مولانا عبد الرشید طلحہ نعمانیؔ
” ذی الحجہ “ اسلامی سال کاسب سے آخری مہینہ ہے؛ جو ماہ رمضان کے بعد عظمت وفضیلت میں اپنی نمایاں شان اور منفرد شناخت رکھتا ہے، اس مہینے کا چاند نظر آتے ہی ہرمسلمان کے دل میں اس عظیم الشان قربانی کی یاد تازہ ہوجاتی ہے؛ جو جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیمؑ اور ان کے خانوادے نے پیش کی؛ جس کی مثال پیش کرنےسے تاریخ عاجز و قاصر ہے۔ ذی الحجہ کا یہ مہینہ ان حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے جس کو اللہ تعالی نے زمین و آسمان کی پیدائش ہی کے وقت سے محترم بنایا ہے؛ جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے، ارشاد ربانی ہے: بیشک اللہ کے نزدیک مہینوں کی گنتی اللہ کی کتاب میں بارہ مہینے (لکھی) ہے جس دن سے اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا تھا ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں۔ یہی سیدھا دین ہے سو تم ان مہینوں میں (از خود جنگ و قتال میں ملوث ہو کر ) اپنی جانوں پر ظلم نہ کرنا اور تم (بھی) تمام مشرکین سے اسی طرح (جوابی) جنگ کیا کرو جس طرح وہ سب کے سب (اکٹھے ہو کر) تم سے جنگ کرتے ہیں، اور جان لو کہ بیشک اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔ (التوبہ، 9 : 36)
اور اس مہینہ کا یہ نام اس لیئے رکھا گیا؛ کیونکہ اس میں اسلام کا عظیم رکن حج ادا کیا جاتا ہے اور الله تعالی کے ارشاد کے مطابق یہ حرمت والے مہینے چار ہیں یعنی ذو القعدۃ ، ذو الحجۃ ، محرم اور رجب جیسا کہ بخاري و مسلم کی حدیث سے ثابت ہے۔
حضرت مولانا مفتی محمدتقی عثمانی صاحب مدظلہ فرماتے ہیں کہ ” ذی الحجہ کے مہینے کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایک عجیب خصوصیت اور فضیلت بخشی ہے؛ بلکہ اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ فضیلت کا یہ سلسلہ رمضان المبارک سے شروع ہورہا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے عبادتوں کے درمیان عجیب و غریب ترتیب رکھی ہے کہ سب سے پہلے رمضان آیا اور اس میں روزے فرض فرما دیئے، پھر رمضان المبارک ختم ہونے پر فوراً اگلے دن سے حج کی عبادت کی تمہید شروع ہوگئی؛ اس لئے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا: حج کے تین مہینے ہیں شوال، ذیقعدہ اور ذی الحجہ۔ اگرچہ حج کے مخصوص ارکان تو ذی الحجہ ہی میں ادا ہوتے ہیں؛ لیکن حج کے لئے احرام باندھنا شوال سے جائز اور مستحب ہوجاتا ہے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص حج کو جانا چاہے تواس کے لئے شوال کی پہلی تاریخ سے حج کا احرام باندھ کر نکلنا جائز ہے، اس تاریخ سے پہلے حج کا احرام باندھنا جائز نہیں ۔ پہلے زمانے میں حج پر جانے کے لئے کافی وقت لگتا تھا اور بعض اوقات دو ، دو ، تین تین مہینے وہاں پہنچنے میں لگ جاتے تھے۔ اس لئے شوال کامہینہ آتے ہی لوگ سفر کی تیاری شروع کردیتے تھے۔ گویا کہ روزے کی عبادت ختم ہوتے ہی حج کی عبادت شروع ہوگئی اور حج کی عبادت اس پہلے عشرہ میں انجام پاتی ہے اس لئے کہ حج کا سب سے بڑا رکن جو ’’ وقوفِ عرفہ ‘‘ ہے ۹؍ذی الحجہ کو انجام پاجاتا ہے۔ ان دس ایام کی اس سے بڑی اور کیا فضیلت ہوگی کہ وہ عبادتیں جو سال بھر کے دوسرے ایام میں انجام نہیں دی جاسکتیں، ان کی انجام دہی کے لئے اللہ تعالیٰ نے اسی زمانے کو منتخب فرمایا ہے۔ مثلاً حج ایک ایسی عبادت ہے جو اِن ایام کے علاوہ دوسرے ایام میں انجام نہیں دی جاسکتی۔ دوسری عبادتوں کا یہ حال ہے کہ انسان فرائض کے علاوہ جب چاہے نفلی عبادت کرسکتا ہے۔ مثلاً نماز پانچ وقت کی فرض ہے۔ لیکن ان کے علاوہ جب چاہے نفلی نماز پڑھنے کی اجازت ہے۔ رمضان میں روزہ فرض ہے؛ لیکن نفلی روزہ جب چاہیں رکھیں۔ زکوٰۃ سال میں ایک مرتبہ فرض ہے؛ لیکن نفلی صدقہ جب چاہے ادا کردے۔ ان سے ہٹ کر دو عبادتیں ایسی ہیں کہ ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے وقت مقرر فرمادیا ہے۔ ان اوقات کے علاوہ دوسرے اوقات میں اگر ان عبادتوں کو کیا جائے گا تو وہ عبادت ہی نہیں شمار ہوگی۔ ان میں سے ایک عبادت حج ہے، حج کے ارکان مثلاً عرفات میں جاکر ٹھہرنا، مزدلفہ میں رات گزارنا، جمرات کی رمی کرنا وغیرہ یہ وہ اعمال ہیں کہ اگر انہی ایام میں انجام دیے جائیں تو عبادت ہے اور ان کے علاوہ دوسرے دنوں میں اگر کوئی شخص عرفات میں دس دن ٹھہرے تو یہ کوئی عبادت نہیں ، سال کے بارہ مہینے منیٰ میں کھڑے رہنا کوئی عبادت نہیں ، اسی طرح سال کے دوسرے ایام میں کوئی شخص جاکر جمرات پر کنکریاں مار دے تو یہ کوئی عبادت نہیں ۔ غرض حج جیسی اہم عبادت کے لئے اللہ تعالیٰ نے اسی مہینے کو مقرر فرما دیا کہ اگر بیت اللہ کا حج ان ایام میں انجام دوگے تو عبادت ہوگی اور اس پر ثواب ملے گا ورنہ نہیں۔
دوسری عبادت قربانی ہے، قربانی کے لئے اللہ تعالیٰ نے ذی الحجہ کے تین دن یعنی دس گیارہ اور بارہ تاریخ مقرر فرما دی ہے۔ ان ایام کے علاوہ اگر کوئی شخص قربانی کی عبادت کرنا چاہے تو نہیں کرسکتا۔ البتہ اگر کوئی شخص صدقہ کرنا چاہے تو بکرا ذبح کرکے اس کا گوشت صدقہ کرسکتا ہے؛ مگر یہ قربانی کی عبادت ان تین دنوں کے سوا کسی اور دن میں انجام نہیں پاسکتی۔ لہٰذا اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس زمانے کو یہ امتیاز بخشا ہے۔ اسی وجہ سے علماء کرام نے احادیث کی روشنی میں یہ لکھا ہے کہ رمضان المبارک کے بعد سب سے زیادہ فضیلت والے ایام ذی الحجہ کےابتدائی ایام ہیں ، ان میں عبادتوں کا ثواب بڑھ جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ ان ایام میں اپنی خصوصی رحمتیں نازل فرماتے ہیں۔ “ (ملخص از اصلاحی خطبات ج 2 ص 122)
حضرت کعب ؓ راوی ہیں فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے وقت کو منتخب فرمایا اس طرح پسندیدہ ترین وقت چار محترم مہینے ہیں اور ان میں بھی سب سے زیادہ پسندیدہ ماہ ذی الحجہ ہے اور اس ماہ میں بھی سب سے بڑھ کر پسندیدہ اس کے ابتدائی دس روز ہیں۔ (لطائف المعارف)
عشرۂ ذی الحجہ کے فضائل :
ذی الحجہ کے ابتدائی دس ایام کی فضیلت کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان دنوں کی قسم کھائی ہے اور اللہ تعالی معمولی چیزوں کی قسم نہیں کھاتے؛ بل کہ مہتم بالشان چیزوں کی قسم کھاتے ہیں ، چناں چہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ” قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی ‘‘ (سورۂ فجر)امام ابن کثیر ؒ نے فرمایا: دس راتوں سے مراد عشرۂ ذی الحجہ ہے۔ اسی طرح فرمان الٰہی ہے: ” اور یہ کہ وہ چند معلوم و معروف دنوں میں اللہ کو یاد کیا کریں (سورۂ حج) امام ابن کثیر نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ حضرت ابن عباسؓ کے قول کے مطابق اس سے مراد عشرۂ ذی الحجہ ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ” ولیال عشر “ کے ذیل میں فرماتے ہیں، یہ دس راتیں وہی ہیں جن کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قصے میں ذکر ہے ” اتممناھا بعشر “ (اعراف: 142)؛ کیوں کہ یہی دس راتیں سال کےتمام ایام میں افضل ہیں، امام قرطبیؒ نے فرمایا کہ حدیث سے ذُوالحجہ کے پہلے عشرہ کا تمام دنوں میں افضل ہونا معلوم ہوا نیز یہ بھی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے بھی یہی دس راتیں ذی الحجہ کی مقرر کی گئی تھیں۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ” کوئی دن ایسا نہیں ہے کہ جس میں نیک عمل اللہ تعالیٰ کے یہاں اِن (ذی الحجہ کے) دس دنوں کے نیک عمل سے زیادہ محبوب ہو اور پسندیدہ ہو “ ،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یارسول اللہؐ ! کیا یہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے سے بھی بڑھ کر ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ” اللہ کے راستے میں جہاد کرنے سے بھی بڑھ کر ہے مگر وہ شخص جو جان اور مال لے کراللہ کے راستے میں نکلے، پھر ان میں سے کوئی چیز بھی واپس لے کر نہ آئے “ (سب اللہ کے راستے میں قربان کردے ، اور شہید ہو جائے یہ ان دنوں کے نیک عمل سے بھی بڑھ کر ہے )۔ (ابن حبان)
حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنھماسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ” اللہ تعالیٰ کے یہاں (ذو الحجہ کے) دس دنوں کی عبادت سے بڑھ کرعظیم اور محبوب تر کوئی عبادت نہیں لہٰذا ان میں ” لاالہ الا اللّٰہ ، اللّٰہ اکبر،الحمد للّٰہ “ کثرت سے پڑھا کرو۔ (احمد،بیہقی)
عشرۂ ذی الحجہ کی فضیلت کاسبب بیان کرتے ہوئے حافظ ابن حجرؒ نے فتح الباری شرح بخاری میں لکھا ہے تمام دلائل سے جو بات ثابت ہوتی ہے وہ یہ کہ عشرۂ ذی الحجہ کی فضیلت اور خصوصیت کی وجہ صرف یہ ہے کہ تمام بڑی اور اصل عبادتیں اس کے اندر یکجا ہیں جیسے نماز، روزہ، صدقہ و خیرات اور حج، جبکہ کسی بھی موقع سے یہ ساری عبادتیں اکھٹی نہیں ہوتیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ سے عشرۂ ذی الحجہ اور ماہ رمضان کے عشرۂ اخیر کی بابت فتویٰ طلب کیا گیا کہ دونوں میں کس کو کس پر فوقیت حاصل ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ عشرۂ ذی الحجہ کے دن عشرۂ رمضان کے دن سے بہتر ہیں اور رمضان کے عشرہ ٔ اواخر کی راتیں عشرۂ ذی الحجہ کی راتوں سے بہتر ہیں۔
ان دس بابرکت دنوں کے مستحب اعمال:
۱۔ حج اور عمرہ کی ادائیگی: یہ دونوں سب سے افضل عمل ہیں۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: ” پے در پے عمرہ کرنا دو عمرے کے درمیان کے گناہوں کا کفارہ ہے اور حج مقبول کا صلہ جنت ہی ہے “ (جنت کے سوا کچھ بھی نہیں) (متفق علیہ)
۲۔ پورے دنوں کے روزے رکھنا یا اتنا رکھنا جتنا کہ رکھ سکے (عید اور ایام تشریق کے علاوہ) امام نووی ؒ نے یبان فرمایا کہ روزہ رکھنا نہایت درجہ مستحب فعل ہے (شرح مسلم) نبی کریم ﷺ سے عرفہ کے روزے کے متعلق دریافت کیئے جانے پر فرمایا: ” گذشتہ اور آئندہ سال کے گناہوں کی معافی کا ذریعہ ہے “۔
۳۔ کثرت سے عمل صالح انجام دینا جیسے نفلی عبادتیں، روزہ، خیرات، تلاوت اور صلۂ رحمی وغیرہ۔
۴۔ زیادہ سے زیادہ سبحان اللہ، الحمدللہ، لاالہ الااللہ، اللہ اکبر کہتے رہنا۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے: ” ان دنوں میں زیادہ سے زیادہ اللہ کی پاکی، بڑائی، حمد و ثناء بیان کرو اور اس کی بندگی و عبودیت کا اظہار کرو “۔(مسنداحمد )
خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق ؓ ایام حج میں منی کے اندر اپنے خیمے میں بلند آواز سے تکبیر پڑھا کرتے تھے اور اس طرح مسجد میں موجود لوگ اور بازاروں میں چلنے پھرنے والے ان کی آواز سن کر پڑھا کرتے تھے پھر پورا منی ان آواز سے گونج اٹھتا تھا۔ (امام بخاریؒ نے اس حدیث کو معلق روایت کیا ہے)
۵۔ قربانی کی تیاری:
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: ” جب تم ذی الحجہ کا چاند دیکھ لو اور جس کسی نے بھی قربانی کرنے کی نیت کی ہو تو پھر اسے اپنے بال کتروانے اور ناخن تراشنے سے رکے رہنا چاہیے (مسلم شریف)
خلاصۂ کلام:
اس فضیلت کا تقاضا ہے کہ ہم ان مبارک دنوں میں غیر ضروری تعلُقات سےمنہ موڑ کراللہ تعالیٰ کی عبادت اور اطاعت بہت لگن اور توجہ کے ساتھ کریں اور ہمہ تن اللہ تعالیٰ کی یاد میں مشغول رہیں اور ذکر و فکر ، تسبیح و تلاوت ، صدقہ، خیرات اور نیک عمل میں کچھ نہ کچھ اضافہ کرنے کی کوشش اور گناہوں سے بچنے کی فکر کریں۔ اس سے قبل کہ یہ قیمتی لمحے رخصت ہوجائیں، انہیں غنیمت جانیں؛ تاکہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی سے دامنِ مراد کو بھر سکیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسے عمل کی توفیق بخشے جو اس کی رضا و خوشنودی کا سبب ہوں اور ہم سب کے اعمال صالحہ کو شرف قبول عطا فرمائے ۔ آمین






