رمضان المبارک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات

مولانا محمد شبلی القاسمی
رمضان المبارک کا مہینہ بندہ مومن کےلئے خاص عطیہ الٰہی ہے یہ نیکیوں کا موسم بہار اور گناہوں کا موسم خریف ہے، رمضان کا لفظ رمض سے مشتق ہے جس کے معنی جلا دینے کے ہیں چوں کہ اس ماہ میں عبادت کرنے والوں کے گناہ معاف کر دیئے جا تے ہیں اور معاصی کے اثرات جلا کر ختم کر دیئے جاتے ہیں، اس لئے اس ماہ کو رمضان کہتے ہیں۔
رمضان المبارک کی دو بڑی امتیازی شان ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس ماہ کو تمام مہینوں کا سردار قرار دیا ہے ، ایک امتیاز تو یہ ہے کہ اس مبارک مہینہ میں قرآن کریم کا نزول ہوا، دوسرے یہ کہ بہیمیت اور نفس پرستی کی بری عادات سے نجات اور انسانی قالب میں ملکوتی مزاج وکمالات فروغ دینے کی غرض سے پورے ایک ماہ کا روزہ فرض کیا گیا ، نزول قرآن اور روزے کی فرضیت نے اس ماہ کو سراپا خیر وبرکت اور رشد وہدایت کا سر چشمہ بنا دیا ہے ، رسول پاک علیہ السلام شعبان سے ہی رمضان المبارک کی عبادتوں کی تیاری میں لگ جاتے تھے ، اپنے اصحاب او رمتعلقین کو بھی رمضان المبارک کی آمد سے پہلے ہی رمضان المبارک کی عبادت کے لئے مستعد فرماتے اور رمضان المبارک کے فضائل ومسائل بتاتے، احادیث کی کتابوں میں رسول پاک کی شعبان المعظم کی عبادت ،کثرت سے روزہ رکھنے اور صحابہ کرام کو رمضان المبارک کے لئے مستعد کرنے کا تذکرہ بکثرت موجود ہے ۔
جب رمضان المبارک کا مہینہ آجاتا تو آپ اپنے رب کی عبادت میں ایسے مستغرق ہوجاتے گویا دنیا بھول جاتے۔ رسول پاک کے رمضان المبارک میں جو معمولات ہوا کرتے وہ اختصار کے ساتھ ذیل کے سطور میں درج کئے جاتے ہیں۔تاکہ امت کے لئے عمل کی راہ ہموار ہو سکے۔
روزہ:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا اور اہم عمل پورے ماہ روزہ رکھنے کا تھا ۔ روزہ رکھنا عاقل وبالغ اور تندرست مسلمانوں پر فرض ہے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔ فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ (سورہ البقرة ۵۸۱) جو کوئی رمضان کا مہینہ پائے اس پر لازم ہے کہ روزہ رکھے۔دوسری جگہ ارشاد ہے یا ایھا الذین آمنو کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم ۔ اے ایمان والو تم پر روزہ فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے قوموں پر روزہ فرض کیا گیا تھا ۔
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اتاکم شھر رمضان شھر مبارک فرض اللہ علیکم صیامہ (نسائی)
رمضان کا مبارک مہینہ تمہارے سروں پر ہے اللہ تعالیٰ نے اس ماہ کا روزہ رکھنا تم پر فرض کیا ہے ۔
رمضان کے روزہ کی فرضیت پر پوری امت کا اجماع ہے اور اس کا منکر کافر ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھنے والوں کو مغفرت کی بشارت دی ہے:من صام رمضان ایمانا واحتسابا غفر لہ ما تقدم من ذنبہ (بخاری ومسلم) جو کوئی ثواب کی نیت سے روزہ رکھے گا تو اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے ۔ جس طرح روزہ رکھنے کا بے انتہا اجر وثواب بتایا اس طرح روزہ نہ رکھنے کو ہلاکت وذلت اور دنیوی واخری بربادی کا سامان بتایا ۔ ارشاد فرمایا : ان جبرئیل اتانی فقال من ادرک شھر رمضان فلم یغفر لہ فدخل النار فابعد اللہ قل آمین فقلت آمین (رواہ ابن خزیمہ وابن حبان)جبرئیل امین میرے پاس آئے جس وقت میں مسجد میں ممبر پر قدم ڈال رہا تھا اور کہا کہ جس کی رمضان المبارک میں معافی نہ ہو سکے یعنی جو شخص رمضان میں عبادت نہ کر سکے وہ جہنم میں داخل ہو اور اللہ تعالیٰ کی لعنت اس پر ہو، اے محمد اس بد دعا پر آپ آمین کہئے ، چنانچہ میںنے آمین کہا ، غور کیجئے جبرئیل امین بد دعا دیں اور سید المرسلین اس پر آمین کہہ دیں تو رمضان المبارک کے ناقد روں کی ہلاکت وتباہی میں کیا شک رہ جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے!
روزہ کو کمزور کرنے والی چیزیں:
جس طرح روزہ رکھنا ضروری اور اہم عمل ہے اسی طرح روزہ رکھ کر گناہ کے کاموں سے بچنا بھی لازمی اور ضروری ہے ، ورنہ روزہ رکھنا بے سود اور غیر مفید ہوجاتا ہے، خصوصا اپنی زبان پر کنٹرول رہے، غیبت ، جھوٹ، شکوہ وشکایات چغلی اور فحش باتوں، قبیح عمل اور برے اخلاق وعادات سے اجتناب کرے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: من لم یدع قول الزور والعمل بہ والجھل فلیس للّٰہ حاجة فی ان یدع طعامہ وشرابہ (بخاری) جو شخص روزہ رکھ کر گناہ اور جہالت کی باتیں نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کے بھوکے اور پیاسے رہنے سے کوئی سروکار نہیں، ایک حدیث میں ارشاد نبوی ہے ۔ رب صائم لیس لہ من صیامہ الا الجوع ولیس لہ من قیامہ الا السحر بہت سے روزہ داروں کو روزہ کا ثواب نہیں ملتا وہ بیکار بھوکا ہے اور بہت سے شب بیداروں کو بھی ثواب نہیں ملتا وہ بیکار جاگ رہا ہے ۔
نبی رحمت نے روزہ داروں کو واضح ہدایت دی ۔ الصیام جنة فاذا کان یوم صیام احدکم فلا یرفث ولا یفسق فان سابہ احد او قاتلہ فلیقل انی صائم (بخاری ومسلم)روزہ گناہوں سے بچنے کے اعتبار سے مثل ڈھال ہے ، لہذا جو کوئی روزہ سے ہو وہ گناہ اور فسق وفجور کے کام نہ کرے ۔ یہاں تک کہ اگر کوئی شخص اس کو گالی دے یا مارے تو بھی روزہ دار کا فرض ہے کہ وہ گالم گلوج نہ کرے اس کی زبان پر صرف ایک ہی رٹ ہو بھائی میں روزہ سے ہوں، بھائی میں روزہ سے ہوں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دوسرا عمل تراویح :
نماز عشاءکے فورا بعد تراویح کی نما زرمضان المبارک میں سنت ہے ، اللہ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نماز ادا کیا لیکن چند دنوں کے بعد یہ سوچ کر ترک کر دیا کہ کہیں میری پابندی اور صحابہ کے شوق ورغبت کو دیکھ کر فرض نہ کردی جائے اور بعد میں میری امت اس فرض کی ادائیگی میں کوتاہی کرکے گنہ گار نہ ہو۔
امام بخاری وامام مسلم نے اپنی صحیحین میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حوالہ سے روایت اس طرح نقل کی ہے ۔
ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم صلی فی المسجد ذات لیلة وصلی بصلاتہ ناس ثم صلی من الثانیة وکثر الناس ثم اجتمعوا من اللیلة الثالثہ او الرابعة فلم یخرج الیھم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فلما اصبح قال قد را¿یت الذی صنعتم فلم یمنعنی من الخروج الیکم الا انی خشیت ان تفرض علیکم وکان ذالک فی رمضان (بخاری ومسلم)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات مسجد میں نفل نماز ادا کی جس میں صحابہ کرام بھی آپ کے ساتھ جماعت میں شریک ہوگئے ، دوسری رات بھی آپ نے اسی طرح نماز پڑھی اور دوسری رات میں صحابیوں کی تعداد پہلی رات کے مقابلہ میں زیادہ جمع ہو گئی، تیسری رات پھر صحابہ کرام بڑی تعداد میں نماز کے لئے جمع ہو گئے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر تک گھر میں ہی رہے مسجد میں تشریف نہیں لائے، جب فجر کی نماز کے لئے مسجد میں آئے تو صحابہ کرام کو منتظر دیکھ کر فرمایا: میں نے آپ لوگوں کے انتظار اور شوق ورغبت کو دیکھا ہے میں صرف اس ڈر کی وجہ سے آج کی رات تراویح کے لئے نہیں نکلا کہ کہیں یہ نماز بھی تم پر فرض نہ کر دی جائے، اور یہ واقعہ رمضان کا ہے ۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز تراویح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پسند فرمودہ نماز ہے ، صرف امت پر شفقت ورحمت کے غلبہ کی وجہ سے کہ اگر میرے اور صحابہ کے اس عمل پر دوام کی وجہ سے اس کی فرضیت کا حکم نازل ہو جاتا ہے اور اس کے بعد میری امت کا کوئی شخص اس کی ادائیگی میں کوتاہی کرے گا تو وہ فرض چھوڑنے کا گنہ گار ہوگا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے جب شریعت مکمل ہو گئی اور فرضیت کا خدشہ باقی نہ رہا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دور خلافت ہوا تو آپ نے صحابہ کرام کے مشورہ سے ایک امام قاری قرآن حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت میں صحابہ کرام کے ساتھ بیس رکعات تراویح کی جماعت کا اہتمام کیا ، جس پر اب تک امت کا عمل ہے، تراویح کی مسنونیت پر امت کا اجماع ہے۔تراویح کی نماز کا بڑا ثواب ہے یہی فضیلت کیا کم ہے کہ پورا قرآن نماز کی حالت میں سننے کا موقع میسر ہوجاتا ہے ، نیز بیس رکعات میں روزانہ چالیس سجدوں کی وجہ سے بندوں کو اللہ تعالیٰ سے قرب ووصال کا خصوصی درجہ حاصل ہوجاتا ہے ۔
قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت :
رمضان المبارک کے مہینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اہم معمول قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت کرنابھی تھا، رمضان المبارک کو قرآن کریم سے خصوصی نسبت ہے کیوں کہ یہ نزول قرآن کا مہینہ ہے جس طرح دوسری نیکیوں کا اجر اس ماہ میں ستر گنا ہوجاتا ہے ، اسی طرح قرآن کریم کی تلاوت کا بھی اجر بڑھ جاتا ہے ، اگر عام دنوں میں قرآن کریم کے ایک حرف کی تلاوت پر دس نیکیاں ملتی ہیں تو رمضان میں ستر گنا اضافہ کے ساتھ ایک حرف کی تلاوت پر سات سو نیکیاں نامہ اعمال میں درج ہوں گی، حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم اجود الناس وکان اجود ما یکون فی رمضان حین یلقاہ جبریل فیدراسہ القرآن وکان جبریل یلقاہ کل لیلة فی رمضان فیدارسہ القرآن فلرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حین یلقاہ جبریل اجود بالخیر من الربح المرسلة (بخاری ومسلم) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نیکی کے کاموں میں لوگوں سے بہت زیادہ سبقت لے جانے والے تھے خاص طور سے رمضان المبارک کے مہینہ میں خیر کے کاموں میں بہت اضافہ ہوجاتا ، رمضان میں جبرئیل امین کی بھی آمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں زیادہ ہوجایاکرتی تھی اور جبرئیل جب آتے تو قرآن کریم کی تلاوت اور اس کا درس ضرور ہوتا تھا اور رمضان المبارک کی ہر رات جبرئیل امین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے تھے اور قرآن کریم کی تلاوت کرتے تھے، اس طرح تیز آندھی سے زیادہ رفتار میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نیکی کے کاموں کو انجام دیتے تھے، ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبرئیل امین ہر رمضان میں آتے اور آپس میں قرآن کریم ایک دوسرے کو سناتے ایک ختم سنانے کا معمول برابر رہا ، اور جس سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اس سال دو مرتبہ پورا قرآن سنایا۔
ذکر ودعا:
یوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ذکر الٰہی میں مشغول رہتے تھے، لیکن جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا تو ذکر واذکارتسبیحات واوراد میں بہت اضافہ ہوجاتا ، کثرت ذکر کے ساتھ اس ماہ میں دعائیں بھی خوب کرتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عام مسلمانوں کو اس ماہ میں کثرت سے ذکر اور دعا کرنے کا حکم دیا کہ اس ماہ میں دعائیں بہت قبول ہوتی ہیں بالخصوص افطار کے وقت افطار سے پہلے دعاو¿ں میں مشغول ہونا چاہیے، رسول پاک کا ارشاد ہے: ثلاثة لا ترددعوتھم الصائم حتی یفطر الامام العادل ودعوة المظلوم (ترمذی)تین آدمیوں کی دعائیں رد نہیں ہوتی ہیں، روزہ دار کی افطار کے وقت ، انصاف ور بادشاہ کی اور مظلوم کی ، اسی طرح سحری کا وقت دعاو¿ں کی قبولیت کی گھڑی ہے ، سحری کے لئے جب بیدار ہوں تو چاہئے کہ دعاو¿ں کا بھی اہتمام کریں ویسے رمضان کا ہر لمحہ قبولیت کا مقام ہے، تسبیحات میں ، سبحان اللہ ، الحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر ، اور درود شریف کے ساتھ استغفار وغیرہ کی کثرت کرے اسی طرح جن اعمال کے وقت جو دعا منقول ہے اس کا اس ماہ میں خصوصیت سے اہتمام کیا جائے۔
صدقات وخیرات کی کثرت:
ماہ رمضان المبارک میں غرباءومساکین اور محتاجوں کا خاص خیال رکھنا رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے ، اسی لئے رمضان المبارک کو غمخواری کا مہینہ بھی کہا جاتا ہے، روزہ کے مقاصد میں ایک مقصد یہ بھی ہے کہ غرباءاور محتاجوں سے احتیاج دور کرنے کی فکر کی جائے، ایک آدمی جب دن بھر بھوکا پیاسا رہ کر روزہ رکھتا ہے تو اسے احساس ہوتاہے کہ وہ لوگ کیسے زندگی گذارتے ہوں گے جن کے یہاں اکثر فاقہ ہی رہتا ہے ، اس طرح بھوکوں کے بھوک کا احساس اہل ثروت کو روزہ کے ذریعہ سے ہوتا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جود وسخا کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے، کبھی کوئی سائل آپ کے دروازہ سے محروم نہیں گیا ۔ بخاری کی روایت ہے ۔ عن انس قال کان رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم احسن الناس واشجع الناس واجود الناس ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے بہتر ،سب سے شجاع اور سب سے زیادہ سخی تھے، مگر رمضان المبارک میں سخاوت اور غرباءپروری کا رنگ ہی کچھ اور ہوتا ہے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ آپ کی سخاوت رمضان المبارک میں تیز وتند آندھی سے بھی زیادہ آگے چلتی تھی ۔
صحیح مسلم میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:ماسئل رسول اللہ علی الاسلام شیئا الا اعطاہ فجاءرجل فاعطاہ غنما بین حبلین فرجع الی قومہ فقال یا قوم اسلموا فان محمدا یعطی عطاءمن لا یخشی الفاقة ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جس نے جو چیز بھی مانگی اللہ کے رسول نے اسے ضرور دیا ، ایک مرتبہ مدینہ منورہ میں ایک شخص دیہات سے رسول پاک کی خدمت میں حاضر ہوا، تو آپ نے اس کے سوال پر اتنی تعداد میں بکریاں اسے عنایت کیں کہ وہ دو پہاڑوں کے درمیان بھر گئی جب وہ اپنی قوم کے پاس لوٹ کر گیا تو کہا” اے میری قوم کے لوگو ایمان قبول کر لو“ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اتنی کثرت سے نوازش اور سخاوت فرماتے ہیں کہ اپنے فاقہ کی بھی پرواہ نہیں کرتے۔اس ماہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ دار کو افطار کرانے کا ۔ حکم دیا اور اس پر اجر وثواب کی زیادتی کا وعدہ فرمایا : من افطر صائما فلہ مثل اجرہ (رواہ احمد ونسائی) جو شخص کسی روزہ دار کو افطار کرائے اسے روزہ دار کے برابر ثواب ملتا ہے، رمضان المبارک میں غرباءپروری کے خیال ہی سے آپ نے مسلمانوں پر صدقہ¿ فطر کی ادائیگی لازم قرار دی ۔جو بھی مسلمان عید الفطر کے دن طلوع صبح صادق کے وقت نصاب کے بقدر مالک ہوگا اس پر صدقہ فطر واجب ہے ، اپنی طرف سے اور ان لوگوں کی طرف سے جن پر کامل ولایت حاصل ہو اور زیر پرورش ہوں۔
رمضان المبارک میں عمرہ کی ادائیگی:
با وجودیکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک میں عمرہ نہیں کیا ،مگررمضان میں عمرہ کی ادائیگی کی ترغیب فرمائی ا رشاد ہے: عمرة فی رمضان حجة او قال حجة معی(بخاری ومسلم) رمضان المبارک میں عمرہ کرنا ایک حج کا ثواب رکھتا ہے یا فریاما جس نے رمضان المبارک میں عمرہ کیا اس نے گویا میری معیت میں حج کیا۔لہذا اللہ تعالیٰ نے جس مسلمان کو وسعت دی ہو اسے رمضان میں عمرہ بھی کرنا چاہیے تاکہ یہ عظیم سعادت اسے مل جائے۔
اعتکاف :
رمضان المبارک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات میں سے ایک اہم عمل رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کی سنت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کے آخر عشرہ کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے، اور جس سال آپ کا وصال ہوا، آپ نے بیس دنوں کا اعتکاف فرمایا : حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے ان النبی کا ن یعتکف العشر الاواخر من رمضان حتی قبضہ اللہ ثم اعتکف ازواجہ من بعدہ(بخاری) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف فرماتے تھے تاآنکہ آپ اس دنیا سے رحلت فرما گئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کی ازواج مطہرات نے بھی اعتکاف کیا۔ اعتکاف کا لغوی معنی منع کرنا روکنا ، ٹھہرنا ہے، شریعت میں اعتکاف کہتے ہیں ، ایسی مسجد میں جہاں پانچوں وقت کی نماز جماعت کے ساتھ ہوتی ہو عبادت کے ارادہ سے عاقل وبالغ مرد یا نا بالغ ممیز کا روزہ کی حالت میں اعتکاف کی نیت سے ٹھہرنا ، اس طرح عورت کا گھر کی مسجد میں روزہ کی حالت میں اعتکاف کی نیت سے ٹھہرنا یہ سنت موکدہ علی الکفایہ ہے ۔
یہ بڑا اونچا اور نیک عمل ہے، معتکف گویا دنیا کے سارے دروازے بند کرکے سب سے تعلق توڑ کے ایک اللہ کا ہو کر رہ جاتا ہے ، اور معتکف گویا اللہ تعالیٰ کے در پر پڑ جاتا ہے پھر اس کے نوازے جانے میں کیا شک ہے، اعتکاف کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ اسے شب قدر کی عبادت نصیب ہوجاتی ہے ۔حضرت ابو سعید خذری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے پہلے عشرہ کا اعتکاف کیا پھر دوسرے عشرہ کا اعتکاف چھوٹے خیمہ میں کیا اس اعتکاف کے دوران سر مبارک خیمہ سے نکال کر فرمایا میں نے پہلے عشرہ کا اعتکاف کیا تو لیلة القدر تلاش کرتا رہا ، پھر میں نے دوسرے عشرہ کا اعتکاف کیا تو مجھ سے ایک فرشتہ نے آکر کہا لیلة القدر تو رمضان کے آخر عشرہ میں ہے ، اب جو میری سنت کی اتباع میں اعتکاف کا ارادہ رکھتا ہے، اس کو چاہئے کہ آخری عشرہ میں اعتکاف کرے۔ (مسلم)
آخر عشرہ میں عبادت میں زیادتی :
رمضان المبارک کا آخری عشرہ حد درجہ اہم ہے، اس میں شب قدر ہے، اس لئے اس عشرہ کے شب ورو زکو عبادت میں جھونک دینا چاہیے، رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی عادت شریفہ یہی تھی ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ۔ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ن یجتھد فی العشر الاواخر ما لا یجتھد فی فی غیرہ (رواہ مسلم) رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری دس دنوں میں جتنی عبادت میں مشقت بر داشت کرتے تھے اور جتنی محنت کرتے تھے ایسی محنت وریاضت دوسرے دنوں میں نہیں فرماتے تھے۔
اور ایک روایت میں فرماتی ہیں کہ کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم اذا دخل العشر شد مئزرہ واحیا لیلہ وایقط اھلہ (متفق علیہ) رسول پاک علیہ السلام آخری دس دنوں میں عبادت کے لئے اپنی کمر کس لیتے تھے ، راتوں کو خود بھی جاگ کر عبادت کرتے اور اپنے اہل وعیال کو بھی عبادت میں مشغول رکھتے تھے، ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت فرمایا کہ اگر مجھے شب قدر مل جائے تو اس رات میں اللہ سے کیا مانگوں ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا : یا عائشہ ان ادرکت لیلة القدر فقولی اللٰھم انک عفو کریم تحب العفو فاعف عنا: اے عائشہ اگر تجھے شب قدر مل جائے تو یہ دعا کرو: اے میرے اللہ آپ بخشنے والے اور مہربان ہیں آپس میں معاف کرنے کو پسند کرتے ہیں ،آپ میرے گناہوں کو بھی معاف کر دیجئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان المبارک کے اخیر عشرہ میں استغفارکی کثرت بھی مسنون ہے۔ اس لئے جملہ مسلمانوں کو بھی اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں آخری دس دنوں کی عبادت کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے۔
(مضمون نگار امارت شرعیہ پٹنہ کے نائب ناظم ہیں )

SHARE