دین اور سائنس میں کتنی قربت اور کتنا بعد؟

محمد اللہ قیصر
سائنس کی ترقی کے ساتھ ہی ہمارے یہاں اہل علم کئی خانوں میں بٹ گئے، ایک طرف خالص دینی علوم کے حاملین تھے تو دوسری طرف کچھ لوگوں کی جولان گاہ خالص عصری علوم تھے، پہلے طبقہ پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ اس نے ابتداء سے ہی سائنس کو ضلالت و گمراہی کا منبع قرار دیکر امت کو سائنسی تحقیقات سے دور کر دیا، نتیجۃ زندگی کے نت نئے وسائل کے ایجاد و اختراع میں ہم سیکڑوں سال پیچھے چلے گئے اور ہماری حالیہ درگت اسی علمی و سائنسی تخلف کا نتیجہ ہے، دوسرا طبقہ دین اور سائنس کو اس قدر قریب سمجھتا ہے کہ جیسے وہ ایک دوسرے کیلئےلازم و ملزوم ہوں، ان کے نزدیک دین سے ثابت شدہ ہر بات کا سائنٹیفک (Scientific) ہونا ضروری سمجھا جاتا ہے، وہ دین کی باتوں کو سائنس کی کسوٹی پر پرکھنے کے بعد اس کے حق و ناحق ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں، آپ اگر ان سے کہہ دیں کہ دین اور سائنس دو الگ الگ علوم ہیں جن کے موضوع اور مقاصد، غرض و غایت بھی مختلف ہیں، مصادر و مراجع، طریق تحقیق اور اصول بھی الگ ہیں تو فورا آپ پر یہ کہتے ہوئے برس پڑیں گے کہ جناب آپ تو دین کو “غیر سائنٹیفک” اور “غیر فطری” کہہ رہے ہیں، حالانکہ ان کا یہ نتیجہ نکالنا ہی غلط ہے. یہ صورت حال عموما ان کےیہاں پیش آتی ہے جن کے یہاں علوم عصریہ اور علوم دینیہ میں توازن نہ ہو، خالص سائنس کا طالب علم جس نے دین کو یا تو بالکل نہیں پڑھا، یا پڑھا بھی تو دین کے نام پر اس کے چند مسائل پڑھ کر اسی کو پورا دین سمجھ لیا، اسی طرح علوم دینیہ کے طلبہ جو سائنس کی دوچار تھیوری یا اسکی چند تحقیقات جان کر پورے سائنس کو اس پر قیاس کرنے لگیں، تو ایسی صورت میں صحیح رائے تک پہونچنا انتہائی مشکل ہوتاہے، ایسے لوگ عموما جب دوسرے علوم کا مطالعہ کرتے ہیں تو موضوع، مقاصد، اور اصول کے اختلاف کے باوجود اسے اپنے اپنے میدان تخصص کے زاویہ سے دیکھنے لگتے ہیں، ایک عالم دین سائنسی تحقیقات کو دینی اصول پر پرکھتا ہے تو سائنس کا طالب علم، دین کے بیان کردہ موضوعات کو سائنسی اصولوں پر.اور یہیں سے اصل خرابی پیدا ہوتی ہے۔
لہذا صحیح فکر تک پہونچنے کیلئے ضروری ہے کہ انسان کم از کم دونوں علوم کے موضوع ،مقاصد اور مبادیات سے واقف ہو، اور گفتگو اسی دائرے تک محدود رکھے تو وہ ٹکراؤ سے بچتے ہوئے شاید صحیح رائے تک پہونچ سکتا ہے، کسی علم کے صرف چند فروعات کو سامنے رکھ کر صحیح فیصلہ کرپانا تقریبا مشکل ہے۔
علوم دینیہ اور سائنس کی ایک دوسرے سے قربت و بعد یا دونوں کے آپسی تعلق کو جاننے کیلئے اگر ان کے موضوع اور مقاصد کو سمجھنے کی کوشش کریں تو مسئلہ بہت آسان ہو جائے گا۔
علامہ شبلی نعمانی رحمۃ اللہ علیہ کی رائے ہے کہ سائنس اور دین کے موضوع الگ الگ ہیں، اور اپنی تائید میں انہوں نے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی بھی یہی رائے پیش کی ہے۔
دین کا موضوع
دین (مراد مذہب اسلام ہے) عقائد، عبادات، اخلاقیات، معاملات، اور معاشرت جیسے توحید و رسالت، بعث بعد الموت، نماز روزہ حج ، زکوۃ، حلم و برباری، آپسی لین دین، اور گھرمیں کیسے رہنا ہے اہل خانہ کے ساتھ کیسے زندگی گذارنی ہے وغیرہ سے بحث کرتا ہے۔
دین بنیادی طور پر ان امور کو اس طرح اپنا موضوع نہیں بناتا ہے کہ ان کے احوال و خصوصیات، اور اقسام بیان کرے، (جیسا کہ موضوع کی تعریف میں کہا جاتا ہے “موضوع کل علم ما یبحث فیه عن أعراضه الذاتیة” جہاں کسی چیز کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں وہاں وہ ضمنا ہیں جیسے شرک سے روکا گیا لیکن اس کی تعریف اور اس کے اقسام نہیں بیان کئے گئے، ہاں اشارے ضرور دئے تاکہ بندوں کیلئے سمجھنا آسان ہوجائے.) موضوع کے احوال سے بحث کی بجائے دین ان امور میں انسانوں کی رہنمائی کرتا ہے، اور کسی چیز کو کرنے یا اسے چھوڑنے کیلئے ہدایات جاری کرتا ہے (هدى للمتقين)۔
غرض و غایت
دین کی ساری رہنمائی اور ہدایات کا مقصد ہے کہ اللہ کے بندے اپنے معبود کی ہدایات کے مطابق زندگی گذار کر اپنے مالک کی معرفت حاصل کرلیں، اور اپنے خالق سے تعلق مضبوط تر کرکے خود کو دارین کی سعادتوں کا مستحق بنالیں۔
سائنس کا موضوع
سائنس نے موجودات کائنات کو اپنا موضوع بنایا، مثلا، اجسام و اعیان، افلاک، اور تمام موجود مادے، سائنس کا طالب علم دیکھتا ہے کہ الیکٹرون کی مووینگ کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ روشنی (Light) ویو (Wave) ہے یا میٹر (Matter) یا دونوں؟ کیا دونوں کبھی یکجا ہو سکتے ہیں؟ خلاء (Space) میں زندگی کا وجود ہے کہ نہیں ، کائنات میں کتنے سیارے ہیں، زمین گول ہے، سورج سے زمین کی دوری ،الیکٹرون (Electron)، پروٹون (Proton)، نیوٹرون (Nutrone) کیا ہیں ان کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں، سائنس میں ان سب موجودات کائنات کے عوارض ذاتیہ سے بحث کی جاتی ہے۔
مقصد
سائنس خدا کی بنائی ہوئی کائنات میں غور و فکر کر کے تجربات و مشاہدات کے ذریعہ بہتر سے بہتر وسائل زندگی کو پانے یا اسے مزید بہتر بنا نے کی کوشش کرتا ہے.
اب ان باتوں میں غور کیجئے تو دو اور دو چار کی طرح واضح ہوجاتا ہے کہ سائنس اور دین میں کوئ بنیادی اختلاف ہے ہی نہیں کیونکہ اختلاف تب ہوتا جب دونوں کے موضوع ایک ہوتے، مقاصد ایک ہوتے، دونوں ایک ہی شی پر ایک زاویے سے اور ایک مقصد کے تحت بحث کرتے تو دونوں کی رائے میں اختلاف کا امکان تھا، لہذا ان میں کوئ اختلاف نہیں کیونکہ موضوع اور مقصد یا بحث کے زاویے کا اختلاف، رائے میں عدم اختلاف کو مستلزم ہے.
سائنس دانوں نے ان امور کو موضوع نہیں بنایا جو مذہب کے اصل موضوع تھے جیسے عبادات وغیرہ یا کہیں موضوع اگر ایک ہوبھی جائے تو دونوں کے بحث کے زاویے الگ ہوتے ہیں، مثلا عبادات ،اخلاقیات ،معاملات ، توحید، رسالت، قیامت،بعث بعد الموت، اشیاء کے استعمال میں جواز اور عدم جواز کا حکم،( جو مذہب کا خالص موضوع ہے) کو اپنا موضوع کبھی نہیں بنایا، اسی طرح بہت ساری چیزوں میں دیکھیں گے کہ دین اور سائنس دونوں ایک ہی شی پر گفتگو کرتے ہیں لیکن دونوں کی حیثیت الگ ہوتی ہے۔
اصلا دین حکم بیان کرتا ہے، اور حکمت کبھی کبھی ازراہ تشویق بیان کر دیتا ہے لیکن سائنس اصلا حکمت کی تلاش کرتا ہے حکم کبھی اس کا موضوع رہا ہی نہیں، یہاں یہ کیلئر ہوجا تا ہے کہ سائنس اور دین میں کوئ ٹکراؤ ہے ہی نہیں، بلکہ سائنس دین کیلئے معاون کی حیثیت رکھتا ہے اسلئے علماء نے کبھی اس کی اہمیت کا انکار نہیں کیا۔
اسی طرح سائنس نے اپنے اصول کے مطابق اپنے مقصد کیلئے کچھ ثابت کیا تو ضمنا دین کی کوئ بات ثابت ہوگئی، مثلا ایک تھیروپیسٹ نماز کی ایکٹیویٹیز میں غور کرتا ہے تو اسے بے شمار فائدے نظر آتے ہیں، امراض بطن کا ایک ماہر پیٹ کو خالی رکھنے کے اثرات پر غور کرتا ہے تو اسے روزے کی شکل میں پیٹ کے بے شمار امراض سے نجات پانے ایک نسخہ ہاتھ لگتا، اب غور کیجئے کہ دین نماز کا حکم دیتے ہوئے حکمت بیان کرتا ہے کہ “إن الصلوة تنهى عن الفحشاء والمنكر” روزه كا حکم دیتے ہوئے کہتا ہے کہ” لعلكم تتقون” لیکن سائنس دان کہتا ہے کہ چونکہ انسان چوبیس گھنٹے کھڑا،بیٹھا یا سورہا ہوتا ہے اور قلب کی سطح دماغ سے نیچے ہوتی، بنابریں قلب کے ذریعہ پمپ کئے ہوئے خون کو دماغ تک پہونچے میں دشواری ہوتی ہے اور وہ بہت تھوڑی مقدار میں پہونچتا ہے، جبکہ خون کا دماغ تک اچھی طرح پہونچنا انتہائی ضروری ہے، تو اس مشکل کا حل یہ ہے کہ انسان کچھ وقفے کیلئے اپنے سر کو اس طرح نیچے رکھے کہ قلب کی سطح اوپر ہو، اور دماغ کی سطح نیچے، اتنا کہہ کر سائنس خاموش ہوجاتاہے، پھر جب ہمارے سامنے سائنس کی یہ تحقیق آتی ہے تو ہم کہتے ہیں کہ ہمارے دین نے ہمیں دن بھر میں پانچ اوقات کی 17 رکعتوں میں 34 مرتبہ یہ عمل سجدے کی شکل میں فرض کر دیا ہے، اب دیکھئے کہ سائنس نے خاص نماز کو موضوع بناکر اس کی حکمتیں جاننے کیلئے تحقیق نہیں کی بلکہ اس نے جسم انسانی پر ایک عام تحقیق کی تو دین کے ایک حکم کی حکمتیں اس میں ضمنا معلوم ہوگئیں، پتہ چلا کہ نماز کا ایک فایدہ وہ ہے جو دین نے بتایا اور دوسرا وہ جو سائنس سے سمجھ میں آیا. ایسی ہی صورتوں میں ہم کہہ دیتے ہیں کہ نماز، یا روزہ سائنٹیفک (Scientific) ہے۔
سائنس نے ہمیشہ موجودات کائنات میں غور کیا، اسی لئے اکثر ایسا ہوتا ہے کہ مذہب اور سائنس کی ایجادات یا اس کے ثابت شدہ نظریہ (Stabilised Theory) میں ٹکراؤ نظر نہیں آتا،(واضح رہے کہ نظریہ ارتقاء اب تک سائنس کا ثابت شدہ نظریہ نہیں ہے،اس سلسلے میں خود سائنسدانوں کے مابین شدید اختلاف ہے) مثلا، انٹرنیٹ، کمپیوٹر، مصنوعی سیارے، یا سائنس کی سب سے بڑی ایجاد کہی جانے والی چیز پیا (Vehicle)، اور اس کے علاوہ بے شمار ایجادات، ان تمام چیزوں کا کہیں بھی دین سے بنیادی طور پر کوئی  ٹکراؤ نہیں ہے، البتہ ان چیزوں کی ایجاد کے بعد ایک مسلمان یہاں ضرور غور کریگا کہ دینی اصولوں پر ان کے استعمال کا کیا حکم ہے، مثلا سائنس نے ایٹم بم ایجاد کیا پھر دین نے بتایا کہ اس طرح کے عام تباہی پھیلانے والے ہتھیار کا استعمال جس میں بے قصور بھی مارے جائیں حرام ہے۔
اسی طرح مذہب نے سائنس کے موضوعات (موجودات کائنات) کو باضابطہ اسی حیثیت سے اپنا موضوع نہیں بنایا جس حیثیت سے سائنس بحث کرتا ہے، کہ ان موجودات کی تمام تفصیلات اور ان کے خواص بیان کرے، کہیں ذکر کیا بھی تو وہاں انسان کو فکر کی دعوت دیکر اسے چھوڑ دیا اور اشارۃ کہہ دیا کہ اس میں تم خود غور کرو، (افلا ينظرون إلى الإبل كيف خلقت الخ) پھر غور کرنے کیلئے انسانوں نے اپنے اپنے اصول متعین کئے، ان میں فلسفہ قدیم کے اپنے اصول ہیں جو استنباطی (Deductive) ہیں جیسے قیاس یعنی صغری کبری کو ترتیب دیکر نتیجے تک پہونچنا، جو پہلے سے موجود تھے، کچھ لوگوں نے غور و فکر کیلئے انہیں کو اپنایا اور فلسفہ جدید (سائنس) نے اپنے اصول متعین کئے جو استقرائی (Inductive) ہیں،مثلا مشاہدات، تجربات، پھر بعد کے زمانہ میں تجربات و مشاہدات سے کسی ثابت شدہ امر کے ذریعہ کسی دوسری چیز کے وجود پر استدلال کو بھی سائنس نے اپنے اصول میں شامل کیا جیسے بلب کی روشنی دیکھ کر تار میں کرنٹ کی موجودگی پر استدلال کیا جاتاہے ،جس نے بھی اپنے اپنے اصول کے مطابق غور کیا وہ واقعی کچھ کم یا زیادہ کامیاب ہوا، (واضح رہے کہ مذہب نے کائنات میں غور کرنے کی دعوت تو دی لیکن اس کیلئے باضابطہ اصول و ضوابط متعین نہیں کئے،اصول کی وضع بھی انسانوں کے ذمہ چھوڑ دیا، یہاں تک مذہب اور سائنس میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے، بلکہ سائنس مذہب کو سمجھنے میں معاون ہوتے ہیں، کیونکہ خود اللہ نے بھی انسان کو اپنے خالق کی معرفت تک پہونچنے کیلئے اور اسے سمجھنے کیلئے کائنات میں غور کی دعوت دی ہے، دوسرے لفظوں میں،خالق کی معرفت کیلئے مخلوق یعنی کائنات میں غور و فکر کو معاون بنانے اور اس سے مدد لینے کا حکم دیا ہے، اور سائنس کا کام ہی ہے کائنات میں غورو فکر اور تجربات و مشاہدات کے ذریعہ مقصد تک پہونچنا۔
دوسری طرف سائنس نے عبادات ،اخلاقیات، معاملات، توحید، رسالت، قیامت، بعث بعد الموت، اشیاء کے استعمال میں جواز اور عدم جواز کا حکم، ( جو مذہب کا خالص موضوع تھا) کو اپنا موضوع کبھی نہیں بنایا،ہاں سائنس نے اشیاء کے فوائد اور مضرات یا اسکے خواص کو ضرور بیان کیا لیکن جواز اور عدم جواز کی بحث نہیں چھیڑی۔
ہاں کچھ ایسی باتیں بھی ہیں جن کو سائنس نے اپنے اصول پر ثابت کرنے کی کوشش کی جبکہ مذہب نے بھی اس کو پہلے بیان کردیا ہو جیسے تخلیق انسان، ایسی صورت میں مذہب اور سائنس کا اختلاف بھی ظاہر ہوتا ہے، کیونکہ یہاں دیکھئے کہ دونوں کے موضوع ایک ہو گئے، سائنس اپنے اصول کے مطابق اسی چیز کو اپنا موضوع بحث بنا رہا ہے جس پر دین اپنی رائے دے چکا ہے، تو فطری طور پر اختلاف ہوگا،لیکن اس طرح کے سائنسی نظریات اب تک ثابت شدہ نہیں ہیں، خود سائنسدانوں کا کسی ایک امر پر اتفاق نہیں ہے،یہ ابھی بھی تحقیق کے مراحل میں ہیں، اور ایسے امور کی تعداد کم ہے،اور سائنس کے انہیں غیر ثابت شدہ نظریات میں ایسے اختلافات ظاہر ہوتے ہیں۔
آپ کوئی  ایسا مسئلہ پیش نہیں کرسکتے جسے سائنس نے اسی حیثیت سے اپنا موضوع بنایا ہو جس حیثیت سے وہ دین کا موضوع ہے، اور خالص سائنسی طریقہ پر اس کو ثابت کرکے اس کا حکم بیان کیا ہو۔
اسلام کے سائنٹفک (Scientific) ہونے کا مطلب.
اکثر کہا جاتا ہے کہ دین سائنٹیفک ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ دین نے جن باتوں کو کرنے یا اس سے اجتناب کا حکم دیا ہے وہ سائنس کے اصول کے مطابق بھی مفید یا مضر ہے، جیسے دین نے شراب سے منع کردیا اور ہلکا اشارہ دے دیا کہ اس میں نفع کم نقصان زیادہ ہے (و اثمهما اكبر من نفعهما)، پھر سائنس نے اپنے اصول (تجربات و مشاہدات) کی بنیاد پر شراب کو پرکھ كر اس نے تفصیل کے ساتھ بتادیا کہ اس میں کتنا فیصد نفع اور کتنا نقصان ہے،
یا دوسرے لفظوں میں سائنس نے کسی چیز کو ثابت کرنے کیلئے جو پیرا میٹرس طے کئے ہیں اسی پیرا میٹر پر اگر کسی چیز کو ثابت کیا جائے تو وہ سائنٹیفک (Scientific) ہوگی ورنہ نہیں، مثلاً اشیاء کی حقیقت کو جاننے کیلئے فلسفہ قدیم کے اپنے اصول ہیں اسی طرح سائنس کے بھی کچھ اصول ہیں، ایک فلسفی اس شی کو فلسفہ کے اصول پر ثابت کرے گا تو وہ چیز فلسفہ سے ثابت شدہ کہلائے گی، جبکہ وہی فلسفی انسان اسی شی کو ثابت کرنے کیلئے اگر سائنس کے اصول و ضوابط فولو کریگا تو وہ چیز “سائنٹفک” کہلائے گی، فلسفے کے حصے میں نہیں آئے گی، اسی طرح جو باتیں دین سے ثابت ہیں، سائنس یا فلسفہ کے اصول پر نہیں پرکھی گئیں وہ سائنسی کیسے ہوگی؟ مثلا نماز، روزہ، زکوۃ، یہ دینی امور ہیں نہ کہ سائنسی ہاں یہ الگ بات ہے کہ بعد میں چل کر سائنس نے اپنے اصول کے مطابق ان امور پر غور کیا تو اس کو بڑے فوائد نظر آئے لیکن یہاں بھی دیکھئے تو سائنس ان امور پر بحیثیت عبادت نہیں غور کرتا ہے، بلکہ ان ایکٹیویٹیز کو آبزرو کرکے اپنے تجربات کی روشنی میں یہ دیکھتا ہے کہ انسانی جسم پر ان کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ ایسی ہی باتیں جب اہل دین کو ملتی ہیں تو وہ کہنے لگتے ہیں کہ دیکھو جو دین نے کہا تھا سائنس اسی کی تصدیق کر رہا ہے ،علماء اکثر لوگوں کے دلوں میں دین سے ثابت شدہ امر کی اہمیت بٹھانے کیلئے سائنس سے ثابت شدہ فوائد یا نقصان کو بیان کر دیتے ہیں، یہی ہمارے اور آپ کے نزدیک سائنٹیفک کہلاتا ہے۔
اور بہت سی مرتبہ نشانہ چوک بھی جاتا ہے کہ دین کی بات کو مضبوط کرنے کیلئے ہم اس شی سے متعلق سائنس کی تھیوری بیان کرتے ہیں پھر کچھ دنوں بعد سائنس اپنے سابقہ تھیوری توڑ کو دوسری تھیوری اپناتا ہے، یہاں آکر سب سے بڑی مشکل پیش آتی ہے کہ ہم دین کو سائنس کی بدلی ہوئی تھیوری کے مطابق کرنے کی کوشش کرنے لگتے ہیں جو انتہائی نقصاندہ ثابت ہوتا ہے۔
علماء کا اعتراض
کہا جاتا ہے علماء دین سائنس پڑھنے پر اعتراض کرتے ہیں، جبکہ یہ بالکل ایک بے بنیاد الزام ہے، ایک سائنس کا طالب کائنات کے راز ہائے سربستہ سے پردہ اٹھانے کیلئے تحقیق و جستجو کے جتنے مراحل چاہے طے کرے، خلاؤں کی سیر کرے، صحراؤں کی خاک چھانے، تسخیرِ کائنات کےلئے جو چاہے کوشش کرے اور دنیا کو فایدہ پہونچائے اسے حق ہے،اور اس سے علماء کو آخر کس بات کی تکلیف ہوسکتی ہے؟
لیکن مسئلہ اس وقت کھڑا ہوتا ہے جب سائنس کا طالب اپنے حدود سے نکل کر اور مقاصد کو بھول کر اسلامی عقائد کو سائنس کے اصولوں پر پرکھنے کے بعد اس کا اسلئے انکار کرتا ہے کہ یہ ہمارے تجربات و مشاہدات میں نہیں آئے اسلئے باطل ہے، مثلا واقعہ معراج اس کے تجربات کی روشنی میں ناممکن ہے اسلئے وہ انکار کر دیتا ہے، یا اس کے اصول کے مطابق انسان کی تخلیق ارتقاء کا نتیجہ ہے اسلئے وہ تخلیق آدم و حوا کا انکار کرتا ہے،اور قرآن کو جھٹلاتا ہے تو علماء کہتے ہیں کہ آپ قرآن کو جھٹلاتے کیوں ہیں، یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ آپ کی تحقیق ادھوری ہو اسلئے کہ آپ کے وسائل محدود اور ادھورے ہیں، لہذا مزید تحقیق کیجئے، اس کے بجائے آپ اپنے محدود وسائل کی بنیاد پر حاصل علم کو اتنا پختہ مان رہے ہیں کہ اس میں کسی غلطی کا امکان ہی نہیں، دیگر ساری باتیں آپ کی نظر میں ہیچ ہیں، اور قرآن جو کائنات کی بے مثال ڈیزائننگ کرنے والے کا کلام ہے اسے سرے سے بے بنیاد قرار دیکر ٹھکرا رہے ہیں۔
اختلاف کب ہوتا ہے؟
سوال یہ ہے کہ جب دونوں کے موضوع اور غرض و غایت الگ ہیں تو علماء دین اور سائنس دانوں میں اختلافات کیوں رونما ہوتے ہیں؟ جواب یہ ہے کہ جب دین کی بیان کردہ باتوں کو سائنس کے اصول پر یا سائنس کی تحقیقات کو دین کے اصول پر پرکھتے ہیں تو دونوں میں اختلاف ظاہر ہوتا ہے، جیسے تخلیق انسان کو قرآن نے بیان کیا پھر سائنس نے اپنے اصول تجربات و مشاہدات یا استقرائی (Inductive) عمل کی روشنی میں انہیں جاننے کی کوشش کی تو دونوں میں اختلاف ظاہر ہوگیا،یا علماء دین نے سائنس کی اسی تحقیق کو دین کے اصول (قرآن وحدیث) کی روشنی میں دیکھا تو ان کو سائنس سے اختلاف ہوگیا۔
ظاہر ہے ہم بحیثیت قرآنی قوم ایسی صورت میں دین کو ترجیح دیں گے اور سائنس سے کہیں گے کہ جیسا کہ آپ کو خود اعتراف ہے کہ اتنی وسیع تر کائنات میں آپ کی دنیا ایک چھوٹے سے نکتے کی مانند ہے اور آپ کے وسائل بھی محدودہیں، لہذا قرین قیاس ہے کہ آپ اب تک حقیقت تک نہیں پہونچ سکے ہیں اسلئے اپنی کوششوں کو جاری رکھتے ہوئے مزید تحقیق کیجئے۔
آخری بات
سائنس اور دین میں کوئ اختلاف نہیں، دین جن اسرار کائنات کی طرف اشارہ کرتا ہے سائنس ان کو مزید تفصیل کے ساتھ بیان کرتا ہے، قرآن نے بار بار کائنات میں جس غورو فکر کی دعوت دی، سائنس اسی غور و فکر کے عمل کا نام ہے اگرچہ سائنس قرآنی دعوت فکر کے وسیع تر مقاصد میں جزوی مقصد (وسائل زندگی کی بہتری) کیلئے غور کرتا ہے۔
جس طرح سائنس دین کی باتوں کو تجرباتی و مشاہداتی دلائل کی روشنی میں ثابت کرتا ہے اس سے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سائنس دین کا بہترین خادم ہے، دین کرنے یا چھوڑنے کا حکم دیتا ہے تو سائنس ان کے فوائد اور
نقصان بتاتا ہے، سائنسی ترقی سے پہلے کا انسان صرف یہ پوچھتا تھا کہ کریں ؟یا نہ کریں؟ اور اپنے اسی سوال کا جواب پاکر مطمئن ہوجاتا اور حکم کے مطابق شرح صدر کے ساتھ عمل کرتا تھا، آج کا انسان کوئ بھی حکم ملنے کے بعد ایک اور سوال کرتا ہے، کیوں؟ کریں تو کیوں ؟نہ کریں تو کیوں ؟ کیا فائدہ یا کیا قصان ہے، تو دین کسی چیز کے متعلق انسان کے پہلے سوال کا جواب دیتا ہے کہ کریں؟یا نہ کریں؟،اور سائنس اسی چیز سے متعلق اگلے سوال کا جواب دیتا ہے کہ کیوں کریں؟ یا کیوں چھوڑیں؟ حقیقت یہ ہے کہ سائنس نے اب تک جتنی تحقیقات کی ہیں ان ہی کی روشنی میں ہم دینی احکام کے فوائد کو زیادہ بہتر طریقے پر پیش کر سکتے ہیں،اس کے لئے ہمیں الگ سے تحقیق کی ضرورت بھی نہیں ہے، ضرورت ہے تو صرف مطالعہ کی۔