طلا ق ثلاثہ پرسرکارکاموقف آئین کے خلاف،ہرسطح پرمخالفت کریں گے،عوامی بیداری کی کوششیںبھی جاری

حیدرآباد، 11 فروری( ایجنسیاں)
مسلم پرسنل لا کے تعلق سے مرکزی حکومت کا موقف عدالتی فیصلہ کے جذبہ کے مغائر ہے اور وہ ایسے متعلقہ امور میں مداخلت کرنا چاہتی ہے جس کی ضمانت دستور ہند میں دی گئی ہے۔ اس خیال کا اظہار آج یہاں مسلم پرسنل لاءبورڈ کے سہ روزہ اجلاس کے دوسرے دن جنرل سکریٹری بورڈمولانامحمد ولی رحمانی نے اپنی رپورٹ میں کیا ۔رپورٹ میں طلاق ثلاثہ کے مسئلہ پر مسلم پرسنل لاءکو درپیش خطرہ پر تشویش ظاہر کی گئی۔ انہوں نے مسلم طبقہ کے ساتھ ساتھ قانون کی حکمرانی کے مختلف امور کا احاطہ کیا اور بورڈ کی طرف سے اس بل کی منظوری کو روکنے کے لئے حکمت عملی کی تدوین کے لیے تجاویز طلب کیں۔عدالت عظمیٰ میں بابری مسجد کے مسئلہ پر جاری قانونی لڑائی کی تفصیلات پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہاہے کہ عدالت کے نزدیک ہے کہ یہ مسئلہ اراضی کی ملکیت کا ہے نہ کہ عقیدہ یا آستھا کا ۔ اس سلسلہ میں درکار دستاویزات پہلے ہی عدالت میں پیش کیے جا چکے ہیں۔ عدالت کا ایک احساس یہ بھی ہے کہ بعض دستاویزات کا ہنوز ترجمہ نہیں کیا گیا ہے۔ دوسری طرف بورڈ کا موقف بدستور یہ ہے کہ ایک مرتبہ جس مقام پر مسجد بن جاتی ہے وہاں پر ہمیشہ مسجد ہی رہتی ہے۔مولانا نے کسی کا نام لئے بغیر الزام لگایا کہ بعض عناصر بابری مسجد کے مسئلہ پر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ انہوں نے ملک کی زیریں اور اعلیٰ عدالتوں میں زیر التواءمختلف معاملات کا حوالہ بھی دیا۔حیدرآباد کے پلینری سیشن کو تاریخی قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک اہم مرحلہ پریہ سیشن ہورہا ہے کیونکہ مسلم طبقہ کوبیشترمسائل پر حکومت سے تصادم کا سامنا ہے۔ سماجی اصلاحات کے مسئلہ پر رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ بورڈکی جانب سے مسلم طبقہ میں بڑے پیمانہ پر بیداری مہم چلائی گئی جسے تحفظ شریعت و اصلاح معاشرہ کا نام دیا گیا تھا۔اس رپورٹ میں دیگر 11 مسائل کی بھی نشان دہی کی گئی جس کی منظوری گزشتہ شب ورکنگ کمیٹی نے ایجنڈے کے طور پر دی ہے۔ اس میں ماڈل نکاح نامہ طلاق ثلاثہ اور مالیاتی سال 2018-19 کے مالیاتی بجٹ بھی شامل ہیں۔مولانا رابع حسنی ندوی صدر کل ہند مسلم پرسنل لاءبورڈ نے صدارت کی۔ اس اجلاس میں 500سے زائد ارکان اور مندوبین نے حصہ لیا۔ سمجھا جاتا ہے کہ بورڈ کے جاری اجلاس میں بیشتر ارکان نے مولانا سلمان ندوی کے تازہ موقف کی سخت مخالفت کی اور ان کے خلاف سخت تادیبی کاروائی پر زور دیا۔ اس سلسلہ میں پلینری اجلاس میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔