بہار میں ووٹر لسٹ ویریفیکیشن کے نام پر نئی این آر سی کی تیاری؟

تحریر: شمس تبریز قاسمی

بہار میں ووٹر لسٹ ویریفیکیشن کے نام پر ایک سنگین اور خطرناک عمل شروع کیا گیا ہے، جس کے ذریعے کروڑوں شہریوں کو ووٹ دینے کے حق سے محروم کیے جانے کی سازش کی جا رہی ہے۔ یہ سارا عمل بظاہر ووٹر لسٹ کی تصدیق کا نام لے کر کیا جا رہا ہے، لیکن درحقیقت یہ ایک نئی این آر سی (نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز) جیسا قدم ہے، جو عوام، بالخصوص کمزور طبقات، مہاجرین اور اقلیتوں کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج بن کر ابھر رہا ہے۔

آسام ماڈل کو بہار میں دہرایا جا رہا ہے

آسام میں ڈی ووٹر کا تصور متعارف کروایا گیا تھا، جس میں کسی بھی شہری پر اگر شک ظاہر کیا جاتا ہے تو اس سے شہریت کے ثبوت مانگے جاتے ہیں۔ اگر وہ مطلوبہ دستاویزات نہ دے سکے تو اس کے نام کے سامنے “D” لکھ دیا جاتا ہے اور اس سے ووٹ کا حق چھین لیا جاتا ہے۔ بالکل اسی طرز پر اب بہار میں بھی کام ہو رہا ہے۔

2003 کی ووٹر لسٹ کو معیار بنایا گیا

الیکشن کمیشن نے ہدایت جاری کی ہے کہ صرف وہی افراد ووٹ دینے کے اہل ہوں گے جن کا نام 2003 کی ووٹر لسٹ میں موجود ہے — اور وہ بھی صرف اس صورت میں جب 2025 کی ووٹر لسٹ میں ان کا نام بالکل وہی املا کے ساتھ ہو۔ باقی تمام افراد کو اپنی شہریت اور پیدائش کا ثبوت دینا ہوگا۔

یہاں اہم بات یہ ہے کہ 2003 کی ووٹر لسٹ میں صرف 3 کروڑ افراد کے نام تھے، جبکہ آج بہار کی کل آبادی تقریباً 13 کروڑ ہے، جن میں سے 8 کروڑ کے قریب افراد ووٹر ہونے کے اہل ہیں۔ مطلب یہ کہ 5 کروڑ سے زائد افراد کو نئے سرے سے اپنی شہریت ثابت کرنی پڑے گی۔

ماضی میں ووٹ دینے والے بھی مشکوک قرار!

یہاں یہ امر بھی انتہائی حیرت انگیز ہے کہ 2003 کے بعد بہار میں چار اسمبلی انتخابات (2005، 2010، 2015، 2020) اور پانچ لوک سبھا انتخابات ہو چکے ہیں (2004، 2009، 2014، 2019، 2024)، جن میں ان کروڑوں لوگوں نے ووٹ دیا ہے جن کے نام 2003 کے بعد ووٹر لسٹ میں شامل ہوئے۔ اب انہیں بھی مشکوک شہری قرار دیا جا رہا ہے اور ان سے پیدائش کے ساتھ شہریت کے ثبوت مانگے جا رہے ہیں۔

مطلوبہ دستاویزات — عام آدمی کے لیے بڑا چیلنج

الیکشن کمیشن نے جو دستاویزات شہریت ثابت کرنے کے لیے قابلِ قبول قرار دیے ہیں، وہ عام بہاری شہریوں کے پاس موجود نہیں ہیں:

پاسپورٹ: صرف 2.5% لوگوں کے پاس ہے

پینشن کارڈ / سرکاری ملازم کارڈ: تقریباً 5% افراد کے پاس

کاسٹ سرٹیفکیٹ: صرف 16% افراد کے پاس، مسلمانوں کے درمیان تقریباً ناپید

میٹرک / انٹرمیڈیٹ / ڈگری سرٹیفکیٹ: 50% سے کم افراد کے پاس

پیدائش کا سرٹیفکیٹ: اکثریت کے پاس نہیں

جبکہ عام لوگ جن کے پاس آدھار کارڈ، راشن کارڈ، ووٹر کارڈ، منریگا جاب کارڈ جیسے شناختی دستاویزات ہیں، ان کو اس ویریفیکیشن میں معتبر نہیں مانا جا رہا ہے۔

ملک بھر کے مہاجرین اور بہاری تارکین وطن کے لیے خطرہ

بہت سے بہاری شہری دوسرے ریاستوں یا بیرون ملک روزگار کے سلسلے میں مقیم ہیں۔ ان کے پاس ووٹر کارڈ موجود ہے، نام ووٹر لسٹ میں ہے، مگر چونکہ وہ بہار میں موجود نہیں ہیں، اس لیے وہ فارم بھرنے یا مطلوبہ دستاویزات دینے سے قاصر ہوں گے۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ ان کا نام ووٹر لسٹ سے خارج کر دیا جائے گا۔ یہ بہار کے سب سے بڑے سچ یعنی “مہاجرت” کو جرم بنانے کے مترادف ہے۔

اپوزیشن جماعتوں کا ردعمل

حال ہی میں کانگریس، آر جے ڈی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے 11 رکنی وفد نے الیکشن کمیشن آف انڈیا سے ملاقات کی اور کئی اہم نکات اٹھائے:

2003 سے اب تک کئی انتخابات ہو چکے، ان سب کو کیسے غلط قرار دیا جا سکتا ہے؟

اگر ویریفیکیشن اتنا اہم تھا تو اس کا اعلان اچانک جون کے آخر میں کیوں کیا گیا؟

کیوں ایک مہینے کے قلیل وقت میں اتنا بڑا عمل مکمل کرنے کا کہا جا رہا ہے؟

جو دستاویزات عوام نے حکومت کی ہدایت پر بنائے تھے، وہ آج کیوں ناقابل قبول ہو گئے؟

اس ملاقات میں اپوزیشن لیڈران نے اس پورے عمل کو “خارج کرنے” کی سازش قرار دیا اور کہا کہ اگر کسی بھی عمل کا مقصد انکلوژن کے بجائے ایکسکلوژن ہو تو وہ عوام دشمن ہے۔

اصل مقصد کیا ہے؟

اس ساری مشق کا اصل مقصد بظاہر ووٹر لسٹ کی اصلاح نہیں بلکہ نئی ووٹر لسٹ تیار کرنا ہے جس میں کروڑوں شہریوں کو باہر نکالا جائے۔ اس کے پیچھے ایک منظم سیاسی سوچ کارفرما ہے جو کسی خاص جماعت کو فائدہ پہنچانے، ریاستی سیاسی نقشہ بدلنے اور ایک بڑی آبادی کو ووٹ کے بنیادی حق سے محروم کرنے کی کوشش ہے۔

نتیجہ

ووٹنگ رائٹ ایک آئینی حق ہے، اور اسے محرومی میں بدلنے کی کوئی بھی کوشش نہ صرف غیر جمہوری ہے بلکہ پورے جمہوری نظام پر سوالیہ نشان ہے۔ یہ صرف بہار کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک قومی بحران کا پیش خیمہ ہے۔ اس کے خلاف عوامی بیداری، سیاسی مزاحمت اور عدالتی مداخلت ناگزیر ہے۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com