونے کی دعوت دیتا ،مگر کبھی ایسا نہ ہوا کہ کوئی قوم تمام ادیان سے بیزار ہوگئی ہو ،اور نہ ہی کسی کی ہمت ہوسکی کہ تمام ادیان و مذاھب کو باطل ،عقلی فکر ، اور خیالی بات کہ کر عدمِ وجودِ باری تعالی(اللہ کچھ نہیں ہے نعوذباللہ) کا قائل ہو گیا ہو ،
مگر مغربی تہذیب اور اسکے سایہ میں جی رہی ایک دنیا انکارِ آلہہ،لامذھبیت و لا دینیت،اور نظامِ کائنات کے کسی خاص عرضیاتی و فلکیاتی سسٹم پر رواں دواں ہونے کی معترف ہوچکی ہے ،وہ یہ بات بروقت و برملا کہتے ہوئے کبھی نہیں چوکتی،عوام کو بے زبان گلہ اور جانور کی ریوڑ کی طرح ذہنی ارتداد کے خطرے میں ڈال کر اسے ارتقائے کائنات کے لیے نقطہ انقلاب مانتی ہے ،یہ وہ تہذیب ہے جسکا شیوہ غارتگری اور آدم دری ، جسکا مشغلہ مقصدِ تجارت اور سوداگری کےسواکچھ نہيں ہے ،اس تہذیب میں عقل کا نفع اور دل کا زیاں ہے ۔
دراصل یہ سب کچھ اس پیشینگوئی کا ظہور ہے جس کا پتہ آیاتِ قرآنی کا ایک اسلوب دیتا ہے ۔۔۔
قال تعالیٰ: ﷽:ان فی خلق السموات والارض واختلاف اللیل والنہار والفلک التی تجری فی البحر بما ینفع الناس:الخ
ترجمہ: یقیناً آسمان و زمین کی تخلیق میں ،رات اور دن کے الٹ پھیر میں،اور ان کشتیوں میں جو سمندر میں لوگوں کے لئے نفع بخش سامان لیکر چلتی ہیں اور اس پانی میں جوکہ اللہ نے آسمان سے اتارا پھر اس سے زندگی بخشی زمین کو اس کے مردہ ہوجانے کے بعد، اور ہرقسم کے حیوانات اس کے اندر پھیلا دئيے، اور ہواؤں کی گردش میں، اور ان بادلوں میں جو معلق کردئیے گئے ہیں آسمانوں اور زمینوں کے درمیان، یقیناً نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو عقل سے کام لیں۔ (بیان القرآن) :
اسمیں قابلِ غور بات یہ ہے کہ درج بالا آیت کا زمانۂ نزول الحاد و کفر اور شرک پرستی کا تھا نہ کہ انکارِ آلہہ، اور دھریت کا، اس اعتبار سے سابقہ آیت۔۔الہٰکم الہٰ واحد۔۔ نفی تعدد الہہ اور اثبات وحدہ لاشریک کےلئے کافی تھی،کیونکہ نزولِ وحی کے معاشرہ اور ماحول میں انکارِ خدا اور گردش ایام کے عرضیاتی و فلکیاتی سسٹم پر چلنے کا تصور ہی نہ تھا ،باوجود اس کے قرآن کریم کا یہ کہنا کہ ہے کوئی ذات جو نظامِ کائنات اور گردشِ ایام کو کنٹرول کئے ہوئی ہے اس بات کی طرف صاف اورواضح اشارہ ہے کہ مستقبل میں متجدد مزاج انکارِ خدا کی لاعلاج بیماری کے شکار ہو جائینگے جسکی تردیدی معالجہ کی خاطر اللہ تعالی نے نبی آخرالزماںﷺ پر راز کھول کر دھریوں اور منکر خدا کے منہ پرایک زوردار خاموش طمانچہ رسید کیا ہے ۔۔۔
گذشتہ دوتین صدی قبل مغلوبیت و مرعوبیت میں جی رہے اہلِ مغرب کو یہ احساس ہوا کہ اگر اسلام کو مات دینا ہے اور اپنی زوال پذیر قوم کو ترقی درجات اور مفادِ عزیز سے سرفراز کرنا ہے تو تمام ادیان و مذاہب کو نشانہ بناکر اسکا بے سود اور بے فائدہ ہونا عملاً واضح کیا جائے ، اور پس پردہ فواحش و منکرات سے آلود تعلیم کو فروغ دیکر مذاہب کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ ثابت کیا جائے ،اسکی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ اپنے مذہبی راہنما چرچ کے کلی اختیارات اور جاگیرداروں کےغیرمعمولی ظلم و استبداد اور استحصال کے چلتے مذہب سے ازحد نفرت ہوچکی تھی۔ چنانچہ وہ اپنے مذہبی پیشواؤں اور جاگیرداروں کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا ،اور اپنی آواز کو مزید تقویت بخشنے کیلئے علاج بالضد کے طور پر مطلق آزادی انسانیت کی بشارت دی ۔
ٹھیک اسی پیمانہ سے جس سے اپنے مذہب اور اربابِ مذہب پوپ و پطرس کی پیمائش کی تھی اسلام کی بھی پیمائش کی اور کررہے ہیں ، انکے مطابق اسلام بھی ایک خیالی مذہب ہے اور مذہب راہِ ترقی میں رکاوٹیں پیدا کرتا ہے ساتھ ہی اس جھوٹ اس مظلوم قوم نے اتنا اچھالا کہ بعد کی نسل اسے حقیقت ماننے پر مجبور ہو گئی، اور اگر کسی نے نہ مانا تو اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی،یہاں سے اہلِ مغرب کی ترقی کے ستارے نمایاں ہوتے چلے گئے ،اور تجدد کاایسا بھوت سوار ہواکہ ہر آئے دن کچھ نیا کرنے کا جذبہ ابھرتا اور تداعیات پیدا ہوتی گئیں ،
تسلیمِ حق کی بناپر یہ کہنا اور ماننا پڑیگا کہ وہ بڑا شاطر، عالی دماغ ،روشن کردار کے حامل بلندی کائنات کو چھو کر بڑی ہی جلدی اپنی کامیاب ترقی کی آمد تاریخ کے سنہرے پنوں میں درج کرائی ،ارتقاء کے اس عالمگیر قانون کا آئینہ بھی دنیا کو دکھایا اور اس سے بھی مشاھدتا روشناس کرایا جس کا تذکرہ قرآن کریم نے کیا ہے۔
لیکن اس علم و فنون کی ترقیاتی دور میں تجدد بے انتہا ارتقاء پذیر ہوتی جارہی ہے جس سے انسانیت ادیان و مذاہب اور خالقِ ادیان و مذاہب کی شناسائی سے محروم اور معرفتِ خداوندی سے کوسوں دور ہوتی جارہی ہے ،یہیں تک بس نہیں بلکہ اس سے بھی آگے معاشرے کے ہر وہ مراسم جسکا مذہب پابند بناتا ہے اس سے نفرت، بددلی ،کراہیت، اور انسانیت کے لئے جبر و قید تصور کیا جاتا ہے، اسکی تازہ ترین مثال وقت کا حساس مسئلہ طلاق ثلاثہ ہے ، جسکو مسلم نما برقعہ پوش خواتین آڑے ہاتھوں لیکر براہ راست مذہب سے پنگا رہے نفرت کے سوداگروں کے ساتھ قدم سے قدم اور شانہ بشانہ ہوکر مذھب بیزاری کا ثبوت فراہم کر رہی ہیں ، یہ وقت کا ایسا فتنہ گر عمل ہے جس کی تردید جامہ تحدید میں رہ کر نہ تو دی جا سکتی ہے اور نہ ہی سمجھایا جا سکتا ہے ،اس موقع پر اس جواب کو سن کر درس عبرت لینا چاہیے جو ایک خاتون نے لوک سبھا سے طلاق ثلاثہ بل پاس ہونے کے بعد یہ کہے جانے پر کہ حکومت مسلم پرسنل لا بورڈ سے سزا کے معاملے میں مشورہ کیوں نہیں لیا، تب ایک خاتون نے کہا کہ کیا چور سے چوری کی، اور زانی سے زنا کی سزا پوچھ کر دی جاتی ہے؟ اگر نہیں تو ان ملاوں سے مشورہ کیوں کیا جائے۔کیا یہ ممکن تھا کہ وہ تعلیم یافتہ مسلم خواتین جسے اسلام نے گھر کی زینت،آنکھوں کا سکون، و دل کا سرور اور باپ کیلئے سترامن النارکی بشارت قرار دیا اپنے راہنماؤں کے خلاف ایسے بے مہار الفاظ کا استعمال خود بھی کرتی اور غیروں سے بھی سرعام کرواتی؟ ہاں اب جدید ترین تعلیم یافتہ خواتین کے لئے ممکن ہے ،یہ سب اس جدید تعلیم کا نتیجہ ہے جس کے ذریعے لامذھبیت و لادینیت کوفروغ دیا جاتا ہے، اس تعلیم کو فروغ دینے میں اس ترقی یافتہ ملک (جو در حقیقت انحطاط کی شاہراہِ پر گامزن ہے)سے ہمارا ملک بھی پیچھے نہ رہا جس کے بارے میں برسوں کہا جاتا ہے کہ ہندوستان میں جدید سائنس اور ٹیکنالوجی سے صرفِ نظر کرکے دھارمک گیان اور مذھبی تعلیم پھلتی پھولتی ہے ۔۔
لیکن اب یہاں بھی دھرم گروں، مذہبی پیشوائوں کی کوئی قدر و قیمت نہ رہی ، خفیة یہاں بھی اس کے روک تھام کی کوششیں جاری ہے ، اسکا جیتا جاگتا ثبوت PKفلم ہے جس سے عوام میں ایک خاص طور پر مذھبی منافرت کا پیغام دیکر مذھب سے جڑے ہوئے عقیدت و محبت کا جنازہ نکالا ،اور راہنماؤں کے اقوال و افعال کو بےوقعت کرنے کے لیے رانگ نمبر سے تعبیر کرنے کی اصطلاح دیدی۔۔یہاں ایک سوال ہو سکتا ہے اور بعض احباب نے ناشناسی میں کیا بھی کہ اس میں تو مذاھب غیر کا استہزا ہے ،ایک جواب تو یہ کہ میرا روئے سخن مطلق مذھب کی طرف ہے، دوسرا یہ کہ اسلام کو بھی اپنے نرغے میں لیا ہے مگر قدرے قلیل ۔۔۔
بہرحال لیا تو سہی، پہلے ایک سونچی سمجھی سازش کے تحت مذاھب اور اربابِ مذاہب سے عقیدت و احترام کو ختم کراکر مذھبی روک تھام کی ابتدا اس گروہ سے کی جسکو اسلام نے ھن ناقصات العقل کہا ہے، برطانیہ کے مشہور ماہرِ سائنس نے بھی اسکا اعتراف کیا،اور کہا کہ خواتین کا کسی بھی میدان میں مردوں کے ہمراہ کام کرنا ناقص العقل ہونے کی وجہ سے عدم ترقی کا باعث بن سکتا ہے، اس سے عورت پرستی بھی پروان چڑھتی ہے ۔۔
الغرض ہندوستان میں بھی لادینیت کا زور پکڑ لیا ہے پورا کا پورا معاشرہ بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہے ،اور موجودہ سائنس کو من و عن قبول کر نے کا داعیہ کرنے کا داعیہ پیدا ہو گیا ہے ، یہ بھی اس جدید تعلیم ہی سے متاثر ہونے کا اثر ہیکہ دھرم گرو کہے جانے والے دھرم کا چولہ پہن کر بھی جدید سائنس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور سبھی مذھبی مقامات سے لاؤڈ اسپیکر ہٹانے کا حکمنامہ جاری کر دیا،اور دوسری طرف حماقت کے اعلیٰ درجہ پر فائر ہوکر فلم ہال میں بھی قومی گیت جن من گن کو لازم قرار دیا گیا ، اسکے فوائد و نقائص کیا ہے ؟ مجھے کوئی بحث نہیں، یہ تو مستقبل قریب میں ہی صاف ہوجائیگا ،پراس سے مذھبی بیزاری کا کچھ تو پیغام ملتا ہے، کوئی بھی پیغام بلا واسطہ انسانیت کے سر کوئی تھوپ نہیں سکتا، پہلے کسی خاص مشن اور پروگرام کے تحت رفتہ رفتہ ذہنوں میں بٹھا دیا جاتا ہے، پھر ازخود ہی نفرت نہیں تو توجہ ضرور ہٹتی چلی جاتی ہے ۔۔۔
اب تو قومِ مسلم بھی مغربی تقليد اور تعلیمِ لادینیت کے بندے ہوکر لکیر کے فقیر ہوچکے ہیں ،وہ نعرۂ مستانہ ،ادائے قلندرانہ اور جرآت پیغمبرانہ سے محروم ہو گئے ہیں ۔۔اسلئے اب ضروری ہے کہ علومِ جدیدہ کے آہن کو اپنے ایمان و یقین کی گرمی سے پگھلا کر اپنی تہذیب کے سانچے میں ڈھالیں