تعلیم کے کئی ایسے شعبے ہیں جہاں ہماری شمولیت کم ہے 

شمع فروزاں: حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
اﷲ تعالیٰ نے دوسری مخلوقات کے مقابلہ میں انسان کو جن امتیازی صلاحیتوں سے نوازا ہے، ان میں سے ایک اہم صفت یہ ہے کہ اس کے اندر علم کو حاصل کرنے کی صلاحیت ہے، علم کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں خود اپنی صفت علم کا کم سے کم دو سو بارہ مواقع پر ذکر فرمایا ہے، حضرت آدم علیہ السلام کو جو اس دنیا کی خلافت عطا کی گئی ہے، وہ اسی لئے کہ ان کے اندر معلومات کو اخذ کرنے کی صلاحیت تھی؛ چنانچہ حق تعالیٰ کی طرف سے فرشتوں کے ساتھ ان کا امتحان لیا گیا اور بارگاہ ِالٰہی میں ہونے والے اس امتحان میں پہلے انسان حضرت آدم علیہ السلام کامیابی سے ہمکنار ہوئے، حضرت آدم علیہ السلام کو اﷲکی جانب سے کن کن چیزوں کا علم عطا فرمایا گیا تھا؟ قرآن مجید نے اس سلسلہ میں مختصر لیکن جامع بات کہی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو تمام اسماء (ناموں) کے علم سے نوازا گیا تھا { وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَاۗءَ كُلَّهَا} (بقرہ: ۳۱) اسم کے معنی تو صرف نام کے ہیں جو کسی شئے کی نشاندھی کرتی ہے؛ لیکن بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ اس سے مراد صرف نام نہیں ہے؛ بلکہ کائنات کی وہ تمام چیزیں ہیں، جن کے نام رکھے جاسکتے ہیں، گویا علم کا جو مخفی خزانہ جہالت کے پردے سے نکل نکل کر باہر آرہا ہے اور جو قیامت تک آتا رہے گا، جن کو سمجھنے اور سمجھانے کے لئے انسان مختلف ناموں سے موسوم کرتا ہے، ان ساری چیزوں کا علم حضرت آدم علیہ السلام کی فطرت میں رکھ دیا گیا ہے، جن کا ہر دور کی ضرورت کے اعتبار سے ظہور ہورہا ہے اور ہوتا رہے گا۔
اسلام کی نظر میں بنیادی طور پر علم کی دو قسمیں ہیں، ایک: وہ علم جو انسان کے لئے نفع بخش ہو، خواہ دنیا کے لئے ہو یا آخرت کے لئے اور دوسرے: وہ علم جو بے فائدہ ہو، پہلا علم مطلوب ہے اور اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے، اور دوسری قسم کا علم مذموم اور ناپسندیدہ ہے؛ چنانچہ آپ ا نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے علم نافع کی دُعا کیا کرو اور بے فائدہ علم سے اللہ کی پناہ چاہو: ’’سلوا ﷲ علماً نافعاً، وتعوذوا باللہ من علم لا ینفع ‘‘ (سنن ابن ماجہ، عن عبد اﷲ بن جابرؓ، حدیث نمبر: ۳۸۴۳) — آج کل انسان کی ہلاکت و بربادی اور دنیا کو تباہ و تاراج کرنے کے جو ہتھیار تیار کئے جارہے ہیں، یہ یقیناً بے فائدہ علم میں شامل ہیں اور سوائے اس کے کہ کوئی ملک دفاع کے لئے اس پر مجبور ہوجائے، اس کو اپنے وسائل تعمیری مقاصد کے بجائے ایسے تخریبی کاموں میں خرچ نہیں کرنا چاہئے، مغربی طاقتیں جس طرح اپنی بہترین صلاحیتیں مہلک ہتھیاروں کے بنانے میں خرچ کررہی ہیں، یقیناً ان کو بدبختی کہا جائے گا۔
اﷲتعالیٰ نے علم کی خصوصیت یہ رکھی ہے کہ جیسے ایمان انسان کے لئے بلندی کا ذریعہ ہے، اسی طرح علم بھی افراد اور قوموں کی سربلندی و سرخروئی کی کلید ہے: { يَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ ۙ وَالَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ} (مجادلہ: ۱۱) جو لوگ علم سے آراستہ ہوں یا جو قوم علم و دانش کی دولت سے مالا مال ہو، وہ اور جو افراد اور قومیں علم سے محروم ہوں، دونوں برابر نہیں ہوسکتے: {قُلْ ھَلْ یَسْتَوِیْ الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ} (الزمر: ۹) علم کی ضرورت جہاں آخرت کی کامیابی کے لئے ہے، وہیں دنیا میں باعزت زندگی گزارنے اور بہتر مرتبہ و مقام حاصل کرنے کے لئے بھی ہے، اﷲ تعالیٰ نے انبیاء میں حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام کو نبوت کے ساتھ ساتھ حکومت اور حکمرانی کے سلیقہ سے بھی نوازا تھا اور مخلوقات سے متعلق بعض ایسے علوم دیئے گئے تھے، جہاں تک عام انسانوں کی رسائی نہیں ہوتی، حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام اس پر اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ علم کی اس دولت سے نواز کر اﷲ نے ہمیں بہت سارے مسلمان بندوں پر فضیلت عطا فرمائی ہے: { وَقَالَا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ فَضَّلَنَا عَلٰي كَثِيْرٍ مِّنْ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِيْنَ} (النمل: ۱۵)
دنیا میں اقتدار میں شرکت، کاروبارِ حکومت میں شمولیت اور نظم و نسق کی انجام دہی میں بھی علمی بصیرت اور معلومات کا مہیا ہونا ضروری ہے، اسی لئے حضرت یوسف علیہ السلام نے جب مصر کے حکمراں سے پیشکش کی کہ جو اقتصادی بحران مستقبل میں آنے والا ہے اورجو بظاہر پورے ملک کو دانہ دانہ کا محتاج بنادے گا، اس سے نبرد آزما ہونے کے سلسلہ میں، میں آپ کی مدد کرسکتا ہوں اور آپ کے خزانہ کی ذمہ داری سنبھال سکتا ہوں، تو اس پیشکش کے ساتھ آپ نے یہ دلیل دی کہ میرے اندر سرکاری خزانے کی حفاظت و نگہداشت کی صلاحیت بھی ہے اور میں علم کی دولت سے بہرہ ور بھی ہوں: { اجْعَلْنِيْ عَلٰي خَزَاۗىِٕنِ الْاَرْضِ ۚ اِنِّىْ حَفِيْظٌ عَلِيْمٌ} (یوسف: ۵۵)
حکومت و اقتدار کی اہمیت ہر ملک میں ہے؛ لیکن جہاں مسلمان اقلیت کی حیثیت سے رہتے ہوں، وہاں اقتدار میں ساجھے داری اور سرکاری نظم و نسق میں شمولیت مسلمانوں کے ملی بقاء کے لئے بے حد ضروری ہے؛ کیوں کہ عام طورپر اکثریت چاہتی ہے کہ وہ اقلیت کو ہضم کرجائے، اس کے تشخص کو مٹادے، تعلیمی اور معاشی اعتبار سے اس کو پنپنے کا موقع نہیں دے، ہندوستان میں مسلمان اس وقت اسی صورت حال سے دوچار ہیں، ان کی تعلیمی اور معاشی پسماندگی ضرب المثل بن چکی ہے، جس قوم نے اس ملک پر صدیوں حکومت کی، وہ آج ایک بے توقیر گروہ کی حیثیت سے زندگی کا سفر طے کررہی ہے، اس صورت حال سے نکلنے کے لئے جہاں دین سے گہری وابستگی اور باہمی اتحاد ضروری ہے، وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ یہ اُمت علم و تحقیق کے میدان میں آگے بڑھے اور زندگی کے مختلف میدانوں میں مؤثر کردار اداکرنے کے لائق بن جائے۔
اﷲ تعالیٰ کا شکر و احسان ہے کہ مسلمان مختلف حادثات سے سبق حاصل کرتے رہے ہیں اور جب بھی کوئی مصیبت اس پر آئی ہے، غم زدہ ہونے کے ساتھ ساتھ انھوںنے ایک نئے حوصلہ کے ساتھ قدم بڑھایا ہے، تقسیم ہند کے بعد سے جب فرقہ وارانہ حملہ شروع ہوا، پولیس اور فسادیوں نے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے کا سلسلہ شروع کیا، تو ۱۹۷۱ء تک مسلمانوں کی یہ کیفیت رہی کہ لوگ فسادیوں کا مقابلہ کرنے کے بجائے راہ فرار اختیار کرتے اور بہت سی دفعہ ان کی منزل موجودہ بنگلہ دیش کی سرزمین ہوتی، وہ اس کو اپنے لئے ایک گوشہ عافیت تصور کرتے؛ لیکن جب پاکستان کی ناعاقبت اندیشی کے نتیجہ میں بنگلہ دیش بن گیا تو انھوں نے محسوس کرلیا کہ بہر حال ان کو اب اسی ملک میں جینا اور مرنا ہے؛ اس لئے انھوں نے حوصلہ و ہمت کو جمع کیا اور اس کی وجہ سے فسادات کے نتائج اور آبادی کے ارتکاز میں ایک مثبت تبدیلی ظاہر ہونے لگی، پھر ۱۹۷۲ء میں جب حکومت ہند نے متبنٰی سے متعلق ایک ایسا قانون لانے کی کوشش کی جو شریعت اسلامی سے متصادم تھا اورمسلمانوں نے محسوس کیا کہ حکومت جان و مال کے بعد اب مسلمانوں کے دین و شریعت پر بھی ہاتھ ڈالنا چاہتی ہے، تو انھوں نے اپنے باہمی اختلافات کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک ساتھ بیٹھنے اور مشترکہ مسائل کے لئے متحدہ جدوجہد کرنے کا سبق سیکھا اوراس طرح آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ جیسا متحدہ پلیٹ فارم وجود میں آیا۔
۱۹۹۲ء میں بابری مسجد کی شہادت کا وہ اندوہ ناک واقعہ پیش آیا، جس نے پوری ملت ِاسلامیہ کو ہلاکر رکھ دیا، ان حادثات کے بعد مسلمانوں نے ایک نئی کروٹ لی، انھوں نے محسوس کیا کہ ان کو قصداً انصاف سے محروم رکھا جاتا ہے اور وہ خود اپنی جدوجہد کے ذریعہ ہی اس ملک میں ایک باوقار اُمت کی حیثیت سے زندگی گزارسکتے ہیں؛ چنانچہ ملک کے مختلف علاقوں میں تعلیمی اور معاشی جدوجہد شروع ہوئی، مسلمانوں نے سرکاری ملازمت پر تکیہ کرنے کے بجائے تجارت، چھوٹی صنعت اور بیرون ملک ملازمت پر توجہ دی، غیر سودی قرض کے ادارے قائم کئے اور ان کے ذریعہ مسلمانوں کو روزگار کے اعتبار سے خود مکتفی بنانے کی کوششیں کی گئیں، بحمد اﷲ ان کوششوں کے بہتر اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
تعلیم کی طرف بھی مسلمانوں کی توجہ بڑھی ہے، انھوں نے پرائمری سے لے کر ڈگری اور پی جی کی سطح کے ہزاروں ادارے قائم کئے ہیں، ملک کے مختلف حصوں میں اور خاص کر جنوبی ہند میں پیشہ ورانہ تعلیم کے بہت سے ادارے قائم کئے، اب ہزاروں کی تعداد میں مسلمان طلبہ میڈیکل، انجینئرنگ، ایم بی اے، ایم سی اے اور آئی ٹی وغیرہ کی سندیں لے کر نکل رہے ہیں، اگرچہ اعلیٰ تعلیم کے بیشتر ادارے ملک کے جنوبی علاقہ میں قائم ہیں؛ لیکن ان کا فائدہ پورے ملک کے نوجوان مسلمانوں کو پہنچ رہا ہے، یہ یقیناً ایک خوش آئند بات ہے اور اُمید ہے کہ مستقبل میں اس کے بہتر اثرات مرتب ہوں گے۔
لیکن غور کرنے کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ عصری تعلیم کے جن شعبوں کی طرف مسلمانوں کی توجہ بڑھی ہے، عام طورپر اس کا فائدہ ان کی ذات یا ان کے خاندان کو پہنچ سکے گا، اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس دور میں خاندان کا تصور بہت محدود ہوگیا ہے، بیوی بچوں کے سوا بمشکل والدین کو اس میں شامل کیا جاتا ہے، بھائی بہن کا تو ذکر ہی کیا ہے، تعلیم کے ان شعبوں سے فارغ ہونے والے نوجوان اپنے آپ کو سکہ ڈھالنے کی مشین سمجھتے ہیں، قومی و ملی مسائل سے ان کو کوئی سروکار نہیں ہوتا؛ اس لئے یہ ایک حقیقت ہے کہ ان کی تعلیم ملت کو کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچا رہی ہے؛ بلکہ جو لوگ ایسے نوجوانوں پر بطور تعاون اپنا سرمایہ خرچ کرتے ہیں، وہ بھی محسوس کرنے لگے ہیں کہ ملک کا جو سرمایہ ان پر خرچ کیا جارہا ہے، ملت کو اس سے کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچ رہا ہے اور ایک ایسا گروہ تیار ہورہا ہے جس کی اکثریت خود غرضی اور مادہ پرستی میں مبتلا ہوجاتی ہے، کاش کہ جو تنظیمیں تعلیم کے ان شعبوں میں نوجوانوں کو امداد فراہم کرتی ہیں، وہ ان کی اخلاقی اور فطری تربیت کی طرف بھی توجہ دیں۔
لیکن اس وقت ایک اہم ضرورت یہ ہے کہ عصری تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو ان شعبوں میں لایا جائے، جو فکر سازی، ملت کے مسائل کی ترجمانی، انصاف کے حصول اور ان کے نظم و نسق میں شمولیت کو آسان بناسکیں، اس سلسلہ میں خصوصی طورپر بعض شعبوں کا ذکر کرنا مناسب ہوگا، جیسے قانون کا شعبہ ہے، سپریم کورٹ میں اچھے مسلم وکلاء ’ جن کا عدالت میں وزن محسوس کیا جائے ‘ نہ کے برابر ہیں، ہائی کورٹوں کا حال بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہے؛ اسی لئے عدالتوں میں مسلمان ججس کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے، بعض لوگوں کا احساس ہے کہ ملک کا یہ سب سے معزز ترین ادارہ فرقہ پرستی کے زہر سے مسموم ہوتا جارہا ہے اور بعض دفعہ انصاف کو شرم سار ہونا پڑتا ہے، اگر قانون کے شعبہ میں ہماری مؤثر نمائندگی نہیں رہے گی تو ہمارے لئے انصاف کی جنگ جیتنا دشوار سے دشوار تر ہوتا چلا جائے گا۔
اسی طرح موجودہ دور میں ذرائع ابلاغ، بالخصوص انگریزی اور مقامی زبان کے میڈیا کی بڑی اہمیت ہے، اس کے بغیر پروپیگنڈہ کی جنگ میں عزت و آبرو کا بچانا مشکل ہے، ایسے انگریزی دانوں کی بھی ضرورت ہے، جن کو انگریزی کے معتبر ادیب اور مصنف کا درجہ حاصل ہو اور قومی سطح پر ان کو پذیرائی حاصل ہو، ڈاکٹر جسم کا علاج کرسکتا ہے، انجینئر بلڈنگیں اور مشینیں بناسکتا ہے؛ لیکن فکر سازی کا کام اچھے جرنلسٹ اور باصلاحیت مصنف اور ماہر تاریخ داں کے ذریعہ ہی انجام پاسکتا ہے؛ لیکن ان شعبوں سے مسلمان طلبہ کٹے ہوئے ہیں اور اسی لئے مسلمانوں میں عصری علوم کے حامل ایسے ماہرین نہیں رہے، جو مسلمانوں کے نقطۂ نظر کو دلیل، زبان و بیان کی قوت، منطقیت و معقولیت اورخوش سلیقگی کے ساتھ پیش کرسکیں، ذرائع ابلاغ مسلمانوں کے تئیں ایسا کردار ادا کرتے ہیں کہ گویا وہ مسلمانوں کے بالمقابل اپوزیشن ہوں، تاریخ ایسی مرتب کی جارہی ہے جس میں مسلمانوں سے متعلق نفرت کے جذبات اُبھارے جارہے ہیں، زبان و بیان کے اعتبار سے معیاری اور مقبول کتابیں اس انداز کی آرہی ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں غلط فہمیوں کو جنم دیتی ہیں۔
خاص طورپر سول سرو سیز کا ذکر کروں گا، جس میں مسلمانوں کا تناسب نہایت حقیر ہے اور یہ تعداد کی کمی اس لئے نہیں ہے کہ مسلمان کی زیادہ تعداد شریک ہوتی ہو اور نسبتاً کم تعداد کامیاب ہوتی ہو؛ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ امتحان میں شریک ہونے والے مسلمان اُمیدواروں ہی کی تعداد کم ہوتی ہے اور شرکت کے اعتبار سے کامیابی کا تناسب عام طورپر وہی ہوتا ہے، جو اکثریت کا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ مسئلہ ’’کم صلاحیت‘‘ ہونے کا نہیں ہے؛بلکہ کم ہمتی، پست حوصلگی اور جدوجہد میں کمی کا ہے، نیز مزاج یہ بن گیا ہے کہ اعلیٰ ترین منزل پر پہنچنے کے بجائے اسی مرحلہ پر اکتفا کرلیا جائے، جس سے کمائی ہونے لگے اور مرفہ الحالی حاصل ہوجائے؛ حالاں کہ جو لوگ اس مقام تک پہنچتے ہیں، وہ ملت کو انصاف دلانے میں ایک اہم رول ادا کرسکتے ہیں اور سیاسی نمائندوں سے بھی بڑھ کر وہ قوم و ملت کے لئے اپنی خدمت انجام دے سکتے ہیں۔
اس لئے ضرورت ہے کہ اب تعلیم کے ان شعبوں کی طرف توجہ دی جائے، نوجوانوں کی اس سلسلہ میں حوصلہ افزائی کی جائے اورانھیں اس لائق بنایا جائے کہ ان کی صلاحیت کا فائدہ صرف ان کی ذات یا ان کے خاندان تک محدود نہ رہے؛ بلکہ پوری ملت کو ان کا نفع پہنچے، وہ صرف نوٹ چھاپنے والی مشین بن کر نہ رہ جائیں؛ بلکہ وہ ملت کی سرفرازی و سرخروئی کا ذریعہ بنیں۔