سہیل عابدین
ہندوستان میں ہر سال 5ستمبرکو یوم اساتذہ آزاد ہندستان کے دوسرے صدر جمہوریہ ڈاکٹر راڈھاکرشن کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ کیونکہ وہ خود بھی استاد رہ چکے ہیں۔ جب وہ صدر بنے تو ان کے کچھ شاگردوں اور دوستوں نے خواہش ظاہر کی کہ ہم لوگ آپ کا یوم پیدائش منانا چاہتے ہیں۔ یہ سن کر وہ خوش ہوئے اور ان لوگوں کے جذبات کی قدر کرتے ہوئے ان سے کہا کہ اگر آپ لوگ میرا یوم پیدائش منانا چاہتے ہیں تو اسے یوم پیدائش نہیں یوم اساتذہ کے طور پر منائیں جس سے مجھے بے انتہا خوشی ہوگی۔ اساتذہ کے تئیں ان کی یہ سوچ اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ ان کو درس و تدریس سے کتنی لگاﺅ تھی ۔
طالب علموں کی زندگی میں اساتذہ اور کتابوں کا بڑا اہم رول رہا ہے۔ جس کے ذریعہ طالب علم ساری دنیا کے فن ، تہذیب و تمدن سے مالا مال ہوتے ہیں۔ ہندوستان کے تعلیمی اداروں میں یوم اساتذہ بڑے ہی تزک و احتشام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ اساتذہ بھی اس موقع سے طلبہ کے حق میں دل کی گہرائیوں سے دعائیں کرتے ہیں۔ اور ان کے بہتر مشتقبل کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہیں۔ طلبہ بھی اپنے اساتذہ کے لئے خلوص و محبت کے ساتھ ساتھ مختلف پروگرام منعقد کرتے ہیں۔ اور اپنے نیک خواہشات ، احساسات کا اظہار کرتے ہیں۔ واقعی طلبہ و طالبات کے نشو ونما میں اساتذہ کا اہم کردار ہوا کرتا ہے۔ پورے ملک میں یوم اساتذہ کے دن اسکولوں ، کالجوں میں جشن جیسا ماحول نظر آتا ہے۔
ایک استاد کی حیثیت سے ہمارا کردار دوستانہ ہونا چاہئے ۔ دوستانہ اس لئے کہ طلبہ کلاس کے اندر بغیر جھجھک کے سوال پوچھ سکیں اور کلاس میں چل رہے مباحثے میں شریک ہو سکیں۔ اپنے جذبات اور احساسات کا کھل کر اظہار کر سکیں۔ یہ بات واضح رہے کہ اساتذہ کا ناراض ہونا یاسخت رخ اختیارکرنا یہ طالب علم کے لئے پروٹین کا کام کرتا ہے۔
بابائے قوم کی نظر میں اساتذہ کی بہت بڑی اہمیت تھی۔ ان کے مطابق اساتذہ کے اندر بہت سی خوبیاں ہونی چاہئے۔ مثلاً انہیں اچھے اخلاق واطوار کا آئینہ دار ہونا چاہئے تاکہ وہ سماج میں اچھے طلبہ کی نشو ونما کر سکیں ۔ اساتذہ کو چاہئے کہ وہ طلبہ میں اچھائیوں اور برائیوں میں امتیاز کرنا سکھائیں۔ ان کا ماننا تھا کہ اساتذہ جن چیزوں کی تعلیم اپنے شاگردوں کو دیناچاہتے ہیں ان کو پہلے وہ اپنی عملی زندگی میں شامل کریں تاکہ وہ طلبہ کو بہتر تعلیم دے سکیں اور آنے والی نسلیں ان سے متاثر ہوسکیں۔ ان کا ماننا تھا کہ اساتذہ کا فرض ہے کہ وہ طلبہ میں تعلیم کے لئے رجحانات پیدا کریں اور ان کی دلچسپی کے ہی مطابق انہیں تعلیم دی جائے ساتھ ہی طلبہ کی پریشانیوں اور دشواریوں کو دور کرنے میں اہم کردار ادا کیا جائے۔ ایک اچھے استاد کے لئے لازم و ملزوم ہے کہ وہ قدم بہ قدم طلبہ کی رہنمائی کریں اور اس کے مسائل کا حل تلاش کریں۔
رویندر ناتھ ٹیگورتعلیمی نظام میں اساتذہ کی اہمیت کو سمجھتے تھے۔ ٹیگورکے مطابق ایک اچھا استاد وہی ہے جو طلبہ کو تعلیم دینے کے ساتھ خود بھی علم حاصل کرنے کی جستجو میں ہر لمحہ ہر پل لگا رہے۔ ان کا ماننا تھا کہ کوئی بھی استاد اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ خود بھی اپنے آپ کو طالب علم تصور نہ کرے۔ اساتذہ اپنے طلبہ کے اندر ایسی صلاحیت اور خوبیاں پیدا کروائیں تاکہ نیکی اور بدی میں فرق سمجھ سکیں۔ ایک بہتر استاد کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر مقام پر اپنے شاگردوں کی حوصلہ افزائی کرے اور ان کے کردار میں مستحکم سوچ پیدا کریں۔
ہندوستان میں مختلف مذاہب کے لوگ رہتے ہیں، ان کی فکر بھی مذہبی اعتبار سے مختلف ہی ہوتی ہے۔ علم کسی طرح کا بھی ہو، علم اور صاحب علم کی قدر یکساں ہونی چاہئے۔ کیوں کہ ہم سب جانتے ہیں کہ اساتذہ کا اکرام کامیابی کی دلیل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ترقی یافتہ قوموں اور مہذب معاشرے میں استاد کو ایک خاص مقام حاصل ہے استاد کی حیثیت مثل والدین کے ہوتی ہے۔ استاد کا حق اپنے شاگردوں پر اتنا ہی ہے جتنا کہ والدین کا۔ ایسے طلبہ خوش قسمت ہیں جن کی زندگی میں اچھے استاد ملتے ہیں، استاد وہ عظیم رہنما ہوتا ہے جو اپنے شاگردوں کی تعلیمی ، اخلاقی ، اور روحانی تربیت کرتا ہے جس کے باعث ہم اچھے برے میں فرق محسوس کرتے ہیں۔
بڑے ہی افسوس کی بات ہے کہ موجودہ دور میں اساتذہ کا وقار ان کی عزت و احترام شاگردوں کے دلوں سے نکلتی جا رہی ہے۔ یہاں تک کہ آج کل کے شاگرد اساتذہ کو سلام کرنے سے بھی گریز کرتے ہیں۔ تالیاں دونوں ہاتھوں سے بجتی ہیں، لہذا اساتذہ اور طلبہ دونوں کو اپنی کردار کشی کرنی پڑے گی۔ پہلے اساتذہ فرض سمجھ کر پڑھاتے تھے اور طلبہ فرض سمجھ کر یاد کرتے تھے اور اس پر عمل پیرا رہتے تھے۔ اساتذہ طلبہ کی پڑھائی کے ساتھ ساتھ ان کی ہر ایک حرکات و سکنات پر کڑی نظر رکھتے اسکول سے غیر حاضری پر ڈانٹ کے ساتھ ساتھ جرمانہ بھی عائد کیا جاتا تھا، خواہ تعلیم کم لیکن تربیت ایک اہم مقصد ہوا کرتا تھا۔
آج کے دور میں جب اساتزہ ہی وقت کے پابند نہیں تو طلبہ کہاں سے ہونگے ۔ اساتذہ ہی ایک دوسرے سے لڑنگے تو طلبہ پر کیا اثر ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ طلبہ کے دلوں میں اساتذہ کا احترام ختم رہا ہے۔ پرانے اساتذہ میں آج بھی وہ تڑپ ہے کہ طلبہ کو اچھی تعلیم وتربیت دی جائے۔ لیکن جیسے جیسے وقت اور حالات میں تبدیلی آرہی ہے اساتذہ بھی اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوتے جا رہے ہیں۔