ماسکو مذاکرات: ہندوستان کا اعتراف ــ امریکہ کی شکست 

پس آئینہ: شمس تبریز قاسمی 

طالبان کی حکومت کو ہندوستان نے تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے اپنا سفارت خانہ وہاں بندکردیاتھا ۔دنیا کے صرف تین ممالک پاکستان ۔متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے 1996میں افغانستان کی طالبان حکومت کو تسلیم کیاتھا۔ 1994 میں ہندوستان نے طالبان کے خلاف برسر پیکار اتحاد کی مالی مدد بھی کی تھی ۔ لیکن اب ہندوستان نے اپنا نظریہ کسی حدتک تبدیل کرتے ہوئے طالبان کو تسلیم کرلیا ہے ۔ 9 نومبر 2018 کو روس کی راجدھانی ماسکو میں ہونے والی امن مذاکرت میں دنیا کے بارہ ممالک کے ساتھ ہندوستان نے بھی شرکت کی ۔امریکہ ،چین اور فرانس کے نمائندہ کے علاوہ افغان کی امن کونسل کے وفد نے بھی اس میں حصہ لیا ۔ ہندوستان کی طرف سے حصہ لینے والے امور خارجہ کے ماہرین امر سنہا سابق سفیر برائے افغانستان اور ٹی سی اے راگھو سابق کمشنر برائے پاکستان شامل تھے ۔ یہ دونوں فی الحال ریٹائرڈ ہیں لیکن حکومت کی زیر نگرانی چلنے والے ایک تھنک ٹینک ادارہ سے وابستہ ہیں ۔حکومتی ذرائع کے مطابق ہندوستان کی شرکت غیر رسمی تھی اور وزرات خارجہ کی طرف سے تھی ۔

اس سے قبل 1999 میں بھی ہندوستان نے ایک مجبوری کے تحت طالبان ہائی کمان سے ملاقات کرنے کی کوشش کی تھی لیکن ممکن نہیں ہوپایا ۔ 1999 میں طالبان کے افراد نے ہندوستانی طیارہ آئی سی ۔814 کو اغواکرلیا تھا ۔ تقریباً دوسو ہندوستانی شہری طالبان کی قیدمیں قندھار میں تھے ۔ اس صورت حال سے نمٹنے اور طالبان سے بات چیت کیلئے وزارت خارجہ کے انچارج وویک کاٹجو برائے افغانستان، ایران اور پاکستان کابل ایئر پورٹ پر موجود تھے ۔ اسی دوران اس وقت کے وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے ان سے کہاکہ ہم طالبان سربراہ ملاعمر سے بات کرنا چاہتے ہیں آپ وزیر خارجہ وکیل احمد متوکل سے رابطہ کریں ۔ طالبان کے وزیر خارجہ وکیل احمد نے فوراً کہاکہ ہاں ! کیوں نہیں ؟ میں ملاعمر سے رابطہ کر رہاہوں لیکن اس کے کچھ دیر بعد ہی وکیل احمد کا جواب آیاکہ معذرت ! آپ قندھار کیلئے روانہ نہیں ہوسکتے ہیں ۔ بالآخر طالبان کی شرطوں کے مطابق ہندوستان مولانا مسعود اظہر سمیت تین قیدیوں کو رہا کرتے ہوئے قندھار پہونچایا جس کے بعد اغوا شدہ طیارہ ہندوستان کے حوالے کیا گیا ( انڈین ایکسپریس 14نومبر 2018)

نائن الیون حملہ کے بعد اکتوبر 2001 میں اقوام متحدہ سمیت دنیا کے 56 ممالک کے ساتھ امریکہ نے افغانستان پر حملہ کرکے طالبان کی حکومت کو ختم کردیا ۔ اس کے بعد اسی سال دسمبر میں حامد کررزئی وہاں کے صدر بنائے گئے جس کی حلف برداری تقریب میں سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے بھی شرکت کی ۔ پانچ سالوں بعد 2006-7 میں ہندوستان نے دوبارہ وہاں اپنے مشن کی شروعات کی ۔ پاکستان کے مقابلے میں افغانستان اور ہندوستان کی قربت بڑھتی رہے ۔ حالیہ دنوں میں افغانستان اور پاکستان کے درمیان ویسا ہی رشتہ ہے جیسا ہندوستان اور پاکستان کے درمیان دوسری طرف ہندوستان بنگلہ دیش کے ساتھ افغانستان کو بھی قریب بنانے کی کوشش کر رہا ہے ، کابل میں افغان پارلیمنٹ کی تعمیر ہندوستان نے کرایا ۔ دسمبر 2015 میں وزیر اعظم مودی کے ہاتھوں اس کا افتتاح عمل میں آچکا ہے لیکن چین ہندوستان کے اس تعلق کی راہ میں بھی روڑا اٹکاکر مودی سرکار کی خارجہ پالیسی کیلئے دردسر بن چکا ہے، بہر حال اس موضوع پر کسی دوسرے کالم میں بات ہوگی۔

افغان طالبان کے خلاف جاری جنگ کے 18 سال مکمل ہوچکے ہیں ۔اس مدت میں امریکہ سمیت پوری دنیا نے اعتراف کرلیا ہے کہ طالبان ناقابل شکست ہے اور امریکہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتا ہے ۔سب سے پہلے اس حقیقت کا اعتراف 2009 میں افعانستان میں امریکی فوجی سربراہ جنرل میک کرسٹل نے کرتے ہوئے کہاتھا کہ’’ طالبان کی پوزیشن دن بہ دن مضبوط ہوتی جا رہی ہے اگر امریکا نے 45000 مزید فوج افغانستان روانہ نا کی تو خدشہ ہے کہ ایک سال کے اندر اندر اتحادی افواج کو شکست کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ‘‘ ۔ ستمبر 2009 میں ہی اتحادی فوج کے ایک کانوائے پر طالبان کے ایک حملے میں اٹلی کے 6 فوجیوں کے ہلاک ہوجانے پر اٹلی کے وزیر اعظم نے اتحادی ممالک پر زور دیا کہ ان کی بہتری اسی میں ہے کہ وہ جلد از جلد اپنی افواج افغانستان سے نکال لیں۔ اس کے بعد رفتہ رفتہ برطانیہ فرانس روس سبھی نے یہی کہاکہ مذاکرت کے علاوہ کچھ اور مسئلے کاحل نہیں ہے ،2018 میں ہندوستان بھی اب مذاکرات کا قائل ہوگیا ہے ۔

امریکہ کی عوام اس جنگ کے خلاف ہے اور امریکہ کی شکست کا اعتراف اس نے کرلیا ہے، واشنگٹن پوسٹ کی ایک سروے رپوٹ کے مطابق 49 فیصد شہری افغانستان میں امریکی جنگ کو ناکام سمجھتے ہیں جبکہ 16 فیصد شہریوں نے کوئی رائے نہیں دی تاہم 35 فیصد شہری امریکی جنگ کو کامیاب سمجھتے ہیں۔ 2006 میں 60 فیصد شہری امریکی افواج کی افغانستان میں کامیابی پر یقین رکھتے تھے جبکہ 20 فیصد کی رائے تھی کی یہ افغانستان میں امریکی فوج کا ہونا غلط فیصلہ ہے۔ اسی طرح 2002 میں 83 فیصد امریکیوں کی رائے تھی کہ امریکی فوج کا افغانستان میں طالبان کے خلاف کریک ڈاؤن درست فیصلہ ہے۔ بی بی سی کی ایک رپوٹ کے مطابق طالبان کے خلاف جنگ میں سالانہ 45 ارب ڈالر کا خرچ امریکہ برداشت کررہا ہے جس سے اس کی معیشت بھی کمزور ہوچکی ہے ۔ کامیابی امکانات دور دورتک نظر نہیں آرہے ہیں ۔ اربوں ڈالر کے اخراجات نے حکومت اور عوام دونوں کو پریشان کردیاہے ایسے میں امریکہ اپنی کامیابی اب وہاں سے نکل جانے میں ہی سمجھتاہے ۔

تجزیہ نگاروں اور ماہرین کا مانناہے کہ طالبان کو امریکہ کبھی بھی شکست نہیں دے سکتا ہے ۔ طالبان کے عزائم اور حوصلے کے ساتھ جغرافیائی نقطہ نظر سے وہاں کا خطہ اور علاقہ ایسا ہے جس میں گوریلا جنگ لڑنے والے ہی کامیاب ہوتے ہیں ۔ اس خطے میں اسی گوریلا جنگ کو اپناکر پہلے بھی کئی حملہ آوروں کو شکست دی گئی ہے ۔ طالبان خودکش حملہ کو اپنا سب سے زیادہ مضبوط ہتھیار سمجھتے ہیں جبکہ امریکی افواج جدید ترین ہتھیار سے لیس ہونے کے باوجود بھی مقابلہ کرنے میں ناکام ہوجاتی ہے ۔

طالبان کے خلاف امریکی جنگ میں یہ خطہ تشدد اور انسانی بحران کا شدید شکار ہوگیا ہے ۔ غربت کے اعتبارسے غریب ممالک کی لسٹ میں سر فہرست ہے ۔کوئی معقول نظام تعلیم نہیں ہے ۔ملازمت کی شرح بھی تشویشناک ہے ۔صرف 28 فیصد وہاں تعلیم ہے۔ خواتین سب سے زیادہ تشدد کاشکار ہیں۔ ہرپانچویں خاتون کی زچگی کی حالت میں موت جاتی ہے ۔صحت کا کوئی انتظام نہیں ہے ۔سب سے بڑانقصان بے گناہوں کی موت کا ہواہے ۔امریکہ کی براؤن یونیورسیٹی نے 2016 میں اپنی ایک جائزہ رپوٹ پیش کی تھی جس کے مطابق افغانستان میں اب تک دو لاکھ سے زائد بے گناہوں کی موت ہوچکی ہے ۔ دوسرے سروے اور رپوٹ میں امریکہ اور طالبان کے مشترکہ حملوں میں مرنے والوں کی تعداد گیارہ لاکھ تک بتائی گئی ہے ۔ اس رپوٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سات ہزار امریکی فوج بھی ماری گئی ہے ۔

ہندوستان کے سابق خارجہ سکریٹری اور قومی سلامتی مشیر شیوشنکر مینن کا مانناہے کہ’’ پرتشدد نظریات اور مذہبی بنیادوں پر قائم گروپ کو میدان جنگ میں شکست نہیں دیاجاسکتاہے ‘‘۔ طالبان کے ساتھ مذاکرت میں ہندوستان کی شرکت قابل ستائش ا ور قیام امن کی بہتر کوشش ہے ۔ بعض قومی اور بین لاقوامی تجزیہ نگار ہندوستان کے اس اقدام کی تنقید بھی کررہے ہیں لیکن مثبت پہلو یہی ہے کہ ہندوستان نے قیام امن کیلئے ایک بہتر قدم اٹھایا ہے ۔ اگر طالبان اور افغان حکومت کے درمیان بات چیت کے ذریعہ مسئلہ حل ہوجاتاہے تو وہاں کے حالات میں بہتری شروع ہوجائے گی اور پورے خطے کیلئے یہ سومند ثابت ہوگا ۔اسی راستہ کو اپناتے ہوئے ہندوستان کی موجودہ حکومت کو چاہیئے کہ وہ کشمیر میں بھی جارحیت کے بجائے مذاکرات کی پالیسی کو اپنائے ،وہاں کی مذہبی اور دیگر تنظیموں کے ساتھ ٹیبل دسکشن کرکے وہاں امن قائم کرنے کا فریضہ انجام دے ۔

(مضمون نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر اور تجزیہ نگار ہیں)

stqasmi@gmail.com