مسلم دور حکومت میں رویت ہلال کے سلسلے میں کوئی اختلاف نہیں ہوتاتھا۔ ایک ہی دن پورے ہندوستان میں روزہ رکھنے کا اہتمام ہوتاتھا اور ایک ہی دن عید کی نماز ادا کی جاتی تھی ،عصر حاضر کے مسلم ملکوں میں حکومت کی طرف سے باضابطہ چاند کمیٹی کی تشکیل کی جاچکی ہے جس کی ذمہ داری چاند دیکھنا ،اس کی تصدیق کرنا اور اس سے متعلق امور کی انجام دہی ہوتی ہے ۔ مسلکی تفریق کے بغیر تمام مسلمانوں کیلئے حکومت کے زیر نگرانی کام کرنے والی رویت ہلال کمیٹی کا فیصلہ قابل عمل ہوتاہے اور وہاں ایک ہی دن سے روزہ کی ابتدا ہوتی ہے ،عید کی نماز ادا کی جاتی ہے
خبر درخبر (569)
شمس تبریز قاسمی
ہندوستان میں رویت ہلال کا اختلاف کوئی نئی بات نہیں ہے ،متعدد مرتبہ عید کی نماز اور رمضان کا چاند دیکھے جانے کے سلسلے میں اختلاف ہوچکاہے ،بریلوی اور دیوبندی مکتبہ فکر کے درمیان عموما یہ اختلاف ہوتاہے لیکن اس مرتبہ دومسلک کے ساتھ چندشہروں میں بھی اختلاف ہوگیاہے ،ایک تنظیم کی علاقائی یونٹ کابھی آپس میں اختلاف ہے اور 23 رمضان گزر جانے کے باوجود اس اختلاف کا حل نہیں نکل سکاہے ۔پاکستان اور بنگلہ دیش سمیت ہندوستان کے بیشتر شہروں میں 17 مئی سے یکم رمضان المبار ک ہے جبکہ عروس البلاد ممبئی اور ملک کے بریلوی مکتبہ فکر کے یہاں 18 مئی کو یکم رمضان المبارک تسلیم کیاگیا ۔رویت ہلال کا یہ اختلاف صرف روزہ کی ابتد اءتک محدو د نہیں رہ گیاہے بلکہ عشروں کی تعین ،شب قد ر کی تلاش ،اعتکاف اور جمعة الوادع تک وسیع ہوگیاہے ۔جن کے یہاں 18 مئی سے رمضان کی ابتدا ہوئی ہے ان کیلئے متفقہ طور پر 15 جون کو جمعة الوداع ہوگا لیکن 17 مئی سے روزہ رکھنے والے کیلئے 8جون جمعة الوداع کیلئے زیادہ مناسب ہے کیوں کہ 29 کا چاند ہونے کی صورت میں 15 جون کا جمعہ یکم شوال یعنی عید کا دن ہوسکتاہے ۔
ہندوستان میں چاند کا اختلاف ہمیشہ کیوں ہوتاہے؟ کیا ہے اس کی وجہ؟ اور دیگر ملکوں میں یہ صورت حال کیوں نہیں پائی جاتی ہے ؟آج کے اس کالم میں ہم اسی کا جائزہ لینے جارہے ہیں ۔
چاند کے سلسلے میں واضح حدیث ہے کہ چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور شوال کا چاند دیکھ کر روزے کا سلسلہ ختم کردو ،اگر مطلع صاف نہیں ہے تو قریبی شہر کا اعتبار کیاجائے گا ۔اسی فرمان پر اب تک عمل ہوتاآرہاہے اور ہرملک اور خطے میں چاند دیکھ کر تاریخ کی تعیین کی جاتی ہے ۔فقہ اسلامی کی تدوین کے وقت مطلع کی تعیین کی گئی ۔ فقہاءنے اختلاف مطالع کو معتبر مانتے ہوئے الگ الگ خطوں کیلئے الگ مطلع تسلم کیا۔ بر صغیر کا مطلع عرب ممالک سے مختلف ہوتاہے ،عموماجس دن سعودی عرب میں چاند طلوع ہوتاہے اس کے ایک دن بعد ہندوستان میں طلوع چاند ہوتاہے لیکن کبھی کبھی ایک ساتھ بھی نظر آجاتاہے جیساکہ سال رواں ہواہے ۔فقہاءکے یہاں بر صغیر ہندوپاک اور بنگلہ دیش کا مطلع ایک ہے ۔البتہ کیرلہ اور بھٹکل جیسے مقامات کا اس سے استثنا ہے ۔مسلم دور حکومت میں رویت ہلال کے سلسلے میں کوئی اختلاف نہیں ہوتاتھا۔ ایک ہی دن پورے ہندوستان میں روزہ رکھنے کا اہتمام ہوتاتھا اور ایک ہی دن عید کی نماز ادا کی جاتی تھی ،عصر حاضر کے مسلم ملکوں میں حکومت کی طرف سے باضابطہ چاند کمیٹی کی تشکیل کی جاچکی ہے جس کی ذمہ داری چاند دیکھنا ،اس کی تصدیق کرنا اور اس سے متعلق امور کی انجام دہی ہوتی ہے ۔ مسلکی تفریق کے بغیر تمام مسلمانوں کیلئے حکومت کے زیر نگرانی کام کرنے والی رویت ہلال کمیٹی کا فیصلہ قابل عمل ہوتاہے اور وہاں ایک ہی دن سے روزہ کی ابتدا ہوتی ہے ،عید کی نماز ادا کی جاتی ہے ۔ہاں!جہاں مسلم حکومت نہیں ہے وہاں مسلمانوں نے اپنے طور پر ہلال کمیٹی تشکیل دے رکھی ہے ۔موجودہ ہندوستان کی بھی صورت حال یہی ہے ،یہاں ہر خطے اور مسلک کی الگ الگ رویت ہلال کمیٹی ہے ۔ جو رویت ہلال کا اعلان کرتی ہے اور عموما رویت چاند کی تصدیق میں اختلا ف رونما ہوجاتاہے ۔
کیرلا اور بھٹکل کے علاوہ پورے ہندوستان کا مطلع ایک ماناجاتاہے ،یعنی ایک شہر میں رویت کی تصدیق دوسرے شہر کی رویت کیلئے کافی ہے ،یہی معمول بھی ہے اور عموما ہندوستان میں اسی پر عمل ہوتاآرہاہے لیکن سال رواں ایسا نہیں ہوسکا ۔دو مسلکوں کے درمیان رویت میں اختلاف رونما ہونے کے ساتھ ایک شہر کی رویت ہلال کمیٹی کا فیصلہ بھی پورے ہندوستان سے مختلف ہے ۔ممبئی کی رویت ہلال کمیٹی کی اپنی دلیل ہے کہ ممبئی کا مطلع صاف تھا اس کے باوجود 16 مئی کو چاند نظر نہیں آیااس بنیاد پر اس دن کی رویت کا اعتبار نہیں کیا گیا۔امارت شرعیہ پٹنہ ،جامع مسجد دہلی اور جمعیة علماءہند سمیت دیگر تنظیمیوں کی رویت ہلال کمیٹیوں کی دلیل ہے کہ ہمارے شہر کا مطلع صاف نہیں تھاتاہم چننئی اور حیدر آباد جیسے شہروں میں چاند دیکھے جانے کی تصدیق ہوئی ۔اس لئے پورے ہندوستان کا مطلع ایک ہونے کی وجہ سے یہاں بھی 16 مئی کی رویت تسلیم کرلی گئی ۔
سچائی یہی ہے کہ 16 مئی کو جنوبی ہند کے چند شہروں کے علاوہ ملک کے کسی بھی حصے میں چاند نظر نہیں آیاتھا ،ملک کی متعدد رویت ہلال کمیٹیاں کشمکش کا شکار تھیں،معاملہ بہت زیادہ مشکوک تھاایسے میں رویت ہلال کمیٹیوں کوفیصلہ لینے میں جلدی بازی سے گریز کرتے ہوئے دیگر کمیٹیوں سے رابطہ کرنا چاہیئے تھا،ان کی آراءجانے کی کوشش کی جانی چاہیئے تھی ،لیکن ایسا نہیں ہوسکا ،ملک کی ایک بڑی تنظیم کے زیر اہتمام قائم کل ہند امار ت شرعیہ کے نظام نے جنوبی ہند کے فیصلہ کو قابل عمل ٹھہر اتے ہوئے فورا رویت ہلال کا اعلان کردیا ،حالاں کی اسی تنظیم کی مالے گاﺅں اور ممبئی یونٹ نے اس فیصلہ کو کالعدم قرارد یکر رویت ہلال کی تردید کرتے ہوئے 18 مئی سے رمضان کی شروعات تسلیم کی ۔ممبئی جامع مسجد کی رویت ہلال کمیٹی نے دومرتبہ میٹنگ کرنے کے باوجود یہی فیصلہ کیا کہ” 18مئی سے ہی رمضان ہے ،جنوبی ہند کی رویت ہمارے لئے قابل تقلید نہیں “۔قابل غور پہلو یہ ہے کہ مذکورہ کمیٹیوں کا علماءکا متفقہ طور پر یہ بھی مانناہے کہ پورے ہندوستان کا مطلع ایک ہی ہے ،ممبئی جامع مسجد کی رویت ہلال کمیٹی کے دستور میں بھی یہ بات لکھی ہوئی ہے کہ ہندوستان کا مطلع ایک ہے ۔لیکن 16 مئی کی رویت کو ان لوگوں نے اس اصول کے مطابق کیوں تسلیم نہیں کی اس سوال کا کمیٹی کے ذمہ داران کے پاس کوئی جواب نہیں ہے ۔
ہندوستان میں رمضان اور عید کے چاند میں اس طرح کا اختلاف غیر مناسب ہے ،عوام کو ذہنی الجھن کا سامناکرناپڑتاہے ،مسلکی منافرت بڑھتی ہے ،یہ اختلاف حکومت کیلئے بھی پریشانی کا سبب ہے کیوں کہ عید الفطر کو سرکاری چھٹی ہوتی ہے جس کی تحدید ایک کے مطابق ہوگی تو دوسرے ناراض ہوجائیں گے ۔
ہندوستان میں رویت ہلال کمیٹیوں کی ایک طویل فہرست ہے ،چاند کی تصدیق کیلئے سبھی کا اپنا پیمانہ ہے لیکن کسی ایک کمیٹی کا دوسرے سے رابطہ نہیں ہوتاہے ،ان کے پا س جدید آلات اور دروبین کی سہولیات مہیا نہیں ہے ،ماہرین فلکیات کی خدمات انہیں دستیاب نہیں ہیں ۔ہندوستانی محکمہ موسمیات سے بھی انہیں اس سلسلے میں کوئی مدد نہیں مل پاتی ہے ۔یہ کمیٹیا ں عموما 29 تاریخ کو چاند دیکھنے کی عوام سے اپیل کرتی ہیں اور جو عوامی شہادت ملتی ہے اسی کے مطابق اپنے لیٹر ہیڈ پر یہ لکھ کر سوشل میڈیا پر وائرل کردیتی ہیں کہ ”آج فلاں تاریخ کو فلاں مہینہ کا چاند دیکھاگیاہے ،کل فلاں ماہ کی پہلی تاریخ ہے “ ہمارے ایک دوست کے مطابق عوام اور رویت ہلال کمیٹی کے درمیان فرق صرف اتنا رہ گیاہے کہ ان کے پا س لیٹر ہیڈہے اور عوام کے پاس نہیں ہے ۔
ہندوستان میں ایک مرکزی رویت ہلال کمیٹی کی تشکیل ضروری ہے جس کا فیصلہ پورے ہندوستان کیلئے نافذ العمل ہو، کسی مسلکی تفریق کے بغیر تمام مسلمان اسی کمیٹی کے مطابق روزہ کی ابتداءکریں اور عید کی نماز ادا کریں ،قمری تاریخ میں اسی کمیٹی کا فیصلہ معتبر ماناجائے ۔جن علاقوں کا مطلع ہمیشہ مختلف ہوتاہے انہیں اسے استنثاءرکھاجاسکتاہے ۔اس کمیٹی کی نگرانی حکومت کے ذریعہ بھی کرائی جاسکتی ہے ،جس کی ایک ممکنہ شکل یہ ہے کہ کمیٹی کے ممبران خود مختار ہوں ،فیصلہ لینے میں مکمل طور پر آزاد ہوں ،حکومت صرف نگرانی کا فریضہ انجام دے گی ۔ا س کا فائدہ یہ ہوگا کہ دیگر مسلم ملکوں کی طرح ہندوستان میں بھی رمضان اور عید کے سلسلے میں مسلکی اور علاقائی بنیاد پر کوئی اختلاف رونما نہیں ہوگا ،چھٹیوں کی تعین میں حکومت ،تنظیموں اور پرائیوٹ کمپنیوں کو بھی پریشانی کا سامنا نہیں کرناپڑے گا ۔دیگر ملکوں کی طرح ہندوستا ن میں بھی ایک ہی دن سے روزہ کی ابتداءہوگی ،ایک ہی دن عید کی نماز ادا کی جاسکے گی ۔پاکستان کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں شدید مسلکی اختلافات کے باوجود رویت ہلال کے بارے میں کبھی کوئی اختلاف پیدا نہیں ہوتاہے کیوں کہ وہاں حکومت کی زیر نگرانی کمیٹی کام کرتی ہے جس کا فیصلہ سبھی کیلئے ماننا ضروری ہوتاہے ۔ایک طریقہ یہ بھی ہوسکتاہے کہ حکومت کی ایک رویت ہلال کمیٹی کو معتبر تسلیم کرتے ہوئے اس کے فیصلہ کا سبھی کو پابندبنادے اور اسی کے مطابق دیگر کاروائیاں کی جائے ۔آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ یا اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کوچاہیے کہ وہ اس سلسلے میں اقدام کرتے ہوئے تمام علاقے اور مسلک کی رویت ہلال کمیٹیوں کا ایک مشترکہ سمینار کراکر اس کا جائزہ لے تاکہ کوئی مستقل لائحہ عمل نکل سکے ۔ بہر حال رمضان المبارک 2018 رویت ہلال کے اختلاف کیلئے خصوصیت کے ساتھ یاد رکھاجائے گا ۔
stqasmi@gmail.com
(کالم نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر ہیں )