مذہبی شدت پسندی اور اس کا حل

شمع فروزاں : مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

چند دنوں پہلے بعض دوستوں نے سوشل میڈیا پر گشت کرتی ہوئی ایک خبر کی کِلپ دکھائی، جس میں ایک مسجد کو منہدم کر دیا گیا ہے، اگر یہ کام شرپسند قسم کے فرقہ پرستوں نے کیا ہوتا تو تعجب نہ ہوتا؛ کیوں کہ اس وقت ملک میں لاقانونیت اور نفرت کا ایسا دور دورہ ہے کہ اس میں سوائے گائے کی حفاظت کے کسی اور کی حفاظت کی امید نہیں کی جاسکتی، نہ مردوں کی نہ عورتوں کی، نہ بچوں کی نہ بوڑھوں کی، نہ دلتوں کی اور نہ اقلیتوں کی، یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے بابری مسجد کو دوپہر کی روشنی میں علی الاعلان اور قانون کے محافظین کی موجودگی میں منہدم کر دیا، اور تقریباََتیس سال اس شرمناک واقعہ پر پورے ہونے کو ہیں؛ لیکن اب تک قانون کا ہاتھ مجرموں کے گریبانوں تک نہیں پہنچ سکا۔

لیکن افسوس اور صد ہزار افسوس کہ جو مسجد منہدم کر دی گئی ،اہل حدیث حضرات کی تھی، کچھ دوسرے مسلک کے ناسمجھ، غالی اور جذباتی نوجوانوں نے مسجد پر ہلہ بول دیا، اور راتوں رات اس مسجد کو پوری طرح زمیں بوس کر دیا، اگرچہ بعض مقامی حضرات نے یہ بات کہی ہے کہ ان نوجوانوں نے صرف دوچار اینٹیں ہی نکالی تھیں؛ لیکن بلدیہ والوں نے اس لئے مسجد گرادی کہ مسجد کے نام سے تعمیر کی اجازت حاصل نہیں کی گئی تھی؛ لیکن قرائن سے اس کی تصدیق نہیں ہوتی ، عام طور پر ہمارے ملک میں جو عبادت گاہیں تعمیر کی جاتی ہیں، نہ مسلمان اس کی اجازت لیتے ہیں نہ غیر مسلم، اگر بلدیہ والوں ہی نے اس کو منہدم کر دیا ہو تب بھی بظاہر در پردہ مخالف گروہ کی اُکساہٹ ہی اس کا سبب ہو سکتی ہے؛ ورنہ تو بلدیہ والے اس کی جرأت نہیں کر سکتے، اور اگر وہ ایسا کرتے تو پوری ملت اسلامیہ سراپا احتجاج ہو جاتی، بعد کو جمعیۃ علماء تلنگانہ و آندھرا پردیش نے بہتر قدم اٹھاتے ہوئے اپنا ایک وفد وہاں بھیجا، اور ان کی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ مسلمانوں ہی میں سے کچھ لوگوں نے یہ ناشائستہ حرکت کی ہے۔

راقم الحروف مسلمانوں کے تمام گروہوں کو اس حیثیت سے قدر کی نگاہوں سے دیکھتا ہے کہ وہ سب ملت اسلامیہ کا حصہ ہیں اور وحدت کلمہ کی بنیاد پر ہم ایک دوسرے سے مربوط ہیں؛ لیکن یہ حقیر مسلک کے اعتبار سے اہل سنت میں سے ہے، عقائد کی تشریح کے اعتبار سے علمائے دیوبند کے نقطۂ نظر کو راجح سمجھتا ہے، فقہی اعتبار سے فقہ حنفی کا متبع ہے، اور مذہبی جماعتوں میں حضرت مولانا محمد الیاس صاحبؒ کی تحریک دعوت وتبلیغ سے زیادہ قربت و ہم آہنگی ہے، اس کے باوجود یہ کہنے میں کوئی تکلف نہیں ہے کہ مسلک اہل حدیث کی مسجد کے انہدام کا یہ عمل بہت ہی قابل مذمت ، افسوسناک اور بے بصیرتی کا آئینہ دار ہے،جن لوگوں نے اس حرکت کا ارتکاب کیا، نہ انہوں نے دین کی روح اور شریعت کے مزاج کو سمجھا ہے اور نہ ملک کے حالات کا ادراک کیا ہے،مسجد تو مسجد ہے، اسلام نے تو کسی بھی عبادت گاہ کے منہدم کرنے کی مذمت کی ہے، اور وجہ یہ بتلائی ہے کہ وہاں کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جاتاہے، یذکر فیھا اسم اللہ کثیرا (الحج: ۴۰) اس طرح کا عمل اللہ تعالیٰ کے یہاں تو قابل مؤاخذہ ہے ہی؛ لیکن دنیا میں بھی یہ بڑے خسران ونقصان کا باعث ہے، اور اس طرح ہمارے ملک میں اسی طرح کے مذہبی تشدد کا ماحول پیدا ہو سکتا ہے، جو پڑوسی ملک میں ہے، جہاں آئے دن مختلف مسالک کے علماء، مذہبی قائدین اور ائمہ مساجد کے قتل کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔

اس واقعہ کے پس منظر میں چند باتیں عرض کرنے کی جسارت کرتا ہوں:

(۱) اسلام میں مسجد کو بڑی اہمیت حاصل ہے، یہ مسلمانوں کا مقامی مرکز ہے، مسلمانوں کا کام مسجد کی تعمیر ہے نہ کہ اس کا انہدام،مسجد میں لوگوں کو آنے کی دعوت دینا ہے نہ کہ مسجدوں سے نکالنا، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

’’ اللہ کی مسجدوں کو وہ لوگ تعمیر کرتے ہیں، جو اللہ پر اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، اور زکوٰۃ دیتے ہیں، اور صرف اللہ ہی سے ڈرتے ہیں، امید ہے کہ یہی لوگ ہدایت یافتہ ہوں گے‘‘ ۔(توبہ: ۱۸)

اس آیت سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ مسلمانوں کا کام مسجد کی تعمیر ہے اور یہ ایمان کی علامت ہے، یہ بات ناقابل تصور ہے کہ ایک شخص مسلمان ہو اور مسجد کو منہدم کر دے،دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ مسجد کسی ایک گروہ کی ملکیت نہیں ہے، مسجد براہ راست اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے، اور ان تمام لوگوں کو اس میں نماز پڑھنے کا حق ہے، جو اللہ پر ایمان رکھتے ہیں، اوراسلام پر ان کا یقین ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو اللہ کے لئے مسجد بناتا ہے، اللہ تعالیٰ جنت میں اس کے لئے اس کے بدلے گھر بنائیں گے:من بنیٰ مسجداََ للّہ بنی اللہ لہ في الجنۃ مثلہ (مسلم عن عثمان بن عفان ، باب تحریم الظلم،حدیث نمبر:۲۵۷۷) اس حدیث سے بھی یہی دو باتیں واضح ہوتی ہیں کہ مسلمانوں کا کام مسجد کی تعمیر ہے اور مسجد اللہ کا گھر ہے، اور جب اللہ کا گھر ہے تو اس کا دروازہ تمام مسلمانوں کے لئے کھلا ہونا چاہئے اور اس کو مسلکوں میں بانٹنا نہیں چاہئے، جیسا کہ آج کل مسجد احناف، مسجد شوافع، مسجد اہل حدیث، دیوبندی مسجداوربریلوی مسجد،کی تقسیم قائم ہوتی جا رہی ہے، ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ کسی خاص مسلک کے لوگ کوئی مسجد تعمیر کریں اور وہاں زیادہ تر مصلی اسی مسلک کے ہوں تو اسی مسلک کا امام وخطیب مقرر کیا جائے؛ لیکن یہ نہ ہوناچاہئے کہ مسجد کسی خاص مسلک سے موسوم کی جائے، نہ یہ درست ہے کہ وہاں دوسرے مسلک کے لوگوں کو نماز ادا کرنے کی اجازت نہیں دی جائے ،یا ان کو مجبور کیا جائے کہ آپ نماز تو ہماری مسجد میں پڑھ سکتے ہیں؛ لیکن آپ کو ہمارے ہی طریقہ پر پڑھنی ہوگی، یہ ساری باتیں شریعت کے مزاج کے خلاف اور امت میں تفریق پیدا کرنے والی ہیں۔

۲۔ قرآن وحدیث میں کچھ احکام اتنے واضح طور پر موجود ہیں کہ ان میں دو رائے نہیں ہو سکتی؛ اس لئے ان کے بارے میں امت کے درمیان اختلاف بھی نہیں پایا جاتا، ۹۵؍فی صد احکام اسی نوعیت کے ہیں، کچھ مسائل وہ ہیں جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یا صحابہ رضی اللہ عنہم کا ایک سے زیادہ عمل منقول ہے، یا اس سلسلہ میں قرآن وحدیث کی ہدایات ایسے الفاظ میں آئی ہیں ، جن میں ایک سے زیادہ معنوں کی گنجائش ہے، ایسے مسائل میں اہل علم کے درمیان اختلاف رائے واقع ہوا ہے، اور اس طرح کا اختلاف صحابہ کے دور سے رہا ہے، ایسے اختلافی مسائل میں شدت برتنا اور اپنے آپ کو صد فیصد برحق سمجھنا اور دوسرے نقطۂ نظر کو صد فیصد غلط باور کرنا درست نہیں ہے، اور یہ سلف صالحین کے طریقہ کے خلاف ہے۔

اسلامی تاریخ میں دو ایسے مواقع آئے جب تمام مسلمانوں کو ایک ہی نقطۂ نظر پر جمع کرنے کی کوشش کی گئی، ایک حضرت عمربن عبدالعزیزؓ کے دور میں جب آپ خلیفہ تھے اور بعض اہل علم نے ان سے خواہش کی کہ پورے عالم اسلام کو ایک ہی مسلک پر جمع کر دیا جائے؛ لیکن انہوں نے اسے قبول نہیں کیا اور فرمایا کہ تمام صحابہ اگر ہر مسئلہ میں متفق ہوتے تو مجھے اس سے خوشی نہیں ہوتی، جتنی اس بات سے ہے کہ صحابہ کے درمیان اختلاف رائے ہے؛ لہٰذا مسلمان ان میں سے کسی بھی رائے کو اختیار کرتا ہے تو وہ مطمئن ہوتا ہے کہ اس کا عمل کسی نہ کسی صحابی کی رائے کے مطابق ہے، دوسرا موقع وہ تھا جب امام مالک سے عباسی خلفاء نے اجازت چاہی کہ پورے عالم اسلام کو ان کے مسلک پر عمل کا پابند کر دیا جائے، اور مؤطا امام مالک کو پوری مملکت اسلامی کا دستور بنا دیا جائے؛ لیکن امام مالکؒ نے اسے پسند نہیں فرمایا اور منع کر دیا۔

اس سے سبق ملتا ہے کہ ہمارے اندر اختلاف رائے کو برداشت کرنے کی صلاحیت ہونی چاہئے، اور سمجھ لینا چاہئے کہ یہ اختلاف رائے اللہ کی مشیت کا ایک حصہ ہے، اگر شریعت کا منشا یہ ہوتا کہ ہر مسئلہ میں تمام لوگ ایک ہی رائے پر جمع ہو جائیں تو جیسے توحید ورسالت اور آخرت کے تصور کو بے غبار انداز پر قرآن میں بیان کر دیاگیا ہے، اسی طرح زندگی کے تمام مسائل کو بیان کر دیا گیا ہوتا، اور ظاہر ہے کہ جب کسی بات کا ذکر قرآن مجید میں آجاتا اور واضح انداز میں آجاتا تو اس میں اختلاف رائے کی نوبت نہیں آتی؛ اس لئے مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کو یہ مان کر چلنا چاہئے کہ دین کی تفصیلات اور فروعی اور ضمنی احکام میں اختلاف رائے کی گنجائش ہے، اور اس کے دونوں پہلوؤں میں درست اور نا درست ہونے کا امکان بھی ہے،کوئی صاحبِ ایمان اللہ کی رضاء کے لئے جس طریقے پر بھی عمل کرے، ان شاء اللہ اس کے لئے اجروثواب ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اجتہاد میں دونوں فریق اجر کا مستحق ہوتا ہے۔ (بخاری، حدیث نمبر: ۶۸۰۵)

۳۔ ایک بہت ہی قابل افسوس بات یہ ہے کہ قرآن و حدیث میں تو ہمیشہ دین کی دعوت دینے کا حکم دیا گیا ہے، انبیاء کرام نے ہمیشہ توحید اور آخرت کی دعوت دی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوتی خطوط لکھے، جو کتب احادیث میں موجود ہیں، ان میں ہمیشہ دین کی طرف دعوت دی گئی ہے، احکام شریعت کی تفصیلات کی طرف دعوت نہیں دی گئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ سے بیعت لیا کرتے تھے، اسے بھی ملاحظہ کیجئے، ہمیشہ آپ نے لوگوں سے دین کی اساسی باتوں کا عہد لیا؛ لیکن آج کل لوگوں نے دین کے بجائے مسلک کو دعوت وتبلیغ کا موضوع بنا لیا، اور اپنے مسلک کی طرف دعوت دینے کو تبلیغ دین سمجھ لیاگیا، یہ دانستہ ہو تو دھوکہ ہے، اور نادانستہ ہو تو غلط فہمی ہے، ایک بڑے عالم کے بقول ’’ مسلک قابل ترجیح ہے، قابل تبلیغ نہیں ہے‘‘ جب لوگ مسلک کو دین کا درجہ دینے لگتے ہیں تو اس سے فکری اختلاف جھگڑے میں تبدیل ہو جاتا ہے، یہ اپنے مسلک پر عمل کرنے یا اس کے دلائل بیان کرنے پر اکتفاء نہیں کرتے؛ بلکہ دوسروں کو برا بھلا کہتے ہیں، ان کا استہزاء کرتے ہیں، اور ان کے لئے تنابز بالالقاب کرنے لگتے ہیں۔

علماء کو خود بھی اس سے اجتناب کرنا چاہئے، اور عوام کو بھی اس حقیقت کو سمجھانا چاہئے،ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید میں ہر جگہ اقامت صلوۃ کی دعوت دی گئی ہے، کیفیت صلاۃ کی طرف دعوت نہیں دی گئی ہے؛ اس لئے فروعی احکام مثلاً نماز کے سلسلے میں حدیث میں منقول مختلف طریقوں میں سے ایک پر اصرار اور دوسرے کا بالکلیہ انکار درست نہیں ہے،اگر اس حقیقت کو سمجھ لیا جائے تو اختلاف مخالفت کی صورت اختیار نہیں کرے گا۔

۴۔ پھر یہ کہ جن مسائل میں اختلاف ہو، ان کو بیان کرنے میں اعتدال ہونا چاہئے، اکثرو بیشتر زبان کی بے اعتدالی بڑے بگاڑ کا سبب بن جاتی ہے، سلف صالحین کا مزاج یہ تھا کہ وہ اختلاف رائے کے باوجود ایک دوسرے کی رائے کا احترام کیا کرتے تھے، خیر کے ساتھ ان کا تذکرہ کیا کرتے تھے، اور ان کے حلقہ میں ان کو جس نام سے یاد کیا جاتا تھا، ان کے لئے اسی نام کا استعمال کیا کرتے تھے، مالکیہ اور شوافع سے کتنے ہی مسائل میں احناف کا اختلاف ہے؛ لیکن امام ابو حنیفہؒ کے مناقب پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں، ان میںمتعدد کتابیں مالکیہ اور شوافع کی ہیں، علامہ زمخشریؒ فکروعقیدہ کے اعتبار سے معتزلی تھے، انہوں نے اپنی مشہور تفسیر ’’ کشاف‘‘ میں اہل سنت والجماعت پر نقد کا کوئی موقع ضائع ہونے نہیں دیا؛ لیکن نماز کی کثرت اور مسجد میں زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے کی وجہ سے ’’ جار اللہ‘‘ (اللہ کا پڑوسی) ان کا لقب پڑ گیا تھا، علماء اہل سنت والجماعت باوجود اختلاف کے بسا اوقات جب ان کا ذکر کرتے ہیں تو ان کے نام کے ساتھ یہی’’ جار اللہ‘‘ کا لقب استعمال کرتے ہیں، اس سے سلف کی وسیع النظری اور باہمی احترام کا اندازہ کیا جاسکتا ہے؛ لیکن آج کل مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر کا رویہ یہ ہو گیا کہ دوسروں کو کافر ومشرک اورفاسق و بدعتی ٹھہرانے میں ذرا بھی تکلف نہیں کرتے، ایک دوسرے کے بزرگوں کے لئے توہین آمیز الفاظ کہے جاتے ہیں، ظاہر ہے اس رویہ کے ساتھ کیسے اتحاد امت کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو سکتا ہے؟ اس لئے مسلکی شدت پسندی کو کم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہماری زبان محتاط ہو اور ہم دوسرے مکاتب فکر کی مقتدیٰ شخصیتوں کا نام توقیر واحترام کے ساتھ لیں۔

تجربہ ہے کہ جہاں اس کی رعایت ہوتی ہے، وہاں اختلاف تشدد کی صورت اختیار نہیں کرتا، مثلاََ ہندوستان کے کئی علاقوں–کیرالا، بھٹکل، کوکن، حیدرآباد کے بعض محلوں – میں احناف بھی ہیں اور شوافع بھی؛ لیکن میرے علم کے مطابق کبھی احناف اور شوافع کے درمیان تصادم کی صورت پیدا نہیں ہوئی؛ بلکہ دونوں حلقوں کے لوگ ایک دوسرے کے بزرگوں کا پورا احترام کرتے ہیں، ایک دوسرے کے زیر انتظام مسجدوں میں نماز ادا کرتے ہیں، نہ کوئی شافعی امام ابو حنیفہ کے بارے میں بدگوئی کرتا ہے، اور نہ کوئی حنفی امام شافعیؒ کی شان میں گستاخی کرتا ہے، نہ فقہی اختلاف کی بناء پر ایک دوسرے کی نماز کو نادرست قرار دیتے ہیں،گر یہی ماحول دیوبندی وبریلوی اور مقلدین وغیر مقلدین کے درمیان پیدا ہو جائے تو کتنی بہتر بات ہو، اور دوسروں کو ہم پر جگ ہنسائی کا موقع نہیں ملے۔

زبان وقلم کی بے اعتدالی بڑھتے بڑھتے نزاع وجدال تک پہنچ جاتی ہے، پھر تشدد کا راستہ کھلتا ہے، اور عمل اور رد عمل میں لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں، اسی طرح بعض اور واقعات بھی سامنے آرہے ہیں، کہیں مسجدوں پر زور زبردستی سے قبضہ کرنے کے، کہیں دوسری فکر سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو مسجد سے نکال باہر کرنے کے اور کہیں تنظیمی اختلاف کی بنیاد پر ایک گروہ کی طرف سے دوسرے گروہ کا سامان مسجد سے باہر پھینک دینے کے، یہ بہت ہی افسوسناک صورت حال ہے، اور یہ مستقبل میں خدا نخواستہ ناخوشگوار واقعات اور انتشار کی ایک نئی لہر کا سبب بن سکتے ہیں؛اس لئے علماء اور مذہبی قائدین کی ذمہ داری ہے کہ اس سے پہلے کہ حالات اور بگڑ جائیں، وہ شدت پسندی کے اس مزاج کو روکنے اور لگام دینے کے لئے اُٹھ کھڑے ہوں؛ ورنہ ہم پورے جذبۂ اخلاص کے باوجود دشمنان اسلام کی تقویت کا باعث بنیں گے اور ہماری مثال اس گروہ کی ہو جائے گی جوایک ہی کشتی میں سوار ہواور آپسی دشمنی میں دریا میں چلتی ہوئی کشتی میں سوراخ کر دے؛ یہاں تک کہ پوری کشتی ہی غرقاب ہو جائے۔ وباللہ التوفیق وھو المستعان۔

 

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں