عدلیہ کا کہناہے کہ تمام مذہبی اداروں سے جاری ہونے والے فتاوی اور پنچایتی فیصلے بنیادی حقوق کے خلاف ہیں،اس سے انتہاءپسندی کو فروغ ملتاہے
نئی دہلی (ملت ٹائمز عامر ظفر )
اتر اکھنڈ ہائی کورٹ نے مفاد عامہ کی دائر کی گئی ایک عرضی پر سماعت کرتے ہوئے دینی اداروں سے جاری ہونے والے فتاوی کو غیر قانونی اور بنیادی حقوق کے خلاف بتاتے ہوئے اس پر پابندی عائد کردی ہے ۔عدلیہ کا کہناہے کہ تمام مذہبی اداروں سے جاری ہونے والے فتاوی اور پنچایتی فیصلے بنیادی حقوق کے خلاف ہیں،اس سے انتہاءپسندی کو فروغ ملتاہے ۔یہ تمام غیر قانونی ہے جس پر پابندی لگائی جارہی ہے ۔
ہائی کورٹ کے اس فیصلہ کے خلاف مسلمانوں میں شدید ناراضگی پائی جارہی ہے ۔جمعےة علماءہند کے جنرل سکرےٹری مولانا محمود مدنی نے اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے ذرےعہ مذہبی اداروں کے فتوی پر عائد کردہ پابندی کو دستور کے بنےادی حقوق اور سپرےم کورٹ کے فےصلے کے خلاف قراردےا ہے ۔ مولانا مدنی نے ملت ٹائمز کو ایک پریس ریلیز بھیج کرکہا کہ جمعےة علماءہند اس پر خاموش نہےں رہے گی اور اس کے خلاف سپرےم کورٹ مےںاپےل دائر کرے گی۔ انھوں نے کہا کہ مذہبی اداروں سے جاری کےا جانے والا فتوی ہر گز کسی کو مجبور نہےں کرتا بلکہ خود سائل کے جواب مےںشرعی حکم کی وضاحت ہوتی ہے، اےسے مےں اسے کسی طرح انسانی وقار اور دستور کے خلاف نہےں کہا جاسکتا۔ مولانا مدنی نے اس بات پر حےرت کا اظہار کےا کہ فاضل جج نے صرف اےک دن کے اندراےک وکےل کے ذرےعہ پےش کردہ اخبار کے تراشے کی بنےاد پر فےصلہ کردےا اور صورت واقعہ کی خاطر خواہ تفتےش کی ضرورت تک محسوس نہےں کی ۔سچ تو ےہ ہے کہ جس واقعہ کے مدنظر فےصلہ دےا گےا ہے اس واقعہ کا فتوی سے کوئی تعلق نہےں ہے۔ متعلقہ اخبار سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پنچاےت کے لوگو ںکا فےصلہ تھا جس مےں کسی عالم ےا مفتی کا نام تک بھی ذکر نہےں ہے ۔واضح ہو کہ ۰۳اگست کے امراجالا مےں ےہ خبر شائع ہوئی تھی کہ لشکر مےں عصمت دری سے متاثرہ خاتون اور اس کے اہل خانہ کو مقامی پنچاےت نے انصاف دلانے کے بجائے گاﺅں سے باہر نکلنے کا حکم دے دےا ۔
مولانا مدنی نے اس عزم کا اظہار کےا کہ جمعےة علماءہند مسلم اقلےت کے مذہبی حقوق و شناخت کے لےے ہر ممکن جد وجہد جاری رکھے گی اور اس مقدمہ کے سلسلے مےں وکلاءسے مشورہ کرنے بعد عدالت عظمی مےں پوری قوت سے اپنا موقف پےش کرے گی ۔