بالآخر طلاق بل پاس ہوگیا

  محمود احمد خاں دریابادی

       وقارخون شہیدانِ کربلا کی قسم 

       یزید مورچہ جیتا ہے جنگ ہارا ہے

     جب تیسری مرتبہ موجودہ حکومت نے لوک سبھا میں طلاق مخالف بل پیش کیا تب ہی سے اندازہ ہورہا تھا کہ اس بار حالات مختلف ہیں اس بار حکومت پوری تیاری اور جوڑ توڑ کے ساتھ میدان میں اتری ہے، اس مرتبہ یہ بل پاس ہوجائیگاـ

   چنانچہ یہی ہوا لوک سبھا میں تو بھاجپا کو واضح اکثریت حاصل ہے اس لئے وہاں حکومت کو کوئی دشواری نہیں ہوئی، مگر راجیہ سبھا میں اکثریت نہ ہونے کے باوجود حکومت وہاں بھی اس بل کو پاس کرانے میں کامیاب ہوگئی ۔

    وہ پارٹیاں جن کا وجود ہی اس بار صرف مسلم ووٹوں کی وجہ سے بچ پایا ہے جیسے بی ایس پی اس کے سارے ممبران نے بل کی مخالفت کرنے کے بجائے غیر حاضر رہ کر بل کو پاس کروانے میں بی جے پی کی مدد کی، سماج وادی کے ممبران کی غیر حاضری بھی انتہائی تعجب خیز ہے، اویسی صاحب کے اشتراک سے تلگانہ میں مسلم ووٹ پانے والی ٹی آر ایس، مہاراشٹرا میں سیکولرازم کے سب سے بڑے علمبردار شرد پوار اور ان کے ساتھی پرفل پٹیل، نیش کمار کی جے ڈی یو، انا ڈی ایم کے، ان سب کی غیر حاضری کی وجہ سے ہی یہ بل 84 کے مقابلے 99 ووٹ لے کر پاس پایا، تقریبا 44 ممبران غیر حاضر تھے ۔

   اس بل کا آسانی سے پاس ہوجانا جہاں یہ بتاتا ہے کہ اس وقت ساری پارٹیاں پوری طرح سے ہندتوا کے دباؤ میں ہیں، جس کی وجہ آئندہ تعدد ازدواج، وراثت وغیرہ کے سلسلے میں بھی حکومتی مداخلت کا خطرہ بڑھ گیا ہے ۔ نیز مسلمانوں کے سامنے ایک بار پھر یہ واضح ہوگیا ہے کہ نام نہاد سیکولر پارٹیاں بالکل اعتماد کے قابل نہیں ہیں اس لئےاب مسلمانوں کو آئندہ کے لئے نیا لائحہ عمل بنالینا چاہیئے۔

    اب پارلیامنٹ کے دونوں ایوانوں سے یہ بل پاس ہوچکا ہے اور دستخط کے لئے صدر جمہوریہ کے پاس جائے گا، یہ امید رکھنا کہ موجودہ صدر دستخط کرنے میں تاخیر کریں گے بہت بڑی حماقت ہوگی، اس لئے دوایک دن کے اندر ہی یہ بل صدر کے دستخط کے بعد قانون بن جائے گا ۔

   اب ایک دروازہ اور باقی رہ جاتا ہے وہ ہے عدالت ! اس بل میں بہت سی کمزوریاں ہیں، مثلا بلا جرم کے تین سال سزا، بیک وقت تین طلاق کے ساتھ ہر قسم کی طلاق پر پابندی، شوہر کے جیل جانے کے بعد بچوں اور خود بیوی کا بے سہارا ہوجانا، ……. ایسی کئی خامیاں ہیں جنھیں لے کر اس بل کو عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے، اس لئے مسلم تنظیموں کو مکمل تیاری کے ساتھ پوری مضبوطی سے عدالت کو جنبش دینا چاہیئے، اگرچہ وہاں بھی اس بات کی گیارنٹی نہیں ہے کہ نتیجہ حسب دلخواہ برامد ہوگا۔

   آخری اور سب سے مضبوط بات یہ ہے کہ ایسے ہزاروں قوانین بن جائیں مگر مسلمانوں کا ایمان قران وحدیث پر ہی رہے گا وہ اس سے ایک انچ بھی ہٹنا گوارہ نہیں کریں گے ……. اسی کے ساتھ ہی ہم سب کو اپنی اصلاحی کوششوں میں تیزی لانا ہوگی، جو لوگ جہالت کی وجہ سے بیک وقت تین طلاق دیتے ہیں اور دیگر غیر شرعی رسومات کا شکار ہیں اُن کے اندر شرعی قوانین کی اہمیت پیدا کرنے کے لئے زمینی اقدامات کرنے ہوں گے، آپسی تنازعات مل بیٹھ کر، شرعی پنجایت یا دارالقضا میں حل کرانے کے لئے آمادہ کرنا ہوگا ۔

   اسلام پس ہمتی کی بالکل اجازت نہیں دیتا اس لئے اپنے حوصلوں کو بیدار اور اپنے عزائم کو بلند رکھنا پڑے گا ۔ …… تاریخ بتاتی ہے کہ انسانی قانون جب بھی خدائی قانون سے ٹکرایا ہے ہمیشہ کامیابی احکم الحاکمین کے قوانین پر چلنے والوں کی ہوئی ہے ـ بھاجپا والوں کو یاد رکھنا چاہیئے ۔ …….

      بہت بلند فضا میں تری پتنگ سہی 

    مگر یہ سوچ بھلاڈورکس کےہاتھ میں ہے

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں