علیزے نجف
انسانی زندگی میں مذہب ایک ایسا پہلو ہے جس سے ہر کسی کے جذبات وابستہ ہوتے ہیں مذہبی تعلیمات کے تئیں تقدس کا احساس ہونا بالکل فطری ہے یہ الگ بات ہے کہ ہر کسی کے احساسات و جذبات کی نوعیت اور اس کی شدت الگ الگ ہوتی ہے، کچھ لوگ مذہب کو ایک ٹیگ کی طرح استعمال کرتے ہیں اس کی تعلیمات پہ غور و فکر کرنے کی چنداں اہمیت محسوس نہیں کرتے، ان کی جذباتیت بعض اوقات اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ کسی بھی مسئلے کو مذہب کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دے کر اس کے دفاع میں شدت پسندی کی انتہا تک چلے جاتے ہیں، اس میں سے کچھ لوگ اپنی سہولت کے مطابق اس پہ عمل پیرا ہوتے ہیں دنیا و دین میں سے جو بھی آسان معلوم ہوا اپنا لیا، جب کہ وہیں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی زندگی کے ہر لمحے میں مذہبی اقدار کا لحاظ رکھتے ہیں مذہب کے حکم کی علت و حکمت اور علمیت پہ غور و فکر بھی کرتے ہیں اس سے میری مراد علماء کا طبقہ نہیں یہ ہمارے درمیان میں ہی رہنے والے لوگ ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مذہب پسندی کے درمیان بھی فرق مراتب ہوتے ہیں جو کہ ہمیشہ رہا ہے لیکن اس کے تناسب میں عدم توازن انسانی معاشرے پہ منفی اثرات بھی مرتب کرتے ہیں۔ ایک مسلمان کی زندگی میں مذہب کو ایمان سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے یہ کوئی جامد احساس نہیں اس میں زیر و زبر پیدا ہوتے رہتے ہیں ایک مسلمان پہ یہ فرض عین کی طرح واجب ہے کہ وہ اپنے ایمان کی حفاظت کرے، اور اس کو مائل بہ ارتقاء رکھے۔
رمضان کی بابرکت ساعتیں دستک دینے کو ہیں تقریبا تمام ہی مسلم گھروں میں اس کے لئے تیاریاں بھی چل رہی ہیں، تیاریوں کی نوعیت مختلف ہی سہی لیکن پھر بھی ہر مسلمان اس بابرکت مہینے کے لئے ایک خاص جذبات رکھتا ہے، عام گیارہ مہینوں کی نسبت اس میں زیادہ سے زیادہ عبادت کر کے ثواب حاصل کرنے کی جدوجہد کرتا ہے، شب بیداری کرتا ہے، تلاوتِ قرآن کریم کا اہتمام کرتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔
اس وقت سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے یہاں جو عبادت کا طریقہ رائج ہے اس کے اثر سے ایمان پہ کیسے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور پھر وہ ایمانی ارتقاء کا سلسلہ رمضان ختم ہوتے ہی کیوں رک جاتا ہے، ہمارے یہاں تقلیدی ذہنیت نے ایمانی کیفیت میں ایک جمود کی سی کیفیت پیدا کر دی ہے جس کی وجہ سے لوگ مذہبی تعلیمات پہ عمل پیرا تو ہوتے ہیں لیکن اس کی لذت سے محروم ہی رہتے ہیں، لذت سے ناآشنائی کی وجہ سے اس کے تئیں طلب و تڑپ میں بھی اضافہ نہیں ہوتا بس لوگ ایک فرض سمجھ کر قرض کی طرح اسے ادا کر دیتے ہیں، ایسے میں ضروری ہے کہ اس رمضان میں اپنے احساسات و جذبات کا جائزہ لینے کی کوشش کی جائے، صوم و صلاۃ کی اصل غرض و غایت پر غور و فکر کی جائے، کیوں کہ جب تک آپ کی فکر بیدار نہیں ہو گی کوئی بھی عبادت ہماری زندگی پہ اپنے اثرات مرتب نہیں کر سکتی، نہ ہی ہمارے طرز زندگی کو بامعنی بنا سکتی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ اس رمضان میں ایک بار ضرور اپنی زندگی کا مقصد جاننے کی تگ و دو کریں کہ بحیثیت مسلمان کے ہمارا مقصد حیات کیا ہے، بحیثیت ایک انسان کے ہماری زندگی کا مقصد کیا ہونا چاہئے، دونوں ہی مقاصد کی تعیین جب تک نہیں ہوگی اس وقت تک ہم ذہنی خلجان ، اور لمحاتی انتشار سے محفوظ نہیں رہ سکتے ہمارے آپسی تعلقات بھی متاثر ہوں گے اور ارتقاء کا سفر بھی رک جائے گا، بحیثیت مسلمان کے ہماری سب سے بڑی ذمےداری یہ ہے کہ ہم اپنے بندے ہونے کا حق ادا کریں اسلام کے ارکان کی ادائیگی کو خود پہ لازم قرار دیں، یہ ارکان محض کچھ کلمات کے ورد اور جسمانی طور پہ چند سرگرمیوں کے انجام دینے کا نام نہیں ہے، صحیح معنوں میں اس کی ادائیگی اسی وقت ممکن ہے جب روح اور دل بھی اس کے ساتھ شامل ہو ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیفیت کیسے پیدا کی جا سکتی ہے، سب سے پہلے ہمیں اپنے پوٹینشیل میں موجود غور و فکر کی صلاحیت کو مہمیز دیں اسلامی تعلیمات کی اصل علت کو سمجھنے کی جدوجہد کرنی چاہئے، اسلام کو سمجھنے کے لئے قرآن کا براہ راست مطالعہ کریں، سوال کرنا سیکھیں اس کے جوابات تک پہنچنے کے لئے کسی بھی معتبر عالم دین یا اس انسان سے رابطہ کریں جو کہ ہماری سوچ کی گرہ کو کھول دے جو ہماری نفسیاتی کشمکش کو حل کر سکے، مسلک کے فروعی اختلافات میں الجھنے کے بجائے اسلام کے اصل حکم اور بنیادی تعلیمات کو سمجھنے کی کوشش کریں، اللہ سے توفیق مانگیں کہ وہ ہمیں سچ کی پیروی کرنے والا بنا دے دعا کریں کہ ہمارا سینہ ایمان کے لئے کھول دے ہر طرح کی کجی سے محفوظ رکھے، اس جدوجہد کے بغیر کسی بھی عبادت کا اصل لطف حاصل نہیں کیا جا سکتا، یہ ایک سفر ہے جو ساری زندگی جاری رہتا ہے اس کو کسی خاص مہینے یا وقت کے ساتھ محدود نہیں کیا جا سکتا۔
رہی بات بحیثیت انسان کے اپنے مقاصد کی تعیین کی اہمیت کی تو یہ اس لئے ضروری ہے کہ اس سے شب و روز کو نتیجہ خیز معمولات کے تحت گزارنے میں آسانی ہوتی ہے اس مقصدیت پسندی کی وجہ سے شیطانی کارگزاریوں اور اس کے شر سے بھی بچا جا سکتا ہے، بحیثیت مسلمان کے سب کا مقصد ایک ہو سکتا ہے لیکن بحیثیت ایک فرد کے کچھ کے مقاصد ایک سے اور کچھ کے الگ الگ ہو سکتے ہیں۔ ہم میں سے ہر انسان مختلف صلاحیتوں کے ساتھ دنیا میں آتا ہے ایسے میں یہ جاننا ازحد ضروری ہے کہ ہمارا مقصد کیا ہے، اس کے لئے ہمیں اپنی صلاحیتوں کا جائزہ لیتے ہوئے حالات اور مواقع کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ ہم ایسے مقاصد کا انتخاب کریں جس سے ہم ذہنی مناسبت رکھتے ہوں اور وہ خدائی قانون کے خلاف نہ ہوں اور جو کہ وقت کا بہترین مصرف بھی بن سکے، ہمارے یہاں دین و دنیا کو دو الگ الگ خانوں میں بانٹنے کی وجہ سے ایک عدم توازن کی سی فضا پیدا ہو گئی ہے اس میں سے کسی ایک کے انتخاب کی شرط نے بہتوں کو سرکش بھی بنا دیا ہے جب کہ اسلام میں ایسی کوئی شرط نہیں وہ متوازن زندگی گزارنے کی ترغیب دیتا ہے، اس رمضان کے موقع پہ اس پہلو سے اپنی زندگی کو معتدل پیمانے پہ لانے کی کوشش ضرور کریں اس توازن کے بغیر انسانی ذہن انتشار اور بے ترتیبی کا شکار ہو جاتا ہے اس کی وجہ سے کئی طرح کے ذہنی عوارض میں مبتلا ہونے کا خدشہ پیدا ہو جاتا ہے، اس کے منفی اثرات بڑے گہرے ہوتے ہیں۔ اسلام کو مذہبی شخصیات کے قول و عمل سے سمجھنے کے بجائے قرآن و سنت سے سمجھنے کی کوشش کرنے سے انسان بہت سی الجھنوں سے بچ سکتا ہے، بعض اوقات مختلف شخصیات کے سمجھانے کے فرق کی وجہ سے ایک عام انسان الجھن کا شکار ہو جاتا ہے، ایسے میں ہر فرد اپنی فکری صلاحیت سے ہی اسے سلجھا سکتا ہے بشرطیکہ وہ اس کی استعداد رکھتا ہو۔
رمضان کو لوازمات اور رسومات سے بوجھل کرنے سے گریز کریں بآسانی جو اہتمام کر سکتے ہیں اس پہ خود کو راضی کرلیں، اپنی بساط کی حد تک رمضان کی روح پامال ہونے سے بچائیں نہ ہوری طرح سے ماحول کٹ کر الگ دنیا بنائیں اور نہ ہی لوازمات و رسومات میں دوسروں کی تقلید کر کے خود کو تھکائیں، کوشش بس یہ ہونی چاہئے کہ خود کو پہلے سے بہتر کرسکیں اپنی زندگی رشتے تعلقات صحت کو پہلے سے زیادہ متوازن کر سکیں، اپنی سوچ و خیال کا جائزہ لے کر اس کا تزکیہ کرنے کی کوشش کریں، زیادہ سے زیادہ نوافل ادا کرنے کے جتن کرنے کے بجائے حسب استطاعت نوافل کو خشوع و خضوع سے ادا کریں، کئی سارے قرآن ختم کرنے کی ہوڑ پیدا کرنے کے بجائے تفکر و تدبر کے ساتھ جتنا بآسانی پڑھ سکتے ہیں اتنا ہی پڑھیں، کیوں کہ قرآن لفظوں کا مجموعہ نہی ہے وہ دستور حیات ہے اس کو سمجھنے کے لئے معانی و مفاہیم کو سمجھنا لازم ہے یہ تبھی ممکن ہے جب ہم لفظوں کی ریس سے باہر نکلیں گے، سحر و افطار کی پارٹیاں رکھنے کے بجائے ان کے لئے سحر و افطار کا انتظام کرنے کو ترجیح دیں جو کہ خط مفلسی سے نیچے زندگی گزارتے ہوئے بھوکے پیٹ روزہ رکھنے پہ مجبور ہیں۔ رمضان کو ٹریننگ کا مہینہ سمجھنا چاہئے جو باقی کے گیارہ مہینے میں معتدل ضابطہء حیات کو اپنائے رکھنے میں معاون ہو۔