ساجدحسین ندوی
مولانا ابوالکلام آزادؒ ایک ہمہ گیر شخصیت تھے جو عرصہ دراز تک ہماری رہنمائی فرماتے رہے، جذبۂ حریت، قادرالکلامی، معاملہ فہمی اور زندگی کے حقائق کاادراک ان کے رگ وریشہ میں پیوست تھا، وہ باکمال ادیب، بے مثال خطیب اور عظیم مفسر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ماہر سیاستداں بھی تھے۔ لیکن سیاست میں رہتے ہوئے بھی علم وفن اور شعروادب کی خدمت انجام دیتے رہے۔ ڈاکٹر ذاکرحسین ؒ نے مولانا کی علمی دوستی کو بیان کرتے ہوئے تحریر فرمایا ۔
”وہ بہت بڑے عالم تھے مذہب کے، بہت بڑے عالم تھے ادب کے، ادب ولٹریچر پر بڑی نظر رکھتے تھے ، بڑا اچھا مذاق رکھتے تھے۔ کتابوں پر عاشق تھے اور کوئی سیاست داں یہ نہ سمجھے کہ انہوں نے سیاست کی خاطر اپنے علم کوکبھی چھوڑا ہو، وہ آخری لمحے تک اس کے ساتھ وفاداری کرتے رہے۔ وہ علم کے ساتھ اپنی سماجی ذمہ داریوں کوبھی سمجھتے تھے، وطن کے فرائض کوبھی جانتے تھے۔ انہوں نے آخری وقت تک علم کو نہیں چھوڑا اور علم کی لگن ان کے دل میں لگی رہی۔“
یوں تو اللہ نے مولانا کو بے شمار خوبیاں عطافرمائی تھی،جن کا مشاہدہ زندگی کے ہر شعبہ میں ہوا، ان میں سب سے اہم تعلیم کا شعبہ ہے جس میں مولانا نے آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم کی حیثیت سے گیارہ برس تک خدمات انجام دی اور ہندوستان میں تعلیم کی ترقی، جدید علوم کی اشاعت بالخصوص سائنسی بصیرت پیدا کرنے میں وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے جو ایک آزاد ملک کے لئے ہونا چاہئے تھا۔مولانا ایک جامع صفات شخصیت کے مالک اور جدید وقدیم دونوںعلوم سے پوری طرح باخبر تھے۔
وزارت تعلیم کے عہدے پر فائز ہونے کے بعدمولانا نے ایک پریس کانفرنس میں اپنے تعلیمی نظریہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ” صحیح طور پر آزادانہ اور انسانی قدروں سے بھرپور تعلیم ہی لوگوں میں زبردست تبدیلی کا باعث ہوسکتی ہے اور انہیں ترقی کی طرف لے جاسکتی ہے۔“
مولانا نے تعلیمی بیداری پید اکرنے اور مدارس اسلامیہ کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے لئے مدارس کے ذمہ داروں سے کھل کر بات کی اور ان کو سائنس اور ٹیکنالوجی کی جدید معلومات اور ترقی یافتہ صورت کو اپنے نصاب میں شامل کرنے پر زور دیا تھا، مولاناچاہتے تھے کہ مشرقی ومغربی علوم میں ہم آہنگی پیدا ہو، یہ ترقی پذیر ہندوستان کے لئے ان کا ایک پرخلوص جذبہ وکوشش تھی، انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ”تعلیم کا واحد مقصد روزی اور روٹی کمانا نہیں ہونا چاہئے، بلکہ تعلیم سے شخصیت سازی کا بھی کام لیا جائے اور یہی تعلیم کا سب سے مفید پہلو ہے اور اسی سے معاشی وتمدنی نظام بھی بہتر ہوسکے گا۔“
مولانا آزا د نے ۲۲ فروری ۷۴۹۱کو لکھنو کونسل ہاو ¿س میں عربی فارسی نصاب تعلیم کی اصلاحی کمیٹی کے جلسہ میں صدارتی خطاب فرماتے ہوئے اسلامی علوم کے تنزلی کی داستان کاتذکرہ کچھ اس طرح کیاتھا۔
”قدرتی طور تمام علوم تین مختلف ادوار اور منازل سے گزرتے ہیں۔پہلا دورعلم کی تدوین اور اس کی بناوٹ کا ہوتاہے ، لیکن کام اسی پر ختم نہیں ہوجاتا، دیوار چن دی گئی لیکن ابھی اس میں نقش ونگاربہت کچھ باقی ہےں۔ دوسرا دور علم کی ترقی کا، تنقیح علوم اور تہذیب کاہے، اب اس میں کانٹ چھانٹ کرنا ،اس کو سنوارنا، اس کو بڑھانا اور اس کی نوک وپلک درست کرناہے۔دیوار چن دی گئی اور اس میں نقش ونگار بھی بن گئے ،نوک وپلک درست ہوگئے تب تیسرا دور آتاہے جسے بلوغ اور تکمیل کا دور کہا جاتا ہے، یعنی وہ چیز اب اپنے کمال کو پہونچ گئی اور اب اس میں کوئی چیز باقی نہیں رہ گئی، جس کی نوک وپلک درست کی جائے۔ اب اس کی اشاعت ، اس کوپھیلانا اوربڑھانا ہے، درس وتدریس سے اس کو زیادہ استوار کرناہے۔ تو تیسرا دور بلوغ اور تکمیل کا ہے۔ قدرتی طورپر یہی تین ادوار اسلامی علوم پر بھی گزرے ۔پہلا دور تدوین کا، دوسرا تہذیب کا ،اور تیسرا بلوغ وتکمیل کا۔ اگر ان تین ادواراور زمانہ کی جستجو کی جائے تو میں سمجھتاہوں کہ تیسری صدی ہجری کا زمانہ تدوین علوم کا زمانہ تھا اور تیسری صدی کے بعد پانچویں صدی تک تہذیب علوم کا زمانہ ہے ۔ پانچویں صدی کے بعد کا زمانہ اسلامی علوم کے بلوغ وتکمیل کا اور ان کی اشاعت کا زمانہ تھا۔ تاریخی صفحات کی ورق گردانی کرنے سے ہمیں ساتویں صدی ہجری میں ایسے ائمہ فن نظرآتے ہیں جن کا کام اگرچہ بنیادی طور نہیں کہاجاسکتاہے کہ وہ علوم کی تہذیب کا تھا، لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بہت سے تہذیب کے کام تھے جن کو انہوں نے پوراکیا۔لیکن جو درخت تہذیب وتدوین کا پھل پھول رہاتھا اس کی شاخیں ساتویں صدی تک کمال مرتبہ تک پہونچ گئیں اور بجائے اس کے کہ پھلتاپھولتااچانک آپ کو نظرآئے گا کہ اب پت چھڑ شروع ہوگئی اور بڑھنے کے بجائے گھٹ رہاہے چنانچہ ساتویں صدی ہجری کے بعد اسلامی علوم پر ایک عالمگیر تنزل کادور شروع ہوگیا۔ سب سے پہلی چیز جو نمایاں نظر آتی ہے وہ یہ کہ علم کی ترقی کے لیے جوبنیادی چیز ہے جس کو عربی میں نظرواجتہادسے تعبیر کیا جاتاہے اچانک غائب ہوگیا اور ساتویں صدی کے بعد جمود ہر گوشے پر چھاگیا۔“
مذکورہ بالا بیان سے صاف ظاہر ہے کہ جب تک ہم علوم اسلامی کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرتے رہیں گے اور اس کے طریقہ تعلیم اور نصاب کو سنوارتے رہیں گے ترقی ہوتی رہے گی جیسا کہ تیسری صدی کے بعد سے ساتویں صدی تک ہوتی رہی لیکن غوروفکر اور تدبر کو بالائے طاق رکھکر صرف بنی ہوئی دیوار پرہی عمارت کھڑی کرتے رہیں گے تو نتیجہ یہ ہوگاکہ وہ دیوار بوسیدہ ہوجائے گی اور اس پر بنائی ہوئی عمارت بھی منہدم ہوجائے گی۔ آج علوم اسلامیہ کی حالت کچھ ایسی ہی ہوگئی ہے، پرانی بنیادوں پر عمارتیں تعمیر کی جارہی ہیں اور ظاہری طور پر اسے نقش نگار کے ذریعہ خوب دلکش اور دل فریب بنانے کی انتھک کوشش بھی جاری ہے لیکن اندرہی اندراس کی بنیاد کھوکھلی ہوتی جارہی ہے اور غیرمحسوس طریقہ پر تنزل ہمارا مقدر بن رہی ہے۔ کیونکہ یہ بات حقیقت ہے کہ ترقی اور تنزل کی چال اتنی دھیمی ہوتی ہے کہ پتہ نہیں چل پاتاکہ چل رہاہے، لیکن جب زمانہ طویل مسافت طے کرلیتاہے تب ہماری آنکھیں کھلتی ہیں اور مورخ چونکتاہے اور لکھتاہے کہ حقیقت یہاں سے یہاں آگئی۔لیکن یہ اچانک نہیں ہوا بلکہ یہاں تک پہونچنے میںپچاس یا سوبرس لگ گئے، لیکن اس کی چال اتنی دھیمی تھی کہ کوکوئی اسے پکڑ نہیں سکتاتھا۔
حالات کو سمجھنے اور اس پر گرفت کرنے کی ضرورت ہے جیساکہ مولانا ابوالکلام آزاد نے آج سے تقریبا ساٹھ ستر سال پہلے اس کو سمجھا اور کھل کر گفتگوکی لیکن ساٹھ سترسال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی ہمارے علوم اسلامیہ کی تدریس اور تعلیم کاطریقہ وہی ہے جو آج سے قبل تھا، اس کو آسمانی وحی سمجھکر اس میں تبدیلی کو ناقابل برداشت تصور کیاجاتاہے۔ اور اگر کوئی نبض شناس اس پر لب کشائی کرتاہے تو اس کو اسلاف کی نہج سے برگشتہ کرنے والا تصور کیا جاتا ہے۔
مدارس اسلامیہ کی تعلیم کا اصل مقصداسلامی علوم کی افہام وتفہیم ہے، لیکن ان علوم تک رسائی حاصل کرنے کے لئے ہمیں چندایسے علوم اختیار کرنے پڑتے ہیں( جنہیں ہم علوم آلیہ کے نام سے تعبیرکرتے ہیں) ان کے بغیر اصل مقصد تک رسائی ناممکن ہے۔ یہ علوم صرف ایک وسائل تھے نہ کہ اصل مقصد، لیکن افسوس ان فنون آلیہ کو ہی آج ہم نے اصل مقصد بنادیاہے۔ بقول مولانا آزاد” ان فنون آلیہ کی تعلیم جو ہمارے مدارس میں دی جارہی ہے وہ صحیح نہیں ہے اور جو کام تھوڑے وقت میں کیاجاتا ہے اس کام کو ہم زیادہ وقت میں کررہے ہیں اور بہتر نتیجہ نہیں نکل رہاہے تو کوئی فائدہ نہیں۔“
مزید وسیلے کو مقصد بنانے کے متعلق فرمایا ہے کہ” بد قسمتی یہ ہے کہ ہر گوشے میں سب سے پہلی ٹھوکر جو انسانی دماغ کولگتی ہے وہ یہ کے جس چیز کو اس نے بطور وسیلے کے پکڑا تھااس نے اسے مقصد بنالیا، اس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ علم وحقیقت کے ہرصیغے میں ہم مقصد سے اتنا دور چلے جاتے ہیں کہ ہم کسی حالت میں بھی اس کے نزدیک نہیں پہونچ سکتے۔“
فنون آلیہ کو جتنا آسان اور سہل ہونا چاہیے اتنا ہی ہم نے اس کو پیچیدہ بنادیا جس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ دماغ کی ساری توانائی فنون آلیہ کے حصول میں صرف ہوجاتی ہے اور اصل مقصد کو سرسری طور پر گزار دیا جاتا ہے۔
مولانا ابوالکلام آزاد نے ہندوستان کے عربی مدارس میں رائج فنون آلیہ کی طریقہ تعلیم کوا ن الفاظ بیان کیاہے۔
” طالب علموں پر دوسری جگہ دوبوجھ ڈالے جاتے ہیں(پہلابوجھ خود عربی زبان کا اور دوسرا بوجھ خود کتاب کا ) لیکن ہمارے ہندوستان میں طالب علم پر تین بوجھ ڈالے جاتے ہیںپہلابوجھ عربی زبان کا،دوسرا بوجھ کتاب کا اور اس میں لکھی گئی عبارت کااورتیسرا بوجھ اس زبان کے سیکھنے کا جو اس کی مادری زبان نہیں ہے۔ ہماراپورانا طریقہ یہ تھا کہ عربی صرف ونحو اور گرامر میزان ومنشعب ،صرف میر اور نحومیر سے شروع ہوتی تھی (جوفارسی زبان میں تھی) او رجس زمانہ کے لئے یہ لکھی گئی تھیں اس زمانہ کے لئے صحیح تھیں کیونکہ فارسی زبان اس زمانہ میں عام تھی۔( لیکن آج بھی اگر آپ میزان ومنشعب سے شروع کراتے ہیں جو فارسی زبان میں ہے) اور فارسی زبان اس کے لئے ایک اجنبی زبان ہے جبکہ اس کی مادری زبان اردو ہے، تو آپ اس پر ایک ہی وقت میں تین بوجھ ڈال رہے ہیں۔ پہلابوجھ وہ فارسی عبارت کو حل کرے جواس کے لئے بالکل بیگانہ زبان ہے، دوسرا بوجھ وہ کتابیں اور رسائل ہیں جو اس ڈھنگ پر نہیں لکھے گئے ہیں جو فن تعلیم کے لحاظ سے آسان، سہل اور سمویا ڈھنگ ہوناچاہیے اور تیسرا بوجھ عربی صرف ونحو کے سمجھنے کا تو اب آپ غور کیجیے کہ اس کا دماغ ایک ہی وقت میں کتنی قوتوں میں ضائع کررہے ہیں۔ اس کی ساری دماغی قوت تین خانوں میں بٹ رہی ہے۔ فارسی زبان کا سمجھنا، عبارت کاحل کرنا، اور عربی گرامر یعنی صرف ونحو کے مسائل کو سمجھنا اور حل کرناہے۔ان تین خانوں میں اس کا دماغ بٹ جاتاہے جس کی وجہ سے اس کی دماغی قوت منتشر ہوجاتی ہے اور وہ عربی صرف ونحو کو اپنے دماغ میں راسخ نہیں کرپاتاہے۔“
مذکورہ مضامین کی بحث کا نتیجہ بیان کرتے ہوئے مولانا نے فرمایا کہ” عربی صرف ونحو کی پہلی کتاب اردو میں ہونی چاہیے بلکہ جتنے بھی فنون آلیہ ہیں ان کی پہلی کتاب اردو میں ہونی چاہیے تاکہ بیک وقت حل زبان، حل عبارت اور حل موضوع کا بوجھ اس کے اوپر نہ پڑے۔“
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ مولانا ابوالکلام آزاد کے نظریۂ تعلیم پر غور وفکر کرکے اسلامی علوم کی تدریس اور طریقہ تعلیم کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کریں اورایسے افراد تیارکریں جوصحیح معنوں میں امت مسلمہ کی قیادت کا بار پوری امانت اور دیانت داری سے اٹھاسکےں اورقوم وملت کی کھوئی ہوئی شان واپس دلانے میں اہم رول اداکریں۔
(مضمون نگار ماہنامہ پیام سدرہ چنئی کے ایڈیٹر ہیں)