ائمہ کرام و مؤذنین کے حقوق کی پاسداری میں کوتاہیاں: معاشی کفالت سے مسائل کا تصفیہ ممکن

غلام مصطفی رضوی 
ائمہ کرام ہماری نمازوں کے رہبر ہیں۔ نماز جیسی پاکیزہ عبادت میں جو ہمارے رہبر ہیں؛ اُن کا مقام کیسا بلند ہوگا، جس کا اندازہ ہم نہیں کر سکتے۔ مؤذن بھی سربلند ہیں۔ اُن کی اذاں کی آواز جب سماعتوں سے ٹکراتی ہے تو کیفیت یوں ہوتی ہے کہ: دل و جاں وجد کناں جھک گئے بہر تعظیم۔اور روح پر کیف طاری ہوجاتا ہے۔
ائمہ و مؤذنین کی ذمہ داریاں: چوں کہ امام نماز جیسی اہم و عظیم عبادت میں مقتدا ہوتا ہے۔ جس کی اقتدا میں بارگاہِ الٰہی میں نیاز مندانہ حاضری دی جاتی ہے۔ احساسِ بندگی جگایا جاتا ہے۔ بارگاہِ صمدیت میں جبیں جھکا کر وقارِ جبیں بلند کیا جاتا ہے۔ امامت! بڑا حساس منصب ہے۔ امامت! بڑا مقدس و مبارک منصب ہے۔ اس لیے امام کی ذمہ داری بھی کم نہیں۔ اس باب میں کئی باتیں ہمہ وقت پیش نظر رکھی جانی چاہئیں، مثلاً:
[۱] امام کے عقائد و اعمال درست و صحیح ہوں۔[یہ اُصول تو ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔]
[۲] امام مسائلِ امامت و ضروری دینی علوم سے خوب آگاہ ہو۔ بالخصوص بنیادی علوم کے ساتھ ہی مسائلِ سجدہ ¿ سہو، وقتوں سے متعلق علم، طہارت، غسل، وضو، احکامِ مسجد و احکامِ جمعہ و عیدین سے بھی خوب آگاہ ہو۔
[۳] قراءت درست ہو، قراءت کا یہ مطلب نہیں کہ خوش الحان ہو، بلکہ مخارج و تجوید کی رعایت کرتا ہو، اگر خوش الحان ہو تو سونے پر سہاگہ ۔ ورنہ اصل تو یہی ہے کہ قرآن صحیح صحیح پڑھے۔
[۴] پابندیِ وقت ملحوظ رہے، بالخصوص جملہ نمازوں میں وقت پر حاضری سے کوتاہی نہ برتے۔
[۵] جمعہ میں اس بات کا بھی خیال رہے کہ نمازِ جمعہ کو متعین وقت پر ادا کیا جائے۔ یہ نہ ہو کہ وقتِ جماعت 2بجے ہے تو اس میں بِنا اطلاع کے سوا دو بجا دے، بلکہ متعین وقت سے کسی سبب کمی بیشی کی نوبت آجائے تو قبل از وقت اطلاع فراہم کی جائے۔ اس لیے کہ عموماً دُنیوی اداروں سے مربوط افراد کی چھٹیاں دوپہر میں بڑی قلیل و وقت سے بندھی ہوتی ہیں۔ جس کا خیال ائمہ ہی رکھ سکتے ہیں۔
[۶] عوام کو شرعی مسائل، عقائد اسلامی سے واقف کرائیں، اس لیے کہ اِس وقت باطل فرقے بہت سرگرم ہیں۔ جیسے حال ہی میں فتنۂ شکیلیت نے سر اُبھارا، حالاں کہ اس کے عقائد وہی ہیں جو قادیانیوں کے ہیں، تو ائمہ کو چاہیے کہ قادیانی فرقے کی غلط روی سے عوام کو آگاہ کریں، اِس سلسلے میں اعلیٰ حضرت کی 5 کتابیں مدلل موجود ہیں؛ جن کا مطالعہ ایمان کی سلامتی کے لیے مفید ہوگا۔
[۷] مؤذنین کو چاہیے کہ اذان کے الفاظ کی صحیح صحیح ادائیگی کے لیے علم حاصل کریں، عمدہ مشق کریں تا کہ تلفظ کی غلطیوں سے بچیں۔ اذان ایسی دل جمعی سے دیں کہ روح میں نکھار ہو۔ اسے ڈیوٹی کی بجائے اللہ کی رضا و خوش نودی کا ذریعہ سمجھ کر انجام دیں۔ بلا شبہہ یہ بڑا عظیم منصب ہے جو نصیب والوں کو ملتا ہے۔ 
[۸] عوام کو بھی چاہیے کہ مو ¿ذن کے مقام کا ہلکا نہ جانے، بلکہ ان کی قدر کرے۔ وہ نماز جیسی عبادت کے لیے صداے دل نواز بلند کرتے ہیں۔ گھٹیا ایکٹروں کے حرام گانوں پر سر دُھننے والوں کو چاہیے کہ اذان کی نغمگی پر سر دُھنیں اور ان مبارک کلمات کے ادا کرنے والی کی تکریم کریں۔ مسجد صاف کرنے والا محض سمجھ نہ لیں،حقارت سے بانگی نہ کہیں بلکہ محترم القاب سے یاد کریں۔ 
معاشی مسائل سے چشم پوشی: افسوس! جب سے دُنیوی علوم کی قدر دلوں میں جمی، دین کے علم کو حقیر سمجھا جانے لگا، الاماشاءاللہ۔ جب کہ حقیقی علم ”دین کا علم“ ہے۔ دنیوی علوم دین کے ہی مرہونِ منت ہیں۔ علمانے ہی سائنس و فلسفہ کو وقار عطا کیا۔ طبِ یونانی کو علما نے بغداد و غرناطہ کی درس گاہوں میں مدون کیا۔ دنیا کو علم و فن کا شعور دیا۔ اس لیے چاہیے کہ ائمہ و مو ¿ذنین کی قدر کی جائے، انھیں عام علوم کے فضلا پر فوقیت دی جائے۔ انھیں عمدہ مناصب پر براجمان کرایا جائے۔ اس ضمن میں چند گزارشات پیش ہیں:
[۱] موجودہ دور میں جب کہ بھاری تنخواہیںلے کر اسکولوں، کالجوں، آفسوں میں نوکریاں کی جاتی ہیں۔ کسی کی تنخواہ چالیس ہزار، پچاس ہزار بلکہ لاکھ کے لگ بھگ ہے تو کسی کی بزنس میں نفع کی صورت ماہانہ لاکھوں میں ہے۔ ایسے حالات میں کیا ہم نے اس پہلو سے غور و خوض کیا کہ امام و مو ¿ذن کی تنخواہیں کتنی ہیں، ان کی گزر بسر کے کیا انتظامات ہیں، ان کی قلیل تنخواہیں معزز طریقے سے اثاثہ ¿ حیات کی فراہمی میں کفایت کر سکتی ہیں؟ کیا ان کے ذمہ دنیا کے مسائل نہیں، معاشی ضروریات وہ کیسے پوری کرتے ہوں گے؟ پانچ سات ہزار تنخواہ میں وہ اپنے پریوار کو کیسے نبھاتے ہوں گے۔ جب کہ دوسری طرف سرمایہ دار، معلم، استاذ، آفیسر، ڈاکٹر کی انکم ہزاروں لاکھوں میں ہے۔ 
[۲] متعدد رُخ توجہ طلب ہیں: [الف] حالات و ضروریات کے پیش نظر امام و مو ¿ذن کی تنخواہ طے کی جائے۔ [ب] مسجد کی آمدنی کے پیش نظر تناسب مقرر کیا جائے۔ [ب] مسجد غریب و پس ماندہ علاقے میں ہونے کے باعث آمدن کم ہو تو؛ پھر دوسرے ذرائع تلاش کیے جائیں کہ امام کی معقول تنخواہ کی راہ نکل آئے۔ یا پھر علاقے میں بچوں کے ٹیوشن کا انتظام کر کے انھیں مواقع دلائیں کہ کچھ مصارف کا بندوبست ہو سکے۔
[۳] مساجد کی عالی شان تعمیر کی جا سکتی ہے، اس میں اے سی واعلیٰ سہولیات فراہم ہو سکتی ہیں؛ تو اس میں عبادت کے امور کے مقتدا کی تنخواہ کیوں خاطر خواہ مقرر نہیں ہوسکتی؟
[۴] تنخواہ میں اضافے کے اصول متعین کیے جائیں۔ مثلاً امام کا ڈسپلن بہتر ہو تو 5%یا 10%اضافہ ہوگا، یاخارجی خدمات (یعنی مسائل کی تربیت، عوامی رہنمائی، بیانات، درسِ قرآن و حدیث) کے عوض معقول اضافی نذرانہ پیش کیا جا سکتا ہے۔
[۵] تدریسی صلاحیتوں سے استفادہ کے مواقع نکال کر بھی نذرانہ بڑھایا جا سکتا ہے۔
[۶] بہر کیف وہ افراد جن کے گھر 50ہزار سے کم میں نہیں چلتے، وہ اگر مسجد کے ذمہ دار ہیں تو خود سوچیں کہ امام کا ماہانہ 8یا 10 ہزار میں کیسے گزر بسر ہوتا ہوگا؟ مؤذن کا معمولی نذرانے میں کیسے گزر بسر ہوگا!! معمولی تنخواہ میں کوالیٹی امام یا باصلاحیت مؤذن کہاں سے ملے گا۔ مایوس کن نذرانے کے سبب ذہین بچے امامت و مو ¿ذن کے مبارک شعبے میں کیسے مائل ہوں گے، جب کہ مادیت کا ماحول ہے، روحانی تربیت بھی عنقا ہے۔ اس پہلو سے ہمیں، آپ کو، سبھی کوغور کرنے کی ضرورت ہے۔
[۷] جن مساجد میں آمدنی کے ذرائع ہیں، عوامی تعاون! انتظامی امورجس میں امام و مؤذن کی تنخواہ سرِ فہرست ہے؛ کے لیے ملتا ہے۔ پھر معقول بیک اپ ہوتے ہوئے معمولی نذرانہ دینا عقل و دانش سے درست ہے؟ جب کہ ذمہ داران کو اپنے جیب سے تو دینا نہیں !
[۸] جن مساجد میں عمدہ خدمت مہیا کی جاتی ہے اور امام و مؤذن کی خدمات سے انصاف کیا جاتا ہے وہ ہماری معروضات کے مخاطب نہیں۔ جہاں ذرائع آمدن کی کوئی صورت نہیں ان سے بھی شکوہ نہیں تاہم پھر بھی ذرائع کی تلاش کی جانی چاہیے تا کہ قوم کے اس باوقار طبقے کی معاشی کفالت بہتر ہو سکے۔اور طبقۂ ائمہ و مو ¿ذن بھی زمانی تقاضوں کی بجا آوری میں مطمئن ہو کر زندگی گزاریں۔

(مضمون نگار نوری مشن مالیگاؤں سے وابستہ ہیں )

نوٹ : مضمون نگار کی رائے سے ملت ٹائمز اور اس کی پالیسی کامتفق ہونا ضروری نہیں ہے