نثار احمد
شمال مشرقی ہندوستان ان دنوں خطرناک سیلاب کی چپیٹ میں ہے، جان و مال کا سخت نقصان ہو رہا ہے، پانی میں ڈوب کر مرنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے، لوگ پریشان حال ہیں، بچے، بزرگ اور عورتوں کو زیادہ پریشانی کا سامنا ہے، ندیاں خطرے کے نشان سے کئی میٹر اوپر بہ رہی ہیں، نیپال میں چھپن بیراج کے کھولے جانے سے ہمالیہ کی ترائی اور شمالی بہار میں سیلاب کا خطرہ اور زیادہ بڑھ گیا ہے، اگلے دو تین دنوں تک آبی سطح میں مزید اضافے کا امکان ہے جس سے شدید جانی اور مالی نقصان ہوسکتا ہے، مشرقی یوپی کے کچھ اضلاع،آسام،تریپورہ،بنگال اور شمالی بہار شدید سیلاب کی زد میں ہیں، بہار میں سیتامڑھی،شیوہر،مشرقی چمپارن، مدھوبنی، دربھنگہ، سپول، کٹیہار، ارریہ، پورنیہ اور کشن گنج ان دنوں پانی سے جل تھل ہیں، بہار میں سیلاب سے کروڑوں لوگ متاثر ہوئے ہیں، آسام میں پچیس لاکھ سے زیادہ لوگ سیلاب کی زد میں ہیں، کازی رنگا نیشنل پارک سے دل دہلا دینے والی تصویریں سامنے آ رہی ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ ایسا سیلاب بہار میں پہلی بار آیا ہے،اس سے پہلے 2017 میں بھی سیلاب نے کوسی کے علاقے میں شدید تباہی مچائی تھی، 2007 میں بھی پورا شمالی بہار جل تھل ہو گیا تھا، لاکھوں لوگ اس سے متاثر ہوئے تھے،زندگی کو پٹری پر لوٹنے میں دس سال کا عرصہ لگ گیا، سن ستاسی کے سیلاب کو یاد کر کے بڑے بزرگ آج بھی کانپ اٹھتے ہیں جہاں سیلاب خش و خاشاک تک بہا لے گیا اور انسانی زندگی کیچڑوں میں سوگ مناتی رہ گئی،
ہمالیہ کی ترائی میں بسا بہار خصوصاً گنگا کے اِس پار کے میدانی علاقے اکثر اس آفت کی گرفت میں آجاتے ہیں، ان علاقوں میں ہر سال سیلاب کا پانی در آتا ہے، اس آفت کو جھیلنا یہاں کے لوگوں کی عادت بن چکی ہے، لیکن یہ سیلاب اپنے پیچھے اتنی تباہیاں چھوڑ جاتا ہے کہ زندگی کو معمول پر لانے میں مہینوں بیت جاتے ہیں، میلوں کوس کی سڑکیں تباہ ہو جاتی ہیں، ریل پٹریاں اُکھڑ جاتی ہیں، پل پلیے بہہ جاتے ہیں، ہزاروں مکان زمین دوز ہو جاتے ہیں، مویشی اور لاکھوں لوگ پانی میں سما جاتے ہیں، کھیتی باڑی کا نقصان الگ ہوتا ہے، پانی کے جماؤ سے ہزاروں طرح کی بیماریاں جڑ پکڑ لیتی ہیں، سیلاب ہر سال یہ تباہی اپنے ساتھ لاتا ہے جس سے زندگی درہم برہم ہو جاتی ہے، یہی ہر بار کی کہانی ہے۔
شمالی بہار کے حالات ابھی بہت ڈراونے ہیں، ہمیشہ کی طرح اس بار بھی یہ علاقہ سیلاب کی تباہی کو جھیل رہا ہے،بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں لوگ اپنی سطح پر زندگی بچانے کی جد وجہد کر رہے ہیں، اس میں حکومت کا رویہ بھی بہت ڈھل مل رہا ہے، بہت سے علاقوں میں سرکاری امداد کا کوئی اتا پتہ نہیں ہے، NDRF اور SDRF کی اُن تک پہنچ نہیں ہے،بتی گل ہے، گھروں میں پانی بھرا ہے، آسمان سے موسلا دھار بارش ہو رہی ہے،اور ان سب کے بیچ انسانی زندگی اپنے وجود کو باقی رکھنے کے لیے اس ناگہانی بلا سے جنگ لڑ رہی ہے۔
مرکزی اور صوبائی حکومت کو اس بارے میں غور و خوص کرنا چاہیے،سیلاب سے ہر بار اربوں کھربوں کا نقصان ہو تا ہے، سڑک، پل پلیے کی مرمت سازی اور سیلاب سے ہوئے نقصان کی تلافی میں اربوں روپے لگ جاتے ہیں، ہزاروں جانیں جاتی ہیں، زندگی صفر کی سطح پر آجاتی ہے، آخر اس کا کچھ تو حل ہونا چاہیے، اگر جلد ہی اس مسئلے کا حل نہیں نکالا گیا تو ترقی کے اس رفتار میں بہار بہت پیچھے ره جائے گا ، يوں ہی ہر سال ٹینڈر پاس ہوتے رہیں گے، پل پلیا بنتے اور ٹوٹتے رہیں گے، پٹریاں بچھتی اور اُکھڑتی رہیں گی، سڑکیں یوں ہی بنتی اور بگڑتی رہینگی- اس تباہی کی روک تھام کے لیے مضبوط لائحہ عمل کی ضرورت ہے، مرکزی اور صوبائی سطح پر قدرتی تباہی کی روک تھام کے لیے مخصوص شعبے تو موجود ہیں لیکن وہ ان آفات سے نپٹنے کے لیے نا کافی ہیں، اعلیٰ سطح پر اس پر کام کیے جانے کی ضرورت ہے، بہار میں سیلاب کی ایک اہم وجہ نیپال میں پانی کا اوور فلو ہونا ہے، مرکزی سرکار کو نیپال سے اس مسئلے پر بات چیت کرنی چاہئے اور اس مسئلے کا حل نکالنا چاہیے، سیلاب سے بچاؤ کے کئی کارگر طریقے ہو سکتے ہیں،سیلاب کی روک تھام کے لیے بڑے بڑے ڈیم بنائے جانے چاہیے،ندی نالے دن بدن سمٹتے جا رہے ہیں ایسے میں یہ ڈیم بہت کام کے ہو سکتے ہیں، شمال مغربی بہار میں باگمتی کو چھوڑ کر کوئی بڑی ندی نہیں ہے،برسات کے موسم میں اتنے بڑے علاقے کے پانی کو کنٹرول کرنا اس ندی کے لیے ممکن نہیں ہوتا ہے، ایسے ہی سیمانچل کے علاقے میں صرف ایک بڑی ندی کوسی ہے جو بالکل سپاٹ ہے، برسات کی پہلی بارش میں ہی کوسی جل تھل ہو جاتی ہے، نتیجتاً سیلاب آتے ہی اس کا پانی رہائشی علاقوں میں پھیل جاتا ہے، پورے متھلانچل اور سيمانچل کے علاقے میں لے دے کر یہی تین ندیاں باگمتي گملا اور کوسی بہتی ہیں، جو علاقے کے تناسب سے پانی کو کنٹرول کرنے میں ناکافی ثابت ہوتی ہیں، حکومت کو اس پر دھیان دینا چاہیے۔
اس قدرتی آفت کو اپنے اوپر مسلط کرنے میں ہمارا رول بھی کم نہیں ہے، جتنی چھوٹی چھوٹی ندیاں تھیں سب پاٹ دی گئیں،لوگوں نے ان پر قبضہ کر کھیتی باڑی شروع کر دی، بالو اور ریت مافیاؤں کی غیر قانونی کھدائی سے ندیوں کا وجود سمٹتا چلا گیا، ندیاں کٹتے کٹتے میدان میں تبدیل ہوگئیں، اب پانی کا کوئی رُخ نہیں ہے، دھارا جس طرف کی ہوتی ہے بہہ نکلتی ہے اور تباہی مچا دیتی ہے، اب صرف چیل گاڑی اور اُڑن کھٹولہ کے آسمانی معائنے سے بات نہیں بننے والی ہے، اس تباہی سے بچنے کے لیے مضبوط لائحہ عمل کی ضرورت ہے، دنیا نے پہاڑوں کو مسخر کرلیا، ہواؤں پر قابو پا لی، سمندروں پر قبضہ جما لیا، چاند پر کمندیں ڈال دیں آسمان پر ڈیرہ جما دیا اور ہم ابھی تک نیپال کے بہکے ہوئے پانی سے جوجھ رہے ہیں، مرکزی اور ریاستی حکومت کو اس مسئلے پر سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے اور مناسب حل تلاش کرنا چاہئے تاکہ آئندہ ان آفات پر قابو پایا جا سکے، اگر کوئی ٹھوس قدم جلد ہی نہیں اٹھایا گیا تو یوں ہی تباہی و بربادی ان علاقوں کا مقدر رہے گی، لوگ چلاتے اور مرتے رہیں گے، سیلاب سے متاثر لوگ اپنی محرومی قسمت کو روتے رہیں گے ، ایسے میں بہار میں بہار کیسے آئے گی ؟؟؟






