بھارت کو کب ملے گی فسادات سے نجات؟

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

اکیسویں صدی کو ترقی کی صدی سمجھا جاتا ہے۔ کئی ملک اس صدی میں ترقی کی چوٹی پر پہنچے تو بہت سے کوشاں ہیں۔ بھارت میں اب بھی ناخواندگی، بے روزگاری، غربت، فاقہ کشی، نسل پرستی اور مذہبی انماد عروج پر ہے۔ اسی کے چلتے لڑکیوں، خواتین، دلتوں، اقلیتوں اور کمزور طبقوں کو استحصال اور تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سیاستدان اپنی قوت ارادی سے سماج کو اس دلدل سے نکال کر ملک کو ترقی کی طرف لے جا سکتے ہیں لیکن سیاسی جماعتوں کا مقصد صرف اقتدار حاصل کرنا ہے۔ بغیر کچھ کئے اقتدار حاصل کرنے کا سب سے آسان طریقہ فرقہ واریت ہے۔ کیوں کہ فرقہ وارانہ ماحول میں کوئی بھی شخص اپنے لیڈر سے تعلیم، روزگار، غربت یا فاقہ کشی کہ بات نہیں کرتا اور نہ ہی لیڈر کا ان سے سروکار ہوتا ہے۔ وہ ایسی اصطلاحات استعمال کرتا یا نعرے دیتا ہے جو اسے فرقہ وارانہ بنیاد پر ووٹ دلا دیں۔برسوں سے یہی ہو رہا ہے اور کب تک ہوگا کوئی نہیں جانتا۔
فسادات اسی فرقہ پرستی کی پیداوار ہیں۔ کوئی معقول وجہ اس کے لئے ضروری نہیں۔ کبھی کسی مذہبی کتاب کا کوئی پھٹا ہوا صفحہ اس کہ وجہ بنتا ہے، تو کبھی کسی جانور کا گوشت۔ کبھی کسی مذہبی مقام کو ماحول خراب کرنے کا بہانہ بنایا جاتا ہے ، کبھی کوئی جلوس یا یاترا اس کا سبب بن جاتا ہے۔ کئی بار تو صرف افواہ کہ بنیاد پر فسادات بھڑک جاتے ہیں۔ فیک نیوز افواہ کا بڑا ذریعہ ہے۔اس کی تصدیق آسانی سے نہیں ہو پاتی۔ البتہ یہ آگ میں گھی کا کام کرتی ہے۔ مذہبی کتاب کا صفحہ کس نے پھاڑا، کس نے سڑک پر پھینکا کسی نے اسے نہیں دیکھا، نہ آج تک کوئی پکڑا گیا۔ یہی معاملہ جانور کے گوشت یا اس کے باقیات کا ہے۔ مندر، مسجد میں لگے لاو ¿ڈ سپیکر بجنے یا ان پر پتھر پھینکنے کو لے کر ہوئے تنازعہ آپس میں سلجھائے جا سکتے ہیں، لیکن اس کی کوشش نہیں ہوتی۔ ایسے جلوس یا ریلیاں جن میں لوگ لاٹھی، ڈنڈا، بھالا، برچھی یا تلوار لے کر چلیں ان پر پابندی لگنا چاہئے۔ دیکھا گیا ہے کہ جلوسوں یا ریلیوں میں ایسے نعرے لگائے جاتے ہیں جو کسی دوسرے فرقہ کو برے لگنے والے ہوں۔ خاص طور پر یہ نعرے اس وقت لگتے ہیں جب جلوس کسی مذہبی مقام یا کسی خاص طبقے کی آبادی کے قریب سے گزر رہا ہوتا ہے۔ بھیڑ جس پر کسی کا کنٹرول نہیں ہوتا ذرا سی افواہ اسے بے قابو کر دیتی ہے۔ ایسے ہی غیر منظم ہجوم کا فائدہ اٹھا کر سماج دشمن عنصر فساد بھڑکانے کا کام کرتے ہیں۔
کئی دہائیوں سے ملک فسادات کا دکھ جھیل رہا ہے۔ آزادی کے بعد تقسیم کے بہانے فساد بھڑکائے گئے۔تقسیم کی ذمہ داری مسلمانوں کے سر تھوپنے کی کوشش کی گئی، جب کہ ریفرنڈم (عام رائے شماری) میں مسلمانوں نے ملک کے مفاد میں ووٹ دے کر بھارت میں رہنا پسند کیا تھا۔ میڈیا اور علاقائی سیاسی جماعتوں کی وجہ سے جلد ہی یہ سچ سامنے آ گیا کہ کس نے ملک تقسیم کرایا اور اس کے زخم کو زندہ رکھا، کسے فسادات کا سیاسی فائدہ ملا، سماج کو بانٹ کر کس نے ملک پر راج کیا۔اس کے بعد ہی غیر کانگریسی پارٹیوں کی سیاست میں سرگرمی بڑھی۔ فسادات میں کمی ضرور آئی لیکن رکے نہیں ان کی حیت بدل گئی۔ ان شہروں کو نشانہ بنایا گیا جہاں کسی صنعت سے بڑی تعداد میں مسلمان جڑے ہوئے تھے۔ علیگڑھ، احمد آباد، بنارس، بجنور ، بھیونڈی، بھدوہی، بھاگلپور، مرادآباد، سورت، سہارنپور، مدھیہ پردیش اور راجستھان کے کئی علاقے اس کی مثال ہیں۔ ریزرویشن یا دوسرے مطالبات کو لے کر چلائی جانے والی تحریکوں کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر ناکام کیا گیا۔
کوئی نہیں چاہتا کہ ملک میں فسادات ہوں، عام آدمی جانتا ہے کہ سب کو یہیں رہنا ہے کسی کو نہ نکالا جا سکتا ہے نہ دبایا پھر بھی فسادات ہوتے ہیں وہ بھی بغیر کسی وجہ کے، لاکھوں کروڑوں روپے کا جانی و مالی نقصان ہو جاتا ہے۔تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ فسادات ہوتا نہیں سیاسی وجوہات سے کرایا جاتا ہے۔ سیاستدان سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت ووٹوں کو اپنے حق میں کرنے یا ووٹوں کو بانٹنے کے لئے فساد کرتے ہیں۔ اس کا استعمال اقتدار حاصل کرنے یا کسی کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لئے بھی کیا جاتا ہے۔ ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو رام کے کبھی گائے تو کبھی ذات کے نام پر بگاڑا جاتا ہے۔ کبھی کوئی فلم اس کی وجہ بنتی ہے۔ قومی پرچم ترنگا لہرانے پر بھی فساد ہو سکتا ہے یہ اتر پردیش کے کاسگنج سے معلوم ہوا۔ وہاں بھگوا پرچم دھاریوں نے یوم جمہوریہ پر ترنگا لہرانے میں رکاوٹ پیدا کی جس کی وجہ سے ہوئے جھگڑے نے فسادات کی شکل اختیار کر لی جس میں ایک خاص طبقے کو نشانہ بنایا گیا۔
ہندوستان کا شمالی حصہ فسادات سے دوچار ہے، اس بار مغربی بنگال اور بہار نشانہ بنا ہے۔ مغربی بنگال میں ممتا بنرجی کی جبکہ بہار میں بی جے پی کی حمایت والی حکومت ہے۔ مغربی بنگال میں بی جے پی اپنے پاو ¿ں جمانا چاہتی ہے لیکن فرقہ وارانہ ایجنڈے کے ساتھ۔ آسنسول کا واقعہ اسی کی کڑی معلوم ہوتی ہے۔ رامنومی کا جلوس راستہ بدل کر مسلم علاقے میں داخل ہو گیا۔ جہاں منصوبہ بند طریقے سے بھیڑ نے توڑ پھوڑ آگ زنی شروع کر دی جس سے فساد بھڑک اٹھا۔ اس میں نور مسجد کے امام امدادالرشیدہ کے سولہ سالہ بیٹے کا بڑی بے رحمی سے قتل ہوا وہ امتحان دے کر گھر لوٹ رہا تھا۔ امام صاحب نے ہمت اور صبر سے کام لے کر امن قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا انہوں نے لوگوں سے صبر کرنے اور امن قائم رکھنے کی اپیل کی ، انہوں نے کہا کہ مجھے اپنے بیٹے کی موت کا بدلا نہیں چاہئے۔ اس سے حالات اور خراب ہونے سے بچ گئے۔ اس سے قبل بنگال میں فرقہ واریت کو ہوا دینے کے لئے دارجلنگ کے معاملے کو بھی طول دیا گیا تھا۔ آسنسول کے واقعہ پر مرکز نے ریاستی حکومت سے رپورٹ طلب کی اور بی جے پی کا وفد فسادات سے متاثرہ علاقے میں اپنے لوگوں سے مل آیا۔ اس وفد میں مغربی بنگال کے گورنر کیسری ناتھ ترپاٹھی بھی شامل تھے۔
بہار جہاں بی جے پی حکومت کا حصہ ہے وہاں اورنگ آباد، سمستی پور، نوادہ، مونگیر اور بھاگلپور میں رامنومی کے موقع پر فرقہ وارانہ تشدد کا ہونا کمزور قانون و انتظامیہ کی عکاسی کرتا ہے۔ بھاگلپور کے تشدد کے لئے ذمہ دار آر ایس ایس کے اریجیت شاشوت کو گرفتار کیا گیا ہے وہ مرکزی وزیر اشونی کمار چوبے کا بیٹا ہے۔ گجرات کے صورت میں بھی مسجد پر پتھر پھینک کر ماحول کو خراب کرنے کی کوشش ہوئی۔ وہاں بھی بی جے پی کی حکومت ہے۔ سوا ل یہ ہے کہ کیا بی جے پی فرقہ وارانہ کشیدگی کو بڑھا کر آنے والے انتخابات کے لئے ماحول بنا رہی ہے؟ اس نے بہار کے فسادات پر ریاستی حکومت سے رپورٹ کیوں نہیں مانگی۔ کیا بی جے پی کی حکمران والی ریاستوں میں مرکزی حکومت کو سب کچھ ٹھیک نظر آ رہا ہے؟ بہار میں سروے کرنے والے بتا رہے ہیں کہ کچھ علاقوں میں بی جے پی کا ووٹ بینک اچانک سے بڑھا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ان واقعات سے ایک طرف نتیش کمار کا بہار کو خصوصی درجہ دلانے کا خواب ٹوٹا ہے تو دوسری طرف عوام میں ان کا اعتماد کم ہوا ہے۔ جو ان کے سیاسی مستقبل کےلئے اچھی علامت نہیں ہے۔
گزشتہ کئی سالوں سے رامنومی کسی نہ کسی ناخوشگوار واقعہ کی خبر لے کر آتی ہے. رام کے نام پر منایا جانے والا تہوار ملک پر اتنا بھاری کیوں پڑ رہا ہے۔رام جنم بھومی تنازعہ پر ملک کے ہزاروں شہریوں کی بلی چڑھ چکی ہے۔ رام جو اہنسا کی علامت مانے جاتے ہیں۔ ملک کے متعدد پرتشدد واقعات ان کے نام سے منسلک ہو گئے ہیں۔ آدرش وادی رام کے نام پر فرقہ وارانہ سیاست کی عام آدمی کو مخالفت کرنی ہوگی کیونکہ شری رام سے سچی محبت، ان میں ایمان اور ملک کی ترقی کے لئے یہی وقت کا تقاضہ ہے۔ وہ ممالک جنہوں نے ہمارے ساتھ آزادی حاصل کی تھی ہم سے آگے ہیں۔ کیونکہ وہاں فساد نہیں ہوتے وہاں کے سیاستدانوں کی خوشی اپنے عوام کی خوشی میں ہے اور وہ ان کے لئے جواب دہ ہیں۔ وہ اپنے من کی بات نہیں کرتے اپنے عوام کے من کی بات سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک عوام کے سروکار سب سے اوپر ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی ایسا ہو سکتا ہے لیکن اس کے لئے قوم واد، علاقائیت، نسل پرستی، فرقہ واریت اور مذہبی شددت پسندی سے اوپر اٹھ کر فسادات بند کرنے ہوں گے۔ جتنا ملک آگے بڑھتا ہے، فسادات کی وجہ سے اس سے کہیں زیادہ پیچھے ہو جاتا ہے۔ پھر سرمایہ کار بھی غیر محفوظ ماحول میں سرمایہ کاری کرنے سے ڈرتے ہیں۔ بھارت فسادات سے آزاد ہو سکتا ہے، اس کے لئے سیاسی قوت ارادی کی ضرورت ہے۔ کیا ایسا ہو پائے گا یا ملک کو ابھی اور تکلیفیں برداشت کرنی ہوں گی؟

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں