چودھری آفتاب احمد
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے مودی کی قیادت میں کانگریس مکت بھارت کا نعرہ دیا تھا، جب سے نریندر مودی اور امت شاہ کی گجراتی جوڑی نے بی جے پی کی قیادت سنبھالی ہے، تب سے ایک ارب سے زیادہ عوام سے جھوٹ پر جھوٹ بولا گیا ہے، جھوٹ کو پیش کرنے کا انداز جذباتی کرنے والا ہے، اپنے ملک سے محبت کرنے والی عوام جھوٹ کو بھی سمجھنے کے لئے سچ میں بدل رہی ہے۔
کانگریس چونکہ ملک کی قومی پارٹی ہے،اس لئے اسے ہی ان کے نشانہ پر آنا تھا،عوام اگر مینڈٹ دے تو بات درست ہے،لیکن اگر عوام کے مینڈٹ کو بے ایمانی سے حاصل کیا جائے، تو جمہوریت کے اصول کے منافی ہے،پہلے ہی سے کہا جا رہا ہے، کہ جمہوریت خطرہ میں ہے،کرناٹک کے واقعہ نے اسے یقین میں بدل دیا ہے، کہ واقعی جمہوریت خطرہ میں ہے،اور تانا شاہی کا بول بالا ہورہا ہے، سیاسی پارٹیاں ہی نہیں ملک کی عوام بھی سمجھ رہی ہے،کہ بی جے پی اکثریت کیسے حاصل کر رہی ہے؟
بی جے پی کی اس قیادت نے کبھی ہندوازم،کبھی راشٹرواد اور کبھی کانگریس کی ناکامیاں گناکر عوام کو گمراہ کیا ہے، کبھی سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ دیاہے،اپنے ہی دئے نعرہ پر مسلمانوں اور دلتوں پر ظلم کرکے چوٹ پہنچائی ہے، گویا نعرہ حقیقی نہیں محض دکھاوا تھا، اقلیتوں خاص کر مسلمانوں اور دلتوں پر ظلم سوچی سمجھی پالیسی کے تحت کیا جا رہا ہے، تاکہ انھیں خوف زدہ کردیا جائے، مظلوم کا ساتھ نہ دے کر آر ایس ایس کی ذیلی تنظیمیں ظالموں کی پیروکاری کرتی ہیں،ان کے حق میں آواز بھی بلند کرتی ہیں، کیا یہ حکومت کرنے کا ایک طریقہ ہے؟
عوام نے کرناٹک میں ان کے خلاف مینڈٹ دیا تھا، وہاں کانگریس کی حمایت سے جنتادل سیکولر اقتدار میں تھی، لیکن بی جے پی نے جس طریقہ سے کرناٹک میں ناٹک رچا اس سے جمہوریت کاقتل ہوا، کرناٹک میں طاقت اور دولت کا غلط استعمال کیا گیا، وہ بھی اس پارٹی نے کیا جواس وقت ملک کی قائد ہے، اور اس کے لیڈر ایمانداری کا ڈھول پیٹتے پھرتے ہیں،کیا یہی ایمانداری ہے؟ کیا یہی جمہوریت پر ان کا یقین ہے؟ کہ عوام کے مینڈٹ کو طاقت اور دولت کے زورسے بدل دیا جائے؟
ملک کے وزیر دفاع نے کرناٹک مسئلہ پر کہا تھا ،کہ کرناٹک مسئلہ سے بی جے پی کا کوئی لینا دینا نہیں ہے، وہاں کانگریس اور جنتادل سیکولر پارٹی کے جو ارکان اسمبلی باغی ہورہے ہیں، ان سے ان کی پارٹی کا کوئی تعلق نہیں ہے،یہ ان کا اپنا مسئلہ ہے، حالانکہ وزیر دفاع کی بات اس وقت بھی قابل یقین نہیں تھی، جب انھوں نے کہی تھی، اور اب تو یقین کے قابل ہی نہیں ہے، جبکہ کرٹاٹک میں ان کی حکومت بن گئی ہے، سب جانتے تھے کہ اس سارے مسئلہ کی جڈ بی جے پی ہی ہے، پھر بھی ملک کی ایک ذمہ دارشخصیت نے پردہ پوشی کی،اس لئے کہ یہاں اس سے ہی کام لیا جاتا ہے، اب جبکہ کرناٹک میں بی جے پی کی حکومت بن گئی ہے، اور یہ واضح ہوگیا ہے، کہ اس سارے مسئلہ کی جڈ بی جے پی ہی تھی،کیا وزیر دفاع اپنے کہے الفاظ واپس لیں گے؟
بی جے پی قیادت نے جن تین ایشوز کو زیادہ اچھالا ہے ، ان سے سیکولرازم کو نقصان ہواہے، جیسے ہندوازم سے مسلمانوں پر آفت آئی، کبھی گھر واپسی کے نام پر،کبھی لو جہاد کے نام پر،اورکبھی گؤ کشی کے نام پرستم کے پہاڑ مسلمانوں پر ہی ٹوٹے، راشٹرواد کے نام پر ملک کی ساری عوام کو بے وقوف بنایا گیا، جیسے بس یہی محب وطن ہوں اور کسی کو اپنے ملک سے محبت ہی نہ ہو، کانگریس کے بارے میں سرار جھوٹ بولا گیا، سب جانتے ہیں کہ کانگریس نے اس ملک کو غلامی سے آزاد کرایا، اس کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ،کانگریس کی قربانیوں اور وفاداریوں سے کوئی انکار نہیں کرسکتا سوائے ان کے جنہیں ملک پر تاناشاہی کرنے کا شوق چڑھا ہے۔
بی جے پی کے دورمیں ہجومی تشدد نے ایک مرتبہ پھر زور پکڑلیا ہے، ہجومی تشدد مسلمانوں کے ساتھ ہی ہورہا ہے، کہیں کہیں دلتوں کو بھی ہجومی تشدد اپنی زد میں لے رہا ہے، ایسا کیوں ہورہا ہے؟ ہجومی تشدد کے واقعات بڑھے ہیں،سپریم کورٹ نے ہجومی تشدد کے خلاف قانون بنانے کی ہدایت دی ہیں، لیکن اس پر غور نہیں ہو رہاہے، سپریم کورٹ نے ریاستی حکومتوں کو نوٹس جاری کر کے پوچھا ہے کہ اس کی ہدایت پر عمل کیوں نہیں ہوا ہے؟ جبکہ ہجومی تشدد کے واقعات دن بہ دن بڑھتے جارہے ہیں۔
راشٹرواد پر شعوری لوگ سمجھ ہی گئے تھے ،کہ یہ کیا اسٹنٹ ہے؟ انتخاب جیتنے سے پہلے انتخابی مہم میں چوکیدار تھے، انتخاب جیت تے ہی چوکیداری چھوڑکر ملک کے وزیر اعظم بن گئے، اور چوکیدار لکھنا ہی چھوڑ دیا، جبکہ انتخابی مہم میں سب کو چوکیدار کا حلف دلایا جا رہا تھا،راشٹرواد پر کانگریس کو اس طرح نشانہ پر لیا گیا،جیسے ملک کے ساتھ کانگریس نے غداری کی ہو،سب جانتے ہیں کہ چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹے ملک کو کانگریس نے آزادی کے بعد کیسے مشکل حالات میں بھارت یونین بنایا تھا۔
تاناشاہی کی طرف بڑھ رہی بی جے پی کے نشانہ پر اب مدھیہ پردیش اور راجستھان کی کانگریس حکومتیں ہیں، حالانکہ وہ بنگال حاصل کرنے کے لئے ممتا بنرجی کے پیچھے بھی پڑی ہے، لیکن کرناٹک میں بی ایس یدی یورپّا کو حلف دلاکر اب مدھیہ پردیش اور راجستھان کی کانگریس حکومتوں کو غیر جمہوری طریقہ سے اکھاڑ پھینک کر وہاں کا اقتدار حاصل کرنا اس کے بایولوج کا حصہ بن گیا ہے، جبکہ بی جے پی سمیت سب ہی جانتے ہیں کہ وہاں کی حکومتوں کو عوام کی اکثریت نے کامیاب بناکر اقتدار تک پہنچایا ہے، لیکن بی جے پی ایسے جمہوری اقدار کو پامال کرکے منصب حاصل کرنے میں یقین رکھتی ہے۔
عوام کی منتخب کردہ حکومتوں کے نمائیندوں کو خریدکر جمہوری حکومتوں کو گرانا وہ بھی بنا کسی الزام کے جمہوریت کے مضبوط ستون کو گرانے جیسا ہے، بی جے پی نے سب کا ساتھ سب کا وکاس کا جو نعرہ دیا تھا، یہ پارٹی اپنے اس نعرہ پر کاربند نہیں ہے، سب کا ساتھ نہیں دے رہی ہے، بلکہ ایسے لوگوں کا پردہ کے پیچھے سے ساتھ دیا جا رہا ہے، جو مسلمانوں اور دلتوں پر ظلم کر رہے ہیں،مظلوم کو نہ امداد دی جا رہی ہے اور نہ ہی انصاف، بلکہ تشدد برپا کرنے والوں کی حوصلہ افضائی کی جا رہی ہے، اگر قانون کے مطابق ان پر کارروائی کرکے ان کی تشدد کے تئیں حوصلہ شکنی کی جاتی، تو ملک میں ہجومی تشدد کے واقعات میں لازمی طور پر کمی آتی، تشدد برپا کرنے والوں کے خلاف کارروائی اس لئے نہیں کی جا رہی ہے، کیونکہ حکومت خود مسلمانوں اور دلتوں کو خوف زدہ کرکے رکھنا چاہتی ہے، اس لئے کہ یہی وہ ووٹر ہے، جو بی جے پی کے منصب اقتدار کے چول ہلا دے گا،لیکن جب یہ ڈر کر رہے گا، تو اس سے بی جے پی کوفائدہ ملے گا، اور یہ فائدہ بوتھ لیول سے ملنا شروع ہوگا، جو مرکزی قیادت کو اقتدار میں لاکر مضبوط کرے گا، یہ بی جے پی کا نظریہ اور پالیسی ہے۔






