کاشف شکیل
ہر علاقے کی اپنی کچھ خصوصیات ہوتی ہیں جو اس کو دیگر علاقوں سے ممتاز کرتی ہیں۔ سعودی عرب اپنے محل وقوع، تہذیب و ثقافت ، مذہبی شناخت، جغرافیائی حیثیت اور اپنے باشندوں کے اعتبار سے ایک اہم حیثیت کا حامل ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں مسجود ملائک سیدنا آدم علیہ السلام اور سیدہ حوا علیہا السلام کی ملاقات ہوئی، یہی وہ پاک زمین ہے جہاں سیدنا ابو الانبیاء ابراہیم علیہم السلام کے مبارک قدم پڑے، خانۂ خدا اسی ارض مبارک پر ہے۔ پیغمبر اسلام کی بعثت کے لیے اللہ نے اسی زمین کو منتخب کیا، انعام و اکرام کی بارشیں یہیں برستی ہیں، دنیا جہاں کے پھل یہیں کھنچے چلے آتے ہیں، آب زمزم اسی کی چھاتی سے نکلتا ہے، کائنات کا مرکز اور وسط یہی مقدس سرزمین ہے۔ حرمتوں والی زمین یہیں ہے۔
اس سرزمین نے متعدد ادوار دیکھے، کئی حکومتوں کو بنتے اور گرتے دیکھا، اٹھارہویں صدی عیسوی میں اس پاک سرزمین پر جا بجا شرک و بدعات کی غلاظتیں پڑی ہوئی تھیں، لوگوں نے کعبۃ اللہ کو چھوڑ کر اپنے صالحین کو قبلہ و کعبہ بنا لیا تھا، ان کے مزاروں سے فیض حاصل کرتے، بدعقیدگی زوروں پر تھی۔ شجر و حجر اشرف المخلوقات کی جبینوں کی سجدہ گاہ تھے، مسجود ملائک ساجد ملائک بن گیا تھا، ایسے میں ایک نور کی کرن پھوٹتی ہے، سحر کا اجالا نمودار ہوتا ہے اور یہیں سے مملکت سعودی عرب کا ظہور ہوتا ہے۔
مملکت سعودی عرب کے ابتدائی نقوش:
مملکت سعودی عرب کے مؤسس امام محمد بن سعود ہیں۔ ان کے خاندان کو آل سعود کہا جاتا ہے، آل سعود کو پہلے ’’آل مقرن‘‘ کہا جاتا تھا، اس لیے کہ امام محمد بن سعود کے دادا کا نام مقرن بن مرخان تھا، سعودی حکومت سے قبل ان علاقوں پر مختلف امراء تھے جن کے درمیان آپس میں جنگیں ہوتی رہتی تھی جس کی بنا پر فساد کا بول بالا تھا اور امن کو جائے امن نہ تھی، حجاز پر شریف خاندان کی حکومت تھی اور یہ عثمانی حکومت کے تابع فرمان تھے۔
نجد چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹا ہوا تھا جہاں مقامی امراء حکومت کرتے تھے۔منطقہ شرقیہ پر بنو خالد کی حکومت تھی اور احساء ان کا دارالحکومت تھا۔
باجودیکہ ان میں سے اکثر علاقوں میں علماء کا وجود تھا، مگر ان کے درمیان شرک و بدعات اور خرافات گھر کر چکی تھیں۔ صالحین کی قبروں سے توسل، ان سے استغاثہ و استعانہ، سنگ وخشت اور پیڑ پودوں سے تبرک حاصل کرنا وغیرہ ایسی دینی خرابیاں تھیں جو ان کے اندر پائی جاتی تھیں۔
چنانچہ ایک ایسی حکومت کی ضرورت آن پڑی جو توحید خالص کو نشر کرے، احکام شریعت کی تنفیذ کرے اور ان مختلف قبائل کو متحد کردے۔ کعبہ شریف جو توحید اور اتحاد کی علامت ہے مسلمانوں کے آپسی اختلافات کی بھینٹ چڑھ گیا تھا اور وہاں چار مصلے قائم تھے۔ اس کے در و دیوار رب کائنات سے کسی ایسے مصلح کا وجود مانگ رہے تھے جو وارث رسول عربی ہو۔
ان حالات میں اللہ کی رحمت جوش میں آئی اور اللہ نے دعوت و اصلاح کی خاطر شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب متوفی 1206ھ اور امام محمد بن سعود متوفی 1229ھ کو منتخب کیا۔
فرعون کا سر جب اٹھتا ہے موسی کوئی پیدا ہوتا ہے
پہلی سعودی حکومت:
درعیہ کے امیر زید بن مرخان بن وطیان کے 1727ء میں قتل ہونے کے بعد امام محمد بن سعود امیر مقرر ہوئے، امام محمد بن سعود نے درعیہ میں ایک مضبوط امارت قائم کی، جزیرۂ عرب کی بدامنی، اور شرک و بدعت کی گرم بازاری نے امت کے دو مصلحین کی تاریخی ملاقات کرائی۔
امام محمد بن عبدالوہاب اور امام محمد بن سعود کی یہ ملاقات اس اعتبار سے تاریخی حیثیت کی حامل رہی کہ یہیں سے پہلی سعودی حکومت کا آغاز ہوتا ہے۔ اس ملاقات میں امام محمد بن سعود نے شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب سے توحید کی مدد اور شریعت کے نفاذ پر عہد کیا، نیز اہل درعیہ کے اتفاق سے امام محمد بن سعود اور ان کے بعد ان کی ذریت حکومت کی مستحق ٹھہری۔
اس ملاقات کا فائدہ یہ ہوا کہ درعیہ کی قوت روز افزوں ترقی پر ہوگئی، شیخ الاسلام کی دعوت سے متاثر ہونے والے افراد درعیہ میں آکر آباد ہونے لگے، امام محمد بن سعود کی اس حکومت میں شیخ الاسلام کی دعوتی سرگرمیاں زوروں پر تھیں۔ آپ نے عقائد، احکام اور اخلاق پر متعدد کتابیں لکھیں، توحید خالص کی تبلیغ و اشاعت میں ہر لحظہ مصروف رہے، آپ کی تالیفات اور دروس سے درعیہ علم کا مرکز بن گیا اور مختلف شہروں سے طلبہ اس علاقے کا قصد کرنے لگے۔
یہ پہلی سعودی حکومت 1744ء مطابق 1157ھ سے 1818ء مطابق 1233ء تک کل 74 سال قائم رہی۔
اس دوران امام محمد بن سعود پھر ان کے بیٹے عبدالعزیز بن محمد بن سعود، ان کے بعد ان کے فرزند سعود بن عبدالعزیز، ان کے بعد ان کے لخت جگر عبداللہ بن سعود بن عبدالعزیز حاکم ہوئے۔ امام محمد بن سعود نے حکومت سعودیہ کی تاسیس کے بعد دیگر علاقوں کو اپنی سلطنت میں ضم کرنا شروع کر دیا۔ یہاں تک کہ ان کے بیٹے عبدالعزیز نے ریاض کو اپنی حکومت میں شامل کرلیا، ریاض کے بعد دیگر علاقے بآسانی سعودی حکومت میں شامل ہونے لگے اور دھیرے دھیرے سعودی حکومت کی سرحدیں پھیلنے لگیں۔ نجد اور منطقہ شرقیہ کے علاقوں کے بعد 1218ھ میں سعود بن عبدالعزیز نے حجاز کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا۔
پہلی سعودی حکومت کا اختتام:
دولت عثمانیہ پہلی سعودی حکومت کے بڑھتے نفوذ اور فزوں تر رسوخ کو دیکھ کر پریشان ہو اٹھی، ابتدا میں دولت عثمانیہ نے عراق سے دو حملے کرائے جو ناکام ہوگئے۔ جب عثمانیوں کو سعودی حکومت کی قوت کا احساس ہوا تو انھوں نے اس سلسلے میں سنجیدگی سے غور کیا اور اپنے مصر کے والی محمد علی پاشا کو سعودی حکومت کے قلع قمع کا کام سونپا۔ محمد علی پاشا نے اپنے بیٹے احمد طوسون کی قیادت میں 1226ھ مطابق 1811ء میں لشکر بھیجا جس نے وادی صفراء میں سعودی قوتوں کا مقابلہ کیا مگر اس جنگ میں مصری لشکر کو شکست نصیب ہوئی۔
اپنے اس بیٹے کی ناکامی کے بعد محمد علی پاشا نے اپنے دوسرے بیٹے ابراہیم پاشا کی قیادت میں ایک عظیم لشکر بھیجا۔ جمادی الآخرۃ 1233ھ مطابق اپریل 1818ء میں ابراہیم پاشا نے درعیہ کا محاصرہ کیا، اہل درعیہ اور ابراہیم پاشا کے درمیان کئی جھڑپیں ہوئیں، محاصرے کے دوران ہونے والی جنگوں میں سعودی قوتوں کو بہت نقصان پہنچا، یہاں تک کہ امام عبداللہ بن سعود نے چھ مہینے کے سخت محاصرے کے بعد 8 ذی القعدہ 1233ھ مطابق 1818ء میں خود سپردگی کردی اور اس طرح پہلی سعودی حکومت کا خاتمہ ہوا۔
دوسری سعودی حکومت:
یہ دور 1240ھ مطابق 1824ء سے شروع ہوتا ہے اور 1309ھ مطابق 1891ء پر ختم ہوتا ہے، ارض حجاز و نجد سے گرچہ پہلی سعودی حکومت کا خاتمہ ہو گیا مگر یہاں کے باشندوں بطور خاص اہل درعیہ کے دلوں پر ابھی تک سعودی راج تھا، یہاں کے لوگ پہلی سعودی حکومت کے خاتمہ کے بعد بھی اہل سعود سے اپنی وفاداری پر قائم تھے اور سلفی دعوت سے حد درجہ متاثر تھے۔ اسی لیے 1235ھ مطابق 1820ء میں جب انھیں مشاری بن سعود کے ابراہیم پاشا کے تسلط سے بھاگنے کی خبر ملی تو انھوں نے ان کی ہر ممکن مدد کی مگر افسوس کہ امیر مشاری بن سعود دوبارہ عثمانیوں کی گرفت میں آگئے اور عنیزہ کے قید خانے میں 1236ھ مطابق 1820ء میں جاں بحق ہوگئے۔
مشاری بن سعود کی گرفتاری کے بعد امیر ترکی بن عبداللہ جیل سے فرار ہوئے اور انھوں نے دوبارہ سعودی حکومت کی بازیافت کے لیے جدو جہد شروع کر دی، آپ نے سب سے پہلے ریاض کو عثمانیوں سے حاصل کیا اور 1240ھ مطابق 1824ء میں پھر سے سعودی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ آپ کی حکومت میں دھیرے دھیرے اس دوسری سعودی حکومت کی سرحدیں وسیع ہوتی رہیں مگر افسوس کہ آپ کے بھانجے مشاری بن عبدالرحمن بن حسن بن مشاری نے 1249ھ مطابق 1834ء میں آپ کو قتل کر دیا اور خود حاکم بن بیٹھا۔ مگر اس کی حکومت چالیس روز سے زیادہ نہ رہ سکی۔ اس لیے کہ فیصل بن ترکی بن عبداللہ نے اس سے عنان حکومت چھین لی اور اس کو قصاص میں قتل کردیا۔ امیر فیصل کے عہد حکومت میں عثمانیوں اور مصریوں نے کئی بار حملہ کیا، آپس میں جنگیں اور جھڑپیں جاری رہیں۔ یہاں تک کہ رمضان 1254ھ مطابق 1838ء میں امیر فیصل بن ترکی خورشید پاشا کے ہاتھوں قید ہوگئے اور آپ کو مصر بھیج دیا گیا۔
پانچ سال بعد امام فیصل بن ترکی مصر کی جیل سے فرار ہوکر نجد لوٹ آئے، نجد سے آپ نے حائل کا قصد کیا جہاں آپ کا دوست عبداللہ بن رشید امیر تھا، عبداللہ بن شنیان جو ریاض کا حاکم بن بیٹھا تھا آپ نے اس سے ریاض کی حکومت چھین لی ۔ 21؍رجب 1282ھ مطابق 11؍دسمبر 1865ء میں آپ کی وفات ہوئی۔ آپ نے اپنی عمر ملک کی خدمت اور احکام الٰہی کی تنفیذ میں گزاری، آپ کے انتقال کے بعد آپ کے فرزند کلاں عبداللہ کی بیعت ہوئی، مگر شومی قسمت کہ ان کے چھوٹے بھائی سعود بن فیصل بن ترکی نے ان کے خلاف بغاوت کردی اور خود حکومت کے دعویدار بن بیٹھے، اس آپسی انتشار اور باہمی جنگ کا نتیجہ یہ ہوا کہ سعودی حکومت کمزور پڑ گئی اور ترکوں نے موقع پا کر منطقہ شرقیہ پر قبضہ کر لیا۔ مزید ایک شخص ابن رشید جو جبل شمر کا امیر تھا اپنا رسوخ بڑھاتا چلا گیا اور جزیرہ نمائے عرب میں ایک نئی طاقت بن کر ابھرا، اس نے آل سعود سے دھیرے دھیرے ان کے مقبوضہ شہروں کو چھیننا شروع کیا۔ یہاں تک کہ صفر 1309ھ مطابق ستمبر 1891ء میں امام عبدالرحمن بن فیصل (ملک عبدالعزیز کے والد) کے دورِ حکومت میں اس نے مکمل نجد پر قبضہ کر لیا اور اس طرح دوسری سعودی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔
سعودی حکومت کا تیسرا دور:
امام عبدالرحمن بن فیصل آل رشید سے معرکۂ حریملاء میں شکست سے دوچار ہونے کے بعد اپنے خاندان کو لے کر قطر چلے گئے۔ آپ نے عثمانی سلطنت سے کویت میں قیام کرنے کی اجازت مانگی تو حکومت نے اجازت دے دی چنانچہ 1310ھ مطابق 1892ء میں آپ اپنے قبیلہ سمیت کویت چلے گئے۔
امام عبدالرحمن بن فیصل کو اللہ نے 1293ھ میں ایک بیٹا دیا جس کا نام انھوں نے عبدالعزیز رکھا، یہ بھی آپ کے ساتھ کویت آیا، آپ کا یہ بیٹا انقلابی ذہن کا حامل، شجاعت و بسالت میں اپنی مثال آپ، بے باک، بہادر، دانا و بینا تھا، آپ نے اپنے اس ہونہار فرزند کی بدست خود تربیت فرمائی اور تعلیم میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کیا، عبدالعزیز بن عبدالرحمن نے لکھنا پڑھنا اپنے والد سے ہی سیکھا، قرآن، اسلامی عقیدہ، تیراندازی اور گھوڑ سواری میں بھی آپ کے والد ہی آپ کے معلم تھے۔ امراء، زعماء قائدین اور سرداروں کے ساتھ بچپن ہی سے آپ کی مجالست رہی، مگر وہ معلم جس نے آپ کو عزم و حوصلہ دیا، آپ کو آہنی بازو اور فولادی سینہ دیا، آپ کو جبل استقامت اور پیکر عزیمت بنایا وہ حالات تھے۔ جی ہاں، یہ وہی مشکل ترین لمحے تھے جو آپ نے اپنے والد کے ہمراہ ریاض میں گزارے تھے، یہ وہ وقت تھا جو آپ نے ریاض سے جلا وطن ہونے کے بعد صحرا نوردی اور کوہ پیمائی میں صرف کیا تھا، ان حالات نے آپ کو وہ توانائی بخشی اور وہ قوت عطا فرمائی کہ اللہ کے فضل سے آپ ایک عظیم سلطنت کے مؤسس بنے۔
قیام کویت کے دوران آپ کویت کے حاکم کی مجلس میں آتے جاتے اور ان کی سیاسی اور اجتماعی گفتگو سن کر اپنے سیاسی تجربات بڑھاتے۔
آل رشید جنھوں نے آل سعود سے حکومت چھین لی تھی، 5شوال 1319ھ مطابق 15جنوری 1902ء میں ملک عبدالعزیز بن عبدالرحمن نے محض چالیس جاں نثاروں کو ساتھ لے کر ریاض کو آل رشید کے چنگل سے آزاد کیا، اور یہیں سے سعودی حکومت کی تاریخ کا نیا صفحہ شروع ہوتا ہے۔ ملک عبدالعزیز نے ریاض کو اپنے قبضہ میں لینے کے بعد اس کو سعودی حکومت کی راجدھانی بنا دیا اور اردگرد کے علاقوں پر دھیرے دھیرے اپنا تسلط جمانے لگے، یہاں تک کہ جنوب نجد،وشم، سدیر، قصیم، بریدۃ وغیرہ آپ کی حکومت میں داخل ہوگئے۔اس کے بعد احساء، عسیر، حجاز، طائف، جدہ اور جازان وغیرہ پر قبضہ جمایا، 20مئی 1924ء کو معاہدہ جدہ کے مطابق برطانیہ نے تمام مقبوضہ علاقوں (جو اس وقت ’’مملکت حجاز و نجد‘‘ کہلاتے تھے) پر عبدالعزیز بن سعود کی حکومت کو تسلیم کر لیا۔
ملک عبدالعزیز نے تمام مقبوضہ علاقوں کو متحد کرکے 17 جمادی الاولیٰ 1351ھ مطابق 19ستمبر 1932ء میں یہ شاہی فرمان جاری کیا کہ 21 جمادی الاولیٰ 1351ھ مطابق 23 ستمبر 1932ء سے ہمارے ملک کا نام ’’مملکہ عربیہ سعودیہ‘‘ ہوگا، اسی لیے اس دن کو ’’الیوم الوطنی‘‘ قومی دن (National Day) کے طور پر منایا جاتا ہے۔
مارچ 1938ء میں تیل کی دریافت نے ملک کو معاشی طور پر زبردست استحکام بخشا اور سعودی حکومت مالا مال ہوگئی۔
ذالک فضل الله یوتيہ من يشاء
سعودی عرب کے بنیادی قوانین کے مطابق سعودی عرب پر پہلے بادشاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن کی اولاد ہی حکمرانی کرے گی۔ یہ وہ تنہا ملک ہے جس کا آئین قران اور حکومت کی بنیاد شریعت ہے۔
سعودی عرب کا کل رقبہ:
سعودی عرب کا کل رقبہ 22 لاکھ 17 ہزار نو سو انچاس مربع کلو میٹر ہے۔ فی الحال یہ جزیرہ نمائے عرب میں سب سے بڑا ملک ہے، شمال مغرب میں اس کی سرحد اردن، شمال میں عراق اور شمال مشرق میں کویت، قطر اور بحرین، مشرق میں متحدہ عرب امارات، جنوب مشرق میں عمان اور جنوب میں یمن سے ملی ہوئی ہے جب کہ خلیج فارس اس کے شمال مشرق اور بحیرہ قلزم اس کے مغرب میں واقع ہے۔ مملکہ کا تمام حصہ تقریباً صحرائی و نیم صحرائی علاقے پر مشتمل ہے، صرف 2 فیصد رقبہ قابل کاشت ہے۔ یہاں کھجوروں کی کثرت ہے۔
صوبہ جات اور مشہور شہر:
سعودی تیرہ مناطق (صوبوں) میں منقسم ہے (۱) الباحۃ (۲) الحدود الشمالیہ (۳) الجوف (۴) المدینہ (۵) القصیم (۶)الریاض (۷) الشرقیۃ (۸) عسیر (۹) حائل (۱۰) جیزان (۱۱) حجاز (۱۲) نجران (۱۳) تبوک۔
شہروں میں ریاض، جدہ، مکہ، مدینہ، طائف وغیرہ خاصے مشہور ہیں۔
اللہ سے دعا ہے کہ وہ مملکت توحید مملکت سعودی عرب کی حفاظت فرمائے اور اس کو دشمنوں کے شر سے بچائے ۔ آمین