جنگ آزادی میں مسلمانوں کی قربانیاں 

سرتاج احمد 

خون کی روشنائی سے تحریر تھی 

وقت کے لوح پر داستان وفا

نوک خنجر سے اسکو مٹایا گیا 

اب ثبوت وفا کس طرح لائے 

کتنے ارباب ہمت نے انکے لیئے 

بڑھ کے میداں میں جاں بھی ہار دی 

اب بھی انکی نگاہوں میں ہے بدظنی 

اب بھی انکو وفا کی سند چاہئے

 

قارئین کرام 

جب اس ملک کے اندر انگریز آیا اور ہندوستان کو اپنا غلام بنا لیا تو سب سے پہلے مسلمانوں نے آزادی کے متعلق آواز بلند کی مسلمان جانتے تھے آزادی کیا ہوتی ہے اقتدار کیا ہوتا ہے اور غلامی کیا ہوتی ہے برادران وطن کے لیئے انگریزوں کا آنا صرف یہ معنی رکھتا تھا کہ ایک آقا گیا دوسرا آقا چلا آیا ملک تو ہمارا تھا ملک تو ہم سے چھینا گیا تھا غلامی کا احساس تو ہم کو تھا ذلت کا احساس تو ہم کو تھا اسلیئے جنگ آزادی کا نعرہ ہم نے بلند کیا آگے بڑھ کر قربانیاں ہم نے دی تاریخ پڑھیئے اس کی چند جھلکیاں میں آپکو بتانہ چاہتا ہوں 1601 میں انگریز اس ملک میں آگیا تاجر کی حیثیت سے آیا اور تقریبا ایک صدی تک وہ تاجر کے بھیس اور تاجر کے لبادے میں ہی رہا اسکے ناپاک عزائم اور ارادے کھل کو سامنے نہی آسکے 1707 میں یعنی انگریزوں کے آنے کے ٹھیک ایک صدی کے بعد جب اورنگ زیب عالم گیر علیہ رحمہ کا انتقال ہوا تو اس ملک میں طوئف الملوکی کا دور شروع ہو گیا اور اس ملک کی طاقتیں باہم دست بگریباں ہو گئیں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے ان میں آویزش شروع ہو گئ اور جتنے راجے اور نواب تھے سب مستقل بادشاہ بن بیٹھے تاریخ بتاتی ہے اس دور میں چند بڑی بڑی طاقتیں الگ بن گئ جاٹوں کی طاقت الگ ابھری خالصہ الگ ایک مزہبی طاقت بن گئ اور یہ سب طاقتیں آپس میں اس طرح الجھی کے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے کسی نے احمد شاہ ابدالی کو بلایا تو کسے نے نادر شاہ کو بلایا اور دلی بار بار خون میں ڈوبی اجڑی اور لٹی دلی میں قتل عام ہوتا رہا ان حالات کا فائدہ اٹھا کر انگریزوں نے اپنے قدم اس ملک میں آگے بڑھاے ایک دوسرے کے خلاف مدد کر کے اپنے ناپاک منصوبے کو پائے تکمیل تک پہونچانا شروع کیا اور اورنگ زیب کے انتقال کے 50 سال بعد بنگال میں سراج الدولہ کو شکست دیکر بنگال کی حکومت پر انگریزوں نے قبضہ کر لیا پھر انگریز کے بڑھتے قدم کو کوئ روک نہ سکا کچھ دنوں کیلئے شیر میسور نے انگریزوں کو روکا لیکن کب تک اپنوں کی غداری کی وجہ سے آخر وہ چٹان بھی ٹوٹ گئ اور 1799ء میں ٹیپو سلطان کو شہید کرنے کے بعد انگریزوں نے یہ اعلان کیا کے اب یہ ملک ہمارا ہے اور یہ صرف اعلان نہی تھا اس اعلان کے بعد انگریز جب دلی کی طرف بڑھا ہے تو 1803ء میں دلی پر انگریزوں کا قبضہ ہو گیا لال قلعہ سے ہلالی پرچم اتار دیا گیا یونین پرچم اس پر لہرا دیا گیا اور یہ اعلان کر دیا گیا خلق خدا کی ملک بادشاہ کا حکم کمپنی بہادر کا چلے گا یہ اعلان ہونا تھا کہ دلی میں ایک فقیر بوریا نشین رہتا تھا یہ فقیر بوریا نشین کون تھا یہ اس عظیم ہستی کا فرزند تھا جس ہستی کو اللہ نے اس ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں کی نشعت ثانیہ کیلئے منتخب کیا تھا یعنی شاہ ولی اللہ کے فرزند ارجمند شاہ عبدالعزیز علیہ الرحمہ وہ فقیر بوریا نشین تڑپ اٹھتا ہے اور ایک مئومنانہ فتوی جاری کرتا ہے اور یہ اعلان کرتا ہے کے اب یہ ملک غلام ہو چکا ہے اب یہاں مسلمانوں کو رہنے کیلئے صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے انگریز سے جہاد کرے شاہ صاحب کا یہی فتوی آزادی کی بنیاد بنا لیکن میں آپکو تاریخ کا ایک ورق اور پیچھے پلٹ کر بتانا چاہتا ہوں کہ اللہ تبارک وتعالی کو یہ منظور نہی تھا کہ انگریز اپنے ناپاک منصوبے میں کامیاب ہو انگریز کا مقصد صرف یہ نہی تھا کہ وہ اس ملک میں اپنی حکومت قائم کرے بلکے حکومت قائم کرنے کے ساتھ ساتھ انگریز یہ چاہتا تھا کے اس ملک میں عیسائیت کو اتنا فروغ دیا جائے کے اس ملک میں پائے جانے والے تمام مزاہب ختم ہو جائے اور صرف عیسائت باقی رہے اور اسکے لیئے انگریزوں نے بڑی منصوبہ بندی کی تھی تاریخ ہمیں بتاتی ہے اور اس حقیقت ست پردہ اٹھاتی ہے کے انگریزوں نے اس ملک پر قبضہ کرنے سے پہلےبرطانیہ کے اندر ایسے ایسے دارالعلوم قائم کئے تھے جہاں حدیث پڑھائ جاتی تھی فقہ پڑھائ جاتی تھئ قرآن اور قرآن کی تفسیر پڑھائ جاتی تھی پڑھانے والے انگریز پادری ہوتے تھے پڑھنے والے بھی انگریز ہوتے تھے انہیں ہندوستان میں بولی جانے والی تمام بڑی زبانیں سکھائ جاتی تھی اور انہیں اس طرح ماہر بنا دیا جاتا تھا کے وہ ایک اہل زبان کی طرح باتیں کر سکے اس طرح سے پادریوں کی ایک فوج پہلے سے ہی تیار کر کے رکھ دی تھی جب اس ملک پر انگریزوں کا قبضہ مکمل ہو گیا تو تاریخ پڑھئے تو پتہ چلتا ہے پھر انگلستان سے اور یورپ سے پادریوں کی فوج کی فوج ہندوستان آنی شروع ہوئ اور اس ملک کے تمام جھوٹے بڑے شہر میں پھیل گئے اور صرف پھیل ہی نہی گئے بلکہ ایسی ایسی اشتعال انگیزیاں کیا کرتے تھے کہ پیغمبر اسلام کو یہ مسلمانوں کے سامنے گالیاں دیا کرتے تھے اسلام کی تعلیمات کا یہ مزاق اڑایا کرتے تھے لیکن مسلمان بیچارہ ڈرا ہوا تھا سہما ہوا تھا وہ بالکل انکے سامنے کچھ کہنے کی جرآت نہی کر سکتا تھا ایک طرف پادری اپنا کام کر رہا تھا دوسری طرف تعلیم کے نام پر ایسا نصاب تعلیم وضع کیا گیا یورپ کے ماہرین تعلیم کو بلایا گیا ایک کمیٹی تشکیل دی گئ جسکا سربراہ لاڈ میکالے کو بنایا گیا اس نے ایک نصاب تعلیم مرتب کر کے ہندوستان میں قائم کئے جانے والے اسکولوں اور کالجوں میں جاری کیا اور اعلان کیا اس نصاب کے ذریعہ ہم ہندوستان میں ایسی نسل پیدا کرنا چاہتے ہیں جو رنگ و روپ کے اعتبار سے تو ہندوستانی ہو لیکن اسکا مزاج اسکا ذہن انگلستانی ہو 

تیسری طرف اس ملک میں پائے جانے والے مدارس خانقاہیں سب ایک ایک کر کے تباہ کر دئے گئے کچھ باقی نہی رہا خاص طور سے 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد جو حالات اس ملک میں پیدا ہو گئے تھے کوئ سوچ بھی نہی سکتا تھا کے اب اس ملک میں اسلام کا بھی کوئ مستقبل ہوگا اور مسلمان کا بھی کوئ مستقبل ہوگا ان حالات میں اللہ کا فیصلہ یہ تھا کہ اس ملک میں اسلام بھی باقی رہے گا اور مسلمان بھی باقی رہے گا اس عظیم مقصد کیلئے اللہ تبارک و تعالی نے انبیاء کرام علیہم السلام کے سچے جانشین کو کھڑا کیا وہ سچے جانشین کون ہیں انکا سلسلہ شروع ہوتا ہے سیدنا شاہ ولی اللہ محدث دہلوی سے اورنگ زیب کے انتقال کے بعد جب اس ملک میں افرا تفری مچی ہوئ تھی اورنگ زیب کا انتقال ہوتا ہے اور شاہ ولی اللہ کی ولادت ہوتی ہے حضرت شاہ ولی اللہ کو کوئ لمبی عمر نہی ملی لیکن اس مختصر سی مدت میں اللہ نے شاہ ولی اللہ کے ذریعے وہ کام لیا جو آگے چل کر اس ملک میں جنگ آزادی کی سبب بنا اسکے بعد شاہ ولی اللہ کے فرزند ارجمند شاہ عبد العزیز نے انگریزوں کے خلاف جہاد پر بیعت لی اور جہاد کا سلسلہ سرحدی علاقہ سے شروع کیا لیکن اللہ کو ابھی یہ منظور نہی تھا ابھی مسلمانوں سے اور قربانیاں لینی تھی آخر کار اپنوں کی غداری کی وجہ سے مسلمانوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اسکے بعد 1857ء کی جنگ شروع ہوتی ہے آج جو یہ کہا جاتا ہے کے پہلی جنگ آزادی کا سلسلہ 1857ء سے شروع ہوتا ہے یہ بالکل غلط ہے یہ جنگ تو دوسری جنگ ہے پہلی جنگ مسلمانوں نے تنے تنہاں ایک صدی تک لڑی ہے یہ ہے مختصر سی ہندوستان کی تاریخ ہے۔

رابطہ نمبر: 6393406453

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں