نئی دہلی ۔24جنوری
(ملت ٹائمزکی خاص رپوٹ)
وزرات تعلیم کے تحت نیشنل ایجوکیشن پالیسی کی گذشتہ 19 جنوری کو بنگلور میں ایک میٹنگ منعقدہوئی جس میں اقلیتوں کی نمائندگی کیلئے ظفر سریش والا نے شرکت کی جبکہ پہلی مرتبہ دارالعوم دیوبند کو بھی اس میں مدعو کیا گیا۔مشہورخلائی سائنسداں کرشناسوامی کستوری رنگن کی قیادت میں میٹنگ ہوئی جس میں اعلیٰ تعلیم کے مختلف تناظر(تکنیکی،صحت،مہارت ودیگر)پرتبادلہ خیال ہوا، جے الفانسوکنامتنھم،باباصاحب امبیڈکریونیورسٹی آف سوشل سائنس کے وائس چانسلررام شنکرکوریل،ڈاکٹرایم کے سری دھر،لسانی اطلاعات کے ماہرڈاکٹرٹی بی کٹی منی،ڈاکٹردیوی شیٹی سمیت اہم ماہرین تعلیم نے مختلف گوشوں پرتجاویزپیش کیں۔پینل کی میٹنگ میں دارالعلوم کے نمائندہ کی حیثیت سے گئے مولانا اسماعیل قاسمی نے بھی تین تجویز پیش کی ۔
دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابولقاسم نعمانی کے مطابق دارالعلوم کی طرف سے مندرجہ ذیل تجاویز پیش کی گئی ہیں۔ حکومت مدرسہ بورڈ کے زیرانتظام چلائے جا رہے مدارس کی تعلیم میں دخل اندازی نہ کرے، یوگا کو اختیاری موضوع کے طور شامل کیاجائے اور مدارس سے تعلیم حاصل کرنے والے طلباءکو تعلیم یافتہ ہونے کادرجہ دیاجائے،جو ابھی تک حکومت نے نہیں دیاہے۔
دارالعلوم کی ان تجاویزپر فضلاءدارالعلوم دیوبند کے درمیان بحث ومباحثہ جاری ہے ،کچھ فضلاءدارالعلوم کی ان تجاویز کو مناسب قرار دے رہے ہیں تو وہیں ایک تعداد ایسی ہے جنہیں اس سے اتفاق نہیں ہے ،بہت سے فضلاءسے کچھ الگ ہٹ کر تجاویز پیش کررہے ہیں ،اس سلسلے میں ایم ایم ای آرسی (مرکزالمعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر )نام کے وہاٹس ایپ گروپ میں فضلاءکے درمیان تفصیلی بحث بھی ہوئی ہے جس کے کچھ اہم نکات یہاں پیش کئے جارہے ہیں ۔خیال رہے کہ اس گروپ کے سبھی ممبران دارالعلوم دیوبند یا ندوة العلماءکے فضلاءہیں ،کئی ایک کا مدارس کے ساتھ یونیورسیٹی سے بھی رابطہ ہے ، زمانے کی حالات پر ان کی نظر رہتی ہے اوراہل علم میں ان کا نمایاں مقام ہے ۔
دارالعلوم دیوبند کے سینئر فاضل،جمعیة علماءہند سے وابستہ مولانا عبد الملک قاسمی اسسٹنٹ پروفیسر ذاکر حسین کالج نے دارلعلوم دیوبند کی تجاویز پر اپنا ردعمل پیش کرتے ہوئے لکھاہے ”راقم کی نظر میں دارالعلوم کی تجاویز میں بہت زیادہ وزن نہیں محسوس ہو رہا ہے ۔دارالعلوم کی ایک تجویز یہ تھی کہ حکومت مدارس کے فضلا کو تعلیم یافتہ شمار کرے۔جبکہ تعلیم یافتہ شمار کرانے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ نبوی علم کی تدریس و تعلیم تو محض اللہ رب العزت کے لیے ہوتی ہے۔ ہاں اگر شمار کرانا ضروری ہی ہوجائے تو اس کے لیے لائحہ عمل بنانا چاہئے۔ اسی لائحہ عمل کا فقدان ہے۔ہمارے اکابرین نے حکومت سے منظور شدہ پنجم پرائمری کا نظم کیا تھا۔ آج کے مدارس میں عالم بنانے کی اتنی جلد بازی کیوں ہے کہ ناظرہ مکمل ہوا اور درجہ اوّل عربی میں داخلہ مل گیا۔ پندرہ سال کی عمر میں عالم بن گئے نہ عقل پختہ ہوئی اور نہ فکر نہ فقہ و اصول فقہ میں گرفت ہوئی اور نہ سماجیات سے واقفیت اور فتووں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔اگر پنجم پرائمری پڑھ کر عالم بنا جائے تو سراجی سمجھنے کے لیے بھی حساب سیکھ جائیں گے۔جن لوگوں کو دینی تعلیم ہی سے شغف رکھنا ہے ان کے لیے یہ کیا ضروری ہے کہ اٹھارہ اور بیس سال کی عمر ہی میں مفتی بن جائیں۔ آر ٹی ای سے بہت پہلے حکومت نے جبری تعلیم کی مہم شروع کی تھی۔ اور تمام بچوں کا اسکولوں میں داخلہ لازمی کیا گیا تھا اس وقت مسلم لیڈران نے پوچھا تھا کہ لازمی مضامین کون کون سے ہیں۔ وہ مضامین ہم خود اپنے مدارس میں پڑھائیں گے۔ جس کی وجہ مدارس کا پرائمری نظام شروع ہوا تھا اور آج بھی پنجم پرائمری اور آٹھویں تک کے بہت سے اسلامیہ کالجز پائے جاتے ہیں۔پنجم پرائمری کو ترقی دے کر ہم ہائی اسکول تک لے جائیں۔ اور حکومت کی تعلیمی پالیسی کے تحت لازم شدہ پانچ مضامین کو لازمی طور پر پڑھائیں۔ عربی زبان کو تیسری بین الاقوامی زبان کے تحت بحیثیت زبان پڑھائیں۔فقہ و حدیث کے ابتدائی متوسط اور ثانوی درجات کے نصاب بنائیں۔ اور دس سالہ تعلیم میں پانچ حکومت کے مضامین اور اور بقیہ اسلامی مضامین پڑھائیں 45 منٹ کے دس گھنٹے رکھے جائیں ۔پانچ گھنٹے حکومت کے لازمی مضامین پڑھائے جائیں۔ دیگر پانچ گھنٹوں میں فقہ و حدیث تاریخ سیرت وغیرہ کے اسلامی مضامین یکے بعد دیگرے پڑھائیں جائیں ۔یوں دس سالہ نصاب تعلیم ہو جس میں تقریبا درجہ چہارم تک کے ابتدائی علوم پڑھا دیے جائیں گے۔ ویسے بھی ہم چار سال تک تو ہم عربی قواعد اور ابتدائی فقہ و منطق ہی تو پڑھتے رہتے ہیں۔ اس کے بعد جن طلبہ کو اسلامی علوم میں مہارت پیدا کرنا ہو ان کےلیے ایک پانچ سالہ عالمیت کا نصاب تیار کیا جائے۔ جس میں پنجم سے اختصاص تک کے اسباق ہوں اس پانچ سالہ نصاب کو کسی یونیورسٹی کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز سے منظور کرانا نہ کرانا ادارے کے مقاصد اور صواب دید پر چھوڑ دینا چاہئے۔دسویں کے بعد جن طلبہ کو کالج میں جانا ہو وہ اس کے لیے آزاد ہوں گے۔ اس طرح کے بہت سے منصوبے بنائے جاسکتے ہیں۔ مدرسہ سے نکل کر بطور ایک پروفیسر تعلیمی خدمات انجام دینے والے مولانا عبد لملک قاسمی یہ بھی لکھتے ہیں کہ مدارس کے طلبہ کو کالجز میں داخلے کی مکمل آزادی خطرے سے خالی نہیں ہے۔ اس وقت کچھ طاقتوں کا یہی منصوبہ ہے کہ طلبہ کو مدارس کے بعد کالجز کا رخ دکھایا جائے جس سے ان کی دینی حمیت اور اسلامی امور کے تئیں شدت میں کمی آئے گی۔ انہوں نے یہ تجویز بھی دی ہے کہ ہمیں ایک بار ساو¿تھ افریقہ اور انگلینڈ جیسے ممالک کے طریقہ تعلیم اور نصابوں کو دیکھنا چاہئے کہ دارالعلوم بری اور دار العلوم زکریا میں حکومت کی لازمی تعلیم کے ساتھ دارالعلوم دیوبند کے نصاب تعلیم کو وہ لوگ کیسے پڑھاتے ہیں۔کتب سماویہ میں آخری کتاب کو عربی زبان میں اس لیے اتارا گیا کہ خطہ اور سماج کی زبان عربی تھی۔ اس لیے علوم اسلامیہ کو ہمیشہ سماجی زبان اور طور و طریق سے مربوط کر کے رکھنا ہوگا۔ منطق و فلسفہ ہمارے نصاب کا ایک اہم جز ہے اور پڑھایا جانا بھی ضروری ہے لیکن دو سال پرانا فلسفہ کیوں پڑھایا جارہا ہے۔ کیا مرقات قطبی میبذی سلم کے بعد اس موضوع پر کتابیں نہیں مرتب کی گئی ہیں۔
دارالعلوم دیوبند کے سابق استاذ اور ذاکر حسین کالج کے اسسٹنٹ پروفیسر مفتی عبید للہ قاسمی نے اس سلسلے میں کچھ اس طر ح کی تجاویز پیش کی ہے ۔
(1) یہ بہت اچھا مطالبہ ہے کہ مدارس میں پڑھنے والوں کو سرکاری طور پر بھی تعلیم یافتہ سمجھا جائے۔ ظاہر ہے اس سے کسی کو اختلاف نہیں ہوگا۔ مگر سوال یہ ہے کہ کس بنیاد پر سمجھا جائے؟ اس کے لئے پہلے یہ طے کرنا ہوگا مدارس کی فلاں فلاں کلاس اسکول کی فلاں فلاں کلاس کے مساوی ہے۔ اگر کوئی طالب علم عربی چہارم، پنجم، ششم یا ہفتم کا امتحان پاس کرکے آگے کی تعلیم چھوڑ دے تو کیا اسے تعلیم یافتہ شمار کیا جائے گا؟ اگر ہم اسے تعلیم یافتہ شمار کرانا چاہتے ہیں تو اولاً اسے مدارس سے سرٹیفکیٹ دینا ہوگا ثانیاً حکومت سے ان سرٹیفکٹس کو آٹھویں دوسویں، بارہویں کے مساوی تسلیم کروانا ہوگا۔ ان دو عمل کے بغیر تعلیم یافتہ تسلیم کروانا ناممکن ہے۔ نیز یہ بھی ذہن میں رہے کہ جب ہم حکومت سے مثلاً عربی سوم کو میٹرک کے مساوی کا یا عربی پنجم کو بارہویں کے مساوی کرنے کا یا دورہ کو بی اے کے مساوی کرنے کا مطالبہ کرینگے تو حکومت ہم سے اسکولوں کے ضروری مضامین کو شاملِ نصاب کرنے کا مطالبہ کرے گی۔ اس وقت کیا ہم حکومت کے مطالبے کو تسلیم کرینگے؟ اگر کرینگے تو کیا ہم اپنے نصاب کا بخیہ ادھیڑے بغیر کرسکیںگے؟ ہرگز نہیں۔ نتیجہ یہی نکلے گا کہ نہ ہم حکومت کے مطالبے کو مانیںگے اور ہمارے نہیں ماننے کی وجہ سے نہ حکومت ہمارے مطالبے کو تسلیم کرے گی۔
2۔ مفتی صاحب نے فرمایا کہ حکومت کو تجویز پیش کی گئی کہ وہ عالم کی سند کو بی اے فرسٹ ایئر کے مساوی تسلیم کر لے۔ سوال یہ ہے کہ دار العلوم دیوبند تو عالم کی سند ہی نہیں دیتا ہے بلکہ فاضل کی دیتا ہے، پھر یہ کیسے ممکن ہوگا؟ ثانیاً یہ کہ عالم کی سند کو بی اے فرسٹ ایئر کا مساوی کروانے سے کیا فائدہ ہوگا؟ یا تو بارہویں یا پھر بی اے کے مساوی کا مطالبہ معقول ہوتا۔
3۔ مفتی صاحب نے فرمایا کہ ملک کی چار یونیورسٹیاں جامعہ، علی گڑھ، مولانا آزاد, جے این یو مدارس کے فارغین ک اپنے یہاں داخلہ دیتی ہیں۔ واضح رہے کہ مدارس کی اسناد کی بنیاد پر داخلہ دینے والی یونیورسٹیوں میں جے این یو شامل نہیں ہے۔ نیز صرف کچھ اور دوسری یونیورسٹیاں داخلہ دیتی ہیں، صرف تین یا چار ہی نہیں ہیں مثلاََ لکھنو¿ یونیورسٹی وغیرہ۔ دار العلوم کی طرف سے حکومتِ ہند کو جو بھی تجویز دی جائے وہ مضبوط اور صحیح معلومات پر مشتمل ہونی چاہئے ورنہ جَگ ہنسائی کی بات ہوگی کہ قومی تعلیمی پالیسی میں دار العلوم کی طرف سے تجویزوں کا یہ حال ہے۔ جے این یو شعبہ انگریزی دار العلوم دیوبند کی سند کی بنیاد پر بی اے میں داخلہ دیتا ہے، عالم یا فاضل کی سرٹیفکیٹ کی بنیاد پر نہیں۔
4۔ یہ جو ملک میں سیکولر تعلیم رکھنے کی بات کی گئی یہ بہت ضروری اور اہم ہے۔ مگر اس تجویز کو ضروری قیود کے ساتھ پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ یہ قید لگائی جاسکتی ہے کہ سرکار کے عام اداروں یعنی غیر اقلیتی اداروں میں سیکولر تعلیم ہی رکھی جانی چاہئے، اگر اس قید کا اضافہ نہیں ہوگا تو سرکاری بورڈ کے ہمارے ہزاروں مدارس زد میں آجائینگے اور ان میں مذہبی تعلیم ختم کرنی ہوگی۔ بہار مدرسہ بورڈ کے تحت ہزاروں مدارس ہیں، یوپی میں بھی سینکڑوں مدارس ہیں اور دوسرے صوبوں میں بھی۔
5۔ میٹنگ کے دوران نماز اور ڈِنر کا وقفہ ایک گھنٹہ کا تھا۔ ڈِنر کی بجائے شاید لنچ ہوگا۔ بہر کیف یہ سبقتِ لسانی ہوسکتی ہے۔
6۔ مدارس کی تعلیمی اسناد کو سرکاری اسناد کے مساوی کرانے کے سلسلے میں میری رائے یہ ہے کہ دار العلوم دیوبند کی فاضل سرٹیفکیٹ کو بی اے کے مساوی کروایا جائے، جس کا دورانیہ تین سال یعنی ششم ہفتم اور دورہ دکھایا جائے، اس کے لئے ہمیں ایک آدھ عصری مضمون رسمی طور پر شامل کرنا ہوگا مثلاً انگریزی وغیرہ۔ جیسے تجوید عصر کی اذان اور جماعت کے درمیان پڑھادیا جاتا ہے اسی طرح اسے بھی پڑھایا جاسکتا ہے۔ دو سال کا دورانیہ یعنی چہارم و پنجم میں بھی ایک آدھ عصری مضمون برائے نام شامل کرکے اسے پاس کرنے والوں کو مولوی کی سرٹیفکیٹ دی جائے اور اسے بارہویں کے مساوی کروادیا جائے، اور اس سے نیچے دو سال کے دورانیہ پر محیط یعنی عربی دوم و سوم پاس کرنے والوں کو اعدادی مولوی کی سرٹیفکیٹ دی جائے اور اسے دسویں کا مساوی کروادیا جائے۔ اس پورے نظام میں بھی بہت ساری پیچیدگیاں ہیں جو انتہائی غور طلب ہیں۔ البتہ اس طرح کے نظام کو بناتے وقت اس کا پورا دھیان رکھنا ہوگا کہ ہمارے اصل مقصدی تعلیم کو کوئی نقصان نہ پہنچے، اس کے لئے یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ دورہ تک کی تعلیم میں ایک سال کا اضافہ کردیا جائے۔ اگر اس طرح کا نظام بن جائے اور حکومت مساوات کو تسلیم کرلے تو فارغینِ مدارس کے پاس میٹرک، انٹرمیڈیٹ اور بی اے ہر طرح کی سرٹیفکیٹ ہوجائے گی اور سرکاری ملازمتوں نیز اعلٰی سرکاری تعلیم کے دروازے کھل جائینگے، لیکن اس میں کچھ نقصانات بھی ہونگے۔ اعدادی مولوی اور مولوی کے بعد بڑی تعداد اسکولوں میں چلی جائے گی، نیز دورہ کے بعد بھی فارغین بڑی تعداد میں یونیورسٹیوں کا رخ کرینگے۔ ان سب امور پر بھی غور کرنا ہوگا۔ بہر کیف معاملہ بہت نازک ہے۔
7۔ حکومت نے طلاقِ ثلاثہ بل کی تیاری کے وقت دار العلوم کو یاد نہیں کیا جبکہ خالص شرعی معاملہ ہونے کی وجہ سے اس میں صرف مدارس اور علماءہی صحیح رہنمائی کرسکتے تھے اور دار العلوم نے حکومت کو اپنی مستعدی کا اشارہ بھی دیا تھا، مگر قومی تعلیمی پالیسی کے موقعہ پر دار العلوم دیوبند کو یاد کیا گیا ہے جبکہ ان دونوں اہم امور کا زمانہ ایک ہی ہے۔ اس تفریق کی وجہ؟ مجھے محسوس ہوتی ہے کہ حکومت کی نیت صحیح نہیں ہے بلکہ دار العلوم کو مدعو کرنے کے پیچھے کوئی گہری سیاسی چال ہے، جسے ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہوگی۔ بہر کیف دار العلوم نے دعوت قبول کی اور اپنی تجویز رکھی، دار العلوم نے بہت اچھا کیا، امید ہے کہ آئندہ بھی دار العلوم مضبوط نمائندگی کرے گا اس کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہ ہماری دینی تعلیمی پالیسی کسی بھی اعتبار سے متاثر نہ ہو۔
انہوں نے مزید لکھاکہ آئندہ میٹنگوں میں مفتی اسماعیل صاحب کے ساتھ دار العلوم کا کوئی استاذ بھی ہمراہ رہے۔ شاید مفتی صاحب عملی تدریس سے مربوط نہیں ہونگے۔ مفتی صاحب کو دار العلوم کے اس استاذ سے مدد مل سکتی ہے۔ ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ اس ملک میں اسلامی حکومت نہیں ہے اور ہم اقلیت میں ہیں اور ایسی اقلیت ہیں جس کے دشمن بہت سارے ہیں، آئے دن ہماری مذہبی شناخت اور مذہبی تعلیم و تہذیب ختم کرنے کی مضبوط سازشیں کی جارہی ہیں، ایسے حالات میں اگر ہمارے مدارس کا نظام کمزور پڑا تو خدانخواستہ ہم مٹ جائینگے۔ لہٰذا دینی تعلیمی نظام کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے کی ضرورت ہے۔ جو اسلامی ممالک وہاں شاید یہ خطرات نہیں ہیں۔میری ناقص رائے کے مطابق مدارس میں جزوی تبدیلی کرنی پڑے گی اسی وقت یہ سب ممکن ہو گا سب سے پہلی چیز اکثر مدارس میں پرائمری نظام ہے لیکن اس کو کلی طور پر نظر انداز کردیا جاتا ہے اس نظام کو مضبوطی سے نافذ کرنا پڑےگا اس کے بعد اہم مضامین کے نصاب میں شامل کرنا پڑے گا۔
مفتی قمر الدین قاسمی اسسٹنٹ پروفیسر دہلی یونیورسیٹی نے اپنی رائے پیش کرتے ہوئے لکھاہے :
تجاویز پیش کرتے وقت اس بات کو ذہن میں رکھا جائے کہ مسلمان اس ملک کااٹوٹ حصہ ہیں، تعلیمی سسٹم باہمی مفاہمت سے بنتاہے، ایسا نہیں کہ ہم جو کچھ پیش کریں گے اس کو گورنمنٹ بالکل نہیں مانے گی، دفاعی پوزیشن والی سوچ جنم مت دینے دیجئے، اپنا سسٹم پیش کیجئے اس کو قبول کیا جائے گا، بنارس ہندو یونیورسٹی کا سلیبس دیکھ لیجیے ویب سائٹ پر، اس میں ہندو مذہبی کتابوں کے درجنوں کورسز ہیں، ہمیں اپنا سسٹم پیش کرنا چاہیے اور اس کو منانا چاہیے، موجودہ اسکولی سسٹم کوئی منزل من اللہ نہیں ہے کہ ہم اپنے سسٹم کو اس کو تابع کرکے سوچیں، اس میں بھی تبدیلی ممکن ہے اور نظیر کے طور پر ہم مغربی نظام کو پیش کرسکتے ہیں جہاں ہر طرح کی تعلیم کی اجازت ہے اور ان کو مین دھارے میں سمجھا بھی جاتا ہے
مولانا عبد الملک مزید لکھتے ہیں :
(۱)ہم اپنا ایک وفاق بنائیں جس سے رابطے کے جملہ مدارس مربوط ہوں اساتذہ کی تقرری نصاب اور امتحانات وغیرہ سب ایک ساتھ ہوں۔ اساتذہ کی تقرری میں مدارس آزاد ہوں پر سلیکشن کمیٹی میں مرکزی وفاق کا ایک ممبر ہو۔ تدریب المعلمین کا ایک نصاب بنایا جائے اس کا آزادانہ امتحان ہو اور تقرری کے اس امتحان کا شہادت نامہ ہو۔ اس وفاق کو مذہبی تعلیم کے طور پر حکومت سے منظور کرایا جائے۔ وغیرہ و غیرہ
(۲) حکومت کے لازمی موضوعات (انگلش ہندی میتھ ای وی ایس) کو پیش نظر رکھ کر ہم دسویں تک کا ایک نصاب بنائیں جن میں ان چار مضامین کے ساتھ عربی زبان فقہ حدیث قرآنیات کے چار مضامین کا اضافہ کریں۔ ان چاروں مضامین کا عملی نصاب بنائیں جو بتدریج آسان سے مشکل کی طرف جائے۔
حکومتی مضامین کا امتحان حکومتی طرز پر ہوگا اسلامی مضامین کے امتحانات کے لیے مدرسہ اپنا طرز اختیار کرے گا۔ یوں ہم سرکاری دسویں کے ساتھ پنجم عربی تک کی تعلیم دے سکتے ہیں۔ اس کے بعد دونوں راہوں میں سے کسی ایک کا انتخاب ہو۔ اس عمل میں نصابی کتابوں میں تبدیلی کرنا ہوگی اور طریقہ تدریس میں بھی۔ ہمیں نحو صرف کے موجودہ طریقے سے ہٹ کر عملی طریقہ اپنانا ہوگا۔ اساتذہ کو زیادہ محنت کرنی ہوگی۔ البتہ اس کا فائدہ بہت ہوگا۔ ہر گاوں میں اس طرح کا مدرسہ کھلے گا مسلم طلبہ کی تعداد چار فی صد سے باڑھ کر دس بیس فی صد تک پہنچ جائے گی علما اور پڑھے لکھے لوگوں کو روزگار ملے گا جبکہ جملہ طلبہ کے اندر دینیات کی شد بد پیدا ہوجائے گی قرآنی تلاوت کے ساتھ حلال و حرام کی تمیز کرنا بھی آجائے گا
(۳) عربی فارسی مدرسہ بورڈ کے طرز پر ان مدارس کو چلایا جائے جس کے لیے ہمیں دوچار لازمی مضامین ضمنی طور پر پڑھانا ہوں گے۔جیسا کہ مفتی صاحب نے لکھا تھا لیکن اس میں پھر پریشانیاں آئیں گی۔ مولوی میں داخلے کے لیے آٹھویں کا سرٹی فکیٹ ضروری ہوتا ہے۔ وہ کہاں سے اور کیسے آئے گا۔ لیکن اگر غور کیا جائے تو کچھ نتیجہ بھی نکل سکتا ہے۔
معروف مصنف مولانا ندیم الواجدی نے اپنے ایک مضمون میں دارلعلوم دیوبند کی پیش کردہ تجاویز کا خیر مقدم کیاہے تاہم انہوں نے یوگا والی تجویز سے اختلاف کرتے ہوئے لکھاہے کہ اسے اختیاری قراردینے کے بجائے یہ تجویزر کھی جانی چاہیئے تھی کہ مسلمان طلبہ کو اس سے مستثنی رکھاجائے ۔
جمیعة علماءہند کے میڈیا کوڈینیٹر مولانا عظیم اللہ صدیقی قاسمی نے اپنے فیس بک ٹائم لائن پر لکھاہے
میں دارالعلوم دیوبند کی جانب سے تعلیمی کمیٹی میں پیش کردہ تجاویز کا استقبال کرتے ہوئے دارالعلوم کے مہتمم صاحب سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ ایک فرض پورا کریں کہ شعبہ انگریزی کے فارغین کے لیے سند کو قبول کرنے کے لیے جامعہ ملیہ اسلامیہ نیی دہلی کو خط لکھیں، یہ خط سولہ سال سے زیر التوا ہے، جس کی وجہ سے طلباء کو ایک سال کا نقصان ہوتا ہے،پلیز۔۔ ایک خط کسی کی زندگی بدل سکتا ہے۔
واضح رہے کہ ایم ایم ای آرسی وہاٹس ایپ کا ایک معتبر گروپ ہے جس میں فضلاءمدارس اکثر کسی اہم موضوع پر بحث ومباحثہ کرتے ہیں،معروف اسلامی اسکالر مولانا برہان الدین قاسمی ۔ مفتی عبید اللہ قاسمی ۔مولانا عتیق قاسمی مکی۔مولانا سعید انور قاسمی ۔مولانا محمد افضل قاسمی ۔مفتی محمد اللہ خلیلی ،مولانا توقیر احمد قاسمی ۔مفتی اعجاز ارشد قاسمی ۔ڈاکٹر عبد الملک قاسمی ۔مفتی قمر الدین قاسمی ۔مولانا شمس الہد ی قاسمی ۔مولانا خورشید عالم داﺅد قاسمی ۔مولانا حفظ الرحمن قاسمی ۔ مولانا انعام الحق ندوی ۔مولانا مدثر احمد قاسمی،قاضی فیاض عالم قاسمی سمیت تقریبا دوسو فضلاءاس گروپ میں شامل ہیں ۔
ملت ٹائمز ایک غیر منافع بخش ادارہ ہے، اسے مضبوط میڈیا ہاوس بنانے اور ہر طرح کے دباو سے آزاد رکھنے کیلئے مالی امداد کیجئے