مدثر احمد قاسمی
اگر آپ کسی چیز کے بارے میں کوئی تبصرہ کرتے ہیں یا بیان دیتے ہیں تو دیانت کا تقاضا یہ ہے کہ آپ کو اُس چیز کا مکمل علم ہو،بصورتِ دیگر آپ حق کے ساتھ انصاف نہیں کر پائیں گے اور اِس سے دو طرح کے لوگوں کا نقصان یقینی ہوجائے گا۔ایک وہ لوگ جن کے خلاف وہ بیان یا تبصرہ ہواور دوسرے وہ افراد جن کے حق میں وہ بیان یا تبصرہ جاری کیا جائے کیونکہ موخر الذکر افراد بھی اِس صورت میں حقیقت تک رسائی نہیں پا سکیں گے۔موجودہ وقت میں فتویٰ کے حوالے سے یہی منظر نامہ ہمارے سامنے ہے۔
چنانچہ صحافت سے جُڑے کچھ افراد یا میڈیا ہاؤس کا جب ہم جائزہ لیتے ہیں تو ہمارے سامنے یہ بات کھل کر آتی ہے کہ اپنی شہرت اور مارکیٹ بڑھانے کے لئے یہ لوگ “فتویٰ” کو آلہ کار بناتے ہیں۔سب سے پہلے وہ یہ کام کرتے ہیں کہ جس فتوے سے انہیں اپنے مقصد میں کامیابی نظر آتی ہے،اُس فتوے کو مِن و عن پیش کرنے کے بجائے اُس کو سیاق و سباق سے کاٹ کر اور توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں؛ پھر اس کے بعد دو طبقوں کو نشانہ بناتے ہیں ایک تو فتویٰ جاری کرنے والی مفتی قوم اور اُن سے متعلق دار الافتاء و مدارسِ اسلامیہ کو اور انداز کچھ ایسا ہوتا ہے گویا کہ اُن لوگوں نے دہشت گردی پھیلانے کے لئے کوئی فرمان جاری کیا ہو۔دوسرا طبقہ وہ ہوتا ہے جن کو مظلوم بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اُن کے خلاف جابرانہ و آمرانہ حکم صادر کیا گیا ہے جو صراصر نا انصافی پر مبنی ہے ۔اس سےایک طرف جہاں وہ اپنے پوشیدہ مقصد میں کامیاب ہوجاتے ہیں ، وہیں دوسری طرف دو طبقوں کے درمیان فاصلے بڑھ جاتے ہیں ۔
زیرِ بحث موضوع کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ملک بھر میں مستند مفتیانِ کرام اور معتبر دار الافتاء کے ہونے کے باوجود ، کچھ ناعاقبت اندیش نو خیز مفتیان بھی میدان میں کود پڑنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں اور اسلام و مسلمانوں کی بد نامی کا سبب بنتے ہیں۔ حالانکہ ایک مفتی کے لئے ضروری ہے کہ وہ زمانے کے حالات اور وقت کے تقاضوں سے واقف ہو ۔اہل علم جانتے ہیں کہ فتویٰ دینے کے کچھ اصول و ضوابط ہیں، جن کی روشنی میں مرکزی دینی مدارس اور جامعات میں باقاعدہ تخصص کرایا جاتا ہے۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ ملک کی بڑی مسلم تنظیمیں اور مستند مدارسِ اسلامیہ اس حوالے سے ایک لائحہ عمل تیار کریں اور اُس کے مطابق ہدایات جاری کریں تاکہ اس سے جہاں اسلام اور مسلمانوں کی شبیہ خراب کرنے والوں کو روکا جاسکے وہیں فتنہ پرور میڈیا کو لگام دی جاسکے۔
اس سلسلے میں عام مسلمانوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ جب میڈیا میں کسی فتویٰ کو اچھالا جائے تو بلا تحقیق و تصدیق اُس پریقین کر کے مفتیانِ کرام پر لعن طعن شروع نہ کر دیں ۔جب متعلقہ فتویٰ کے حوالے سے مفتی صاحب یا ادارے کی جانب سے قرآن و حدیث کے حوالے سے وضاحت آجائے توضروری ہے کہ اُس کو تسلیم کرلیں کیونکہ فتوی کسی عالم یا مفتی کی ذاتی رائے کا نام نہیں کہ جس پر عمل کرنا ضروری نہ ہو؛ بلکہ فتوی قرآن و سنت کی تشریح کا نام ہے ، جو ایک مسلمان کے لیے واجب العمل اور لائقِ تقلید ہے۔ اس حوالے سے اسلامی اسکالر مفتی محمد اللہ خلیلی لکھتے ہیں:
“مفتی جو کچھ بھی فتویٰ دیتا ہے، اس میں پوری دیانت ملحوظ رکھتا ہے، وہ بحیثیت نائبِ رسول حکم شرعی کی نشاندہی کرنے والا ہوتا ہے۔ مفتی فتویٰ صادر کرکے کوئی نیا قانون نہیں بناتا، نہ وہ اس کی ذاتی رائے ہوتی ہے؛ بلکہ وہ تو صرف قانون اسلامی کی مقرر دفعہ کو بتلاتا ہے یا وضاحت کرتا ہے جو دفعات اپنے موقع پر کتب فقہ و فتاویٰ میں قرآن وحدیث سے ثابت ہوتی ہے؛ اس لیے اسلام کے جس قانون کو مفتی بتلاتا ہے، اس کا قرآن وحدیث اور کتبِ فقہ سے ثابت ہونا کافی ہے، لہٰذا اگر کوئی شخص مستند فتوے پر طعن کرتا ہے تو درحقیقت وہ قانونِ اسلام کو نشانہ بنا رہا ہے۔”
اس حوالے سے دیانت دار صحافت کی بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں۔اگر میڈیا سے وابستہ افراد یہ سمجھتے ہیں کہ کسی خاص فتوےکو عوام الناس کے مفاد میں منظر عام پر لانا ضروری ہے تو سب سے پہلے اُن کا کام یہ ہونا چاہئے کہ وہ دارالافتا ء سے فتویٰ کی اصل کاپی حاصل کریں اور پھر بلا ردو بدل یا حذف و اضافہ کے مِن و عن اُس کو پیش کریں ۔اگرمیڈیا والے اس میں ردو بدل کرتے ہیں یا سیاق و سباق سے ہٹا کر اُس کو پیش کرتے ہیں تو یہ صحافتی بد دیانتی ہے ،جس کوکسی بھی حال میں جائز نہیں ٹھہرا یا جاسکتا ہے۔ اسی طرح سے حالیہ دنوں میں یہ کثرت سے دیکھنے میں آیا ہے کہ علمائے کرام یا مفتیانِ عظام کی کسی عام بات چیت کویافون پر گفتگو کو فتویٰ کا نام دے کر شائع یا پیش کر دیا جاتا ہے، یہ بھی ایک قسم کا دھوکہ اور صحافتی اُصول کے خلاف ہےکیونکہ کسی عام بات چیت کو آپ فتویٰ کا نام دے کر عوام کو گمراہ کر ہے ہیں۔
چونکہ بارہا میڈیا والے فتویٰ کو غلط انداز سے پیش کرتے ہیں جس سےبلا وجہ اسلام،مسلمان، علماء اور مدارسِ اسلامیہ کی بدنامی ہوتی ہے ،اس لئے ملک کے بڑے دار الافتاء اور مدارسِ اسلامیہ کو اِس حوالے سے ٹھوس قدم اُٹھانا چاہئے تاکہ اِس سلسلے کا سدِ باب ہوسکے۔ چنانچہ جب کسی مفتی یا دار الافتاء کے حوالے سےکسی میڈیا ہاؤس میں فتویٰ کی غلط تشہیر اور تشریح ہو تو فوراً ایکشن لیتے ہوئے اُن کے خلاف منصوبہ بند اور منظم طریقے سے قانونی کارروائی کریں تاکہ آگےوہ لوگ دوبارہ اس طرح کے منفی پرو پیگنڈہ کرنے کی جرات نہ کرسکیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ فتویٰ مسلمانوں کی زندگی میں آسانی پیدا کرنے کے لئے ہے، لہذا نہ ہی اسے زندگی کو مشکل بنانے والی چیز بنا کر پیش کریں اور نہ ہی کسی کو پیش کرنے دیں ۔