بنگلہ دیش عام انتخابات: وسیع پیمانے پر دھاندلی کے الزامات اور تشدد کے واقعات میں پندرہ افراد ہلاک

بنگلہ دیش 16 کروڑ آبادی والا مسلم اکثریتی ملک ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے خطرناک اثرات سے لے کر غربت و افلاس اور بدعنوانی کے مسائل سے نبرد آزما ہے
ڈھاکہ(آئی این ایس انڈیا)
بنگلہ دیش میں الیکشن کمیشن نے اتوار کو ہونے والے عام انتخابات میں ملک کے طول و عرض سے لگائے جانے والے دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات شروع کر دی ہے دوسری طرف انتخابی عمل کے دوران میں تشدد کے واقعات میں 15 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔الیکشن کمیشن کے ایک ترجمان کے حوالے سے برطانوی خبر رساں ادارے روائٹرز نے اطلاع دی ہے کہ اگر دھاندلی کے الزامات کی تصدیق ہو گئی تو الیکشن کمیشن چارہ جوئی کرے گا۔بی بی سی کے بنگلہ سروس کے مطابق ملک کے مختلف علاقوں میں پولنگ کے دوران ہونے والے پرتشدد واقعات میں اب تک 15 افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق ہو گئی ہے۔حزب اختلاف کی بڑی جماعت بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کا کہنا کہ ڈھاکہ میں پارٹی کے مرکزی امیدوار کو چاقوں کا وار کر کے زخمی کر دیا گیا۔رائٹرز نے پولیس حکام سے بات کر کے خبر دی ہے کہ حزب اختلاف کے امیداور صلاح الدین احمد پر حملے کی تفصیلات سامنے نہیں آ سکی ہیں۔دریں اثنا انتخابی کمیشن کے ترجمان ایس ایم اسدالدین زمان نے کہا ہے اگر کمیشن کے اپنے ذرائع نے دھاندلی کے الزامات کی تصدیق کردی تو قواعد و ضوابط کے تحت کارروائی کی جائے گیروائٹرز نے اپنے نامہ نگاروں کے حوالے سے کہا ہے کہ ان انتخابات میں پولنگ کا تناسب کم رہنے کا امکان ہے۔ تجزیہ کارروں کے مطابق ان انتخابات میں شیخ حسینہ واجد کی کامیابی کے قوی امکانات ہیں جس کے بعد وہ تیسری مرتبہ منتخب ہونے والی وزیر اعظم بن جائیں گی ۔انتخابات کے دوران تشدد کے خدشات کے پیش نظر ملک گیر پیمانے پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے تھے اور تقریباً چھ لاکھ سکیورٹی اہلکاروں کو ملک کے طول و عرض میں تعینات کیا تھا۔سکیورٹی خدشات کے باعث ملک بھر میں بڑی تعداد میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہے۔انتخابات میں تقریباً دس کروڑ لوگ ووٹ دینے کے اہل ہیں۔ان انتخابات میں وزیر اعظم شیخ حسینہ کے جیتنے کے امکانات روشن ہیں کیونکہ ان کی اہم مخالف بیگم خالدہ ضیا بدعنوانی کے الزامات میں جیل میں ہیں۔ایک اہلکار نے بتایا ہے کہ ووٹنگ کے اختتام تک ہائی سپیڈ موبائل اور انٹرنیٹ مواصلات کو بند کر دیا گیا تھا تاکہ افواہوں اور پروپگینڈا کے نتیجے میں کوئی بدامنی نہ پیدا ہو سکے۔ووٹنگ سے تھوڑی دیر قبل بی بی سی کے ایک نامہ نگار نے چٹاگانگ (لکھن بازار، چٹاگانگ، حلقہ 10) میں ایک بیلٹ باکس کو ووٹوں سے بھرا ہوا پایا۔جب اس بوتھ کے پریزائڈنگ آفیسر سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو انھوں نے جواب دینے سے انکار کر دیا۔ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہر کے اس پولنگ سٹیشن پر صرف سرکاری پارٹی کے نمائندے تھے اور یہی حال کئی دوسرے پولنگ اسٹیشنوں کا تھا۔بنگلہ دیش 16 کروڑ آبادی والا مسلم اکثریتی ملک ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے خطرناک اثرات سے لے کر غربت و افلاس اور بدعنوانی کے مسائل سے نبرد آزما ہے۔جولائی سنہ 2016 میں دارالحکومت ڈھاکہ میں ایک بڑی بیکری پر دولت اسلامیہ کی جانب سے کیے جانے والے دھماکے کے بعد سے حکومت نے اسلام پسند عسکریت کے خلاف انتہائی سختی کا مظاہرہ کیا ہے۔یہ ملک حال میں پڑوسی ملک میانمار کے لاکھوں روہنگیا مسلمان پناہ گزینوں کے سبب سرخیوں میں رہا ہے۔ حکومت کی بین الاقوامی سطح پر ان لوگوں کو ملک میں پناہ دینے کے قدم کی تعریف کی گئی ہے لیکن انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے اس کی سخت تنقید بھی کی جا رہی ہے۔یہ انتخابات دسیوں ہزار نوجوانوں کے مظاہرے کے بعد ہو رہے ہیں جس میں انھوں نے سڑک پر ہونے والی اموات کے خلاف احتجاج کیے تھے۔ یہ بنگلہ دیش کے نوجوانوں کی جانب سے ?غصے کے اظہار کا غیر معمولی اقدام تھا جسے حکام اور حکومت نواز گروپوں نے سختی سے دبا دیا تھا۔ایک 17 سالہ لڑکے نے اگست میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا: ‘ہم صرف اتنا چاہتے ہیں کہ بدعنوانی ختم ہو اور بتاشے کی طرح لائسینس دینا بند ہو۔پر تشدد واقعات کے ساتھ انتخابی مہم کا آغاز ہوا اور حکومت نے اپنے مخالفین کی آواز دبانے کے لیے ان پر کریک ڈاو¿ن کیا۔ اس حکومت کے بارے میں ناقدین کا خیال ہے کہ یہ گذشتہ دس برسوں میں مزید آمریت پسند اور استبدادی ہوئی ہے۔شیخ حسینہ عوامی لیگ کی سربراہ ہیں اور اس پارٹی کا سنہ 2009 سے ملک میں اقتدار جاری ہے۔ وہ تیسری بار عہدے کے لیے انتخابات لڑ رہی ہیں۔ان کے والد شیخ مجیب الرحمان جو ملک کے پہلے صدر تھے انھیں آزاد بنگلہ دیش کا بانی کہا جاتا ہے۔ انھیں سنہ 1975 میں قتل کر دیا گیا تھا۔خالدہ ضیا کی نیشنل پارٹی (بی این پی) نے سنہ 2014 میں گذشتہ عام انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا کیونکہ عوامی لیگ نے ایک نگراں حکومت کے زیر انتظام انتخابات کرانے سے انکار کر دیا تھا۔اب بہت سے تجزیہ نگار اس فیصلے پر سوال کرتے ہیں کہ آیا وہ ہوشمندانہ فیصلہ تھا! پارٹی سربراہ خالدہ ضیا کو رواں سال بدعنوانی کے الزامات میں جیل بھیج دیا گیا ہے جبکہ ان کا کہنا ہے کہ یہ سیاسی انتقام ہے۔ان کے تازہ جرم کے تحت انھیں رواں انتخابات میں انتخاب لڑنے سے بھی روک دیا گیا ہے۔خالدہ ضیا کی عدم موجودگی میں عوامی لیگ کے سابق وزیر اور شیخ حسینہ کے حلیف کمال حسین حزب اختلاف جاتیہ اویکیا فرنٹ کی رہنمائی کر رہے ہیں جس میں بی این پی بھی شامل ہے۔بہر حال 81 سالہ وکیل جنھوں نے ملک کے آئین کی تشکیل کی ہے وہ ان انتخابات میں امیدوار نہیں ہیں۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر حزب اختلاف کی جیت ہوتی ہے تو کون ان کا سربراہ ہوگا۔بہت سے سرگرم کارکنوں، مبصرین اور حزب اختلاف کے رہنماو¿ں کا پولنگ سے قبل کہنا تھا کہ یہ انتخابات صاف شفاف نہیں ہوں گے۔بی این پی کی قیادت والے حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ اگر انتخابات واقعی صاف شفاف ہوئے تو عوامی ل?گ کو اکثریت حاصل نہیں کر سکے گی۔انسانی حقوق کے عالمی ادارے ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ ووٹنگ سے قبل حکومت نے دھمکانے کی مہم کا سہارا لیا ہے۔ادارے کے ایشیا ڈائریکٹر بریڈ ایڈمز نے کہا: ‘حزب اختلاف کے اہم ارکان اور حامیوں کو گرفتار کر لیا گیا، بعض کو قتل کیا گیا ہے جبکہ بعض لا پتہ بھی ہیں جس سے خوف اور گھٹن کا ماحول پیدا ہوا اور یہ کسی بھی قابل اعتبار انتخابات سے ہم آہنگ نہیں ہے۔بی این پی کا کہنا ہے کہ ان کے ہزاروں ارکان اور رضاکاروں کے خلاف گذشتہ سال پولیس مقدمات درج کیے گئے ہیں۔حکومت نے حزب اختلاف کو نشانہ بنانے کے الزامات کو مسترد کیا ہے۔جمعے کو شیخ حسینہ نے بی بی سی کو بتایا: ‘ایک جانب تو الزامات لگا رہے ہیں اور دوسی جانب وہ ہماری پارٹی کے ارکان اور رہنماو¿ں پر حملے کر رہے ہیں۔ یہی اس ملک کا المیہ ہے۔ انھیں عوام کی حمایت حاصل نہیں ہے۔جاتیہ اویکیا فرنٹ یا قومی اتحاد فرنٹ نے کہا ہے کہ اگر وہ اقتدار میں آتے ہیں تو وہ اظہار رائے آزادی اور میڈیا پر لگی پابندی کو ہٹا لیں گے۔وہ حکومت کے احتساب کی بھی بات کرتے ہیں کہ وہ ایک ایسی پارلیمان چاہتے ہیں جس میں کسی پارٹی کی مدت پر حد قائم کی جاسکے۔بی این پی کے ساتھ شامل پارٹی جماعت اسلامی کو انتخابات میں شامل ہونے کی اجازت نہیں ملی ہے لیکن ان کے 20 امیدوار بی این پی کے امیداوار کی حیثیت سے میدان میں ہیں۔شیخ حسینہ کا کہنا ہے کہ حزب اختلاف کا اتحادجنگی مجرموں کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔جبکہ ان کی پارٹی بنگلہ دیش کی مجموعی ملکی پیداوار کی ترقی کی شرح کو دس فیصد تک لانے اور آئندہ پانچ سالوں میں ڈیڑھ کروڑ نوکریاں دینے کے وعدے پر انتخابات لڑ رہی ہے۔

SHARE