دوحہ(پریس ریلیز)
کاروان اردو قطر کے زیراہتمام گذشتہ دنوں دوحہ کے معروف ہوٹل گرانڈ پیلیس قطر میں ایک علمی اور ادبی تقریب کاانعقاد عمل میں آیا جس میں کاروان اردو قطر کے جنرل سکریٹری محمد شاہد خاں ندوی کی دو کتابوں کا اجرا بھی عمل میں آیا،اس موقع پر ایک شعری نشست بھی منعقد ہوئی جس میں علمی و فکری موضوعات پر گفتگو ہوئی اور شعرو شاعری کی لطافتوں سے بھی لوگ محظوظ ہوئے۔ کاروان اردو قطر کے بانی صدر اور دوحہ میں جدید لب و لہجےکے معروف شاعر جناب عتیق انظر نے مسند صدارت کو رونق بخشی ، ہندوستان سے تشریف لائے ہوئے دارالعلوم ندوۃ العلما کے اساتذہ جناب مولانا وثیق احمدندوی اور جناب مولانااصطفاء الحسن کاندھلوی صاحبان علی الترتیب مہمان خصوصی اور مہمان اعزازی کی نشستوں پررونق افروز ہوئے، اسی طرح سفارتخانہ ہند قطر کے تھرڈ سکریٹری ڈاکٹر محمد علیم صاحب نے بھی مہمان اعزازی کی حیثیت سے اسٹیج کو رونق بخشی ،دوحہ کی مختلف تنظیموں کے ذمہ دار حضرات اورکثیر تعداد میں شائقین علم و فن بھی از اول تا آخر شریک محفل رہے۔
ڈاکٹر محمد اسلم صاحب کی کامیاب نظامت میںعزیز القدر قاری محمد ولی اللہ نے اپنی دلکش آواز میں سورہ مجادلہ کی چند آیات تلاوت کرکے پروگرام کا باقاعدہ آغاز کیا، کاروان اردو قطر کے معزز رکن جناب حسیب الرحمن نے کاروان کی طرف سے مہمانان گرامی اور حاضرین محفل کا پرتپاک خیر مقدم کیا، ڈاکٹر ضیاء اللہ ندوی نےہندوستان میں مسلم مسائل اور انکے ممکنہ حل کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرائی اور محمد شاہد خاں کی پہلی کتاب ”مسلم مسائل اور ان کا حل” کا تعارف پیش کیا، اپنی مدلل اور موضوعی گفتگو میں انہوں نے دو باتوں پر خاص زور دیا ، پہلی بات یہ کہ ہندوستان میں مسلم مسائل کے حل کے لیے تعلیم شاہ کلید کی حیثیت رکھتی ہے، اور اس سلسلے میں مدارس ایک اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، اپنے بنیادی مقاصد میں کوئی تبدیلی کیے بغیر ان کےنظام اور نصاب میں ایسی تبدیلیاں کی جا سکتی ہیں جن سے ان کی افادیت میں بے حد اضافہ ہو جائے گا ، دوسری اہم بات انہوں نے یہ کہی کہ اپنے مسائل کا حل مسلمانوں کو خود تلاش کرنا ہوگا اور اس سلسلہ میں حکومت یا کسی اور خارجی سورس سے زیادہ اپنے داخلی اور ملی وسائل پر اعتماد کرنا ہو گا۔ پرانے اوقاف کا صحیح استعمال کرنے کے علاوہ نئے اوقاف قائم کرنے ہوں گے اور ایک مرحلہ جاتی منصوبہ پر عمل کرتے ہوے وطن عزیز میں اپنی ساکھ بحال کرنی ہوگی۔ جناب شاہد خاں کی دوسری کتاب ” نصرت خداوندی کی مستحق جماعت ” کا تعارف پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر نشاط احمد صدیقی نے کہا کہ اس کتاب کا ایک تاریخی پس منظر ہے ، بیسویں صدی عیسوی کی چھٹی دہائی میں عالم اسلام کے نامور عالم دین اور مفکر علامہ یوسف القرضاوی کے خامہ گہربارسے نکلی ہوئی یہ کتاب ان خصوصیات کی طرف رہنمائی کرتی ہے جن کی وجہ سے مسلمان اللہ کی نصرت اور مدد کے سزاوار قرار پاتے ہیں، یہ وہ ایمانی اور قرآنی صفات ہیں جنہیں اپنائے بغیر مسلمان نہ ماضی میں کامیاب ہوے تھے اور نہ مستقبل میں ہو سکیں گے، جناب شاہد خاں مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اس بیش قیمت کتاب کو اردو کا جامہ عطا کیا اور اردو قارئین کے لیے اس سے استفادہ کی راہ آسان کی۔ اس کے بعد کاروان اردو قطر کےایک فعال اور ہر دلعزیز ممبر جناب محمد فاروق ندوی نے ان دونوں کتابوں کے ناشر ”اسکالر پبلشنگ ہاوس” کا تعارف پیش کیا، انہوں نے کہا کہ دلی میں قائم اس نوزائیدہ پبلشنگ ہاوس کے بانی مبانی بھی جناب شاہد خاں ہیں جو اس کے ذریعہ اردو، ہندی اور بھارت کی دوسری زبانوں میں ایسے تنویری لٹریچر کا اضافہ کرنا چاہتے ہیں جس سے لوگوں میں سائنسی طرز تفکر کو فروغ ملے اور وہ جدید رجحانات کے سلسلے میں معتدل اور مبنی بر حق موقف اپنا سکیں۔
اس کے ساتھ ہی اسٹیج پر موجود شخصیات نےمتذکرہ بالا دونوں کتابوں کی رسم رونمائی ادا کی ، مہمان خصوصی جناب مولانا وثیق احمدندوی نے پہلی کتاب ”مسلم مسائل اور ان کا حل”کی رونمائی کی جب کہ مہمان اعزازی ڈاکٹر محمد علیم صاحب کے ہاتھوں دوسری کتاب ” نصرت خداوندی کی مستحق جماعت ”کا اجرا عمل میں آیا۔ اس رسم رونمائی کے فورا بعد دوحہ کے معروف شاعر اور مقبول ناظم مشاعرہ جناب ندیم ماہرصاحب نے نعت کے چند شعروں سے کاروان اردو قطر کی سال رواں کی اولین سہ ماہی شعری نشست کا آغاز کیا ، اس نشست میں دوحہ کےجن معروف اور معتبر شعرائےکرام نے اپنے منتخب کلام سے حاضرین کو محظوظ کیا ان میں جناب عزیز نبیل، جناب ندیم ماہر، جناب راشد عالم راشد،جناب رویس ممتاز ، جناب قیصرمسعود، جناب مقصود انور، جناب مظفر نایاب، جناب اعجاز حیدر ،جناب اشفاق دیشمکھ، جناب اصطفاء الحسن حزیں، جناب افتخار راغب،جناب شاد اکولوی اورجناب عتیق انظر کے نام سر فہرست ہیں۔ قارئین کی ضیافت طبع کے لیے بعض چیدہ اور پسندیدہ اشعار یہاں بھی پیش کئیےجاتے ہیں:
کاش تم پر ہی خرچ ہو جاتا
یہ جو تھوڑا بچا ہوا تھا میں
تم جب آئے تھے میرے گھر اس دن
تم سے ملنے گیا ہوا تھا میں
(قیصر مسعود)
نظم بعنوان “زندگی”
زندگی قید ہے یا پھر چمن آرائی ہی
زندگی وصل ہے یا قید کی تنہائی ہے
زندگی جنگ و جدل معرکہ آرائی ہے
زندگی حسن و جمال رخ رعنائی ہے
زندگی تیشہ فرہاد محبت کا فسوں
زندگی وحشت صحرا ہے یا پھر دشت جنوں
زندگی آہ و بکا درد و الم سوز دروں
زندگی کیا ہے اجازت ہو تو اک بات کہوں
زندگی پیار و محبت سے بھلی لگتی ہے
زندگی عشق میں لیلی کی گلی لگتی ہے
زندگی وہم ہے یا ایک حسیں خواب بھی ہے
زندگی غم کی سیہ رات کا اطناب بھی ہے
زندگی عہد جوانی ہے تو فانی بھی ہے
زندگی زن زمین و زر کی کہانی بھی ہے
زندگی صبح کی امید نو یا باد صبا
زندگی رات میں جلتا ہوا مفلس کا دیا
زندگی بڑھتی نہیں گر کے سنبھلنے کے بنا
زندگی کچھ بھی نہیں جہد مسلسل کے سوا
زندگی عزم سے جینے کا ہنر پیدا کریں
ماہ و خورشید ہی کیا لعل و گہر سجدہ کریں
(راشد عالم راشد)
نظم بعنوان “ڈانس بار”
کلیوں کی قسمت بھی ہے قاتل قاتل
بے بس ہیں بیچاری ہیں بسمل بسمل
آنکھوں میں اک آس ہے اور اداسی ہے
پھول کی پتی پتی پیار کی پیاسی ہے
سندر سندر صورت سے ہیں اسٹیج سجے
بھولی بھالی بچی بھی بندریا بنے
جان کے جان ہے جوکھم میں جو جاتے ہیں
محفل میں مجبوری میں مسکاتے ہیں
نادیدہ کو نادار کو ننگا نچاتے ہیں
اپنی آنکھیں ہیں تو آنسو آتے ہیں
شرم ہے شام شراب شرارت شوخی ہے
در پہ درندوں کے درد کی ڈیری ہے
گلشن ہو گلدان ہو غم کی گرد میں گم
کلیو! کانٹوں پرکب تک کرنا ہے کرم
اٹھو اب اٹھنے سے ہے اپنی آزادی
بے حس بے دل بندوں کی ہے بربادی
میں نے مانا مشکل یہ منزل ہے مگر
جیت ہے جب تک جان میں جان ہے جوش جگر
دیکھ کے درد کا دریا ڈوبنے سے نہ ڈرو
کلیو! کانٹے کانپ اٹھیں وہ کام کرو
پھول کی پابندی میں ہے پھولوں کا پتہ
بندش میں بیداری کا بارود بھرا
(روئیس ممتاز)
سنا ہے تو کہ پشیماں ہے زخم دے کے مجھے
یہ بات سچ ہے تو آ سعی اندمال تو کر
تجھے خسارہ یقینا کبھی نہیں ہوگا
رہ خدا میں ذرا خرچ اپنا مال تو کر
سخن کی بزم میں شرکت سے قبل اے ناداں
بدل مزاج درست اپنی چال ڈھال تو کر
(مظفر نایاب)
بے وفا کو کیا سناتا میں وفا کی داستاں
میں نے اس کو آخری خط میں لکھا کچھ بھی نہیں
ایک جیسا ہے سب کا غم ورنہ
کون سنتا مرے فسانے کو
(مقصود انور مقصود)
میں تو جب بھی چلتا ہوں اس کی سمت چلتا ہوں
پر کہاں پہنچتا ہوں دائرہ بتاتا ہے
راستے کا پتھر بھی سنگ میل ہی تو ہے
راستے کاپتھر بھی راستہ بتاتا ہے
میں اپنے حق میں بھلا کیسے فیصلہ دے دوں
مرے خلاف مرے اپنے ہی دلائل ہیں
ہم ایسے لوگوں نے دست جنوں پہ بیعت کی
تمہیں یہ کس نے کہا ہم خرد کے قائل ہیں
(اعجاز حیدر)
کاسہ عشق میں وفا کی بھیک
اور کیا آرزو تھی سائل کی
ان کی ضد کا تھا سامنا راغب
دھجیاں اڑ گئیں دلائل کی
ہوئی تھی جب بھی ترے التفات کی بارش
لہک اٹھا تھا ترا لالہ زار یعنی میں
(افتخار راغب)
کہاں سے جوش آئے گا ہمارے نوجوانوں میں
حکومت کہتی ہے یہ بات جب اپنے بیانوں میں
ملے گا کچھ نہیں تجھ کو یہ ساری ڈگریاں لے کر
تو قسمت آزما اپنی پکوڑوں کی دکانوں میں
(اشفاق دیشمکھ)
آنکھ والوں نے چرا لی روشنی ساری تو پھر
ایک اندھے کی ہتھیلی پر دیا روشن ہوا
جانے کتنے سورجوں کا فیض حاصل ہے اسے
اس مکمل روشنی سے جو ملا روشن ہوا
چھوڑ کر مجھ کو اسے جانا پڑا
ایسے اسباب بنائے میں نے
تیرے چہرے سے اجالا لے کر
چند مہتاب بنائے میں نے
روز دشمن ہوئی دنیا میری
روز احباب بنائے میں نے
(عزیز نبیل)
ہر ایک دوسرے کا اگر آئینہ بنے
اچھے برے کا خود ہی سراپا دکھائی دے
تو نے ہی جگنوؤں کو عطا کی ہے روشنی
چمکیں جو ایک ساتھ سویرا دکھائی دے
شوق منزل نہ ہو اگر دل میں
فاصلہ مختصر نہیں ہوتا
مختصر ہو مگر زمیں پر ہو
آسمانوں میں گھر نہیں ہوتا
مصلحت کو خدا بنا لیتے
دار پر اپنا سر نہیں ہوتا
(شاد اکولوی)
خوں ناب چشم ہجر کو رنگیں تو کر گیا
کتنا لہو ہوا ہےجگر کون دیکھتا
نالے مری فغاں کے فلک چیرتے رہے
ہوتا رہا میں قتل مگر کون دیکھتا
ہم خوگر تموج بحر حیات تھے
نکلا وہ ناخدا ہی خضر کون دیکھتا
تہذیب نو کی صبح نمودار جب ہوئی
ہر چیز تھی ادھر کی ادھر کون دیکھتا
یہ ارتقائے عہد تھا اس کے دیار میں
ٹھوکر میں تھا غریب کا سر کون دیکھتا
(اصطفاء الحسن حزیں)
ایک نظم بعنوان ”خالی کرسی”
ہم بیٹھ کے اک رستوراں میں
دو کرسی والی ٹیبل پر
امریکن کافی پیتے تھے
اور پیار کی باتیں کرتے تھے
پھر آج اسی رستوراں میں
دو کرسی والی ٹیبل پر
میں رنجیدہ سا بیٹھا ہوں
اک ننھے کپ کے سینے سے
یادوں کی بھاپ نکلتی ہے
اور سامنے خالی کرسی ہے
(عتیق انظر)
تقریب کے اختتامی مرحلے میں اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے مہمان اعزازی ڈاکٹر محمد علیم صاحب نے ”مسلم مسائل” کے موضوع پر گفتگو کو مزید آگے بڑھایا ، اس سلسلہ میں انہوں نے بھی علم کی ثنویت کو دور کرنے اور مدارس کے کردار کی بحالی پر زور دیا، انہوں نےدرپیش مسائل کو مسلم مسائل اور غیر مسلم مسائل میں بانٹنے کے رجحان پر تنقید بھی کی ، ان کے خیال میں جو مسائل مسلمانوں کے ہیں تقریبا وہی مسائل تمام انسانوں کے ہیں، اس لیے انہیں مکمل تناظر میں دیکھے جانے کی ضرورت ہے۔ مہمان خصوصی جناب محمد وثیق صاحب نےاردو مہجری ادب کا موازنہ عربی زبان کے مہجری ادب سے کیا اور علمی وفکر ی خدمات کے حوالےسے ندوۃ العلماء کے مسلک اور خدمات پر مختصر روشنی ڈالی ، مہمان اعزازی جناب اصطفاء الحسن کاندھلوی نے اپنے خوبصورت تاثرات اور قیمتی خیالات کا اظہار کیا ، وہ ایک پختہ فکر شاعر بھی ہیں اور بڑے والہانہ ترنم میں اپنا کلام سناتے ہیں ، انہوں نے ایک نعت اور ایک غزل سے حاضرین کو محظوظ کیا اور اپنے ترنم سےجگر صاحب کی یاد تازہ کردی ، صدارتی کلمات میں جناب عتیق انظر نے پروگرام کی ترتیب اور تنظیم کو سراہا اور اس طرح کی تقریبات کو صرف ادب اور زبان کی خدمت کا ذریعہ سمجھنے کے بجائے انہیں سماجی روابط اور باہمی محبت کے استحکام کا وسیلہ بھی ماننے پر زور دیا، انہوں نے فرمایا کہ زندگی میں کب اور کس لمحہ کیا حادثہ پیش آجائے اسے کوئی نہیں جانتا ا س لیے اس قسم کی محفلوں میں ایک دوسرے سے ملنے جلنے اور باہم محبتیں تقسیم کرنے کا جو موقع ہمیں ملتا ہے اسے غنیمت سمجھنا چاہیے، یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ محبت ہی زندگی اور اس کی تمام سرگرمیوں کے لیے قوت محرکہ کا کام کرتی ہے اور محبت ہی انسانوں کے تمام مسائل کا سچا حل بھی ہے۔ انہوں نے اپنی دو نظموں سے حاضرین کے ادبی ذوق کو بالیدگی عطا کی اور انہیں محبت اور زندگی کے بعض مسائل سے روشناس کرایا۔ پروگرام کی آخری کڑی کے طور پہ جناب محمد شاہد خاں نے تقریب میں موجود تمام خواتین و حضرات کی خدمت میں بڑا جذباتی اور پر خلوص قسم کاہدیہ تشکر پیش کیا اور اس کے ساتھ ہی یہ رنگارنگ تقریب اپنے اختتام کو پہونچی۔