ترکی کے خلاف امریکہ کی اقتصادی جنگ، کون ہوگا سرخرو؟

فیروز عالم ندوی
ترکی جو کہ ایک لمبے عرصے تک اسلام مخالف رہا اور مغرب کے گود میں کھیلتا رہا اب اس کی قیادتقیادت ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں آگئی ہے جو کہ اسلام پسند ہیں، کھلم کھلا مسلمانوں کی مفادات کے تحفظ کا اعلان کرتے ہیں، مسلمانوں کے عالمی معاملات میں اپنی رائے رکھتے ہیں اور دخل اندازی کی کوشش کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے ترکی کی معیشت کو مضبوط کرنے، اسے داخلی طور پر مستحکم کرنے اور وہاں کی قوم کو متحد، بیدار اور غیور بنانے میں کوئی کسر باقی نہیی نہیں رکھی۔ اس ملک کا ماضی یہ رہا ہے کہ اس نے ایک لمبے عرصے تک عالم اسلام کی قیادت کی ہے اور حالیہ تناظر میں اگر معاملہ یوں ہی چلتا رہا تو 2023 ء کے بعد جب وہ ذلیل معاہدہ ختم ہو گا تو پھر اس ملک کو لمبی اڑان بھرنے اور اسی منصب پر واپس آنے سے روک پانا تقریبا ناممکن ہو گا،  یہ چیز مغربی ممالک اور خاص کر امریکہ کو ایک آنکھ نہیں بھا رہی ہے۔
24جون2018ء کے انتخابات میں ترک صدر رجب طیب اردوغان کی کامیابی اور ترکی میں پہلی بارصدارتی نظام نافذ ہونے کے بعد ترکی کے خلاف امریکا کھل کر سامنے آگیا ہے۔چنانچہ امریکا کی جانب سے ترک کرنسی” لیرے” پرمسلسل حملے جاری ہیں۔بظاہر ترکی اور امریکا کے درمیان معاشی جنگ کا سبب ترکی میں گرفتار امریکی پادری اینڈریوبرنسن ہیں، جنہیں 15جولائی 2016ء کو ترکی میں ہونے والی ناکام فوجی بغاوت میں ملوث ہونے پر دہشت گردی اور غداری کے مقدمات کا سامنا ہے۔امریکی پادری کی رہائی کے لیے امریکا نے ترکی پر بے پناہ دباؤ ڈالا۔امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے ترکی کو 48گھنٹے کی مہلت تک بھی دی ،جس کے جواب میں ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا کہ ” ترکی قانون کی پیروی کرنے والا ملک ہے،قانون سے ماورا کوئی قدم ترکی نہیں اٹھاسکتا”۔ ترکی کے انکار کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 10اگست کو ایک ٹوئیٹ میں ترکی سے امریکا درآمد کیے جانے والے فولاد اورایلومینیم پر عائد ٹیرف کو دوگناکردیا،جس کے بعد ترک لیرا ڈالر کے مقابلے میں 20فیصد نیچے آگیا۔رواں سال ڈالر کے مقابلے میں لیرے کی قدر میں 45فیصد تک کمی واقع ہوئی۔جس کی وجہ سے ترکی میں 10 سے 20 فیصد مہنگائی میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے۔
ترک کرنسی پر امریکی حملے کے بعد ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے کہا کہ امریکا کے پاس ڈالر ہے،مگر ہمارے پاس اللہ اور عوام کی طاقت ہے،ہم ترکی کی آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے،معاشی حملوں کا بھرپورجواب دیں گے۔ امریکا کو یادرکھنا چاہیے کہ ترکی دنیا کا16واں بڑا معاشی ملک ہے جو عنقریب دنیا کے ٹاپ ٹین معاشی ممالک میں شامل ہوجائے گا۔بعدازں 15اگست2018 ء کو ترک صدر رجب طیب اردوان نے امریکاسے تمام الیکٹرانکس اشیاء درآمد کرنے پر مکمل پابندی جب کہ امریکاسے درآمد کی جانے والی کاسمیٹک اشیاء ،پرائیوٹ گاڑیاں اورتمباکو وغیرہ پر عائد ٹیرف میں اضافہ کردیا ہے۔ امریکا اور ترکی کے درمیان معاشی تناؤ کے حوالے سے ترک صدارتی ترجمان نے کہا ہے کہ ترکی کی معیشت مضبوط بنیادوں پر قائم ہے۔ ترکی امریکا سے معاشی جنگ نہیں چاہتا،لیکن اگر امریکا یک طرفہ اقدامات کرے گا تو ترکی جواب دے گا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکی پابندیوں سے ترکی کی معیشت کو زیادہ نقصان نہیں پہنچایا جاسکتا۔دوسری جانب ترکی کے حلیف ممالک قطر اور کویت نے ترکی کو معاشی چینلجز سے نمٹنے کے لیے بھرپورمالی اورسفارتی مدد کا یقین دلایا ہے۔قطر کے بادشاہ امیرتمیم نے اپنے حالیہ دورہ ترکی کے موقع پر رجب طیب اردوان کے ساتھ ملاقات کے بعد اعلان کیا کہ قطر ترکی کومعاشی مشکلات سے نکالنے کے لیے ہنگامی طور پر 15ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔قطری میڈیا کے مطابق قطر کی ترکی میں سرمایہ کاری 55ارب ڈالر تک ہے۔جب کہ دونوں ملکوں کے درمیان گزشتہ سال ڈھائی بلین ڈالرسے زائد کی تجارت بھی ہوئی ۔ قطر اور کویت کے علاوہ دیگر ممالک نے بھی ترکی کی معیشت کو سہارا دینے کا عزم ظاہر کیا،جن میں جرمنی کی انجیلامرکل نے کہا ترکی کی معیشت کی مضبوطی ہمارے لیے بہت ضروری ہے۔ادھر روس نے بھی ترکی پر امریکی معاشی حملوں کے حوالے سے مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی ہے۔لیکن ترک صدر نے کہا کہ ہمیں معلوم ہے کہ کون ہمارا دوست ہے اور کون ہمارے ساتھ مخلصانہ تعاون کرسکتاہے۔بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین کے مطابق ترکی اورامریکا کے درمیان جاری حالیہ تناؤ کی وجہ بظاہر ترکی میں گرفتارا مریکی پادری ہیں،لیکن
درحقیت ترکی کا خطے میں بڑھتاہوا اثر و رسوخ اور ترکی کے علاقائی ممالک سے بڑھتے تعلقات دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ کی اصل وجہ ہیں۔چنانچہ ترکی کا روس سے”ایس 400 میزائل ڈیفنس سسٹم کی خریداری، امریکا کا 2016ء کی ناکام فوجی بغاوت کے مبینہ ماسٹر مائنڈ فتح اللہ گولن کی حوالگی سے انکار،شام میں ترک مخالف کرد باغیوں کی امریکی حمایت سمیت دیگر بہت سارے اہم ایشوز ہیں جن کی وجہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں تناؤ بڑھ رہاہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ترکی کے علاوہ چین اورپاکستان پر بھی معاشی حملے کیے گئے اورکیے جارہے ہیں۔جواب میں چین اورپاکستان نے بھی امریکا کو ترکی بہ ترکی جواب دیا ہے۔سوال یہ ہے کہ امریکا کے جارحانہ رویوں سے ترکی ،پاکستان،چین اور دیگر ممالک کو نقصان پہنچایاجارہاہے یاپھر امریکا اپنے جارحانہ رویوں کی وجہ سے خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماررہاہے؟خطے کی حالیہ صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ خطے کا اہم ملک روس ان دنوں اپنے ماضی کو بھلا کر پاکستان سمیت دیگر علاقائی ممالک کے ساتھ تعلقات مضبوط کررہاہے۔چنانچہ روس کے جہاں ترکی سے تعلقات مضبوط ہوئے ہیں،وہیں پاکستان کے ساتھ بھی روس کے تعلقات مستحکم ہورہے ہیں۔ دونوں ملکوں کے اہم عہدیدار باہمی دورے کررہے ہیں،روس نے دفاعی آلات جن میں MI-35ایسے ہیلی کاپٹروں سمیت دیگر آلات حرب پاکستان کو بیچنے او ر پاک فوج کے اہلکاروں کو روس کی اعلی فوجی اکیڈیمیوں میں تربیت دینے سمیت دیگر امور میں تعاون کایقین دلایا ہے۔روس کی خواہش یہ بھی ہے کہ سی پیک میں شامل ہوکر تجارتی تعلقات کو بھی مضبوط کیا جائے۔ادھرروس افغانستان میں بھی اپنا اعتماد بحال کرنے کی کوشش کررہاہے۔ظاہر ہے روس کے ابھرنے سے خطے میں جہاں امریکا کا اثرورسوخ ختم ہوگا وہیں امریکی مفادات کو بھی زبردست دھچکا لگے گا،جو امریکا کو کسی صورت برداشت نہیں۔اس لیے امریکا آئے روز خطے کے ممالک کو اپنے ماتحت رکھنے کے لیے نئے ہتھکنڈے آزما رہاہے۔لیکن شاید امریکاکو معلوم نہیں کہ اب دنیا کے ممالک برابری کی سطح پر تعلقات چاہتے ہیں،کچھ لو اور کچھ دو کے فلسفے پر ممالک عمل پیرا ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اب ترکی اور پاکستان امریکی دباؤ سے نکلتے جارہے ہیں ۔ مستقبل کا منظرنامہ یہی بتارہاہے کہ بہت جلد اب امریکا کی مصنوعی سپرمیسی سے دنیا آزاد ہوجائے گی۔جس کے بعد دنیا میں طاقت اور غلبہ صرف اسی کا ہوگا جس کی معیشت مضبوط ہوگی۔دنیا کی سب سے بڑی اور مضبوط معیشت آنے والے دنوں میں چین کی ہوگی۔دنیا کے پاس اس وقت بھی چینی مصنوعات کا کوئی توڑ نہیں ہے،آنے والے دنوں میں چین کاعالمی معیشت پر غلبہ اس قدر ہوجائے گا کہ شاید ہی کوئی ملک چین کا مقابلہ کر سکے۔ معیشت کی مضبوطی کا انحصار داخلی سلامتی، مضبوط اور مساوی خارجہ پالیسی پر ہوتاہے۔ ترکی اگر آج امریکا کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہے تو اس کی بڑی وجہ ترکی میں امن وسلامتی کا ہونا اورخارجہ تعلقات میں ترک مفادات کا سرفہرست ہونا ہے۔ حالاں کہ ترکی کے پڑوس میں گزشتہ 7سال سے شامی خانہ جنگی کی خوفناک آگ جل رہی ہے، ترکی میں 35لاکھ کے قریب شامی مہاجرین بھی آباد ہیں،کرد باغیوں کے عفریت سے بھی ترکی نبرد آزماہے،مگر ترکی نے ان سب کچھ کے باوجود اندرونی امن وامان کو کمزور نہیں ہونے دیا۔ یہی وہ خصوصیات ہیں جن کی بنیاد پے ترکی خود سرخرو ہے اور انشاءاللہ مستقبل قریب میں عالم اسلام کی سرخروئی کا ذریعہ ہوگا۔
(مضمون نگار ماہنامہ پیام سدرہ، چنئی کے معاون ایڈیٹر ہیں)