وکالت، مولوی اور مسلمان

نقی احمد ندوی

اس میں کوئی شک نہیں کہ وکالت سماج کا ایک معزز پیشہ ہے، ایک وکیل معاشرہ کے محروم طبقات کے حقوق کی جنگ لڑتا ہے، مظلوموں اور بیکسوں کی آواز بن کر انھیں انصاف دلاتا ہے اور ظلم وزیادتی کرنے والوں کو سزا دلا کر سماج کو صحت مند رکھنے میں حکومت کی مدد کرتا ہے، مگر عجیب بات ہے کہ یہ پیشہ بھی مسلم سماج میں معیوب سمجھا جاتا ہے، جہاں تک علماء اور فارغین مدارس کا تعلق ہے تو وہ اس پیشہ کو حرام نہیں تو کم ازکم مکروہ ضرور سمجھتے ہیں، آپ نے شاید ہی سنا ہو کہ ایک عالم وکیل اور جج ہے یا مدرسہ کا ایک فارغ وکالت کر رہا ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ عام طور پر یہ تصور کیا جاتاہے کہ وکلاءجھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ قرار دیتے ہیں جو شریعت میںحرام ہے۔ اسی تصور نے علماءکرام اور فارغین مدرسہ کو اس پیشہ سے ہمیشہ دور رکھا ہے۔

اسی تصور اور سوچ کی وجہ سے ہندوستان میں عام طور پر مسلمان وکالت نہیں پڑھتے، جس کے نتائج اب ظاہر ہونے لگے ہیں، مسلمانوں کی آبادی ہندوستان میں پندرہ سے بیس کروڑ ہے مگر اس سے زیادہ شرم کی بات کیا ہو سکتی ہے کہ ہم نے بابری مسجد اور تین طلاق کا کیس لڑنے کیلئے ہندو وکلاءکا سہارا لیا ہے ۔ مسلمانوں کی پوری آبادی مل کر بھی ایسے وکلاءنہیں پیدا کرسکی جو مسلمانوں کے کیس کا دفاع کر سکے۔

مسلم میرر نے 2016ءمیں ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں لکھا گیا ہے کہ رپورٹ کے مطابق 2011ءمیں مسلمانوں کی آبادی 14.2 فیصد ہے مگر ہندوستان کے ہائی کورٹوں میں آبادی کے تناسب سے مسلم ججوں کی تعداد کم ہے بلکہ اس تعداد میں روزافزوںکمی آتی جارہی ہے۔ ڈپارٹمنٹ آف جسٹس کے مطابق چوبیس ہائی کورٹ میں 1044 جج کے پوسٹ ہیں، جن میں 443 جگہیں خالی ہیں۔ باقی رہ گئے 601 ججوں کی پوسٹ تو ان میں صرف 26 مسلم جج ہیں۔ اس حساب سے ہائی کورٹ میں مسلمانوں کا تناسب صرف 4.3 فیصد ہے، جبکہ آبادی کے تناسب سے کم سے کم مسلم ججوں کی تعداد 86 ہونی چاہیے تھی۔

اسی طرح اترپردیش میں مسلمانوں کی تعداد 19.3 فیصد ہے۔ اس لحاظ سے وہاں کے ہائی کورٹ میں پندرہ جج ہونے چاہیں، مگر 2011 میں 74 ججوں میں صرف چار مسلم جج تھے۔ جموں کشمیر کے ہائی کورٹ میں کل دس جج ہوتے ہیں، وہاں کی آبادی کے لخاظ سے سات مسلم جج ہونے چاہئیں، مگر صرف تین ہیں جن میں ایک کی رٹائرمنٹ ہونے والی ہے اور تقریباً یہی تناسب ہندوستان کے دیگرصوبوں میں بھی ہے۔

صورت حال یہ ہے کہ ہر صوبہ میں نہ جانے کتنے کیس مسلمانوں کے خلاف چل رہے ہیں، دہشت گردی کے نام پر مسلم نوجوانوں کو سلاخوں کے پیچھے ڈھکیلا جا رہا ہے، قبرستانوں پر زبردستی قبضہ کیا جا رہا ہے، فسادات میں مسلمانوں کا قتلِ عام ہوتا ہے، ماب لنچنگ کے نام پر نوجوانوں کو سرعام مار دیا جاتا ہے، مگر ان سارے معاملات کا کیس لڑنے کے لیے امت ہندو وکلاء کا سہارا لینے پر مجبور ہے۔ سپریم کورٹ میں شاہ بانو کیس ہو یا بابری مسجد کا کیس یا طلاق کا نیا مسئلہ، مسلمانوں کی دفاع کے لیے غیر مسلم وکلاء کی خدمات لینی پڑتی ہے اور دن بدن صورت حال بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔

شعبہ ¿ قانون میں مسلمانوں کے زوال اور پچھڑا پن کی وجہ وہ سوچ اور تصور ہے جو صدیوں سے سماج کے اندر چھائی ہوئی ہے کہ وکالت جھوٹ اور فریب کا پیشہ ہے، حالاںکہ اس میں پوری طرح سچائی نہیں، وکالت قانون کی باریکیوں کو سمجھنے اور بات کو مؤثر انداز میں رکھنے کا نام ہے۔ آپ غلط کیس اگر نہیں لیتے تو میں نہیں سمجھتا کہ کوئی زبردستی آپ کو غلط کیس لڑنے پر مجبور کرے گا۔ سچ اور سچائی کا ساتھ دینے والوں کی دنیا میں کبھی کمی نہیں رہی ہے ۔

خوش قسمتی سے ہمارے ملک میں اچھے اچھے مدارس کا جال پھیلا ہوا ہے۔ ہر سال ہزاروں کی تعداد میں فضلاء فقہ کی کتابیں پڑھ کر فارغ ہوتے ہیں، اگر اہل مدارس یہ طے کر لیں کہ شعبۂ قانون میں ہر سال کچھ نہ کچھ طلبہ کو تیار کر کے بھیجیں گے تو صرف چند سالوں میں یہ صورت حال بدل سکتی ہے۔

ہماری تاریخ بڑے بڑے قاضیوں اور وکلاء سے بھری پڑی ہے، مسلم حکومتوں اور سلطنتوں میں مدرسہ کے فارغین ہی قاضی، وکیل، قاضی القضاة اور چیف جسٹس ہوا کرتے تھے، خلیفہ ہارون رشید کے دور میں چیف جسٹس امام ابویوسف انصاری، خلیفہ مقتدر کے زمانے میں عمر ازدی، شافعی مسلک کے ابوالسائب ہمدانی، ابن ام شیبان، عبد الجبار ہمدانی، ابوالحسن ماروردی، ابوالقاسم نرینی، عماد الدین الکیلانی، شیخ ناصر الدین بیضاوی، ابن دقیق العید، شیخ تاج الدین السبکی، محمد بن عبد الرحمن الدمشقی، شیخ الاسلام زکریا الانصاری، جلال الدین الدوانی اور شہاب الدین انحفاجی ایسے نام ہیں، جن کے شعبہ ¿ قانون میں عظیم الشان کارنامے آج بھی تاریخ میں موجود ہیں۔ یہ سب کے سب کسی نہ کسی مدرسہ یا دینی مرکز کے فارغ تھے اور یہ سب یا تو وکیل ،جج یا چیف جسٹس تھے۔

آج بھی ہمارے مدارس ایسے وکلاءاور جج پیدا کرنے کی پوری اہلیت رکھتے ہیں ، بس ہمیں اپنا نظریہ اور تصور بدلنے کی ضرورت ہے ، قانون کا شعبہ فارغینِ مدارس کے لیے بہت ہی موزوںاور مناسب ہے ، جہاں ایک طرف امت مسلمہ کو اسکی سخت ضرورت ہے وہیں یہ اہل مدرسہ کے لئے ایک بہترین ذریعہ معاش بھی بن سکتا ہے ۔ لہٰذا مدرسہ کی تعلیم کے دوران ہی اگر اس شعبہ میں کیریئر بنانے کا عزم کر لیا جائے تو اس کے لیے تیاری کا اچھا وقت مل سکتا ہے، اس شعبہ میں بھی انگریزی زبان کے بغیر کامیابی مشکل ہے۔ چنانچہ اگر ایک طرف انگریزی زبان کو بہتر سے بہتر بنانے کی ضرورت ہو گی تو دوسری طرف اس شعبہ کے ماہرین سے رہنمائی حاصل کر کے اس کے انٹرینس کی تیاری کرنی مفید ومعاون ثابت ہو گی۔

ملک کے موجودہ سیاسی تناظر میں امت مسلمہ کو بہترین مسلم وکلاءاور قانون دانوں کی اشد ضرورت محسوس کی جارہی ہے ، جس کی تکمیل میں اہل مدارس بہت اچھا رول ادا کرسکتے ہیں ، اس شعبہ کو اختیار کرنے سے جہاں فارغین مدارس کو سماج میں ایک مقام حاصل ہوگا ، ملک کی خدمت کرنے کا ایک سنہرا موقع ملے گا اور دولت وشہرت حاصل ہوگی وہیں امت کی شدید ترین ضرورت کی تکمیل ہوگی ۔ قانون کی پڑھائی کرنے کے بعد فارغینِ مدارس جج، وکیل، قانونی صلاح کار، لیکچرر، لیگل سروس چیف اور رپورٹر کے علاوہ بھی بہت ساری جگہوں پر کام کر سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ بیرون ممالک میں بھی اس شعبہ میں روزگار کے بہت سارے مواقع میسر ہیں،فقہ قانون ہی کا ایک شعبہ ہے، جب ایک عالم فقیہ اور مفتی بن سکتا ہے تو وکیل اور جج کیوں نہیں؟ بس ہمیں اپنے تصور اور نظریہ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔

(مضمون نگار ریاض، سعودی عرب میں مقیم ہیں)

 

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں