مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
(ترجمان آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ )
اللہ قادر مطلق ہے اور انسان اپنے خالق کے مقابلہ عاجز محض ، دنیا میں کوئی بھی واقعہ جو پیش آتا ہے ، وہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے بغیر وقوع پذیر نہیں ہوسکتا ؛ اس لئے ایک صاحب ایمان کا کام یہ ہے کہ جب بھی وہ کسی مصیبت یا آزمائش سے دو چار ہو ، اللہ کی طرف رجوع کرے اور اللہ کے خزانۂ غیب سے مدد کا طلب گار ہو ؛ اسی لئے اسلام میں ایک مستقل نماز نمازِ حاجت رکھی گئی ، کہ انسان کی کوئی بھی ضرورت ہو ، دو رکعت نماز خاص اسی نیت سے پڑھ کر اللہ کے سامنے دستِ سوال پھیلائے ، بعض دفعہ ضرورتیں یا ابتلائیں غیر معمولی ہو جاتی ہیں ، ان مواقع کے لئے شریعت نے مخصوص نمازیں رکھی ہیں ، جیسے کسی کی وفات ہو جائے تو نمازِ جنازہ ، بارش نہ ہو تو نماز استسقاء ، کسی معاملہ کے بارے میں اضطراب ہو کہ کیا پہلو اختیار کرنا چاہئے ؟ تو نمازِ استخارہ ، سفر کے موقع پر دوگانۂ سفر ۔
اسی طرح اگر دشمنوں سے مقابلہ ہو ، خواہ اعداءِ اسلام کے خلاف اقدامی جہاد ہو، یا مدافعت کی جا رہی ہو، یا ظلم و ابتلاء سے دو چار ہوں ، تو ایسے مواقع کے لئے کوئی مستقل نماز تو نہیں رکھی گئی ؛ لیکن ایک خصوصی دُعاء رکھی گئی ہے ، جس کو ’’ قنوتِ نازلہ ‘‘ کہتے ہیں ، نازلہ کے معنی مصیبت و آزمائش کے ہیں اور قنوت کے متعدد معانی آتے ہیں ، جن میں سے ایک معنی دُعاء ہے اور اس تعبیر میں یہی معنی مراد ہے ، پس قنوتِ نازلہ کے معنی ہوئے مصیبت کے وقت کی دُعاء، مکہ میں جو کمزور لوگ پھنسے ہوئے تھے اور اہل مکہ انھیں ہجرت کی اجازت نہیں دیتے تھے ، رسول اللہ نے ان کے لئے قنوتِ نازلہ پڑھی ہے ، اسی طرح ایک خاص واقعہ پیش آیا ، جس میں حفاظ کی ایک بڑی تعداد شہید کر دی گئی ، یہ واقعہ سیرت کی کتابوں میں ’’بئر معونہ‘‘ سے مشہور ہے ، اس موقع پر بھی آپ انے ایک ماہ تک قنوت نازلہ پڑھی ہے۔
اس وقت شام کی صورت حال نہایت ہی ناگفتہ ہے، بچوں اور بوڑھوں کا جو قتل عام ہو رہا ہے، یہاں تک کہ امدادی قافلوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے، اور یہ سب کچھ فرعونِ وقت بشارا لاسد ظالم ایرانیوں اور روسیوں کے تعاون سے کر رہا ہے، دوسری طرف عالم اسلام پر نفاق اور بزدلی کے گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں، قطر کے سوا تمام ہی خلیجی ممالک یہودو نصاریٰ کے آلۂ کار ہیں۔
اس صورت حال میں اگر ہم کچھ اور نہیں کر سکتے تو کم سے کم ہمیں دعاؤں کے ذریعہ تو اپنے شامی بھائیوں کا تعاون کرنا چاہئے، اور خاص طور پر قنوت نازلہ کا اہتمام کرنا چاہئے۔
قنوتِ نازلہ کے سلسلہ میں کئی باتیں قابل ذکر ہیں ، قنوتِ نازلہ کا حکم رسول اللہؐ کے لئے مخصوص تھا ، یا آج بھی امت کے لئے باقی ہے؟ قنوتِ نازلہ کن مواقع پر پڑھی جائے گی؟ کس نماز میں پڑھی جائے گی؟ اور نماز میں قنوت پڑھنے کا کیا محل ہے؟ کون پڑھے گا؟ بآوازِ بلند پڑھی جائے یا آہستہ ؟ جب امام قنوتِ نازلہ پڑھے تو مقتدی کیا کرے ؟ قنوتِ نازلہ رسول اللہ ؐ اور صحابہ ث سے کن الفاظ میں منقول ہے ؟
بعض اہل علم کا خیال ہے کہ قنوتِ نازلہ آپ ا کے لئے مخصوص تھی ؛ لیکن تمام قابل ذکر فقہاء و ائمہ مجتہدین کے نزدیک رسول اللہؐ کے بعد بھی قنوت نازلہ کا حکم باقی ہے ؛ چنانچہ حضرت ابو بکرص سے مروی ہے کہ مسیلمہ کذاب سے جنگ کے وقت آپ نے قنوتِ نازلہ پڑھی، حضرت عمرؓ نے بھی بعض مواقع پر قنوتِ نازلہ پڑھی ہے ، آپ کی قنوت کے الفاظ بھی کتبِ احادیث میں تفصیل کے ساتھ منقول ہیں ، خلیفۂ راشد سیدنا حضرت علیؓ اور حضرت معاویہ ص کے درمیان جنگ کے موقع پر دونوں نے قنوتِ نازلہ پڑھی ہے ، ( دیکھئے : منحۃ الخالق علی البحر : ۲ ؍ ۴۴) — اس لئے صحیح یہی ہے کہ قنوتِ نازلہ کا حکم رسول اللہؐ کے لئے مخصوص نہیں تھا اور اب بھی یہ حکم باقی ہے ، ائمہ اربعہ اس پر متفق ہیں ۔
( دیکھئے : حلبی : ۴۲۰ ، شرح مہذب : ۳ ؍ ۵۰۶، المقنع : ۴ ؍ ۱۳۵)
فقہاء کی تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ جنگ وجدال کے علاوہ دوسری مصیبتوں کے مواقع پر بھی قنوتِ نازلہ پڑھنی مسنون ہے ، امام نووی شافعیؒ نے وباء اور قحط میں قنوت پڑھنے کا ذکر کیا ہے ، (روضۃ الطالبین و عمدۃ المفتیین : ۱ ؍ ۲۵۴) حنابلہ کے یہاں ایک قول کے مطابق وبائی امراض پھوٹ پڑنے پر بھی قنوتِ نازلہ پڑھی جاسکتی ہے ، ( دیکھئے : الانصاف مع المقنع: ۴ ؍۱۳۹) حنفیہؒ نے بھی لکھا ہے کہ طاعون کی بیماری پھیل جائے تو اس کا شمار بھی نوازل میں ہوگا، ( رد المحتار: ۲ ؍ ۴۴۷) ویسے رسول اللہ ؐ اور صحابہ ث سے وبائی امراض وغیرہ میں قنوتِ نازلہ پڑھنا ثابت نہیں ہے؛ چنانچہ حضرت عمرؓ کے عہد میں طاعون عمو اس کا واقعہ پیش آیا ، تو اس موقع پر قنوت نہیں پڑھی گئی (الانصاف : ۴ ؍ ۱۳۹) گویا اصل میں تو قنوتِ نازلہ جنگ کے موقع پر پڑھی گئی ہے؛ لیکن اس پر قیاس کرتے ہوئے فقہاء نے دوسری مصیبتوں میں بھی قنوتِ نازلہ کی اجازت دی ہے ؛ چنانچہ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہٌ صبح میں قنوت اسی وقت پڑھتے تھے ، جب کسی گروہ کے حق میں دُعاء کرنا یا کسی گروہ کے خلاف بد دُعاء کرنا مقصود ہوتا ، (اعلاء السنن ، حدیث نمبر : ۱۷۱۵) اسی مضمون کی روایت حضرت انسؓ سے بھی مروی ہے۔ ( اعلاء السنن : حدیث نمبر : ۱۷۱۴)
گویا جب مسلمان اعداءِ اسلام سے جنگ کی حالت میں ہوں تب تو خاص طور پر قنوتِ نازلہ مسنون ہے ؛ لیکن دوسری اجتماعی مصیبتوں کے موقع پر بھی قنوتِ نازلہ پڑھنے کی گنجائش ہے ۔
قنوتِ نازلہ کس نماز میں پڑھنی چاہئے؟ اس سلسلہ میں روایتیں مختلف ہیں ، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپ انے مسلسل ایک ماہ ظہر، عصر ، مغرب ، عشاء اور فجر میں آخری رکعت کے رکوع کے بعد قنوتِ نازلہ پڑھی ہے ، جس میں آپ بنو سلیم ، رعل ، ذکوان ، عصیّہ قبائل کے لئے بد دُعاء فرمائی ہے ، (ابو داؤد، حدیث نمبر: ۱۴۴۳) بخاری میں حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ آپؐ مغرب اور فجر میں قنوتِ نازلہ پڑھا کرتے تھے ، (بخاری، حدیث نمبر: ۱۰۰۴) رسول اللہؐ کا فجر اور مغرب میں قنوتِ نازلہ پڑھنا حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہے ، (طحاوی :۱ ؍ ۱۴۲) حضرت ابو ہریرہؓ کی ایک روایت میں نمازِ عشاء میں قنوتِ نازلہ پڑھنے اور مکہ کے مستضعفین کے لے دُعاء کرنے کا ذکر ہے ، امام طحاوی نے اس کو متعدد سندوں سے نقل کیا ہے ؛ چنانچہ فقہاء شوافع کے نزدیک تو پانچوں نمازوں میں قنوتِ نازلہ پڑھنے کی گنجائش ہے ، (شرح مہذب: ۲ ؍۵۰۶، روضۃ الطالبین: ۱؍۲۵۴) حضرت امام احمدؒ کا بھی ایک قول یہی ہے، ایک قول کے مطابق فجر اور مغرب میں قنوتِ نازلہ پڑھنی چاہئے ، ایک قول یہ ہے کہ تمام جہری نمازوں میں پڑھ سکتا ہے اور ایک قول کے مطابق صرف نماز فجر میں ، ( دیکھئے : الشرح الکبیر : ۴ ؍ ۱۳۷، الانصاف مع المقنع: ۴ ؍ ۱۳۷) غرض حنابلہؒ کے مختلف اقوال اس سلسلہ میں منقول ہیں ۔
فقہاء احناف کے یہاں دو طرح کی تعبیرات ملتی ہیں، ایک یہ کہ تمام جہری نمازوں میں قنوتِ نازلہ پڑھنا چاہئے ، فقہ حنفی کی اکثر متون یعنی بنیادی کتابوں میں یہی لکھا ہے : ’’فیقنت الامام فی الصلوٰۃ الجہریۃ‘‘ ( ملتقی الابحر علی ہامش المجمع : ۱؍ ۱۲۹) مشہور حنفی فقیہ علامہ صحکفیؒ نے بھی بعینہٖ یہی الفاظ لکھے ہیں ، ( در مختار مع الرد : ۲ ؍ ۴۴۸) مشہور محقق امام طحطاوی نے بھی جہری نمازوں میں قنوت کی اجازت نقل کی ہے ، (طحطاوی علی المراقی: ۲۰۶) یہی بات بعض دوسرے فقہاء احناف سے بھی منقول ہے ، (دیکھئے : رد المحتار: ۲ ؍ ۴۴۸) ماضیٔ قریب کے اہل علم میں مولانا انور شاہ کشمیریؒ کا بھی یہی نقطۂ نظر ہے ، ( فیض الباری: ۲ ؍ ۳۰۲) اور علامہ حمویؒ نے اسی قول کو زیادہ درست قرار دیا ہے ، (منحۃ الخالق علی البحر: ۲ ؍۴۴) — دوسری رائے یہ ہے کہ صرف نمازِ فجر میں قنوتِ نازلہ پڑھنا درست ہے ، علامہ شامیؒ کا رجحان اسی طرف ہے ، شامیؒ کا گمان ہے کہ ممکن ہے کہ بعض نقل کرنے والوں نے ’’ صلاۃ الفجر ‘‘ کو غلطی سے ’’ صلاۃ الجہر ‘‘ لکھ دیا ہو ، ( دیکھئے : رد المحتار: ۲ ؍ ۴۴۸) لیکن جب اتنی ساری نقول موجود ہیں، تو محض ظن و تخمین کی بناء پر اسے رد نہیں کیا جاسکتا ، اسی لئے خود علامہ شامیؒ نے لکھا ہے کہ شاید اس سلسلہ میں احناف کے دو قول ہیں : ’’ولعل فی المسئلۃ قولین‘‘۔ (منحۃ الخالق علی ہامش البحر : ۲ ؍ ۴۴)
پس ، جو بات راجح معلوم ہوتی ہے وہ یہ کہ قنوتِ نازلہ مغرب ، عشاء اور فجر تینوں میں پڑھنے کی گنجائش ہے ؛کیوں کہ اس سلسلہ میں احادیث موجود ہیں ؛ البتہ چوں کہ فجر کے بارے میں اتفاق ہے اور دوسری نمازوں کی بابت اختلاف ؛ اس لئے فجر میں قنوتِ نازلہ کی زیادہ اہمیت ہے— رہ گئی حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت جس میں ظہر و عصر میں قنوتِ نازلہ پڑھنے کا ذکر ہے ، تو اکثر فقہاء کے نزدیک وہ منسوخ ہے اور احادیث میں بعض قرائن اس کے منسوخ ہونے پر موجود ہیں ۔
نماز میں قنوتِ نازلہ کب پڑھی جائے گی ؟ تو اس سلسلہ میں احادیث میں قریب قریب اتفاق ہے کہ قنوتِ نازلہ رکوع کے بعد پڑھی جائے ، (دیکھئے : بخاری، حدیث نمبر: ۱۰۰۲، ابو داؤد : حدیث نمبر : ۱۴۴۴) فقہاء نے بھی اس کی صراحت کی ہے ۔ (منحۃ الخالق علی ھامش البحر : ۲ ؍ ۴۴)
دُعاء ِقنوت زور سے پڑھی جائے یا آہستہ ؟ اس سلسلہ میں حضرت ابو ہریرہؓ کی صحیح روایت موجود ہے کہ رسول اللہؐ نے قبیلۂ مضر کے خلاف بد دُعاء کرتے ہوئے جہراً قنوت پڑھی ہے ، ( بخاری کتاب التفسیر ، باب قولہ : لیس لک من الامر شئی ) اس لئے راجح قول یہی ہے کہ قنوتِ نازلہ امام کو جہراً پڑھنا چاہئے ، اسی کو اہل علم نے ترجیح دی ہے ، (دیکھئے :اعلاء السنن : ۶ ؍۱۱۲) یوں دُعاء آہستہ کرنا بھی درست ہے ؛ بلکہ عام حالات میں آہستہ دُعاء کرنا افضل ہے ؛ لہٰذا آہستہ پڑھنے کی بھی گنجائش ہے — جب امام قنوتِ نازلہ پڑھے تو مقتدی کیا کرے ؟ اس سلسلہ میں علامہ شامیؒ نے لکھا ہے کہ اگر امام جہراً دعاء قنوت پڑھے ، تو مقتدی آمین کہنے پر اکتفاء کرے اور اگر آہستہ پڑھے تو مقتدی بھی دُعاء کو دہرائے ، (رد المحتار : ۲ ؍ ۴۴۹) — اس بات پر حنفیہ کا اتفاق ہے کہ جیسے نماز سے باہر ہاتھ اُٹھا کر دُعاء کی جاتی ہے ، اس طرح قنوتِ نازلہ میں ہاتھ اُٹھا کر دُعاء نہیں کی جائے گی؛ لیکن ہاتھ باندھ کر رکھا جائے ؟ یا چھوڑ دیا جائے ؟ اس سلسلہ میں کوئی صریح حدیث موجود نہ ہونے کی وجہ سے فقہاء کے درمیان اختلاف ہے ، امام ابو حنیفہؒ اور امام ابو یوسف ؒ کے نزدیک ہاتھ باندھنا بہتر ہے اور امام محمد ؒ کے نزدیک ہاتھ چھوڑے رکھنا بہتر ہے ، ( دیکھئے :اعلاء السنن : ۶ ؍۱۲۲) چوں کہ قنوتِ نازلہ ’’قومہ ‘‘کی حالت میں پڑھا جاتا ہے اور قومہ کی حالت میں ہاتھ چھوڑے رکھنا مسنون ہے ؛ اس لئے بہتر یہی معلوم ہوتا ہے ، کہ ہاتھ چھوڑے رکھے ؛ البتہ بعض شوافع اور حنابلہ کے نزدیک قنوتِ نازلہ میں بھی اسی طرح ہاتھ اٹھانے کی گنجائش ہے ، جس طرح عام دُعاؤں میں، (دیکھئے: المغنی : ۲ ؍ ۵۸۴ بہ تحقیق ترکی وغیرہ) مگر خاص نماز کی حالت میں ہاتھ اُٹھا کر دُعاء کرنے میں غالباً کوئی حدیث نہیں ۔
رہ گئے قنوتِ نازلہ کے الفاظ ، تو اس سلسلہ میں کچھ خاص الفاظ ہی کی پابندی ضروری نہیں : ’’واما دعاء ہ فلیس فیہ دعاء موقت‘‘ ( البحر الرائق : ۲ ؍۴۱) البتہ ظاہر ہے کہ جو الفاظ رسول اللہؐ اور صحابہ ث سے ثابت ہوں ، ان کو پڑھنے کا اہتمام کرنا بہتر ہے ، اس سلسلہ میں ایک تو حضرت علی صکی روایت ہے کہ رسول اللہ انے ان کو ان الفاظ میں دُعاء سکھائی :
اَللّٰھُمَّ اھْدِنِی فِیْ مَنْ ھَدَیْتَ وَعَافِنِیْ فِیْمَنْ عَافَیْتَ وَتَوَلَّنِیْ فِیْمَنْ تَوَلَّیْت ، وَ بَارِک لِی فِیْمَا اَعْطَیْت وَقِنِی شَرَّ مَاقَضَیْتَ ، فَاِنَّکَ تَقْضِیْ وَلَایُقْضٰی عَلَیْکَ وَاِنَّہٗ لَا یَذِلُّ مَنْ وَّالَیْتَ ، تَبَارَکَ رَبَّنَا وَتَعَالَیْتَ ۔ ( ابو داؤد ، حدیث نمبر : ۱۴۲۵)
اے اللہ ! مجھے بھی ان لوگوں کے ساتھ ہدایت عطا فرمائیے ، جنھیں آپ نے ہدایت دی ہے اور مجھے بھی ان لوگوں کے ساتھ عافیت میں رکھئے ، جن کو آپ نے عافیت سے سرفراز فرمایا ہے اور میری بھی ان لوگوں کے ساتھ نگہداشت فرمایئے ، جن کو آپ نے اپنی نگہداشت میں رکھا ہے ، جو کچھ آپ نے عطا فرمایا ہے، اس میں میرے لئے برکت عطا فرمایئے ، قضاء و قدر کے شر سے میری حفاظت فرمائیے ؛ کیوں کہ آپ فیصلہ کرتے ہیں ، آپ کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا ، جسے آپ دوست بنالیں، وہ ذلیل نہیں ہو سکتا اور جس کے آپ دشمن ہوں، وہ باعزت نہیں ہو سکتا ، پروردگار ! آپ کی ذات ، مبارک اور بلند ہے ۔
حضرت عمرؓ سے بھی ایک دُعاء پڑھنا منقول ہے ، جس کو امام نوویؒ نے بیہقی کے حوالہ سے نقل کیا ہے ، ( الاذکار: ۹۷) اور علامہ شامیؒ نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ان الفاظ کا اضافہ نقل کیا ہے ، جو وتر والی دُعاء قنوت پڑھنے کے بعد وہ پڑھا کرتے تھے ، اس دُعاء میں حضرت عمرؓ کی دُعاء کا عطر بھی آگیا ہے ؛ اس لئے اس دُعاء کے الفاظ کا نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے :
اللھم اغفر للمؤمنین والمؤمنات والمسلمین والمسلمات وألّف بین قلوبھم وأصلح ذات بینہم و انصرھم علی عدوک وعدوھم ، اللھم العن کفرۃ اھل الکتاب الذین یکذبون رسلک ویقاتلون اولیاء ک ، اللھم خالف بین کلمتہم وزلزل أقدامھم وأنزل بھم بأ سک الذی لا تردہ عن القوم المجرمین ۔ (رد المحتار : ۲ ؍ ۳۳،۴۳۲)
الٰہی ! اصحابِ ایمان مردوں اور عورتوں اور مسلمان مردوں اور عورتوں کی مغفرت فرما دیجئے ، ان کے دلوں کو جوڑ دیجئے ، ان کے باہمی اختلاف کو دور فرما دیجئے ، ان کی آپ کے دشمن اور ان کے دشمن کے مقابل مدد فرمایئے ، اے اللہ! کفار اہل کتاب پر آپ کی لعنت ہو، جو آپ کے رسولوں کو جھٹلاتے ہیں اور آپ کے اولیاء سے بر سر پیکار ہیں ، اے اللہ ! ان کے درمیان اختلاف پیدا کر دیجئے ، ان کے قدم کو متزلزل فرما دیجئے اور ان کو آپ اپنے اس عذاب میں مبتلا فرمایئے ، جو مجرم لوگوں سے ہٹایا نہیں جاتا ۔
علامہ حصکفیؒ نے لکھا ہے کہ دُعاءِ قنوت کے بعد رسول اللہؐ پر درود شریف بھی بھیجنا چاہئے : ’’ ویصلی علی النبی و بہ یفتی‘‘۔( در المختار : ۲ ؍ ۴۴۲)
یہ وقت ہے کہ ہر مسلمان اپنی جبین بندگی خدا کے سامنے خم کر دے اور پورے الحاح اور فروتنی کے ساتھ اللہ کے سامنے دست ِسوال پھیلائے ، کہ دنیا میں اسلام کا نام سربلند ہو اور اسلام اور مسلمانوں سے بغض رکھنے والے بالآخر آخرت کی طرح دنیا میں بھی محرومی کا حصہ لے کر واپس ہوں : ’’ وما ذٰلک علی ﷲ بعزیز ، انہ علٰی کل شییٔ قدیر‘‘۔
(ملت ٹائمز)