نئی دہلی ۔9مارچ
ملت ٹائمز کی خاص رپوٹ
دارالعلوم دیوبند کا شمار ایشاءکی عظیم درسگاہ میں ہوتاہے ،ہندوستان کی آزادی ،شعائر اسلام کے تحفظ ،دینی علوم کے فروغ اور ملک وملت کی تعمیر کے حوالے سے دنیا بھر میں دارالعلوم دیوبند کو نمایاں مقام حاصل ہے اور یہاں کے فضلاءمختلف شعبوں میں دنیا کے مختلف حصوں میں نمایاں کارنامہ انجام دے رہے ہیںتاہم بدلتے وقت کے ساتھ یہاں کے فضلاءاب دارالعلوم دیوبند کے نصاب تعلیم میں کچھ تبدیلی چاہتے ہیں،دینی تعلیم کے علاوہ دیگر میدانوں میں کام کرنے والے فضلاءمدارس موجودہ دور میں کچھ پریشانیوں کا سامناکررہے ہیں ایسے میں ان کا مانناہے دارالعلوم دیوبند کو اپنے نصاب ،نظام اور سند میں وغیرہ میں کچھ تبدیلی کرنی چاہیئے تاکہ کام کرنے میں مزید آسانی ہواور کسی طرح کا کوئی سامنانہ کرنا پڑے۔چناں چہ انہیں امور کے پیش نظر دارالعلوم دیوبند کے سینئر فضلاءنے نومبر 2017 میں دارلعلوم دیوبند کی مجلس شوری کے نام ایک خط لکھاتھاجس میں یہ مطالبہ کیاگیا نصاب میں کچھ اس انداز کی تبدیلی کی جائے جس کی بنیاد پر وہاں کے فضلاءکا عصری اداروں میں باآسانی داخلہ ہوجائے ،پاسپورٹ آفس میں وہاں کی سند معتبر مانی جائے ،نیز سند اور تعلیمی مراحل کو دسویں بارہویں کے طرز پر بھی تقسیم کیا جائے ۔دارالعلوم دیوبند کے سینئر فاضل ڈاکٹر عبد الرحمن قاسمی نے ملت ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہاکہ دارالعلوم دیوبند کی خدمات پر ہمیں فخر ہے اور ہماری کامیابی کا سہرا اسی ادارے کو جاتاہے ،وہیں سے ہمیں فکری شعور ملاہے لیکن بدلتے وقت کے ساتھ ہم چاہتے ہیں کہ ذرانصاب میں کچھ تبدیل کرلیا جائے تاکہ ہمارے آنے والے دوستوں کو پریشانی کا سامنانہ کرنا پڑا ۔انہوں نے بتایاکہ نومبر 2017 میں ہم سینئر فضلاءدارلعلوم دیوبند کی مجلس شوری کے نام ایک خط بھی لکھاتھالیکن اس کوئی جواب نہیں مل سکاہے ۔ انہوں نے بتایاکہ خط پر میرے علاوہ جمعیة علماءہند سے وابستہ ڈاکٹر عبد الملک قاسمی ،دارالعلوم دیوبند کے سابق استاذ مفتی عبید اللہ قاسمی ،گوہاٹی یونیورسیٹی کے لیکچرار ڈاکٹر رفیق الاسلام قاسمی،جے این یو کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر اجمل قاسمی سمیت بارہ ایسے اہم فضلاءکے نام ان کے عہدہ ،پتہ اور فون نمبر کے ساتھ تھے جنہوں نے دارالعلوم کے بعد مختلف عصری اداروں سے تعلیم حاصل کرکے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے اوروہ دونوں اداروں کے نظام پر گہری نظر رکھتے ہیں ۔
واضح رہے کہ دارالعلوم دیوبند نے تاریخ میں پہلی مرتبہ سال کے آغاز میں یوجی سی کی میٹنگ میں بھی شرکت تھی ۔قومی تعلیمی پالیسی ایکٹ کی جانب سے دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوری کے رکن مولانا اسماعیل قاسمی نے 19 جنوری کو بنگلور میں ہونے والی میٹنگ میں شرکت کی تھی۔ میٹنگ میں اعلیٰ تعلیم کے مختلف تناظر(تکنیکی،صحت،مہارت ودیگر)پرتبادلہ خیال ہواتھا۔پینل کی میٹنگ میں دارالعلوم کے نمائندہ کی حیثیت سے گئے مولانا اسماعیل قاسمی نے بھی تین تجویز پیش کی۔ حکومت مدرسہ بورڈ کے زیرانتظام چلائے جا رہے مدارس کی تعلیم میں دخل اندازی نہ کرے، یوگا کو اختیاری موضوع کے طور شامل کیااور مدارس سے تعلیم حاصل کرنے والے طلباءکو تعلیم یافتہ ہونے کادرجہ دیاجائے،جو ابھی تک حکومت نے نہیں دیاہے۔
خیال رہے کہ11 مارچ سے رابطہ مدارس کا اجلاس بھی شروع ہورہاہے جس میں ہندوستان کے بھر مدارس کی شرکت ہوگی ۔دارالعلوم دیوبند کے قدیم فضلاءکا مانناہے کہ رابطہ مدارس کا حالیہ اجلاس تاریخی ہوگا اور نصاب تعلیم کے حوالے سے کچھ اہم فیصلے لئے جائیں گے ۔
ملت ٹائمز اپنے قارئین کی خدمت میں خط کا متن حرف بحر ف پیش کررہاہے ۔
باسمہ تعالی
لائق صد احترام حضرت مہتمم صاحب دارالعلوم دیوبند دامت برکاتہم
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
امید کہ حضرت والا بخیر ہوں گے اور مادر علمی کے تمام اساتذہ و طلبہ بعافیت ہوں گے۔
اس خط کے ذریعہ آپ کی خدمت ایک اہم عریضہ پیش کرنا چاہتے ہیں اور آپ کے توسط سے اپنی درخواست مجلس شوری دارالعلوم دیوبند کے معزز اراکین تک بھی پہنچانا چاہتے ہیں ۔
عرض یہ ہے کہ ہم فضلائے دارالعلوم آٹھ سالہ درس نظامی کی تکمیل کے بعد فضیلت (فاضل) کی سند پاتے ہیں۔ اس سند کو معاصر تعلیمی نظام میں عموماً بارہویں (میٹرک) کے مساوی تسلیم کیا جاتا ہے جب کہ بعض یونیورسٹیوں میں اسلامی و عربی کورسز میں داخلہ کے لیے اسے بی اے کے مساوی بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔
لیکن ہم فضلائے دارالعلوم کے ساتھ ایک المیہ یہ ہے کہ ہم کسی بھی درس نظامی کے مدرسہ میں تعلیم حاصل کریں ، ہمیں درجہ اول عربی سے لے کر دورہ تک کی تعلیم کی تکمیل کے بعد ہی کوئی سند ملتی ہے اور وہ سند کم از کم میٹرک کے برابر ہوتی ہے۔ لیکن آج ہمارے ملک میں حکومت ہر معاملہ میں دسویں (ہائی اسکول) کی سند مانگتی ہے۔ اگر کسی کے پاس میٹرک کی سند ہے اور ہائی اسکول کی سند نہیں ہے تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔ گویا ہائی اسکول بنیادی سرٹیفیکیٹ ہے۔ تاریخ پیدائش کے لیے بھی اسی کا اعتبار ہوتا ہے۔ پاسپورٹ وغیرہ میں اب ہائی اسکول کی سند کا پیش کرنا ضروری ہوگیا ہے، ورنہ غیر تعلیم یافتہ کے خانہ میں اندراج ہوتا ہے۔ اگر پاسپورٹ آفس میں ہم فضلائے مدارس فاضل کی سند جمع کریں تو اس کا اعتبار نہیں ہوتا، کیوں کہ وہ ہائی اسکول کی سند کے مساوی نہیں ہے۔ اس طرح ہم فضلائے دارالعلوم کے پاس دسویں کی سند نہیں ہوتی جو تعلیم کی بنیادی سند ہے۔
حکومت نے اب ڈیجیٹل انڈیا کا نعرہ دیا ہے جس میں ہر طرح کے فارم کی خانہ پری انٹرنیٹ کے ذریعہ ہوتی ہے ۔ انٹرنیٹ کے ذریعہ فارم بھرنے میں شخصی تفصیلات اور تعلیمی لیاقت کی تفصیلات بھرتے ہوئے دسویں (ہائی اسکول)کا خانہ ضروری ہوتا ہے ، اس کو بھرے بغیر آگے بڑھا نہیں جا سکتا۔
لہٰذا موجودہ حالات کے پس منظر میں اب ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مدارس کے تعلیمی نظام اور دورانیہ کو معاصر تعلیمی دورانیہ کے ہم آہنگ کیا جائے ۔ اس سلسلہ میں نہایت ادب سے درج ذیل معروضات پیش ہیں:
(۱) سب سے پہلی بات یہ ہے کہ مدارس کے تعلیمی نصاب و نظام میں کسی تبدیلی کا کوئی مطالبہ نہیں ہے، بلکہ صرف مدارس میں اس وقت جاری تعلیمی دورانیہ کو ملک کے معاصر تعلیمی مرحلوں میں تقسیم کرنے کا معاملہ ہے۔
(۲) دارالعلوم کی ویب سائٹ پر عربی میںایک کتابچہ (لمحة عن دارالعلوم ) نظر سے گذرا، اس میں دارالعلوم کے تعلیمی نظام کو عرب ممالک میں جاری تعلیمی دورانیہ کی طرح تقسیم کیا گیا ہے۔ یہ اس کی ایک مثال ہوسکتی ہے۔
(۳) موجودہ تعلیمی نظام اس طرح ہے: (۱) پرائمری ایجوکیشن : ایک سے پانچ تک ۔(۲) سیکنڈری ایجوکیشن : چھ سے دس تک۔ ہائر سیکنڈری ایجوکیشن: گیارہویں اور بارہویںکی تعلیم یعنی میٹرکولیشن
(۴) مدارس کے تعلیمی نظام کو اسی طرح تقسیم کیا جاسکتا ہے: (۱) ابتدائی تعلیم : ایک سے پانچ تک ۔(۲) ثانوی تعلیم : درجہ اول عربی سے ششم عربی تک۔ (۳) اعلی ثانوی تعلیم : عربی ہفتم اور عربی ہشتم (دورہ) ۔
(۵) طالب علم کو ثانوی تعلیم (یعنی عربی ششم ) کی تکمیل کے بعد ہائی اسکول (دسویں) کی مساوی سند دی جائے اور اس کو کوئی مناسب نام دے دیا جائے۔ یہ اس کے تعلیم یافتہ ہونے کا سرٹیفیکیٹ ہے۔ ضروری نہیں کہ اس کو حکومت سے منظور کرایا جائے بلکہ صرف اسے سند دے جائے اور اس کے ہائی اسکول کے برابر ہونے کا ذکر کردیا جائے۔
(۶) جو طالب علم جس ادارے میں عربی ششم کی تکمیل کرے اس کو اسی ادارے سے سند دی جائے۔
(۷) اعلی ثانوی تعلیم (یعنی ہفتم اور دورہ) کی تکمیل کے بعد فاضل کی سند دی جائے، اس میں یہ صراحت کردی جائے کہ عمومی طور پر یہ میٹرک (بارہویں) کے برابر ہے ، البہ بعض اداروں میں اسے دینیات اور عربی میں بی اے کے مساوی مانا جاتا ہے۔
ایک ضروری بات یہ ہے کہ ہماری معلومات کے مطابق ندوة العلمائ، جامعة الفلاح ، جامعہ سنابل اور احیاءالعلوم وغیرہ مدارس میں اس طرح کے اقدامات کیے گئے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ اس میں مدارس کے موجودہ تعلیمی نصاب و نظام میں کوئی تبدیلی نہیں کرنی ہے بلکہ صرف اس کے مراحل متعین کرنے ہیں اور ہر مرحلہ کو ایک نام دینا ہے اور معاصر تعلیمی اصطلاح میں اس کو کیا کہا جاسکتا ہے اس کا ذکر کردینا ہے۔ ورنہ صورت حال ایسی پیدا ہورہی ہے کہ ہمارے مدارس کے بچے درس نظامی کی تعلیم کے ساتھ ہائی اسکول کی مساوی سند پانے کے لیے مدرسہ بورڈ، اوپن اسکولنگ وغیرہ سے اپنی ضرورت کی تکمیل کرتے ہیں اور مدرسہ کی تعلیم کا نقصان کرتے ہیں۔
امید کہ حضرت والا ان معروضات پر غور فرمائیں گے اور حضرات اراکین شوری کی خدمت میں بھی یہ خط پیش فرمادیں گے تاکہ اس مسئلہ کا کوئی معقول حل نکالا جائے۔ جزاکم اللہ احسن الجزاء والسلام
فضلائے دارالعلوم دیوبند
(۱) عبد الرحمن قاسمی، پی ایچ ڈی، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی
(۲) محفوظ الرحمن قاسمی، پی ایچ ڈی، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی
(۳) عبد الملک قاسمی ، پی ایچ ڈی ، دہلی یونیورسٹی
(۴) عبید اللہ قاسمی، لیکچرار ، ڈاکٹر ذاکر حسین کالج، دہلی
(۵) قمر الدین قاسمی، گیسٹ لیکچرار، ڈاکٹر ذاکر حسین کالج، دہلی
(۶)جسیم الدین قاسمی، پی ایچ ڈی ، دہلی یونیورسٹی، دہلی
(۷)ظفیر الدین قاسمی، گیسٹ لیکچرار، دہلی یونیورسٹی، دہلی
(۸)عبد الآخر قاسمی، ایم فل، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، دہلی
(۹)رفیق الاسلام قاسمی، پی ایچ ڈی، گواہاٹی یونیورسٹی، آسام
(۰۱)محمد اجمل قاسمی، پی ایچ ڈی، لیکچرارجے این یو، نئی دہلی
(۱۱)شمشاد قاسمی، پی ایچ ڈی، جے این یو، نئی دہلی
(۲۱)فاروق اعظم قاسمی، پی ایچ ڈی، جے این یو، نئی دہلی
وغیرہ وغیرہ