مسلمانوں کی زندگی میں انقلاب برپا کرنے کے لئے قیادت کا قبلہ درست کرنا ضروری ہے

 مدثر احمد قاسمی 

کسی بھی قوم کی ترقی اور کامیابی کا راز اس بات پربھی منحصر ہے کہ اس قوم کو لائق و فائق قائد اور لیڈر میسر ہو، اس اعتبار سےاگر کوئی قوم باصلاحیت اور مخلص قائد سے محروم ہو تو جہاں اس قوم کی ترقی اور کامیابی کے راستے مسدود ہوجاتے ہیں ،وہیں اس کی زبوں حالی اور پسماندگی کے سلسلے بھی دارز سے دراز تر ہوجاتے ہیں۔ قائد سے محروم قوم کی علامت یہ ہوتی ہے کہ وہ وقت کی رفتار سے بے خبر اپنی مختصر سی دنیا کو سب کچھ سمجھ بیٹھتی ہے اور مجموعی طور پر اس کی زندگی انجماد اور تعطل کی تصویر پیش کرتی ہے۔ یہ لوگ نہ ہی اپنے خول سے باہر آنے کے بارے میں سوچتے ہیں اور نہ ہی انقلاباتِ زمانہ سے ان کی آنکھیں کھلتی ہیں؛ نتیجتاً زمانے کی چال اُن کے وجود پر سوالیہ نشان لگا دیتی ہے۔

راقم الحروف کے ایک ذاتی مشاہدے سے مذکورہ بنیادوں کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ حال ہی میں صوبہ بہار کے ضلع ارریہ میں سر شام بازار سے میں اپنے گھر لوٹ رہا تھا کہ اچانک میری نظر ایک مسلمان رکشہ والے پر ٹھہر گئی۔میں نے دیکھا کہ وہ خود پچھلی سیٹ پر بیٹھا ہے اور تقریباً بارہ سال کا ایک بچہ جہاں سے رکشہ چلاتے ہیں ،اُس سیٹ پر بیٹھا ہے اور وہ کہہ رہا ہے کہ بیٹا ہینڈل کو اس طرح پکڑلو اور پیڈل پر پیر چلاؤ۔ چنانچہ وہ لڑکا اپنے والد کی ہدایت کے مطابق رکشے کو آگے بڑھانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ اس موقع پر والد کے چہرے کی خوشی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی،جسکا اظہار وہ زبان سے بھی بیٹے کو شاباشی دے کر کر رہا تھا۔ گویا وہ اپنے بچے کا مستقبل رکشہ چلانے میں دیکھ رہا تھا اوراس بات سے بے انتہا خوش تھا کہ اب اس کا بچہ رکشہ چلانے کے قابل ہوگیا اور آنے والے وقتوں میں وہ اس کا سہارا بن جائے گا۔

ہندوستانی مسلمانوں کی یہ ایک تصویر ملک میں مسلم قیادت کی کار کردگی پر سوالیہ نشان لگانے کے لئے کافی ہے۔ایسے نہ جانے کتنے مزدور ہیں جو اپنے بچوں کو بھی مزدور بنانے کے علاوہ اورکچھ نہیں سوچتے۔جب ہم اس ناگفتہ بہ حالت پرغور کریں گے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجائے گی کہ مزدور اور محنت کش لوگوں کو تعلیم اور ترقی کا راستہ دیکھانے والے لوگ ہی مفقود ہیں اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جو انہیں عزت کے ساتھ زندگی جینے کا راستہ بتانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، وہ اتنے خود غرض یا غیر ذمہ دار ہیں کہ انہیں اپنے علاوہ دوسرے نظر ہی نہیں آتے۔جب زمینی سطح پر اس طرح کے حالات ہوں تو ،بڑے پیمانے پر اور ملکی سطح پر مسلمانوں کی کامیابی اور ترقی کا خواب کیسے شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے؟

مسلمانوں کے موجودہ مسائل اور پریشانیوں کا جائزہ لینے کے بعد جب ہم ان کے حل کے بارے میں سوچتے ہیں تو ہمیں نبی اکرم ﷺ کی زندگی سے آسان اور خوبصورت رہنمائی ملتی ہے۔آپ ﷺ جب اس دنیا میں تشریف لائے ،اس وقت سرزمینِ عرب کے حالات موجودہ وقت کے مسلمانوں کے حالات سے کہیں زیادہ خراب تھے ۔ مذہبی، معاشرتی، معاشی، سیاسی،علمی اور اخلاقی حالات انتہائی ابتر تھے۔ایسے میں آپ ﷺ نے بے مثال قائدانہ رول ادا کر کے سرزمینِ عرب کو ایک مثالی سرزمین بنا دیا اور لاکھوں کی تعداد میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی شکل میں قائدین بھی پیداکئے جو دنیا بھر میں مثبت انقلاب کا سبب بنے۔

آپ ﷺ کے اسی بے مثال قائدانہ کردار کا ذکر کرتے ہوئے مسز اینی بیسنٹر رقمطراز ہیں:”آپ ﷺ تاریخ کے ایسے کٹھن دور میں پیدا ہوئے تھے جو سخت اور مشکل حالات سے گھرا ہوا تھا ۔آپ ﷺ ایک ایسی قوم میں پیدا ہوئے جو سر تاپاؤں اوہام پرستی میں ڈوبی ہوئی تھی۔ ہمیں آپ ﷺ کی زندگی اس قدر شریفانہ اور اس قدر سچی نظر آتی ہے کہ ہم فورا معلوم کر لیتے ہیں کہ کیوں آپ ﷺ کو اپنے گردوپیش کے لوگوں تک اپنے خدا کا پیغام پہنچانے کے لئے منتخب کیا گیا تھا۔ مکہ کے تمام مرد ،عورتیں اور بچے آپ ﷺ کو الصادق اور الامین کے نام سے پکارتے تھے ۔”

پنڈت گوپال کرشن ایڈیٹر بھارت سماچار مہاپرش کے عنوان سے آنحضرت ﷺ کی سیرت طیبہ یوں بیان کرتے ہیں: “رشی محمد ﷺ صاحب کی زندگی پر جب ہم وچار کرتے ہیں تو یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ ایشور نے ان کو سنسار سدھارنے کے لئے بھیجا تھا ان کے اندر وہ شکتی موجود تھی جو ایک گریٹ ریفارمر اور ایک مہا پرش (ہستی اعظم ) میں ہونی چاہیے وہ عرب کے فاتح اعظم تھے مگر مفتوح اقوام کے لئے پیغام رحم وکرم تھے ۔آپ ﷺ کی تعلیم میں ایک چمکتا ہوا ستارہ یہ بھی ہے کہ وہ امیر و غریب کو ایک ہی سطح پر زندگی بسر کرنے کا ڈھب سکھلاتے تھے۔”

غیر مسلم مصنفین کے مذکورہ اقتباسات سےجہاں آپ ﷺ کی مثالی اور قابلِ اتباع قائدانہ کردار کی جھلک صاف نظر آتی ہے وہیں یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ آپ نے اس وقت کے لوگوں کو اُن کی حالت یا وقت کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا بلکہ ان کی زندگی میں شبانہ روز کی جد و جہد سے زبردست مثبت انقلاب برپا کیا۔ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم قائدین اور ذمہ داران ہر اعتبار سے آپ ﷺ کی سیرت کو اپنا کر مسلمانوں کی ڈوبتی کشتی کو پار لگانے کا اپنے اندر عزم و حوصلہ پیدا کریں۔اسی کے ساتھ اس پہلو پر بھی غور اور کام کریں کہ ہمہ جہت ترقی و کامیابی کے لئے ہر سطح اور ہر میدان میں قائد و رہبر کی ضرورت ہے؛ کیونکہ مقامی سے لے کر صوبائی، ملکی اور عالمی سطح تک اور مذہبی سے لے کر تعلیمی، سماجی اور سیاسی میدانوں میں عوام الناس کو مختلف ضرورتوں کے لئے رہنمائی کی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قیادت کو وسعت دینے کی ضرورت ہے،جس کے لئے مرکزی قائدین کو اپنے دائرہ کار کو وسعت دے کر قائد سازی کا کام کرنا ہوگا اور اس طریقے پر ہر ممکنہ جگہ پہونچنا ہوگا۔

یاد رکھئے ! ہندوستانی مسلمانوں کا مسئلہ صرف سیاسی بے وزنی نہیں بلکہ معاشی بد حالی اور تعلیمی پستی بھی ہے ؛ اس لئے ایک مسئلہ کو پکڑ کر بیٹھ جانا قطعاًدانشمندی نہیں ہے بلکہ تمام کمزوریوں کو دور کرنے کے لئے ایک ساتھ قلیل اور کثیر مدتی پلان تیار کرنا ضروری ہے۔ مذکورہ معروضات سے جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ مسلمانوں کو مشکل حالات سے باہر نکالنے کے لئے ہر سطح پرفعال قیادت کی ضرورت ہےتو اِس کو مد نظر رکھتے ہوئے جہاں اکابرین اپنے دائرہ کار کو وسعت دینے کی کوشش کریں وہیں با خبر اور تعلیم یافتہ نوجوان نسل کسی کی طرف سے دعوت ملنے کا انتظار کئے بغیر میدانِ عمل میں کود جائیں اور اپنی وسعت بھر کوشش سے مثبت تبدیلی کے لئے تگ و دو میں لگ جائیں۔ اگر اس طریقے پر قیادت کے حوالے سے ہم نے اپنا قبلہ درست کر لیا تو امید کی جاسکتی ہے کہ مستقبل میں ہم انقلاب بپا کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ ان شا ء اللہ ۔