مہاراشٹر ا حکومت کو سخت ہزیمت کا سامنا ،مجسٹریٹ کی پوسٹ سے محروم کئے گئے مسلم شخص کودوماہ میںبحال کرنے کا سپریم کورٹ نے دیا فیصلہ

عرض گذار کو صرف اس لیئے اس کے حق سے محروم نہیں رکھا جاسکتاکہ ماضی میں اس کے خلاف الزام عائد کیئے گئے تھے جبکہ اس الزام سے وہ باعزت بری ہوگیا ہے اور اس نے کبھی اس بات کو چھپایا نہیں کہ اس پر مقدمہ قائم کیا گیا تھا۔
نئی دہلی (ایم این این )
مہاراشٹرحکومت کو آج اس وقت ہزیمت اٹھانی پڑی جب سپریم کورٹ آف انڈیا کی تین رکنی بینچ نے مجسٹریٹ کی پوسٹ سے محروم کیئے گئے ایک مسلم شخص کو آٹھ ہفتوں کے اندر مجسٹریٹ(جوڈیشیل مجسٹریٹ فرسٹ کلاس) کی پوسٹ پر تعینات کرنے کے لیئے اقدامات کیئے جانے کا حکم جاری کیا۔
سپریم کورٹ آف انڈیا کی تین رکنی بینچ کے جسٹس کورین جوزف، جسٹس نوین سنہا اور جسٹس سنجے کشن کول کے روبرو گذشتہ ہفتہ بحث کرتے ہوئے سینئر ایڈوکیٹ حذیفہ احمدی نے بتایا کہ عرض گذارمحمد عمران دریا آبادی کو مجسٹریٹ کی پوسٹنگ پرتعینات کرنا چاہئے کیونکہ اس کے خلاف قائم مقدمہ سے وہ ایک دہائی قبل ہی باعزت بری ہوگیا ہے اور وہ مقدمہ اس کے خلاف نہیں بلکہ اس کے کسی ساتھی کے خلاف قائم تھا جس میں اسے بھی شامل کرلیا گیا تھا لیکن بعد میں عدالت نے اسے باعزت بری کردیا۔
ایڈوکیٹ حذیفہ احمدی نے عدالت کو مزید بتایا کہ عرض گذار نے یہ بات ڈپارٹمنٹ سے چھپائی نہیں بلکہ اس کے تعلق سے اس نے ہمیشہ اور ہر جگہ لکھا ہیکہ اس پر مقدمہ قائم کیا گیا تھا لیکن وہ اس سے باعز ت بری ہوگیا ہے اس کے باوجود منترالیہ اس کی بحالی نہیں کررہا ہے جو سراسر نا انصافی ہے۔
حذیفہ احمدی نے عدالت کو مزید بتایا کہ عرض گذار سے کم نمبرات حاصل کیئے ہوئے نمائندوں کی مجسٹریٹ کی پوسٹ پر پوسٹنگ ہوچکی لہذا عدالت کو لاءاینڈو جوڈیشری محکمہ کو فوراً حکم دینا چاہئے کہ وہ عرض گذار کو مجسٹریٹ کی پوسٹ الاٹ کرے تاکہ وہ بھی بطور مجسٹریٹ (نچلی عدالت کے جج) اپنی خدمات انجام دے سکے۔
حالانکہ ریاستی حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے سرکاری وکیل نے عرض گذار کی مجسٹریٹ کی پوسٹ پر بحالی کی سخت لفظوں میں مخالفت کی اور عدالت کو بتایا کہ اس کے خلاف سنگین الزامات کے تحت مقدمہ قائم کیا گیا تھا لہذا مجسٹریٹ جیسے باوقار عہدے پر فائز ہونے کے لیئے کلین کریکٹر ضروری ہے۔
فریقین کی دلائل کی سماعت کے بعد تین رکنی بینچ نے فیصلہ محفو ظ کرلیا تھا اورکل شب اسے سپریم کورٹ کی آفیشیل ویب سائٹ پر اپلوڈ کیا گیا۔ فیصلہ کو جسٹس نوین سنہا نے لکھا اور انہوں نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ عرض گذار کو صرف اس لیئے اس کے حق سے محروم نہیں رکھا جاسکتاکہ ماضی میں اس کے خلاف الزام عائد کیئے گئے تھے جبکہ اس الزام سے وہ باعزت بری ہوگیا ہے اور اس نے کبھی اس بات کو چھپایا نہیں کہ اس پر مقدمہ قائم کیا گیا تھا۔
جسٹس سنہا نے اپنے فیصلہ میں مزید لکھا ہے کہ آج کے دور میں نوکری ملنا بہت مشکل ہوتا ہے، ایک ایک پوسٹ کے لیئے سیکڑوں افراد اپلائے کرتے ہیں لہذ اعرض گذار کا تعلیمی ریکارڈ اور اس کے نمبرات کے مد نظر اسے مجسٹریٹ کی نوکری ملنا چاہئے۔ ایڈوکیٹ آن ریکارڈ گورو اگروال نے ممبئی ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضداشت داخل کی تھی جبکہ ایڈوکیٹ شاہد ندیم نے سینئر وکیل حذیفہ احمدی کو پورے معاملے کی بریفنگ کی اور سپریم کورٹ میں مقدمہ کی سماعت کے دوران موجود رہے۔
واضح رہے کہ مہاراشٹر کے سانگلی علاقے سے تعلق رکھنے والے محمد عمران بشیر دریاآبادی کو مجسٹریٹ کی اہلیت کے تمام امتحانات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد بھی انہیں پوسٹنگ نہیں دی جارہی تھی کیونکہ ماضی میں ان کے خلاف ایک مجرمانہ معاملہ درج ہواتھا حالانکہ وہ اس میں باعزت بری ہوگئے تھے لیکن اس کے باوجود لاءاینڈ جوڈیشری محکمہ (منترالیہ) نے ان کے کردار کی سند (کریکٹر سرٹیفیکٹ) پر اعتراض کیا تھا اور انہیں چیف جوڈیشیل مجسٹریٹ فرسٹ کلاس (جے ایم ایف سی)کے عہدے کا چارج لینے سے محروم کردیا تھا جس کے خلاف ممبئی ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا تھا لیکن ممبئی ہائی کورٹ نے بھی عرض گذار کو راحت دینے سے انکار کردیا تھا۔
سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں عمران دریا آبادی کا مقدمہ لڑنے والی تنظیم جمیعت علماء مہاراشٹر (ارشد دمدنی) قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر مسرت کا اظہار کیا اور کہا کہ بالآخر عرض گذار کو عدالت عظمی سے انصاف حاصل ہوا نیز انہیں امید ہیکہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق ریاستی حکومت جلد از جلد عرض گذار کی پوسٹنگ کردے گی۔

SHARE