مولانا ابو عمار زاہد الراشدی
ترکی ایک صدی کے بعد پھر سے پوری دنیا کی نگاہوں اور عالم اسلام کی امیدوں کا مرکز بن گیا ہے۔ اب سے سو سال قبل ترکی دنیا کا ایک اہم موضوع تھا اور اب صدی گزر جانے پر ایک بار پھر دنیا بھر میں بحث و مباحثہ کا اہم ترین عنوان ہے۔ سو سال قبل یورپ ترکی اور مشرقی وسطیٰ میں خلافت عثمانیہ کے خاتمہ اور عالم اسلام پر نئی جغرافیائی تقسیم مسلط کرنے کی راہ ہموار کر رہا تھا جس میں وہ کامیاب ہوگیا، جبکہ برصغیر پاک و ہند کی گلیاں اور بازار ’’تحریک خلافت‘‘ کے پر ہجوم، جلسوں اور پرجوش نعروں سے گونج رہے تھے۔ یہ عجیب تاریخی منظر ہے کہ جن دنوں ترک نیشنلزم اور عرب قومیت کا ہتھیار عالم اسلام کے حصے بخرے کرنے اور خلافت عثمانیہ کو بکھیر دینے کے لیے پوری قوت کے ساتھ استعمال کیا جا رہا تھا انہی دنوں جنوبی ایشیا میں قومی راہنماؤں مولانا محمد علی جوہرؒ، مولانا شوکت علیؒ، مولانا ابوالکلام آزادؒ، حکیم محمد اجمل خانؒ، ڈاکٹر مختار احمد انصاریؒ، ڈاکٹر سیف الدین کچلوؒ، چودھری افضل حقؒ، مولانا حبیب الرحمان لدھیانویؒ، مولانا ظفر علی خانؒ، اور امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی قیادت میں خلافت عثمانیہ کو بچانے کے لیے سرگرم عمل تھے اور وہ برطانوی حکومت سے خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کی مہم روک دینے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ وہ دور اس خطہ کی تاریخ کا کیسا دور ہوگا جب مولانا محمد علی جوہرؒ کی گرفتاری پر ان کی بوڑھی والدہ میدان میں آگئی تھیں اور جگہ جگہ جلسوں سے خطاب کر کے لوگوں میں خلافت کے تحفظ کا جذبہ ابھار رہی تھیں۔ اس دور کا یہ نعرہ آج بھی پرانے لوگوں کے کانوں میں گونج رہا ہے کہ ’’بولی اماں محمدعلی کی، جان بیٹا خلافت پہ دے دو‘‘۔ اس مہم میں ظاہری طور پر ہی سہی مگر گاندھی اور نہرو بھی تحریک خلافت کی حمایت میں تھے اور کھلے بندوں اس کا ساتھ دے رہے تھے۔ یہ تحریک خلافت برصغیر میں سیاسی تحریکات کی ماں ثابت ہوئی جس کی کوکھ سے آزادی کی سیاسی تحریکات اور پھر تحریک پاکستان نے جنم لیا۔
خلافت عثمانیہ کیا تھی؟ اس پر اب نئے سرے سے بہت کچھ لکھنے کی ضرورت ہے مگر مختصرًا اس کے ایک پہلو پر صرف ایک حوالہ سے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ابھی چند سال پہلے جب مشرقی یورپ میں بوسنیا کے مسلمان گاجر مولی کی طرح کٹ رہے تھے تو محترمہ بے نظیر بھٹو مرحومہ نے ایک بین الاقوامی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے اس کا ذکر کیا اور یہ حسرت بھرا جملہ ان کی زبان پر آگیا کہ ’’اب تو کوئی اوتومان ایمپائر (خلافت عثمانیہ) بھی نہیں ہے جس کے سامنے ہم اپنا رونا رو سکیں‘‘۔
اس پس منظر میں ترکی کے صدارتی انتخاب میں حافظ رجب طیب اردگان کی جیت کوئی روایتی یا معمول کی بات نہیں ہے بلکہ اپنے اندر امیدوں، خدشات، توقعات اور خطرات کا ایک وسیع جہان سموئے ہوئے ہے۔ ترکی نے ایک صدی قبل خلافت عثمانیہ سے دستبرداری اختیار کر لی تھی جس پر علامہ محمد اقبالؒ نے کہا تھا کہ:
چاک کر دی ترک ناداں نے خلافت کی قبا
اپنوں کی سادگی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ
اتاترک اور عصمت انونو نے ترکی کو بچانے کے نام پر یورپ کے مطالبہ بلکہ عسکری جبر پر نہ صرف خلافت سے دستبرداری اختیار کی تھی بلکہ شریعت اسلامیہ اور مذہبی شعائر کو بھی خیرباد کہہ دیا تھا۔ مگر ترک قوم زیادہ دیر تک اس پر قائم نہ رہ سکی اور جبر کی شدت کم ہوتے ہی اس نے واپسی کا سفر شروع کر دیا تھا۔ ترکی کے سابق صدر جلال بایار اور شہید وزیراعظم عدنان میندریس اس واپسی کا نقطۂ آغاز تھے جنہوں نے عوامی ووٹ سے حکومت حاصل کر کے اسلامی شعائر کی بحالی کا کام شروع کیا مگر فوجی مداخلت کے ہاتھوں بے بس ہو گئے اور بالآخر عدنان میندریس نے پھانسی کے تختہ پر جام شہادت نوش کر لیا۔ تیسری دنیا اور مسلم ممالک کی ان فوجوں کے بارے میں مولانا عبید اللہ سندھیؒ نے کہا تھا کہ یہ فوجیں دراصل حکمرانی کے لیے تیار کی جا رہی ہیں۔ اس مرد درویش کا یہ جملہ ہم نے الجزائر، ترکی اور مصر میں پورا ہوتا اپنی آنکھوں سے دیکھا جہاں عوام کی منتخب حکومتوں کو جبر کے ذریعے ہٹا کر وہاں آمریتیں مسلط کر دی گئیں اور یورپ و امریکہ نے اپنے ایجنڈے میں پیشرفت کے لیے ان آمریتوں کو مسلسل تحفظ فراہم کیا۔ ہمارے ہاں بھی صورتحال اس سے مختلف نہیں ہے البتہ ’’صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں‘‘ کا کھیل ایک عرصہ سے جاری ہے جسے بالآخر کہیں تو ختم ہونا ہے۔
حافظ رجب طیب اردگان نے اپنے دور اقتدار میں جس جرأت، حوصلہ اور حکمت عملی کے ساتھ ترکی اور عالم اسلام کے مفادات کی بات بلکہ نگہبانی کی ہے، اراکان اور شام کے مظلوم مسلمانوں کی پشت پناہی کی ہے، اور فلسطین و بیت المقدس کے مسئلہ پر آواز اٹھائی ہے اس نے پورے عالم اسلام کی توجہات حاصل کر لی ہیں۔ چنانچہ اس الیکشن میں شاید ہی دنیا کا کوئی خطہ ایسا ہو جہاں مظلوم مسلمانوں کے ہاتھ طیب اردگان کی کامیابی کے لیے بارگاہ ایزدی میں نہ اٹھے ہوں جنہیں اللہ تعالیٰ نے قبولیت سے نوازا ہے، فالحمد للہ علیٰ ذٰلک۔
گزشتہ سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے رجب طیب اردگان نے ’’لوازن معاہدہ‘‘ کے بارے میں جب یہ کہا کہ یہ معاہدہ جس کے تحت ترکی کو خلافت و شریعت سے دستبردار ہونا پڑا تھا، ہم پر جبرًا مسلط کیا گیا تھا جو عسکری یلغار کے سائے میں ہوا تھا اور اس میں ترک عوام کی مرضی شامل نہیں تھی۔ تو تاریخ کا شعور رکھنے والے کارکنوں کو اندازہ ہوگیا تھا کہ ۲۰۲۳ء میں اس معاہدہ کی مدت ختم ہونے پر اردگان کے عزائم کیا ہیں۔ اسی لیے پورا مغرب طیب اردگان کے مخالفوں کی پشت پر کھڑا دکھائی دے رہا ہے مگر اسی طرح پورا عالم اسلام بھی رجب طیب اردگان کی پشت پر کھڑا ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔ ۲۰۲۳ء جوں جوں قریب آرہا ہے یہ نئی صف بندی واضح ہوتی جا رہی ہے۔ مشرق میں ملائیشیا کے بزرگ قومی راہنما مہاتیر محمد کی اقتدار میں واپسی نے اس نقشہ میں استعمار دشمنی کے رنگ کو ایک اور نکھار دیا ہے۔ اب پاکستان کے انتخابات پر نظریاتی کارکنوں کی نگاہیں اٹھنے لگی ہیں کہ خدا کرے یہاں بھی حافظ رجب طیب اردگان اور ڈاکٹر مہاتیر محمد کا کوئی ساتھی آگے آجائے تاکہ صف بندی جلد مکمل ہو جائے۔ ہم ترک عوام کو اس تاریخی اور شاندار فیصلے پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے اپنے لیے دعاگو ہیں کہ خدا کرے ہم بھی ان کے ساتھی بن سکیں، آمین یا رب العالمین۔
(بشکریہ روزنامہ اسلام پاکستان )