مسلم بچوں پر ظلم کے خلاف دنیا خاموش کیوں ہے؟

مدثر احمد قاسمی
اقوامِ متحدہ کا بچوں کے حقوق سے متعلق قوانین جو سی آر سی (کنونشن آن دی رائٹس آف دی چلڈرین)کے نام سے مشہور ہے ، وہ بچوں کے تحفظ کے تمام پہلوؤں کو جامع ہے۔ اس میں بطور خاص جینے کا حق،تعلیم کا حق، بہتر غذا کا حق، سماجی تحفظ، مناسب معیار زندگی، استحصال سے تحفظ اور تشدد سے تحفظ وغیرہ شامل ہیں۔ بچوں کے لئے اقوام متحدہ کےاِن قوانین کے علاوہ جو دنیا کے تمام ممالک کے لئے آئیڈیل ہیں، ہر ملک نے اپنے دستور میں بچوں کے خصوصی حقوق کو شامل کر رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی دنیا کے کسی کونے میں بچوں کا استحصال ہوتا ہے یا اُن پر ظلم ہوتا ہے بیک زبان تمام لوگ اس کی مذمت کرتے ہیں اور مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہونچانے کی مانگ کرتے ہیں۔ یہاں تک تو سب درست اور قابلِ تعریف ہے لیکن بچوں کے حقوق کے حوالے سے جب دوہرا معیار سامنے آتا ہے تو دنیا کے انصاف پسند لوگ کچھ سوالات کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
پہلا سوال یہ ہے کہ کیا مختلف مذاہب، رنگ و نسل اور علاقے کے بچوں کے حقوق الگ الگ ہیں؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا کوئی خاص پس منظر رکھنے والے بچے دوسرے بچوں کے مقابلے میں زیادہ عزت کے مستحق اور جینےکا حق رکھتے ہیں؟ تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا بڑوں کی غلطیوں کی سزا بچوں کو دیا جانا مبنی بر انصاف ہے؟ اِن سوالات کا سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ اس طرح کے بے شمار سوالات تشنہء جواب ہیں۔ پہلے سوال کا جواب با لکل صاف ہے کہ بچے بچے ہیں چاہے وہ کسی بھی بیک گراؤنڈ سے تعلق رکھتے ہوں۔دوسرے سوال کا جواب بھی واضح ہے کہ تمام بچے یکساں عزت کے مستحق اور جینے کا حق رکھتے ہیں اور تیسرے سوال کا جواب تو ہر صاحب عقل کے لئے اظہر من الشمس ہے کہ کسی کی غلطی کی سزا کسی دوسر ےکو نہیں دی جا سکتی۔
جب مذکورہ تجزیئے سے یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ محض مختلف پس منظرکی بنیادوں پر کوئی بھی بچوں کے درمیان بھید بھاؤ کا حق نہیں رکھتا تو فطرتاً یہاں ایک سوال قائم ہوجاتا ہے کہ پھر دنیا والے اس معاملے میں دوہرا رویہ کیوں اپنا تے ہیں۔دنیا اس بات کی گواہ ہے کہ جب امریکہ،برازیل،چین اورفرانس میں بچوں پر حملے ہوئے تو مشرق سے مغرب تک اور شمال سے جنوب تک بشمول ہندوستان سبھی نے اُن حملوں کی مذمت کی، مہلوکین کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا اور اس بات کو یقینی بنانے کے لئے آواز بھی لگائی کہ اس طرح کے واقعات کہیں اور کبھی دوہرائے نہ جائیں۔یقیناً یہ جذبات قابلِ صد تحسین ہیں لیکن جب ہم اس کا دوسرا رخ دیکھتے ہیں تو ہمیں انتہائی تعجب ہوتا ہے کہ جب معاملہ مسلمانوں کا ہوتا ہے تو بچوں کے حقوق کی عالمی تنظیمیں اور دنیا کے طاقتور ممالک غیر متحرک اور غیر فعال نظر آتے ہیں۔اس کی زندہ مثال شام میں بچوں کی بیچارگی، فلسطین میں بچوں کی کسمپرسی، میانمار میں بچوں کے حقوق کی پامالی اور رواں ہفتے افغانستان میں ایک سو حافظ بچوں کی شہادت ہے۔
* آئیے رپورٹوں کی بنیاد پر اِن ممالک میں بچوں پر ظلم کا ایک جائزہ لیتے ہیں:
مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے لیے یونیسیف کے ڈائریکٹر گیرٹ کیپیلارے نے شام کے شہر حمص میں بتایا تھا کہ ’شامی بچوں کی تکالیف کی کہیں مثال نہیں ملتی ہے۔ شام میں لاکھوں بچے روزانہ ہونے والے حملوں کی زد میں ہیں اور ان کی زندگی برباد ہو چکی ہے۔ ‘ یقیناً ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا پردل دہلانے والے معصوم بچوں کی روتے اور حالت زار بیان کرتے ہوئے ویڈیوز اور تصاویر دنیا کے انصاف پسندوں کو جھنجھوڑنے میں ناکام ہیں ۔اس حوالے سے جب ہم فلسطین کا جائزہ لیتے ہیں تو 2017 کی فلسطین کی اطلاع رسانی مرکز کی رپورٹ کے مطابق بچوں کا دفاع کرنے والی عالمی موومنٹ کی فلسطینی شاخ نے یہ خبر د ی ہے کہ 2017 میں 15 فلسطینی بچے صیہونی فوجیوں کی فائرنگ سےشہید ہوئے اور سیکڑوں کی تعداد میں زخمی ہوئے اور قیدی بنے۔
میانمار میں فوج کے کریک ڈاؤن کے نتیجے میں جان بچا کر بنگلہ دیش میں پناہ لینے والے روہنگیا مسلمانوں کی مشکلات ابھی تک کم نہیں ہوسکی ہیں، جس کی لپیٹ میں بے شمار معصوم بچے بھی آئےہیں۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین (یو این ایچ سی آر) کی خیرسگالی سفیر اداکارہ کرسٹین ڈیوس نے بنگلہ دیش میں پناہ گزین کیمپوں کا دورہ کیااور ان کا کہنا تھا کہ میرے لیے روہنگیا بحران میں سب سے زیادہ تکلیف دہ بات ان بچوں کا تصور ہے، جو اپنے گھروں سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے۔ کرسٹین نے کہا کہ ‘کیمپوں میں موجود افراد میں سے آدھی تعداد بچوں کی ہے، جن میں سے کچھ اپنے والدین کو کھوچکے ہیں اور اب وہ بالکل تنہا ہیں۔
بچوں پر تازہ حملہ افغانستان میں ہو ا ہے ۔سوشل میڈیا پر جس حملے کی تصویروں نے سبھی کو صدمے سے دو چار کر دیا ہے۔رپورٹ کے مطابق افغانستان کے صوبہ قندوز میں ایک مدرسے پربمباری سے 101 حفاظ شہید، جبکہ 200 افراد زخمی ہوگئے۔ اس سے بھی زیادہ تعجب خیز اور سکتے میں ڈالنے والی بات یہ ہے کہ یہ بمباری اس وقت کی گئی جب فارغ التحصیل حفاظ قرآن کریم کی دستار بندی کی تقریب ہورہی تھی۔ اگرچہ مقامی لوگ اس حملے کا ذمہ دار امریکہ کو قرار دے رہے ہیں اور امریکہ اس سے انکار کر رہا ہے۔لیکن یہاں جو حقیقت ہے وہ یہ کہ حملہ کسی نے کیا اور اس حملے کی زد میں آکر سو سے زائد نو عمر حفاظِ کرام شہید بھی ہوئے ۔کچھ ذارئع کا یہ کہنا کہ وہاں طالبان موجود تھے ،اُن کو ٹارگیٹ کیا تھا۔اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ وہاں کچھ مشتبہ افراد تھے ،پھر بھی اس سےیہ جواز کہاں پیدا ہوتا ہے کہ اُن کے آڑ میں معصوم اور بے گناہوں کو موت کی نیند سلا دیا جائے۔ ظلم بہر حال ظلم ہے جس کی کوئی تاویل نہیں ہوسکتی۔
ایک مسلمان اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ جب گھر میں کوئی بچہ حافظ قرآن بنتا ہے تو اُس گھر میں خوشی کا کیسا سماں ہوتا ہے ۔ماں باپ اور دیگر احباب و رشتہ دار کے دل میں اپنے نئے حافظ کے تئیں کیا جذبات موجزن ہوتے ہیں ۔اب آپ تصور کیجئے کہ جن کے تئیں یہ جذبات ہوں ، اگر یہ لوگ انہی لا ڈلوں کو خون میں نہائے لاشوں کی شکل میں دیکھیں تو اُن کی کیا حالت ہوگی۔ یہ وہ منظر ہے جس کو افغانستان میں متا ء ثرین کے رشتہ دار و احباب نے بنظرِ خود دیکھا۔
اس منظر کشی کے ذریعے اور اوپر مذکور بچوں کی حالت زار کا ذکر کرکے ہم کسی کے جذبات کو بھڑکانا نہیں چاہتے ہیں،ہاں ہمارا مقصد اتنا ضرور ہےکہ اس تذکرہ سے ہمارا احساس بیدار رہے اور ہم قابلِ قبول اور جمہوری طریقے سے اپنی بساط کے مطابق اپنے اپنے طریقے سے دنیا کے سامنے احتجاج درج کرو ا سکیں ۔ ہم بشمول ہندوستان عالمی طاقتوں اور بچوں کے تحفظ کے اداروں سے یہ کہ سکیں کہ یہ بچے بے گناہ ہیں پھر آپ ان کے حق میں اور ظالموں کے خلاف آواز کیوں نہیں اٹھاتے اور ہم اُن سے یہ پوچھ سکیں کہ آپ نے ہی تو بچوں کے حقوق کے لئے قوانین بنائے ہیں ،پھرخاموش تماشائی بن کر ان بچوں کو ظلم کی چکی میں پستاکیوں دیکھ رہے ہیں؟ہمیں اس موقع سے مسلم ممالک سے بھی سوال کرنا ہے کہ مسلم بچوں پر ظلم کے خلاف آواز اٹھانا آپ کی بھی ذمہ داری بنتی ہے ،پھر آپ نے کیوں چپی سادھ رکھی ہے اور کیا ہیں وہ عوامل جنہوں نے آپ کے قدموں کو جکڑ رکھا ہے؟