مشترکہ قرار داد مسلم قیادت کی نااہلی کا مظہر

عدیل اختر

مختلف مسلم تنظیموں کی طرف سے کشمیر معاملہ پر جو مشترکہ بیان جاری کیاگیا ہے وہ انتہائی مایوس کن اور افسوسناک ہے۔ تین مختصر سے پیراگراف میں چند سطروں والے اس بیان کی ہر سطر خود اس بات کو ظاہر کرنے کے لئے کافی ہے کہ یہ مسلم تنظیمیں اور ان کے کرتا دھرتا مسلمانوں کے مافی الضمیر کی ترجمانی کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے اور حکومت سے اس قدر خوف زدہ ہیں کہ اپنا موقف نہ تو ٹھیک سے طے کرسکتے ہیں اور نہ اسے بیان کرسکتے ہیں۔ تاریخی حقائق اورحق و انصاف کے بنیادی تقاضوں کو نظر انداز کرکے حکومت اور اکثریتی فرقہ کے خوف نیز وطن پرستی کے نظریہ سے مرعوبیت کی حالت میں لکھا گیا یہ بیان جاری کرنے سے بہتر تھا کہ یہ لوگ اپنے دفتروں میں بیٹھے رہ کر ہی اپنی خیر مناتے رہتے۔  

اس قرار داد کی پہلی ہی لائن میں وہ بات کہی گئی جس کے لئے کسی قرار داد کی ضرورت نہیں اور جودستور نے ازخود ہی ہر شہری کے اوپر لازم کررکھی ہے۔ لیکن غیر ضروری طور پر سب سے پہلے اسی بات کو قرارداد کا پہلا نکتہ بناکر بین السطور میں یہ پیغام دیاگیا ہے کہ ” ملک کے استحکام اور سالمیت “ کے دعوے کے ساتھ جو بھی قدم اٹھایا جائے گا اس کا تجزیہ کرنے اور اس کے درست یا غلط ہونے کے بارے میں فیصلہ کرنے کی کوئی جرئت ہم نہیں کریں گے۔ایسے کسی بھی دعوے پر ہم آمنا و صدقنا کہیں گے اور یہ نہ دیکھیں گے کہ ملک کی سالمیت و استحکام کا بہانہ بناکر یا واقعی ” سا لمیت و استحکام “ کی خاطر جو اقدام کئے جارہے ہیں وہ حق و انصاف اور انسانی حقوق کے اصولوں نیز اللہ و رسول ﷺ کی منشاء کے مطابق ہیں یا نہیں۔ اس بات کی تاکید اور وضاحت اس کے بعد والی لائن سے ہوتی ہے جس میں یہ کہا گیا کہ دستور میں برابری، انصاف اور انسانی حقوق کے ذکر کرنے کا مقصد ملک کااستحکام اور سالمیت ہی ہے۔ یعنی اصل مقصود ” ملک کا استحکام و سالمیت “ ہے، انصاف کا قیام اور انسانوں کو ان کے بنیادی حقوق دینا اصل مقصود نہیں ہے۔ یہ وطن پرستی کا وہ مشرکانہ اور ظالمانہ نظریہ ہے جسے اسلام پوری طرح مسترد کرتا ہے لیکن اسلام اور مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والے یہ قائدین یہ طے کرنے میں ناکام ہیں کہ ان کے لئے، انسانیت نوازی اوراسلام و ایمان اہم ہے یا وطن پرستی۔

دفعہ 370 کو ہٹاکر کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے فیصلہ کی بھی اس قرار داد میں مخالفت نہیں کی گئی بلکہ گول مول الفاظ میں اس کی تائید کردی گئی ہے۔حالانکہ دفعہ 370 کو ہٹانے کا نعرہ بی جے پی کے ان تین خاص ایشوز میں سے ایک تھا جن کی وجہ سے بی جے پی کی سیاسی مخالفت عام تھی اور بی جے پی کے ساتھ اتحادی حکومت بنانے والی نام نہاد سیکولر پارٹیوں نے اسے ان متنازعہ ایشوز میں رکھا تھا جن کو پست پشت ڈالنے کی شرط پر ہی انھوں نے ماضی میں بی جے پی کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کے معاہدے کئے تھے۔ اور اس کی بڑی وجہ یہی تھی کہ اسے مسلم ووٹروں کے جذبات کے خلاف سمجھاجاتا تھا اور بھارت کے ساتھ کشمیر کے الحاق پر بھارت کے مسلمانوں کی تائید ورضامندی کا ایک عنوان مانا جاتا تھا۔ 

دفعہ 370 کو ہٹانے کے فیصلہ کی حمایت یا مخالفت دونوں کی آزادی ملک کے عوام کو حاصل ہے اور اسی لئے بہت سے سیاسی قائدین، سابق بیروکریٹ، سوشل ورکرس اور عوام میں سے بہت سے لوگوں نے حکومت کے اس فیصلے کی حمایت نہیں کی ہے بلکہ اس کی مخالفت میں کچھ لوگ سپریم کورٹ تک بھی پہنچ گئے ہیں۔لیکن ریڑھ سے محروم نام نہاد مسلم قیادت حکومت کے سیاسی فیصلوں کی مخالفت کے قانونی حق کو استعمال کرنے کا بھی حوصلہ نہیں رکھتی۔

کیا مسلمانان ہند کی قیادت کے ان دعوے داروں کو یہ نہیں پتا ہے کہ کشمیر کا بچہ بچہ حکومت کے اس جابرانہ فیصلہ کے خلاف اپنی جان دینے کو آمادہ ہے۔ کشمیر کی جو سیاسی پارٹیاں اور قائدین بھارت کے ساتھ کشمیر کے الحاق کے نظریہ پر راضی ہیں اور کشمیر کی آزادی کی عوامی تحریک میں شامل نہیں ہیں وہ بھی دفعہ370 کو ہٹانے کی مخالف ہیں۔ اس ہمہ گیر مخالفت کی وجہ سے ہی حکومت ہند نے انتہائی جابرانہ طریقے سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کااعلان کیا ہے اور بھارت نواز سیاسی لیڈروں کو بھی پابند سلاسل کردیا ہے۔ توبھارت کے نام نہاد مسلم قائدین اگر کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ اپنے دینی اور ملی رشتے کو محسوس نہ بھی کریں تو بھی ایک کٹر ’ سیکولر اور کٹر ” وطن پرست “ ہونے کی حیثیت سے ہی وہ ملک کے ایک صوبے کی عوام کی اجتماعی امنگ اور اجتماعی رائے کے ساتھ کھڑے ہوسکتے تھے۔ یہ عدل کا، عوامی آزادی کا، حقیقت شناسی کا، انسانی ہمدردی کا تقاضا تھا کہ وہ دوسرے بہت سے مخالفین کی طرح ڈٹ کر حکومت کے فیصلے کی مخالفت کرتے۔ لیکن انھوں نے عدل و انصاف اور ہمدردی و مروت کے بجائے ظلم و جبر پر مبنی فیصلہ کی تائید کا اظہار کرکے یہ ثابت کیا کہ یہ حق پرستی کی آزمائش میں ٹک نہیں سکتے۔  

مسلم قیادت کی اس پھٹیچر قرار داد میں مظلوم کشمیری عوام سے ہمدردی ظاہر کرنے کا ایک لفظ بھی براہ راست ادانہیں کیا گیا۔ لفاظی سے کام لے کر اپنی چمڑی بچاتے ہوئے کچھ” معترضین “ اور سپریم کورٹ کے حوالہ سے ہی کام لیا گیا ہے۔ کشمیر میں کرفیو اور اطلاعات پر پابندی کو تین ہفتے سے زائد ہو گئے۔ یہ مسلم قائدین ملی تعلق اور ہمدردی تو کجاانسانی ہمدردی اور تعلق کی بنیاد پر بھی ابھی تک کوئی ایسا بیان جاری کرنے کی ہمت نہیں کرسکے تھے جس میں انسانی آزادی کو چھین لینے اور پوری وادی کو جیل بنا ڈالنے کی مذمت یا مخالفت ہوتی۔ اب اس قرارداد میں بھی یہ قائدین حکومت کو صرف ”متوجہ کرنے“ کی ضرورت سمجھتے ہیں۔ گویا کہ ایک معصوم حکومت ہے جس کی بے توجہی کی وجہ سے کچھ گڑبڑ ہورہی ہے اور ان کی توجہ دلانے سے یہ انسانیت نواز حکومت فوری طور سے متوجہ ہوجائے گی۔

اپنی نا اہلی پر گواہ اس قرار داد میں ان مسلم قائدین نے آخر میں مسلم نوجوانوں کو کچھ ناصحانہ مشورے دئے ہیں۔ لیکن وقت کی رفتار یہ بتارہی ہے کہ مسلم نوجوانوں کو بہت جلد خود اپنا قائد بن کر کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔ جوانوں کو پیروں کا استاد بننے کی ضرورت ہے کیوں کہ قوموں کی قیادت کے لئے جو حوصلہ عزم و ہمت اور بے باکی چاہئے وہ آج کی نام نہاد مسلم قیادت کے پاس نہیں ہے۔

(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں. ادارہ کا اتفاق ضروری نہیں ہے)