اسد الدین اویسی! زمانہ یاد رکھے گا تری جرأت کے افسانے

اظہار الحق اظہرؔ قاسمی بستوی

قطع نظر اس کے کہ مجلس اتحادالمسلمین کے صدر اور حیدرآباد کے ایم پی بیرسٹر اسدالدین اویسی سیاست میں کتنے کامیاب ہیں اور سیاست میں وہ کس حد تک آگے جائیں گے لیکن ان کی جرأت ،عزم و استقلال، ان کے انداز تخاطب ،ان کی عالی ہمتی اور بے خوفی کو بے اختیار سلام کرنے کو جی چاہتاہے کہ اللہ تعالی اس گئے گذرے عہدمیں بھی ایسے جواں مردوں کو رکھے ہوئے ہیں جو حق کی بات ظالموں کے سامنے کہنے میں کسی طرح کی جھجھک اور عار محسوس نہیں کرتے اور نبی ﷺ کے قول ’ افضل الجھاد کلمۃ حق عند سلطان جائر‘کہ سب سے عظیم جہاد ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کہہ دینا ہے‘ کے صحیح مصداق ہیں۔ جنھوں نے ہرموقعے اور ہرموڑ پراسلام کا دامن تھام رکھاہے اور ملامت کرنے والوں کی ملامت کو پس پشت ڈال دیا ہے۔

مثال کے طور پر تبدیلی مذہب کے عنوان پر لب کشائی کرتے ہوئے بیرسٹر محترم پارلیمنٹ میں اس طرح گویا ہوتے ہیں ‘’یہ بجرنگ دل اور آر ایس ایس کے لوگ آپ کے لوگ ہیں ہم ان سے ڈرنے والے نہیں۔ ہم اپنے مذہب پرچلیں گے۔ ہمیں جتنا فخر ہندوستانی ہونے پر ہے اتنا فخرمسلمان ہونے پر بھی ہے۔ نہ عیسائی ڈریں گے نہ مسلمان ڈریں گے۔ آپ لاکھ کوشش کرلیجئے ہم اپنا مذہب تبدیل کرنے والے نہیں ہیں۔ ملک کو بچانا ہے ملک کومضبوط کرنا ہے تو اپنے جوکروں کو روکو، اپنے چمچوں کو روکو تب ملک بچے گا ۔شکریہ‘۔

پارلیمنٹ کے اند ر موصوف کی حق گوئی و بے باکانہ للکار آئے دن مشاہدہ میں آتی رہتی ہے۔ اور ہندوستان کا ایک بڑا طبقہ آپ کے خیالات و افکار کو اپنی ترجمانی سے تعبیر کرتا ہے۔

 رجت شرماکے ساتھ انٹرویومیں یوں کہتے ہیں’ملک سے ہمارانہ کوئی جھگڑا ہے اور نہ ہوگا ان شاء اللہ تعالی۔ یہ ملک ہمارا تھا ہمارا ہے اور ہمارا رہے گا۔ اس ملک کیDiversity (تنوع) ہی اس کی طاقت ہے۔ ایک لڑکی کے اس سوال پر کہ سارے دہشت گرد مسلمان ہی کیوں ہوتے ہیں کے جواب میں نہایت سادگی کے ساتھ جواب دیتے ہوئے یوں لب کشاہوتے ہیں’ مہاتما گاندھی کو جس نے مارا وہ مسلمان تھا کیا؟ اندرا گاندھی کو جس نے مارا وہ مسلمان تھا کیا؟ بابری مسجد کو جس نے شہید کیاوہ مسلمان تھا کیا؟ دہلی کی سڑکوں پر سکھوں کی گردنیں کاٹنے والے مسلمان تھے کیا؟ گجرات کے گلی چوں میں لوگوں کو قتل کرنے والے مسلمان تھے کیا؟ میری بہن !میں آپ سے گذارش کررہا ہوں کہ آپ ایسا مت سوچئے ۔ برائی برائی ہوتی ہے اس کو آپ مذہب کے نقطہ نظر سے مت دیکھئے۔ ماوواد سے ہمارا کیاتعلق ہم تو ہر تشد د کی مذمت کرتے ہیں‘ ۔ یا دارالسلام کے جلسے میں یہ کہناکہ’ اصل گھرواپسی تو اسلام کی طرف آنا ہے کیوں کہ ہربچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے‘۔ جس کی وجہ باطل عناصر میں خوب کھلبلی مچی ۔

موصوف کے روز مرہ کے ٹی وی ڈبیٹ اور انٹرویو کو دیکھ کر بے اختیار دعانکل جاتی ہے کہ اسد! اللہ تجھے سلامت رکھے۔ تو اس وقت ہندوستانی مسلمانوں کا جانباز اور حقدار ترجمان ہے۔ تو نے ہرجگہ اور ہرموقع پر اسلام اور اس ملک کے دستور کی وکالت کی ہے اور ڈنکے کی چوٹ پر کی ہے۔

تین طلاق کےمخالف 28 دسمبر 2017 کو پارلیمنٹ میں پیش کیے جانے والےپہلے ٹرپل طلاق بل کا اسدالدین اویسی نے جس ہمت وپامردی اور دلائل وبراہین کے ساتھ رد کیا تھا وہ قابل دید و قابل ملاحظہ ہے۔ انھوں نے خوب جم کرمخالفت کی اور دلائل وبراہین سے مدلل گفتگو کی اور بہرحال ان کی آواز آسمان والے کے یہاں سنی گئی اور بل راجیہ سبھا میں پاس نہ ہو پایا۔ موصوف اس دن تن تنہا مورچا لیے ہوئے ہے ۔ اور انھوں نے اپنے جلسوں میں اپنے اس اکیلے پن کا باربار اظہار بھی کیاجس نے ہر مرد مومن کے دل پر اثر کیا..

اور پھر آج بتاریخ 27 دسمبر 2018 کو اسدالدین اویسی نے جس طرح سے بل کو مسترد کیا کی اس کی داد دیے بغیر نہیں رہاجاسکتا۔ بیرسٹر نے آئین ہند کا حوالہ دے کر اسے مذہبی آزادی میں مداخلت قرار دیا اور کہا کہ میں ایک باپ، ایک بھائی، ایک چاچا اور بیٹا ہونے کے ناطے اس ایوان کے ذریعےحکومت کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہندوستان کی صد فیصد مسلم خواتین اس بل کی پرزور مخالفت کرتی ہیں اور اسے ریجکٹ کرتی ہیں۔ انہو ں نے کہاکہ آئین ہند کی دفعات 14؍15؍26؍اور 29کے تحت جو مذہبی آزادی کی گارنٹی دی گئی ہے یہ بل ان کے خلاف ہے اس لیے میں اس کی مخالفت کرتا ہوں۔ انھوں نے اپنے نرالے اور پرجوش انداز میں آگے کہاکہ :اس حکومت کی وہ کون سی مجبوری ہے کہ یہ ہم جنسی اور زناکاری کو جرم کی فہرست سے نکال دیاگیاپر آپ اس کی مخالفت نہیں کرتے لیکن آپ ٹرپل طلاق کے خلاف ہیں اور اسے قابل سزاجرم اس لیے سمجھتے ہیں کیو ں کہ یہ مسئلہ ہم سے جڑا ہوا ہے۔ انہوں نے کہاکہ یہ قانون آئین کے خلاف ہے اورمختلف قوانین اور نقطہائے نظر کا حوالہ دیتے ہوئے وزیر قانون کو کچھ قانون کی کتابیں پڑھنے کا بھی مشورہ دے ڈالا تاکہ انھیں کچھ مبادیات قانون معلوم ہو جائیں.. سابری مالامندر کا حوالہ دیتے ہوئےجب وہ یہ سوال پوچھ رہے تھے تو منظر دیدنی تھا:کہ کیاآپ کا عقیدہ تو آپ کا ہوگااور میراعقیدہ میرانہیں ہوگا؟ انھوں نے یہ سوال بھی چست کرنے میں کوئی دقیقہ نہ اٹھا رکھاکہ ہمارے ملک میں طلاق کے قانون میں اگر کوئی ہندو طلاق دیتا ہے تو اسے ایک سال کی سزا کیوں ہے، اور مسلمان کو تین سال کی سزا کیوں؟ کیا یہ آرٹیکل 14 کا غلط استعمال نہیں ہے؟ انہوں نے اس موقع پر ایم جے اکبر کے خلاف گزشتہ دنوں چھڑی می ٹو مہم کا حوالہ دیتے ہوئے حکومت کے ان کے ساتھ نرم رویے کا بھی خوب استہزاء کیا اور مرکزی وزیر مختار عباس نقوی پر بھی طنز کسا۔ انہوں نے ببانگ دہل یہ بھی کہاکہ طلاق کے تعلق سے حکومت کے ارادے نیک نہیں ہےاور یہ بھی کہا کہ جب سپریم کورٹ نے کہدیا ہے کہ اس سے شادی نہیں ٹوٹتی تو پھر آپ کس بات کی سزا دے رہے ہیں؟ انہوں نے کہاکہ ٹرپل طلاق بل کامقصد صرف مسلمانوں کو پریشان کرنا ہے اور انہیں جیل بھیجوانا ہے۔ انہوں نے سائرہ بانو کے تعلق سے کہا کہ وہ تو بی جے پی میں چلی گئی آپ کی حکومت نے اس کےلیے کیا کیا؟ شادی ایک معاہدہ ہے کو مبرہن کرتے ہوئے مسٹر اویسی نے نہایت شاندار تجویز پیش کی۔حکومت کے اٹارنی جنرل کا حوالہ دیتے ہوئے حکومت کے برے عزائم کو بے نقاب کیا۔

موصوف اویسی جی نے اپنی گفتگو میں ایوان زیریں اندر قرآن کے حوالے سے باتیں پیش کرنے والوں اور والیوں کو دعوت توحید وختم نبوت بھی دے ڈالا۔ اور پھر اختتام تو اتنا شاندار رہا کہ بس کیا پوچھنا۔انھوں نے اخیرمیں کہاکہ میڈم! میں آپ کے واسطے سے حکومت کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کے قانون سے ، آپ کے دباؤ سے ، آپ کے زور سے، آپ کے جبر سے ہم اپنے مذہب کو نہیں چھوڑیں گے۔ جب تک دنیا باقی رہے گی ہم مسلمان بن کر شریعت پر چلتے رہیں گے ۔ ہم اس بل کو ریجیکٹ کرتے ہیں۔

واہ اویسی صاحب! آپ نے اس ایوان بھی اسلام کی حقانیت کا ببانگ دہل اعلان کیا اور واقعی حق ادا کردیا۔ اور مجھے اور مجھ جیسے کروڑوں لوگوں کا یہ یقین ہے کہ جب تک آپ جیسے باہمت اور سمجھدار اور غیور مسلمان اس ملک میں اور ایوانوں میں موجود رہیں گے اسلام کی آواز کو دبایا نہیں جاسکے گا ۔ ان شاء اللہ 

دعاگو ہوں کہ اللہ آپ کو قدم بقدم ترقی دے اور ہندوستان کی سیاست کے آسمان کا چمکتا ماہتاب اور دمکتا آفتاب بنائے اور ہرطرح دشمنوں کے شرور و فتن سے محفوظ رکھے۔ اقبال مرحوم نے آپ ہی جیسے لوگوں کے لیے کہا تھا:

آئین جوان ِمرداں حق گوئی وبے باکی

اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی

کسی اورشاعر کے یہ اشعاربھی ایسے ہی جانبازوں اور باہمت و باغیرت لوگوں کے لیے کہے گئے ہیں:  

سفینہ جو اپنا جلانے چلا ہے

وہ دین نبی کو بچانے چلا ہے

اسے دیکھ کر تو فرشتے ہیں حیران

وہ اپنے لہو میں نہانے چلا ہے

وہ راہ خدا میں پلٹ کے نہ دیکھے

وہ سب کچھ تو اپنا لٹانے چلا ہے

وہ خالد کا وارث وہ طارق کا ثانی

سبق وہ شجاعت کا پڑھانے چلا ہے

بہا کر لہو اپنے قلب و جگر کا

وہ گلشن نبی کا سجانے چلا ہے

بہت ہیں پریشاں یہ ظالم یہ جابر

وہ ظلم و ستم کو مٹانے چلا ہے

عزائم ہیں اس کے پہاڑوں سے اونچے

وہ مغرور سر کو جھکانے چلا ہے

جو بندوں کو رب سے نہ ملنے کبھی دے

وہ دیوار باطل گرانے چلا ہے

وہ قرآن کا داعی وہ دین کا سپاہی

خلافت کا منظر دکھانے چلا ہے

ستارے بھی تکتے ہیں راہیں جو اس کی

حجازیؔ بھی پلکیں بچھانے چلا ہے

 

★ استاذ مدرسہ عربیہ قرآنیہ اٹاوہ، یوپی