فیروز عالم ندوی
1857 عیسوی میں جب آخری مغل بادشاہ اپنے رسمی حکومت سے بھی بیدخل کر دیے گئے تو مسلمانوں کے درمیان بڑی افرا تفری کی صورتحال پیدا ہوئی، دینی حلقوں میں کافی تشویش پیدا ہو گئی ، مسلمانانِ ہند مضطرب اور بے چین ہو اٹھے، ہر طرف سراسیمگی اور خوف کا ماحول طاری ہو گیا۔ مسلمانوں کا اپنے دین اور اپنی تہذیب و ثقافت کے تئیں یہ ڈر اور خوف بہت ہی بجا تھا، کیونکہ جو لوگ ان پر غالب آئے تھے وہ علوم وفنون میں امامت کے ساتھ اپنے پاس ایک تہذیبی متبادل بھی رکھتے تھے جو اس وقت اپنے ظاہری چمک دمک کے بام عروج پر تھا۔
اس افراتفری، خوف اور سراسیمگی کے ماحول میں ہر طرف سے شکست خوردہ قوم کے درمیان سے ایک دو افراد نمودار ہوتے ہیں اور نئے سفر کے لیے ایک نئی جہت کا تعین کرتے ہیں۔ ایک شخصیت سر سید احمد خان رحمۃ اللّٰہ علیہ کی تھی جنہوں نے مغرب میں ترقی پانے والے علوم و فنون کے حصول کی وکالت کی اور اس کے لیے کوشاں ہوئے۔ دوسری شخصیت مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کی تھی جنہوں نے مسلمانوں کو دین سے جوڑے رکھنے اور ان کے مذہبی اثاثہ کو محفوظ رکھنے کے لیے ایک دینی درسگاہ کے قیام کو شرمندہ تعبیر کیا۔
قصہ مختصر یہ کہ تھوڑی ہی وقفہ کے بعد مسلمان تعلیمی اعتبار سے دو حصوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں پہلا جو عصری علوم کو حاصل کرتا ہے اور دوسرے کو احمق گردانتا ہے۔ دوسرا جو دینی علوم حاصل کرتا ہے اور پہلے کو راندہ درگاہ تسلیم کرتا ہے۔ پھر ندوۃ العلماء کا قیام ہوتا ہے اور اس تعلیمی اور مسلکی خلیج کو پاٹنے کی ایک کوشش کی جاتی ہے۔
غلامی اپنا رنگ دکھاتی ہے اور برصغیر میں علم دو خانوں میں بٹ کر رہ جاتا ہے۔ اس کے بیچ کی کھائی کو پاٹنے کی کوشش بہت زیادہ کارگر ثابت نہیں ہوتی ہے۔ لوگوں کے ذہنوں پر اس کا اثر بڑا گہرا رہتا ہے۔ اس منظرنامے میں جو ایک چیز مسلسل غائب رہتی ہے وہ یہ ہے کہ ایک ایسا نظام تعلیم جو دو حصوں میں بٹا نہ ہو کا وجود نہیں ہو پاتا ہے ۔ نتیجتا مسلمانانِ ہند عصری علوم میں پچھڑ جاتے ہیں اور دینی علوم میں بھی جمود و تعطل کے شکار ہو جاتے ہیں۔
مسلمانوں کے معاشرتی ڈھانچے پر اگر ایک نگاہ ڈالیں تو یہ بہت صاف نظر آتا ہے کہ یہ اسی وقت سے بڑی تیزی کے ساتھ چھوٹے چھوٹے خانوں میں بٹنا شروع ہو گیا۔ افکار و خیالات کا اختلاف اور تنوع فطرت کے عین مطابق ہے، مگر اس کے درمیان سے پل کو غائب کردینا بڑا ہی خطرناک اور سم قاتل ہے۔ مسلمانوں کے ہر مکتب فکر، ذیلی فرقوں اور گروہوں نے آپس میں اس قدر شدت اختیار کی کہ اپنے گروہی حصار سے باہر جھانکنے کو سیدھا جہنم جانا قرار دیا۔ اس وقت سے اب تک پوری تسلسل کے ساتھ مسلمانوں کے درمیان باہمی مکالمہ اور گفت و شنید کا مہذب اور علمی طریقہ ناپید اور مفقود ہے۔
ملی، دعوتی اور فلاحی تنظیمیں مسلکی خطوط پر استوار ہیں، جو اسی ناحیہ سے کام کرتی ہیں۔ ان میں آپسی تعاون، افہام و تفہیم اور ربط و ضبط کا شدید بحران پوری تسلسل کے ساتھ قائم ہے۔ ان کی نگاہیں عملی میدانوں اور دعوتی مواقع سے زیادہ ایک دوسرے کی ٹانگ پر رہتی ہے کہ کب میرے زد میں آئے اور اسے کھینچ کر گرا دیں۔
2014 کے عام انتخابات میں ایک شر پسند جماعت نے پوری اکثریت کے ساتھ حکومت حاصل کرلی۔ ریاستوں پر ریاستیں فتح کرتی چلی گئی۔ کچھ وقت کے لیے مسلمانوں کو ایسا محسوس ہونے لگا کہ اب پھر سے ان کا وجود خطرے میں پڑگیا ہے۔ مگر قربان جائے ہماری بے ڈھنگی چال پر! جو اپنے تسلسل کے ساتھ قائم ہے۔ دینی مدارس میں علمی جمود کا بسیرا ہنوز قائم ہے، عصری اور دینی کے بکھیڑے اب بھی باقی ہیں ، مربوط نظام تعلیم کا وجود مفقود الخبر ہے۔
مسلکی تنگ نظریوں کی دیواریں اب بھی اتنی ہی اونچی ہیں، ان سے باہر جھانکنا اب بھی جرم ہے، گفت شنید کے طریقوں سے بے خبر اور بے بہرہ ہوکر آج بھی اس کی فصیلوں کو اونچی سے اونچی کئے جانے کی دوڑ جاری ہے ۔ مسلک روادار کلچر کی بیخ کنی آج بھی جاری ہے۔
دعوتی تنظیمیں دعوت کے نئے میدانوں سے بے خبر آپسی مسابقت میں مگن ہیں، دعوت کے ممکنہ اور متنوع طریقوں کی دریافت سے بے خبر علماء کا سواد اعظم مدارس کے فلک بوس عمارتوں کی تعمیر میں مست ہے۔ دعوتی تنظیموں کا آپسی ربط و تعلق اور مشترکہ لائحہ عمل پوری تسلسل کے ساتھ غائب ہے۔
کثیر معاشرتی نظام میں برتری کے تمام فطری مواقع کے موجود ہوتے ہوئے بھی نوحہ خانی اور شکوہ سنجی کے ذریعہ اپنی کاہلی، سستی اور بے عملی کو چھپانے کا دھندا لگاتار جاری ہے۔
سیاسی میدانوں میں مونگیری لال خواب بیچے اور خریدے جا رہے ہیں۔ جہاں یہ موقع موجود تھا کہ ہم اپنے ایماندارانہ رویہ کے ذریعہ یہاں کی ابتر ہوتی سیاست کو کچھ سنبھالا دیتے ہم خود انہیں بہروپیوں اور مداریوں کے رنگ میں رنگ کر انہیں کی طرح اچھل کود کو سیاست کا معراج سمجھ بیٹھے ہیں۔
مختلف مظلوم طبقات کے لیے سہارا بننے اور ان کی آواز کو بلند کرنے کے بجائے ہم خود مظلومیت کے آخری پائیدان پر کھڑے آہ و فغاں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ پوری انسانیت کی فلاح کے لیے جینے کی ہنر سے بے خبر ہم اپنے پیٹ کے لیے وہی تمام غلط کام کر رہے ہیں جس سے ہمیں دوسروں کو روکنا چاہیے تھا۔
ملی تنظیموں اور دینی اداروں سے برہمنیت کا راج ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ حضرت کے فرزند ہی اگلے صدر، سکریٹری، مہتمم اور سجادہ نشین ہوتے ہیں خواہ وہ اپنے آپ میں کتنے ہی ناکارہ کیوں نہ ہوں۔ اور ہم سادہ لوح عوام تسلسل کے ساتھ اسے مقبولیت کا درجہ دیتے چلے جا رہے ہیں۔
منجملہ طور پر پوری امت ان تمام خرابیوں کے ساتھ جس کی وجہ سے انہیں ہمیشہ نقصان اٹھانا پڑا ہے – آگے کی طرف گامزن ہے۔ مستقبل کا سنہرا خواب سجائے اندھیرے راستوں پر رواں دواں ہے۔ ترقی اور کامیابی کی ہمہ جہت تدریجی کاوشوں سے بے بہرگی کے عالم میں کسی کراماتی تبدیلی کی منتظر ہے۔
(مضمون نگار ماہنامہ پیام سدرہ، چنئی کے معاون اڈیٹر ہیں)