ہنگامہ ہے کیوں برپا؟

محمد نوشاد عالم ندوی
ملک کے حالات دن بدن خراب ہوتے جارہے ہیں، آئے دن دلتوں اور مسلمانوں پر طرح طرح کے الزامات لگائے جارہے ہیں۔ جواہر لال نہرویونیورسٹی کا معاملہ ابھی کافی دنوں سے سرخیوں میں ہی ہے، لیکن آئے دن متنازع بیانات اس معاملہ کوطول دینے میں گھی کا کام کر رہا ہے۔ جس سے معاملہ مزید طول پکڑتا جارہا ہے۔ حالیہ دنوں یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کے بیان نے بھی جے این یو معاملہ کو مزید ہوا دی ہے۔پروفیسر کا کہنا تھا کہ دلت اور مسلم ٹیچر ملک کے غدار ہیں۔ اس طرح آئے دن ایک سازش کے تحت مسلمانوں کی شبیہ ملک مخالف ثابت کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ نہ جانے کیوں؟مسلمانوں کی وطن پرستی پر برابر سوال اٹھایا جارہا ہے؟ مسلمانوں کی حب الوطنی پر انگلی اٹھانے والوں کو اپنا محاسبہ خود کرنا چاہئے کہ انہوں نے اس ملک کیلئے کیا کیا ہے اور وطن عزیز کو کیا دیا ہے۔ مسلمانوں کی حب الوطنی پر ان کی قربانیوں پر شک کرنے والوں کوتاریخ کامطالعہ کرنا چاہیے، یاپھرء کی تحریک خلافت، ۰ء کی تحریک ترک موالات اور جدوجہد کے دیگر محاذ کے بارے میں ضرور بالضرور ورق گردانی کرنی چاہیے۔ بدزبانی، بدکلامی اور غلط شلط باتیں کرنے والے بی جے پی لیڈروں کی ایک طویل فہرست ہے۔ہر دوسرے روز ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کے خلاف کسی نہ کسی لیڈر کی طرف سے متنازع بیان آ ہی جاتا ہے جس سے ان کی دل آزاری ہوتی ہے۔ اس طرح کی بدکلامی صرف اور صرف مسلم دشمنی اور فرقہ وارانہ منافرت کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ مظفرنگر یوپی کے دادر ی میں، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور کیرالا ہاوس دہلی میں بیف کی افواہ پر ماحول خراب کرنے کی جوکوشش کی گئی اس سے ہر شخص بخوبی واقف ہے۔ ابھی حال فی الحال میں ایک بارپھر راجستھان میں بیف کی افواہ کے معاملے میں کشمیری طلبہ کے ساتھ مار پیٹ کی گئی،کیا یہ سب ملک کو فاشزم کی طرف لے جانے والی باتیں نہیں ہیں؟ اس کے باوجود ہمارے بہی خواہ خاموش ہیں، ہمارے قائد اور خود سیکولر ذہن رکھنے والے ملک سے محبت کرنے والے افراد چپ ہیں، وہ شایدکسی انہونی کا انتظار کررہے ہیں۔ لیکن وہ کریں بھی تو کیا کریں۔ ان کے سامنے ملک وقوم کے علاوہ اپنے بھی مسائل ہیں، اس لیے ان کومورد الزام ٹھہرانا شایددرست نہیں ہوگا۔
ہم اس وقت راجیہ سبھا کے ہنگاموں میں سے ایک ہنگامہ کی طرف آپ کو لے جانا چاہیں گے، کیونکہ آج کل کانگریس کے سینئر لیڈر غلام نبی آزاد کے اس بیان پرجو انہوں نے جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے منعقدہ پروگرام قومی یکجہتی کانفرنسمیں دیا تھا کہہم مسلمانوں کے درمیان بھی ایسے لوگوں کو دیکھتے ہیں جو مسلم ممالک کی تباہی کی وجہ بن گئے ہیں، ان کے پیچھے کچھ طاقتیں ہیں، لیکن ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مسلمان اس میں کیوں شامل ہورہے ہیں، وہ کیوں پھنستے جارہے ہیں؟ انہوں نییہ بھی کہا تھا :اس لیے ہم آئی ایس آئی ایس جیسی تنظیموں کی اسی طرح مخالفت کرتے ہیں جیسے آر ایس ایس کی مخالفت کرتے ہیں، اگر اسلام میں ایسے لوگ ہوں جوغلط چیزیں کرتے ہیں تو وہ آر ایس ایس سے کم نہیں ہیں اس بیان میں کیا غلط ہے اور کیا صحیح ، اس کا یہاں ذکر کرنا ضروری نہیں ہے، اور نہ ہی اس پر بحث کرنے کی چنداں ضرورت ہے۔ لیکن اس پر جو ہنگامہ برپا ہے وہ ضرور لائق تحریر ہے۔ واقعی اسے آر ایس ایس کے سرکردہ اور فعال کارکنان کی فعالیت کہئے یا پھر بی جے پی کے ممبران پارلیمنٹ کی حساسیت ،اس بارے میں اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ آر ایس ایس کا موازنہ داعش سے کرنے پر سنگھ کے پورے دھڑے میں جس طرح کی بے چینی پائی گئی ،وہ ان کی شیرازہ بندی، اتحاد اور ان کی سیاسی بیداری کی ایک انوکھی مثال ہے۔ اس معاملہ میں مسلمانوں کا معاملہ بہت مختلف ہے ۔جبکہ اسلام نے ہم سے اتحاد و اتفاق کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے کے لیے کہا تھا، لیکن ہم نے اُس کی تعلیم کو پسِ پشت ڈال دیا، اسلا م نے تو مسلمانوں کو یہ تعلیم دی تھی کہ اگر ایک بھائی کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اس کا احساس دوسرے مسلم بھائی کوبھی ہونا چاہیے، ہم تو اس پر عمل کرنے سے رہے۔لیکن غیر مسلم اس پر بخوبی عمل کررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آر ایس ایس کا موازنہ داعش سے کرنے پر راجیہ سبھا میں ہنگامہ ہو۔ یہ الگ بات ہے کہ کانگریس کی پالیسی کے تحت غلام نبی آزاد نے بعد میں یہ صفائی بھی دے دی کہ ہم نے موازنہ نہیں کیا تھا، بلکہ ہماری بات کو میڈیا نے توڑ مروڑ کر پیش کیا۔ اس معاملہ میں دلچسپ بات وہ ہے جو بی جے پی کے ممبرپارلیمنٹ مسٹر نقوی نے کہی کہ آزاد کے آر ایس ایس اور داعش کے موازنہ سے ملک میں بے چینی اور افراتفری کا عالم ہے۔ لیکن مسلمانوں کے خلاف ملک بھر میں جومہم چلائی جارہی ہے۔ مسلم نوجوانوں کی جو گرفتاریاں ہورہی ہیں، اور پھر طویل عرصہ کے بعد ان کی بے گناہی کی بنیاد پر رہائی ہورہی ہے۔ اس کے علاوہ افواہوں کی بنیاد پر مسلم نوجوانوں کا قتل ہورہا ہے۔ مسلمانوں کی حب الوطنی پر انگلی اٹھائی جارہی ہے۔ ان پر طرح طرح کے الزامات لگائے جارہے ہیں۔اس پر نقوی اور بی جے پی کے دیگر ممبران پارلیمنٹ کی نظر نہیں جاتی یہاں تک کہ خود وزیراعظم بھی مسلم مسائل پر کبھی لب کشائی کی جرات نہیں کرتے جبکہ ملک میں اس طرح کے حالات پر ملک کے سیکولر طبقات، ادباء ،شعراء ،صحافی اورملک کے ایوارڈ یافتگان مصنفین اپنے اپنے انداز میں ملک کے موجودہ حالات کے خلاف مظاہرے کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ کرناٹک سے بی جے پی کیممبر پارلیمنٹ اننت کمار ہیگڑے کی زہر افشانی کے بارے میں آپ سب کو بخوبی معلوم ہے۔ انہوں نے کہا تھا دنیا میں جہاں کہیں اسلام ہوگا وہاں دہشت گردی ہوگی جب تک دنیا سے اسلام کو ختم نہیں کیا جائے گااس وقت دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں انہوں نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ مزید یہ بھی کہاکہ مذہب اسلام اس دنیا کی شانتی کو ختم کرنے کا ایک بم ہے، جب تک اسلام رہے گا دنیا میں شانتی نہیں ہوگی۔اننت کمار ہیگڑے کے اس زہر آلود بیان سے کیا ملک میں امن کا نظام درہم برہم نہیں ہوتا؟ کیا اس طرح کے بیانوں سیملک کے حالاتمزید خراب نہیں ہوتے؟۔ اس سوال کا جواب بھی بی جے پی ممبران پارلیمنٹ کو دینا چاہیے۔ مرکزی وزیربرائے مملکت فروغ انسانی وسائل رام شنکر کٹھیریا کے مسلمانوں کے خلاف اعلان جنگ کو نہیں بھولنا چاہیے۔ کبھی بی جے پی کی سادھوی پراچی یہ کہہ دیتی ہیں کہ مسلمان غدار قوم ہیں، تو کبھی ہریانہ کے وزیراعلیٰ مسلمانوں کے لئیگوشت پر پابندی کو درست قرار دیتے ہیں۔ان بیانات کے پیش نظر ملک کے خراب حالات کے لیے کن کو ذمہ دار ٹھہرایاجائے؟ان افراد کو یا پھر، سیکولر ذہن کے حامل کے شخص کو ؟
گزشتہ لوک سبھا انتخابات سے لے کر ملک کی اب تک کی صورت حال پراگر ایک نظر ڈالی جائے، تو اندازہ ہوگا کہ جس طرح ملک کے اندر منافرت ، عداوت، عدم رواداری، فرقہ پرستی کی مسموم فضا پھیلی ہے، اس سے ملک کی صدیوں پرانی شاندار گنگا جمنی تہذیب وتمدن اور قدریں پامال ہو رہی ہیں، بلکہ ملک کی ترقی کی رفتار بھی کافی سست ہوئی ہے ۔ فرقہ پرست عناصر ، حکومت کی شہہ پر جس طرح مذہبی منافرت کے زہر کو پھیلا رہے ہیں ،اس سے ملک کا جمہوری نظام شدید طورمتاثرہوا ہے اور ہورہا ہے۔ سب کا ساتھ سب کا وکاسکا نعرہ دینے والی مودی حکومت کے قول و فعل میں تضاد کی حقیقت دیر سے ہی سہی مگر سامنے آتی جارہی ہے، حالانکہ خود وزیر اعظم نریندر مودی بھی کہتے ہیں کہ وہ کسی خاص کمیونٹی، پارٹی یا علاقے کے وزیراعظم نہیں بلکہ ملک کے سوا سو کروڑ لوگوں کے وزیراعظم ہیں۔ یعنی یہ پیغام دینے کی کوشش کی جاتی رہی ہے کہ حکومت سب کے مسائل حل کرنے کی کوشش کررہی ہے اور سب کے اچھے دن آئیں گے، لیکن اگر کوئی ان سے پوچھے کہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلمان کہاں کھڑے ہیں توشاید ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکومت جن وعدوں اور دعووں کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی ، وہ ان تمام محاذ پر بری طرح ناکام ثابت ہو ئی ہے ۔ یہی وجہ ہیکہ غربت، مہنگائی، بدعنوانی ، مذہبی منافرت میں بہت تیزی سے اضافہ ہورہا ہے ۔ غریب، مزدود اور کسان کی بنیادی سہولیات کم ہوتی جارہی ہیں ۔ جن پر قدغن لگانے میں حکومت وقت ناکام ثابت ہو رہی ہے ۔ ہندوستان اس وقت نازک دور سے گزر رہا ہے۔مسلمانوں کی سیاسی حالت ایسی ہوگئی ہے کہ ملک کی اجتماعی زندگی میں ان کاکوئی مقام نہیں، وہ لاچار اور بے بس سمجھے جارہے ہیں۔سیاسی میدان میں آر ایس ایس کی پروردہ پارٹی بی جے پی کو ہراتے ہراتے وہ خود شکست خودرہ نظر آرہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں ہر کوئی آسان شکار سمجھ رہا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تعلیم یافتہ اور سیکولر ذہن رکھنے والے حضرات اپنے اپنے انداز میں موجودہ حکومت کے کام کاج کے رویے اور طریقہ کار سے ناراضگی کااظہار کررہے ہیں تو عام ہندوستانی شہری بھی اس طرح کے بے تکے بیانات سے ناراض اور پریشان ہیں۔ ملک میں ہر طرف خو ف و ہراس کا عالم ہے۔ بی جے پی کے ممبران پارلیمنٹ کو کبھی خیال نہیں آیا کہ ملک میں ہیجانی اور اضطرابی کیفیت پائی جارہی ہے۔ لیکن آزاد کے صرف ایک بیان پرہر طرف ہنگامہ برپا ہے۔
ایک جے این یو معاملے کو ہی لے لیجئے ، دہلی پولیس کی ہرممکن مخالفت کے باوجود کنہیا کو رہائی مل گئی، اس سے حکومت کو بھی منہ کی کھانی پڑی۔ آپ کو یاد ہوگا کہ رہائی کے بعد بھی کنہیا کی جو تقریر تھی وہ یہی تھی کہ ہندوستان سے آزادی نہیں بلکہ ہندوستان میں آزادی چاہئے۔ لیکن حکومت اور اس کی ہمنواا تنظیمیں اس سے سبق لینے کے بجائے معاملہ کو مزید طول دینے کے فراق میں ہیں۔ موجودہ وقت میں حکومت کو چاہیے کہ وہ ہوش کے ناخن لے!، ابھی بھی دیر نہیں ہوئی ہے۔ جب جاگو تب سویرا کیتحت حکومت کے لیے اب بھی وقت ہے کہ وہ اس طرح کی بیان بازیوں پر کنٹرول کرے اوراپنی ہمنوا تنظیموں کے فعال کارکنان کو سمجھانے کی کوشش کرے اور انہیں بتائے کہ وہ ملک کی شناخت کثرت میں وحدت کو تارتار نہ کریں۔
شاید حکومت ہر اُس آواز کو دباناچاہتی ہے جو اس کی مخالفت میں اٹھتی ہے یا جو اس کی منظم پالیسی کے خلاف ہے۔ یہی وجہ ہیکہ آزاد کے بیان پر سنگھ پریوار کے لوگ پریشان نظرآرہے ہیں۔ بی جے پی شاید یہ بھول گئی کہ یہ اضطرابی کیفیت اور یہ کشیدگی ملک کے لیے تومضر ہے ہی، خود ان کے لیے بھی مضر ثابت ہوگی۔ کیونکہ آج کل جتنے بھی ناخوشگوار واقعات رونما ہورہے ہیں سب بی جے پی اور اس کی ہمنواتنظیموں کے پروردہ یا یوں کہیے کہ پارٹی کے سرکردہ لیڈران کے اشاروں پر ہی ہور ہے ہیں، جو ان کے لیے مضر ہوسکتے ہیں۔مسلمانوں میں موجود خوف و ہراس اور دلتوں میں پائی جانے والی بے چینی کو دیکھتے ہوئے ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ :
تری انجمن میں ظالم عجب اہتمام دیکھا
کہیں زندگی کی بارش تو کہیں قتل عام دیکھا
اخیر میں حکومت ہند سیعرض کرنا چاہیں گے کہ کنہیاکمار کی مقبولیت اس وجہ سے نہیں ہوئی کہ وہ بہت بڑے مقرر ہے ، یااس وجہ سے کہ اس نیمرکزی حکومت کے خلاف علم بغاوت کو بلند کیا، نہیں، ہرگز نہیں،بلکہ اس کی مقبولیت کا راز یہ ہے کہ اس نے تبدیلی کو موضوع بنایاہے، اس نے عوام کو اور اپنے سامعین کو یہ واضح پیغام دیا کہ وہ وطن عزیز کو امن وآشتی کا گہوارہ بنانا چاہتاہے۔گویا ملک کے حالات میں تبدیلی کے خواہاں تقریباً ملک کے اکثر شہری ہیں۔ملک کے عوام بھوک، استحصال، ناانصافی اور نفرت کی سیاست سے آزادی چاہتے ہیں۔ ملک کی آزادی چاہتے ہیں، یہی خیال،یہی آرزو اور یہی تمناملک کے بے شمار چاہنے والوں کی ہے اور وطن عزیز کے ہر باشندے کی ہے ۔لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ وہ ہندوستان کے ہر شہری کو خواہ وہ دلت ہو، مسلم ہو یا کوئی اور ،سب کو ایسی حکومت دیں جو عدل وانصاف پر مبنی ہو اور طبقاتی کشمکش سے پوری طرح آزاد ہو۔اس کے لئے حکومت کواپنے موجودہ خودساختہ ایجنڈوں سے ہٹ کر کام کرنا ہوگا۔ (ملت ٹائمز)
مضمون نگارروزنامہ انقلاب دہلی میں سینئر سب ایڈیٹر ہیں
09015763829,08826096452
mohdnaushad14@gmail.com