لوک سبھا الیکشن کا منظرنامہ

محمد شارب ضیاء رحمانی

برسر اقتدار محاذ کی طرف سے الیکشن ترقی کے ایشو پر نہیں، فرقہ پرستی پر لڑا جارہا ہے۔ ہرچند کہ کانگریس کی کوشش ہے کہ ملک کے سامنے بنیادی مسائل پیش کیے جائیں۔ مہنگائی، روزگار، بدعنوانی پر بحث شروع ہو۔ دونوں پارٹیوں کے انتخابی منشور اور بیانات سے یہی اشارے ملتے ہیں۔ روٹی کی بجائے بوٹی، علی اور بجرنگ بلی، پاکستان،گھس پیٹھ جیسے مدعے گھسیٹے جارہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ نوٹ بندی کے بعد سارے کالے دھن سفید ہوگئے ہیں، اس لیے اس پر بولنے کی ضرورت نہیں ہے۔ عام شہری ان چیزوں سے اوب چکے ہیں اور بنیادی مسائل پر توجہ چاہتے ہیں۔ الیکشن کے نتائج کیا ہوسکتے ہیں، ان پر تجزیہ سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ سوشل میڈیا پر جو کچھ ہم بھکتی دیکھتے ہیں، یہ لمیٹیڈ ہے۔ جو بی جے پی کا آئی ٹی سیل ہے، یا بی جے پی کے کارڈ رہیں وہ تو اس کے ووٹر ہیں ہی، سوال یہ ہے کہ کیا بی جے پی کے ان روایتی ووٹرز میں اضافہ ہوا ہے یا کمی آئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کس وقت ووٹرز کا موڈ بدل جائے، کہا نہیں جاسکتا۔ گذشتہ لوک سبھا الیکشن میں ہندوتو کے ایجنڈے بھی تھے لیکن بی جے پی کو اقتدار میں پہونچانے میں بدعنوانی اور کالے دھن، خواتین کے تحفظ ، کسان اور اچھے دن جیسے مسائل نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ مدعے ہوا ہوچکے ہیں۔ اور اس نام پر برسراقتدار جماعت کو ووٹ نہیں مل سکتے۔ اس لیے کسان، کالے دھن جیسے عنوانات سے بی جے پی ڈری ہوئی ہے۔ اسی طرح دلتوں نے بی جے پی کو اچھے خاصے ووٹ دیے تھے۔یوپی میں دلتوں کا ذہن تھا کہ اکیلے مایاوتی اقتدار تک نہیں پہونچ سکتیں اس لیے ووٹ بربادکرکے فائدہ نہیں ہے۔ چنانچہ یہ ووٹ بی جے پی کو ٹرانسفر ہوئے۔ عام رائے یہی ہوتی ہے کہ جو جیت نہ پائے اسے ووٹ دے کر کیا فائدہ ہے۔ اس بار صورت حال دوسری ہے، مہاگٹھ بندھن کے تئیں دلت اور یادو ووٹر پر امید ہیں، اور ماب لنچنگ میں دلتوں کی پٹائی، کٹائی نے انہیں تھوڑا برگشتہ کیا ہے۔ یہ سب عوامل بتاتے ہیں کہ یادو، جاٹ اور دلت ووٹ تو یوپی میں گٹھ بندھن کو جائے گا۔ البتہ مسلم ووٹوں کی تقسیم کے امکانات ہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ بی جے پی کے ووٹرز میں کمی آسکتی ہے، اضافہ نہیں ہوگا۔ اس کے علاوہ یہ دیکھنا ہوگا کہ جتنا زیادہ سے زیادہ مل سکتا تھا، بی جے پی کو ملا، یوپی میں تہتر، گجرات کی سبھی سیٹیں ملیں، مدھیہ پردیش، راجستھان اورچھتیس گڑھ میں بی جے پی نے تقریباً کلین سوئپ کیا۔ اس سے زیادہ نہیں ہوسکتا۔ اب اس میں کمی ہوگی۔ کانگریس کو جتنا نقصان ہونا تھا، ہوا، اب اضافے کا امکان ہے ۔

قابل غورہے کہ اس بار یوپی اور بہار میں اس طرح ووٹ کی تقسیم نہیں ہوگی جیسی ہوئی تھی۔ بہار میں مقابلہ این ڈی اے اور یوپی اے کا آمنے سامنے ہے، نتیش کمار کی جدیوگزشتہ الیکشن میں الگ لڑی تھی۔ ہاں مہاگٹھ بندھن کے باوجود کچھ سیٹوں پر سہ رخی مقابلے کے امکانات ہیں، کشن گنج، بیگوسرائے اور مدھے پورہ کے علاوہ دربھنگہ اور مدھوبنی میں اگر فراست کا ثبو ت نہیں دیا گیا تو این ڈی اے کے لیے راہ آسان ہوگی۔ کشن گنج میں ہندو ووٹرز فیصلہ کن ہوں گے جو آخری وقت میں ڈاکٹر جاوید اورمحمود اشرف میں مضبوطی دیکھ کر ایک طرف جاسکتے ہیں یعنی ان کی کوشش ہوگی کہ ایم آئی ایم کو جو امیدوار شکست دے وہ ان کی طرف چلے جائیں۔زمینی حقیقت یہی ہے۔ اخترالایمان کی گرفت اچھی ہے لیکن سہ رخی مقابلے کے مکمل امکانات ہیں۔ یہی حال بیگوسرائے کا ہے جہاں تیجسوی یادو کی مستقبل کی فکر نے کھیل بگاڑ دیا ہے ورنہ ویزہ متنری کی رخصتی طے تھی۔ سیکولرزم کے علمبرداروں نے عبدالباری صدیقی کو دربھنگہ بھیج کر مدھوبنی سیٹ مبینہ آر ایس ایس لیڈر کو سونپ دی ۔ اب اگر فاطمی اور ڈاکٹر شکیل نے انا دکھا دی تو دونوں سیٹوں پر بی جے پی کی فتح یقینی ہوگی۔ اسی طرح حنا شہاب کے خلاف درپردہ محاذ آرائی اپنوں کی طرف سے ہورہی ہے۔ شیوہر سے غیرمنطقی طور پر ہارنے کے لیے سیدفیصل علی کو امیدوار بنادیا گیا ہے۔جن کی خود راجد کارکنان مخالفت کررہے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ سیکولرزم کے ٹھیکداروں نے مسلمانوں کو ٹکٹ دیئے ہیں لیکن کوشش یہ ہے کہ جیت نہ پائیں اور منہ بھرائی ہوجائے۔ 

یہ سمجھنا ضروری ہے کہ سیکولرزم اب کسی پارٹی کا نظریہ نہیں ہے۔ اصول کی سیاست ختم ہوچکی ہے۔ کوئی لیڈر اپنے نظریاتی وابستگی کی بنیاد پر پارٹی میں نہیں ہوتا، خود کو نظر انداز کرنے، ٹکٹ نہ ملنے، یا اقتدار میں حصے داری نہ ملنے کی بنا پر کوئی سیکولر بن سکتا ہے۔ ارون شوری، یشونت سنہا، شتروگھن سنہا کی مثالیں موجود ہیں جو ان دنوں سیکولرزم کے سورما بنے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کو بے وقوف بنانے کی ضرورت ہو تو غلام نبی آزاد، احمد پٹیل کو آگے کیا جاتا ہے اورمنشور جاری کرنا ہو تو اسٹیج پر کسی مسلم کو جگہ نہیں۔ ملائم پریوار کے خلاف کانگریس امیدوار نہیں اتارتی لیکن اتحاد کی ہزار کوششوں اور ووٹ کو تقسیم سے بچانے کے لیے تین سیٹوں پر الیکشن لڑنے کے باوجود مولانا بدرالدین اجمل کے خلاف میدان میں اتر جاتی ہے اور سیدھا سیدھا ان کی پارٹی کو اپنی مقابل بتاتی ہے ، آسام میں جس طرح اس نے گھنونا کھیل کھیلا ہے، اس کی سزا ضروری ہے، اس لیے جہاں این ڈی اے کے علاوہ دیگر متبادل موجود ہوں وہاں ضرورسبق سکھانا چاہیے۔

کہا جارہا ہے کہ کنہیاکمار کے مقابلے میں تنویرحسن کوبیٹھ جانا چاہیے ۔ اس سے وہ ہیروبن جائیں گے ۔ سوال یہ ہے کہ قربانی کا بکرا صرف مسلمان ہی کیوں بنے؟ سیکولرزم کی حفاظت صرف مسلمانوں پر فرض ہے؟ کنہیا بیگوسرائے کے علاوہ دہلی سے بھی لڑتے تو جیت جاتے، ان سے کیوں نہیں کہا گیا کہ بیگوسرائے سے نہ لڑیں؟ اخترالایمان نے قربانی دی لیکن کیا مسلمانوں کے ہیروبن گئے؟ تب تو ڈاکٹر جاوید سے کہنا چاہیے کہ اخترالایمان کے مقابلے میں بیٹھ جائیں، ساری کمیاں مسلمانوں کی ہی کیوں؟ نام نہاد فرضی سیکولروں سے کبھی پوچھ لیا جائے۔ یہ حقیقت یاد رہے کہ کسی پارٹی کو اپنی پارٹی تک کامسلم لیڈر پسند نہیں ،نام نہاد سیکولر جماعتیں نہیں چاہتیں کہ اس کی پارٹی میں مسلم لیڈر آگے بڑھے۔ صرف مسلمانوں کو بے وقوف بنانے کے لیے ان مسلم جیسے لیڈروں کواستعمال کیا جاتا ہے، استعمال کے بعد اڈوانی بناکر رکھ دیا جاتا ہے بلکہ اس سے بدتر کردیا جاتا ہے۔ یہ لوگ جم کر استعمال ہوتے ہیں لیکن جب ٹکٹ نہیں ملتاتومسلم نمائندگی کاڈھونگ رچاتے ہیں مثال دیکھنی ہو تو ڈاکٹر شکیل اور فاطمی کو دیکھ لیں۔

اترپردیش میں مقابلہ سہ رخی بتایا جارہا ہے لیکن گذشتہ الیکشن کی طرح ووٹوں کی تقسیم کے امکانات کم ہیں۔ کیوں کہ ایس پی اور بی ایس پی کے ووٹ شیئر اور ووٹ بینک کودیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ بہت حدتک ان کے ووٹرز تقسیم نہیں ہوں گے۔ یوپی میں کانگریس کو ایس پی سے شکایت کم اور بی ایس پی سے زیادہ ہے۔ سیٹوں کا تجزیہ کریں توصاف نظر آتا ہے کہ کانگریس ، دراصل مایاوتی کی سیٹیں کم کرنا چاہتی ہے تاکہ مایاوتی مرکز میں سرکار بناتے وقت سودے بازی نہ کرسکیں۔ اسی لیے کانگریس نے کم وبیش ان ہی سیٹوں پرمضبوط امیدواراتارے ہیں جہاں بی ایس پی مضبوطی کے ساتھ لڑرہی ہے۔اس صورت حال کوگہرائی کے ساتھ مسلمانوں کو سمجھ لیناچاہیے۔ طے ہے کہ اگرمایاوتی کوبیس بائیس سیٹیں ملیں اوربی جے پی سرکاربنانے کی پوزیشن میں ہوگی تووہ کوئی بھی ڈیل کرسکتی ہیں۔مایاوتی پورادیش گھوم کرووٹ کٹوابن کر پی ایم بننے کاخواب دیکھ رہی ہیں ، ایس پی کی بی جے پی کے ساتھ جانے کی امیدکم ہے،امکان ہے کہ وہ کانگریس کے ساتھ جائے گی۔اس لیے بہترحکمت عملی یہ ہوتی کہ جہاں جہاں کانگریس اورایس پی میں مقابلہ ہے اورکانگریس کے امیدوارکمزورہیں توایس پی کوووٹ دیاجائے اورجہاں کانگریس کے مقابلے میں بی ایس پی کے مضبوط مسلم امیدوارہوں(جیسے دانش علی،شفیق الرحمان برق)وہاں بی ایس پی کودے دیاجائے لیکن جہا ں بی ایس پی کے مقابلے میں کانگریس کے مضبوط امیدوارہوں وہاں کانگریس کی یک طرفہ حمایت کی جائے،سہارن پورکی سیٹ اسی زمرے میں آتی ہے۔

یہ تجزیہ درست ہے کہ کانگریس اس بارالیکشن اقتدارمیں آنے کے لیے نہیں ،بلکہ پارٹی کومضبوط کرنے کے لیے لڑرہی ہے۔اس کی نظر 2024پرہے یاعلاقائی پارٹیوں کوقابو میں رکھنے پرہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ علاقائی پارٹیوں سے مقابلہ کررہی ہے۔مدھیہ پردیش،گجرات،راجستھان اورچھتیس گڑھ میں اس کی وہ سرگرمیاں نہیں ہیں۔حالاں کہ اگرکانگریس ان ریاستوں میں اچھی کارکردگی دکھادے تواقتدارکاراستہ آسان ہوگا۔آسام میں مولانابدرالدین اجمل کے ساتھ سمجھوتہ نہ کرنااورکھلے عام اپنامقابلہ اے یوڈی ایف سے بتاناکانگریس کی سنگھی خمیرکی دلیل ا ور علاقائی پارٹیوں کوابھرنے نہ دینے کی کوشش کاحصہ ہے۔ویسے میرااندازہ ہے کہ سرکاراین ڈی اے یایوپی اے میں کسی کی مضبوط نہیں بنے گی،بی جے پی دوسوتک جاسکتی ہے اورتوڑجوڑکرسرکاربناسکتی ہے۔کانگریس کے سو،سواسوکے امکانات سے انکارنہیں کیاجاسکتاہے لیکن اس صورت میں ایس پی،ترنمول کانگریس،تیدپپااورٹی آرایس کنگ میکرثابت ہوں گی۔اس صور ت میں وسیع اتحادکے امکانات کے لیے کانگریس کو کجی کودرست کرناہوگا۔ علاقائی پارٹیوں کوساتھ لانابڑاچیلنج ہوگا۔ راہل گاندھی اورسیتارام یچوری نے اس کے اشارے دے دیے ہیں کہ الیکشن کے بعداتحادکی کوشش کی جائے گی۔بیساکھی کی حکومت کے امکانات ہیں۔ویسے جمہوریت میں بیساکھی کی سرکار مفیدہے،مکمل اکثریت کبھی ایمرجنسی نافذکراتی ہے اورکبھی نوٹ بندی ۔ الیکشن کے تناظرمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ جہاں بی جے پی کواپنی امیدکم ہو،وہاں ووٹوں کی تقسیم کے لیے آزادامیدوار اتارے جاسکتے ہیں اوراس ضمن میں مسلم قوم کے ہاتھ بہت لمبے ہیں،ایسے ووٹ کٹواعناصرسے ہوشیاررہنے کی ضرورت ہے،انہیں ہرگزحمایت دے کرووٹ تقسیم نہ کیاجائے۔دوسراامکان الیکشن کے بعدبڑے پیمانے پر خریدوفروخت کاہے۔اپوزیشن کوپہلے ہی اس کے لیے تیار رہنا ہوگا کہ چھوٹی پارٹیاں یا آزاد امیدوار نہ بھٹکنے پائیں، ان سے مستقل رابطہ رکھنا ہوگا۔ خلاصہ یہ کہ جہاں علاقائی پارٹیاں مضبوط ہیں وہاں کانگریس کو ووٹ نہ دیا جائے ( اگر کسی سیٹ پر کانگریس پہلے سے مضبوط ہو جیسے یوپی کی وی آئی پی سیٹیں توان سیٹوں پرکانگریس کو ترجیح دینا مجبوری ہے ) کانگریس کا انتخاب مجبوری ہے، پسند نہیں ہے۔ اسے جہاں سبق سکھانا ممکن ہو، ضرور سکھانا چاہیے۔ مثلاً آندھرا پردیش، مغربی بنگال اور تلنگانہ میں متبادل پارٹیاں موجود ہیں۔ میسج یہ دیا جائے کہ کسی ایک پارٹی کے اب ہم غلام نہیں ہیں۔اسی طرح یوپی میں مہاگٹھ بندھن ہے، ہاں یوپی میں وی آئی پی سیٹوں یابی ایس پی کی کمزور سیٹ پر کانگریس کو ووٹ دیا جائے۔ بہار میں کشن گنج اور بیگوسرائے میں متبادل امیدوار موجود ہیں ۔اس لیے ان متبادلات کو موقع دیا جائے۔ گرچہ مسلم حلقوں میں پلٹوجی ’’اپنے کام پر ‘‘ووٹ مانگ رہے ہیں لیکن رائے دہندگان کو یاد رکھنا ہوگا کہ یہ الیکشن مرکز میں سرکار بنانے کے لیے ہے، ریاست میں حکومت سازی کے لیے نہیں ہے۔

sharibziarahmani@gmail.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں