حج سبسڈی : کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے

مولانا سید آصف ملی ندوی
حج دین اسلام کا وہ مقدس فریضہ ہے جس کی ادائیگی کی آرزو ہر مسلمان کے دل میں ہمہ وقت انگڑائیاں لیتی رہتی ہے ، ہر مسلمان خواہ وہ امیر ہو یا غریب،خوشحال ہو یا تباہ حال ، وہ یہ چاہتا ہے کہ کسی طرح دیار حرم پہنچ کرتجلیات ربانی کے مظہر و مرکزاور بالکل ہی سادہ سے چوکور مکان خانۂ کعبہ پر اپنے خالق و مالک رب ذوالجلال کی ہمہ وقت برستی ہوئی تجلیات و انوارات کا مشاہدہ کرکے اپنے دل و نگاہ کو شاد کام کر آئے۔ اور مدینہ پہنچ کر سرور کائنات فخر موجودات نبی رحمت رسالت مآب ﷺ کی بارگاہ اقدس میں باادب کھڑے ہوکر درود و سلام کی سوغات پیش کرنے کے بعداس دور بداقبالی میں اپنی اور پوری امت مسلمہ کی بے وزنی اور زبوں حالی کا دکھڑا سناکر پھر سے اسلام اور مسلمانان عالم کی عظمت رفتہ کی بازیافت کیلئے دعائیں کرے۔ یہ وہ جذبہ ¿ اشتیاق ہے جس کی تسکین کی خاطر وہ بہت پہلے سے آمد ورفت کے اخراجات اور زادسفر کے لئے پس انداز کرنا شرو ع کردیتے ہیں ۔ پہلے پہل یہ سفر پیدل یا اونٹ اور گھوڑوں کی سواری سے کیا جاتا تھا، رفتہ رفتہ یہ سفرسمندری راستوں سے بحری جہازوں کے ذریعے بھی کیا جانے لگا، سمندری راستے کا یہ سفر اگرچہ خطرات و صعوبتوں سے پُر ہوتا تھا ، تاہم معاشی طور پر کمزور اور متوسط طبقے کے افراد کے لئے اس سے فریضۂ حج کی ادائیگی بہت آسانی سے ہوجایا کرتی تھی، لیکن حکومت نے اب سے۳۲ سال قبل ۵۹۹۱ میں بحری راستے سے حجاز مقدس پہنچنے کے اس سستے اور آسان سفر کو ختم کرکے عازمین کرام کو ہوائی جہاز سے سفر لازمی قراردے دیا ۔ لیکن چونکہ بحری راستے کی بنسبت ہوائی جہاز کا سفر کافی مہنگا ہوتا ہے اس لئے حکومت ہند نے اپنے ایک فیصلے کے ذریعے عازمین کے آمد ورفت کے کرایوں پر سبسڈی دینے کا اعلان کیا لیکن ساتھ ہی اس سفر کو ایئر انڈیا کے ساتھ مشروط کردیا، یہ سبسڈی حکومت ہند کی جانب سے حجاج کرام کے لئے انڈین ائرلائنس کے اکاؤنٹ میں جمع کی جاتی رہی، اس سبسڈی کی حیثیت محض ایک طفل تسلی اور Lollipop کی رہی ہے ، جس کا براہ راست فائدہ صرف حکومت ہند کی ملکیت انڈین ائرلائنس کو ہوتا رہا ہے۔ دراصل حکومت ہند نے عازمین حج کو سبسڈی دے کر انہیں آمد و رفت کے لئے انڈین ائرلائنس کا پابند کردیا، اورانڈین ائرلائنس ایام حج کے دوران دیگر ہوائی کمپنیوں کے مقابلہ اپنے کرایوں میںکئی گنا اضافہ کرکے عازمین حج کوبے تحاشا لوٹتی رہی ہے، عازمین حج کو حکومت ہند کی طرف سے طئے شدہ ایئرلائنس کے ذریعے سفر کا پابند کرنا، اور پھر مکہ و مدینہ میں عازمین کے قیام وطعام کا ناقص اور غیر معیاری انتظام ، ایک ایک روم میں مختلف اجنبی و غیر محرم فیملیوں کو ٹہرانا، یہ سب وہ باتیں ہیں جن سے صاف عیاں ہوتا ہے کہ حکومت ہند عازمین کرام کو حج سبسڈی( مالی امداد) یا دیگر سہولیات دینے کے معاملے میں کبھی بھی مخلص یا ایماندار نہیں رہی ہے ، بلکہ وہ تو اس سبسڈی اور دیگر سہولیات کے لولی پوپ کے ذریعے خسارے میں چل رہی ایئر انڈیا کووافر مقدار میں نفع بخش وسائل فراہم کرکے مضبوط سے مضبوط تربناتی رہی اور ساتھ ہی ساتھ اپنا ووٹ بینک بھی مضبوط کرتی رہی ہے ۔ اگر حکومت ہند اس سبسڈی کے دینے میں مخلص یا ایماندار ہوتی تو وہ اس مالی امداد کو انڈین ایئرلائنس کے کھاتے میں جمع کرنے کے بجائے حج کمیٹی اوف انڈیا کے کھاتے میں یا براہ راست عازمین حج کے کھاتے میں ڈال کر انہیں اختیار دیتی کہ وہ جس ایئرلائنس سے چاہے سفر کریں ۔
حکومت ہند کی ووٹ بینک کی اسی پالیسی اور سبسڈی کے نام سے ڈبہ بند تحفہ میں مخفی اس کی اس بدنیتی کے پیش نظر متعدد سیاسی جماعتیں اور وطن عزیز کے مختلف اصحاب بصیرت، سیاسی ماہرین اور تجربہ کار دانشوران متعدد مرتبہ اس سبسڈی کو ختم کرانے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں، لیکن حکومت ہمیشہ سنی ان سنی کرتی رہی ۔ ادہر گذشتہ کئی سالوں سے مسلم مخالف شرپسند اور فرقہ پرست عناصر اور موجودہ زعفرانی حکومت کے کارندوں نے بھی اس برائے نام سبسڈی کو ہندو ووٹروں کو خوش اور راغب کرنے کے لئے ایک زبردست سیاسی ہتھکنڈہ بنالیا ، اور بڑی شدت سے یہ مطالبہ شروع کردیا کہ حج سبسڈی کے نام سے مسلمانوں کو دی جانے والی سرکاری امداد ختم کردی جائے ۔ جب کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ وطن عزیز میں مسلمانوں کی دی جانے والی اس برائے نام حج سبسڈی سے کئی گنا زیادہ مالی امداد ومراعات کمبھ کے میلے اور امرناتھ یاترا میں شرکت کرنے والے زائرین کو دی جاتی ہے ، لیکن اسلام دشمن عناصر اور ان کے زرخرید میڈیا کو صرف حج سبسڈی ہی کھٹکتی رہتی ہے۔ چنانچہ سال ۲۱۰۲ میں سپریم کورٹ نے حکومت کو ہدایت دی تھی کہ ۲۲۰۲ تک بتدریج مرحلہ وار حج سبسڈی ختم کردی جائے اور اس سے بچنے والی تقریباً ۰۵۶ کروڑ روپئے سالانہ کی رقم مسلم اقلیت کی تعلیمی ترقی اور سماجی فلاح و بہبود پر خرچ کرے۔
گذشتہ کل ۶۱ جنوری ۸۱۰۲ کو وزیر برائے اقلیتی امور مختار عباس نقوی نے سپریم کورٹ کی اسی ہدایت کا حوالہ دیتے ہوئے حکومت کی جانب سے عازمین حج کو دی جانے والی اس برائے نام سبسڈی کے بالکلیہ ختم کرنے کا اعلان کیا ، اور ساتھ ہی یہ وضاحت بھی کی کہ اس سے حکومت کو سالانہ سات سو پچاس کروڑ روپئے کی بچت ہوگی جس کا استعمال اقلیتوں کی فلاح وبہبود اور بالخصوص لڑکیوں کی تعلیم پر کیا جائیگا۔
اچھا ہی ہوا کہ اس سبسڈی کو ختم کردیا گیا، تاہم سپریم کورٹ کی جانب سے مقرر کردہ ڈیڈلائن سے پہلے ہی حکومت کا اس پر عمل کرلینا ہمیں بہت سارے شکوک وشبہات میں مبتلا کردیتا ہے اور یہ کہنے پر مجبور کردیتا ہے کہ :
بے خودی بے سبب نہیں غالب کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
بہرحال ہمیں حکومت کے اس فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں ہے ، لیکن ہم یہ ضرور کہنا چاہینگے کہ اب جبکہ حکومت نے حج سبسڈی ختم کردی ہے تو اسے چاہئے کہ وہ عازمین کرام کے لئے ایئر انڈیا یا سعودی ایئر لائنس سے آمد ورفت کی شرط اور بندش کو بھی ختم کردے ۔ اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ حج کمیٹی کی جانب سے آمد ورفت کے حوالے سے انٹرنیشنل ٹینڈرنگ ہو جس سے ان گنت ہوائی کمپنیاں کم قیمت پر دستیاب ہوجائیں گی۔ حال ہی میں مکة المکرمہ میں حکومت ہند اور سعودی حکومت کے درمیان نئے حج معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں جس میں وطن عزیز بھارت سے عازمین حج کے سمندری راستے سے حجاز مقدس جانے پر اتفاق کیا گیا ہے ، حکومت سمندری راستے سے عازمین کی روانگی کی راہ جلد ہموار کرے اس سے نہ صرف ان کے اخراجات کا اچھا خاصا بار ہلکا ہوجائے گا بلکہ ہوائی جہاز سے سفر پر قدرت نہ رکھنے والے بہت سارے غریب و متوسط طبقے کے افراد بھی حج کے لئے رخت سفر باندھ لینگے ۔ حج چونکہ مسلمانوں کا ایک عظیم الشان دینی فریضہ اور مذہبی معاملہ ہے اس لئے وہ اس معاملے کو مسلمانوں ہی کی صواب دید پر چھوڑ دے اور اس میں کسی بھی طرح کی کوئی مداخلت ہی نہ کریں۔ وزیر اقلیتی امور مختار عباس نقوی نے اس سبسڈی کے خاتمے کے اعلان کے ساتھ جو اس بات کا وعدہ کیا ہے کہ حکومت بچے ہوئے سالانہ سات سو پچاس کروڑ روپئے اقلیتوں کی فلاح وبہبود اور بالخصوص مسلمان لڑکیوں کی تعلیم پر صرف کرےگی۔وہ اپنے اس وعدے پر عمل در آمدکو یقینی بنائے ۔
syed_aasif@ yahoo.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں