مسائل کی پریشانیوں کا ماتم کرنے کے بجائے حالات کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ رکھیں۔’عظمت رفتہ کی بحالی اور مستقبل کی تعمیر ‘کے موضوع پر ایس آئی او کی سہ روزہ کا نفرنس جاری

دہلی ۔24فروری(ملت ٹائمز)
مسائل اور پریشانیوں کا ماتم کرنے کے بجائے حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے نئے مستقبل کی تعمیر کے عزم کے ساتھ”عظمت رفتہ کی بحالی اور مستقبل کی تعمیر“ کے موضوع پر ہندوستان میں مسلم نوجوانوں کی سب سے بڑی تنظیم اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا(ایس آئی او)کی تین روزہ کل ہند کانفرنس کل نئی دہلی میں شروع ہوگئی ہے ۔
جماعت اسلامی ہند کے امیر مولانا سید جلال الدین عمر ی نے کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے کہا کہ بلاشبہ نوجوان نہ صرف کسی ملک کے مستقبل ہوتے ہیں بلکہ ملک کی ترقی اور تعمیر نوجوانوں کے کردار اور عمل پر منحصر کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ نوجوان نسل او ر بالخصوص کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم طلبہ ‘ جن کے ہاتھوں میں مستقبل کی زما م کار ہوگی‘ کے سامنے نہ تو کوئی اعلی مقصد ہے اور نہ ہی کوئی ہدف۔پورا تعلیمی نظام بے سمتی کا شکار ہے او رسیاسی جماعتیں طلبہ کو اپنے وقتی مقاصد کے لئے استعمال کررہی ہیں۔
ایس آئی او کے سرپرست اعلی مولانا عمر ی نے اس طلبہ تنظیم کی کارکردگی اور سرگرمیوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ایس آئی او سے وابستہ نوجوان نہ صرف یونیورسٹیوں اور کالجوں میں طلبہ کے مسائل کے سلسلے میں آواز اٹھاتے رہے ہیں بلکہ وہ سماج میں ہر طرح کے ظلم و تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے خلاف بھی آواز بلند کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے قدرتی آفات اور فسادات کے شکار لوگوں کی مدد کرنے کے لئے بھی ایس آئی او کی تعریف کی۔ انہوں نے شرکائ کو مشورہ دیا کہ وہ جس پاکیز ہ جذبات کے ساتھ یہاں آئے ہیں ‘ انہیں پاکیزہ جذبات کے ساتھ ملک کی تعمیر میں حصہ لیں۔خیال رہے کہ اس کانفرنس میں ہندوستان بھر سے تقریباَ دس ہزار مندوبین شرکت کررہے ہیں۔ ایس آئی او کی شاخیں ملک کے تقریباَ تمام صوبوں میں موجود ہیں۔

ایس آئی او کے سابق صدر اور جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر سید سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ آج ظلم و استحصال بڑھ رہا ہے، خواتین کے خلاف زیادتی کے واقعات میں ہر روز اضافہ ہورہا ہے ، حقوق انسانی کی پامالی عام ہوگئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود اگر ہم صرف حالات کا ماتم کرتے رہیں تومسائل حل نہیں ہوسکتے۔انہوں نے کہا کہ تمام مسائل کے باوجودہمیں حالات کے رحم و کرم پر خود کو چھوڑ دینے کے بجائے اس ماہر تیراک کے مانند ہونا چاہئے جو لہروں کا مقابلہ کرتے ہوئے ہر حال میں اپنی منزل تک پہنچتا ہے۔

مسٹر حسینی نے کہا کہ جو قومیں ردعمل کی نفسیات میں جیتی ہیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوتیں۔انہوں نے کہا کہ ہمیں صرف اپنی عزت نفس کا خیال نہیں بلکہ اس ملک کے ایک ایک فرد کی تکریم بحال کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ہمیں قبائلیوں‘ دلتوں‘ عورتوں ہر ایک کی عزت نفس کو بچانے کے لئے جدوجہد کرنی چاہئے۔ اس کے ساتھ ہی ہمیں ایک بہتر مستقبل کا خواب دیکھتے ہوئے اس کی تکمیل کے لئے پورے تن من دھن سے جٹ جانا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہم ہندوستان میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔ اس ملک کو بدعنوانیوں سے پاک بنانا چاہتے ہیں تو اس کی ابتدا اپنے کالجوں سے کرنی ہوگی۔ کالج اس ملک کا مستقبل ہیں اگر کالج بہتر ہوئے تو اس ملک کا مستقبل بھی بہتر ہوگا۔ انہوں نے اسلام کے تعلق سے برادران وطن میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اگر ہر مسلمان طالب علم اپنے پورے تعلیمی کیرےئر میں صرف چھ غیر مسلم بھائیوں تک اسلام کی حقانیت کو پہنچادے تو پندرہ سال کے اندر ملک کا منظر نامہ تبدیل ہوجائے گا۔ اسلام اور مسلمانوں سے نفرت خود بخود ختم ہوجائے گی۔
اس موقع پر فلسطینی مشن کے نمائندہ ڈاکٹر وائل برکتی نے بھی خطاب کیا۔ انہوں نے فلسطینوں کو درپیش مسائل اور اسرائیل کی زیادتیوں کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کیا۔ایس آئی او کے جنرل سکریٹری نے تنظیم کی سرگرمیوں کا ذکرکرتے ہوئے کہا کہ خواہ شریعت اسلامی کو بچانے کا معاملہ ہو‘ انسانی حقوق کی بات ہو یا طلبہ و نوجوانوں کے مسائل کو حل کرنے کا معاملہ ‘ ایس آئی او ہمیشہ آگے رہی ہے۔
افتتاحی اجلاس میں دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال کو بھی شرکت کرنی تھی لیکن دہلی میں جاری سیاسی اتھل پتھل کی وجہ سے نہیں آسکے۔
ایس آئی او کے پروعزم حوصلہ مند نوجوانو دہلی کی سرزمین پر آپ کا استقبال ہے۔ ایس آئی او کے قیام کے وقت ہمارے بزرگوں نے ایک خواب دیکھا تھا اس کارواں کا ایک رخ طے کیا تھا ہم اسی سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ یہ سفرشروع ہوئے اب 35 برس ہوچکے ہیں۔ یہ سفر امیدوں کا سفر تھا ، جدوجہد کا سفر تھا ،قربانیوں کا سفر تھا ،ہم اسی مشن اپنی منزل کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ہمارے بزرگوں نے طے کیا تھا کہ سماج کی تشکیل نو کے لیے طلبہ و نوجوانوں کو تیار کیا جائے ، مولانا ابواللیث اصلاحی ندوی رحمتہ اللہ علیہ نے کہا تھا کہ میں اپنی زندگی کے تجربات کی بنیاد پر یہ یقین رکھتا ہوں ، انشا اللہ اس تنظیم کو اور اس کے کارکنوں کو اللہ کی تائید اور نصرت حاصل ہوتی رہے گی۔
آج انہی بزرگوں کی دعاوں کا اثر ہے کہ آج ایس آئی او ایک منظم تنظیم بن چکی ہے۔ جوہر محاذ پر اپنا اثر رکھتی ہے ، ہر میدان مین دخل رکھتی ہے چاہے وہ تعلیمی ایشو ہو یا طلبہ کے ساتھ زیادتی ہو ، ظلم و تششد کے واقعات ہوں یا پالیسی میکنگ ڈبیٹ ہو مسجد ہو یاسڑک کی لڑائی ہو ایس آئی او ہر جگہ آپ کو نظر آئے گی۔ ہم اپنی صلاحیت اور افرادی قوت کے اعتبار سے کام کر رہے ہیں۔
ہمارے لیے سرچشمہ ہماری تاریخ ہے۔ ہماری ملت میں ایسے لوگ ہیں جو یہ سمجھتے ہیں اگر ہم اس راہ پر چلیں گے تو ہمارے سامنے بہت ساری دشواریاں کھڑی ہوں گیں۔ آگے چلنا بہت مشکل ہوگا ۔ جبکہ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے جس نے تم پر یہ ذمہ داری ڈالی ہے وہ آپ کے ساتھ ہے ہرگز کافروں کی بات نہ مانو جدوجہد کا راستہ اختیار کرو۔
یقینا یہ فتنہ کا بہت نازک ترین دور ہے ،لیکن آپکے لیے مصائب کے دور میں قرآن مجید ہدایات کرتا ہے ،ہمیں اپنی کمزوریوں کی خود احتسابی کرنی ہوگی۔ گزشتہ ستر برس سے ہم آرٹیکل 25 کو لیکر اپنے حقوق کی لڑائی لڑتے رہے ہیں۔ ہم اپنا یہ جائزہ لیں کہ ہم کہاں ہیں ہماری کامیابی کا فیصد کیا ہے۔
اس لیے میں اس اسٹیج سے نئی نسل سے یہ گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ ہم اپنی کوششوں کا جائزہ لیں ، یقنا ہمیں بہت سے مسائل سے گزرنا ہوگا ، کیونکہ اللہ یہ جاننا چاہتا ہے کہ اپنے دعوے میں سچا کون ہے اور جھوٹا کون ہے۔
جو چیز آپ کو ناگوار گزرتی ہو ہو سکتا ہے یہ آپ کے لیے بہتر ہو۔ ہم اپنے ایس آئی او کے نوجوانوں کے ذریعے اس ملت یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اس نازک دور میں بھی ہم اللہ کے مشن کو لیکر اٹھیں اور اللہ کی راہ میں ہمیں جو بھی قربانیاں دینی پڑیں اس کے لیے تیار رہیں۔ اللہ سے دعا ہے ہمارے کیڈرس ،والینٹئرس اس می راہ میں جو کوشش کر رہے ہیں اللہ ان کی کو ششوں کو قبول فرمائے۔(بشکریہ ایشاءٹائمز۔یواین آئی)

SHARE