تین طلاق پر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے اپنایا نرم رویہ۔ فقہا سے اجتہاد کرنے کی گزاش،حالات کے پیش نظر دوسرے مسلک کو اختیار کرنے کا مشورہ

نئی دہلی۔23زجنوری(ملت ٹائمز

سپریم کورٹ میں تین طلاق کے معاملے میں مقدمہ ہارنے کے بعد مسلم پرسنل لا بورڈ بظاہر دبائو میں ہے ۔ اگرچہ اس نے عدالت کے فیصلے اور مودی سرکار کے طلاق بل کے مضمرات اور مسلم سماج پر اس کے بداثرات نیز اس کے شریعت مخالف ہونے کے تعلق سے ملک گیر بیداری مہم چھیڑ رکھی ہے، لیکن بعض حلقوں نے اس بات پر افسوس ظاہر کیا ہے کہ بورڈ نے ایک ساتھ تین طلاق کے معاملے پر شدت کا رویہ اختیار کر کے سپریم کورٹ اور سرکار کو بالواسطہ طور پر مداخلت کا راستہ فراہم کردیا۔ اگر اس وقت تھوڑی سی لچک پیدا کرلی جاتی اور کوئی درمیانی راستہ اختیار کرنے پر غور کر کے عدالت کو ا س سے آگاہ کرایا جاتا تو ممکن ہے فیصلہ وہ ہوتا جس کی ملت توقع کر رہی تھی۔ اب ایسا لگتا ہے کہ بورڈ کی قیادت کو اس کا احساس ہوگیا ہے۔ اسلامی فقہ اکیڈمی کے ممبئی اجلاس میں فقیہہ ملت حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے اس مسئلے کو اٹھایا تھا، مگر اکثریت نے اس کی مخالف کی تھی۔ اس کے بعد حضرت نے گزشتہ جمعہ کو اپنے ایک مضمون میں جو مختلف اخبارات میں شائع ہوا۔ طلاق جیسے مسائل پر اجتہاد کا راستہ اختیار کرنے پر زور دیا۔ اس میں انہوں نے اس کے حق میں دلائل پیش کیے ہیں کہ حالات کے مد نظر شرعی احکامات پر غور و خوض کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے حالانکہ یہ بھی لکھا ہے کہ جن مسائل کے بارے میں صحابہ اور ائمہ متبعین اور سلف صالحین کا اجماع ہو، ان میں کسی تبدیلی کو قبول نہیں کیا سکتا، کیونکہ یہ دین کے حدود اربعہ ہیں۔ جیسے تعدد ازدواج کی ممانعت کو قبول نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ یہ خود قرآن مجید سے ثابت ہے۔ طلاق کا حق مرد کو حاصل ہے، اس کے خلاف کوئی بات قابل قبول نہیں ہوسکتی، کیونکہ خود قرآن مجید سے اس کا ثبوت ہے۔اس کے مقابلے کچھ مسائل اجتہادی نوعیت کے ہیں۔ اس لیے کہ قرآن مجید میں جو تعبیر اختیار کی گئی ہے، ایک سے زیادہ معنی کی گنجائش ہے۔ یہ اس لیے کہ اس سلسلے میں حدیثیں بظاہر متعارض ہیں یا ان کے بارے میں صحابہ کے درمیان اختلاف رائے رہا ہے۔ یا اس لیے کہ اس میں قیاس کی دو مختلف جہتیں پائی جاتی ہیں۔ کسی مسئلے کے اجتہادی ہونے کی واضح علامت یہ ہے کہ ائمہ مجتہدین کے درمیان اختلاف رائے پایا جاتا ہو۔

مولانا رحمانی کا مکمل مضمون پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں جس میں انہوں نے یہ بات کہی ہے

مولانا خالد سیف اللہ نے اپنے مضمون میں مزید لکھا ہے  علماء کو امت کے لئے راہ نجات تلاش کرنی چاہئے۔ یعنی طلاق کی جن صورتوں میں ایک مسلک فقہی کے مطابق طلاق واقع ہوجاتی ہے، دوسرے مسلک فقہی کے مطابق طلاق نہیں ہوتی اور دونوں کے پاس دلیل شروعی موجود ہے۔ ترجیح دینے میں اختلاف واقع ہوا ہے اور کسی خاص مسئلہ میں اگر دوسرے مسلک فقہی کو قبول کرلیا جائے تو طلاق واقع ہونے کا تناسب کم ہوسکتا ہے، تو ان صورتوں میں اس دوسرے نقطہ نظر کو قبول کرلیا جائے۔ یہ دین سے بے دینی کی طرف سفر نہیں ہے، بلکہ شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے حالات کے تحت ایک نقطہ نظرکے بجائے دوسرے نقطہ نظر کو اختیار کرنا ہے، تاکہ جزوی طور پر چاہے ہم ایک مسلک سے عارضی طور پر باہر نکل آئیں، لیکن شریعت کے دائرہ سے باہر نہ جائیں اور علما و فقہا کا یہ عمل اپنی خواہش نفس کی اتباع اوراپنے مفاد کے لئے نہیں ہوگا۔ کیونکہ اس سے خود ان کا کوئی مفاد متعلق نہیں ہے، بلکہ یہ امت کے لئے سہولت پیدا کرنے کی غرض سے ہوگا ، جو اس دین کا مزاج ہے اور جس پر خود رسول اللہ کا عمل رہا ہے۔

انہوں نے آگے لکھا کہ ہر دور میں فقہا اپنے زمانے کے احوال کے حساب سے بعض مسائل میں اس طریقے کو استعمال کرتے رہے۔ احناف کے یہاں بلخ و خوارزم کے علما کا بہت سے مسائل میں اپنے مسلک کے مشہور نقطہ نظر سے اختلاف معروف ہے۔ خود ہندوستان میں مسلمان خواتین کی مشکلات کو سامنے رکھتے ہوئے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف تھانوی نے فسق نکاح کے باب میں متعدد مسائل میں فقہ مالکی کو اختیار کیا ہے۔ نیز عورت کے مرتد ہونے کے باوجود نکاح ختم نہ ہونے کے سلسلے میں ظاہر روایت ….جس کو مسلک حنفی میں سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے …. سے عدول کیا ہے۔ انہوں نے اس کے آگے اپنی بات کو مزیدواضح کرتے ہوئے لکھا: ’’اس لیے دو نکات پر علما کو غور کرنا چاہئے۔ ایک یہ کہ وہ کیا صورتیں ہیں جن میں احناف کے یہاں طلاق واقع ہوجاتی ہے اور اہل سنت کے چاروں مشہور فقہی مسالک میں سےبعضوں کے یہاں واقع نہیں ہوتی، تو اس میں اجتماعی غور و فکر کر کے اس دوسرے نقطہ نظر کو اختیار کرلیا جائے۔ (بشکریہ روزنامہ خبریں نئی دہلی)


ملت ٹائمز ایک غیر منافع بخش ادارہ ہے، اسے مضبوط میڈیا ہاوس بنانے اور ہر طرح کے دباو سے آزاد رکھنے کیلئے مالی امداد کیجئے