ہم نئے اسلامی سال کی ابتداء کیسے کریں؟

زندگی کے مختلف شعبوں میں دیگر طرزِ عمل کو چھوڑ کر اگر صرف نئے سال کی ابتداء کی ہی بات کریں تو مسلمانوں کی زندگی میں ایک عجیب و غریب افراط وتفریط کا منظر نظر آتا ہےجس سے اپنے امتیاز سے بیزاری اور دوسروں کے کلچر سے محبت کا عکس صاف جھلکتا ہے۔ غور کریں عیسوی یا انگریزی نئے سال کی آمد پرمسلمان ایسا جشن مناتے ہیں گویا یہ اُن کے لئے فرض ہواور اس کے با لمقابل اسلامی نئے سال کا استقبال تو دور ،اُن میں سے بہتوں کو اس کی آمد کی بھی خبر نہیں ہوتی۔

مدثر احمد قاسمی

کسی بھی قوم کے زندہ ہونے کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ اس کے امتیازات و خصوصیات اس میں بدرجہ اتم موجود ہوں اوراُن میں کسی قسم کی کمزوری یا کمی اس قوم کی موجودہ زبوں حالی کاواضح پتہ دیتی ہے۔ یقیناً وہی قومیں تاریخ کے صفحات میں کامیاب قرار دی جاتی ہیں ،جنہیں اپنے تشخصات، اپنے وجود سے بھی زیادہ پیاری ہوں اور جنہوں نے اپنا تن من دھن سب لُٹا کر اُن کی بقاء اور ارتقاء کویقینی بنایا ہو۔ اس کی صاف وجہ یہ ہے کہ اپنے آپ کو دوسری تہذیبوں اور طریقوں میں گم اور ضم کردینے والوں کا درحقیقت بطور ایک منفردقوم کےاپنا کوئی وجود ہی نہیں ہوتا — توپھر کیسےوہ قوم حال یا مستقبل میں اپنی چھاپ چھوڑ سکتی ہے یا اپنےوجود کو منوا سکتی ہے؟
اس تمہید کے تناظر میں جب ہم موجودہ دور میں مسلمانوں کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ پاتے ہیں کہ اُن میں سے اکثریت کو اپنے تہذیب و تمدن اور مذہب و ثقافت سے کہیں زیادہ دوسروں کے طور طریقے اور طرزِ زندگی پسند ہیں اور حد تو یہ ہے کہ بسا اوقت اپنے امتیازات کو عار سمجھ کر دوسروں کی شناخت میں ڈوب جانے کومسلمان باعثِ فخر سمجھتے ہیں۔ یقیناً یہ سوچ پستی کی آخری حد ہے جہاں سے بلندی کا خواب سراب سے پیاس بجھانے کے مترادف ہے۔
زندگی کے مختلف شعبوں میں دیگر طرزِ عمل کو چھوڑ کر اگر صرف نئے سال کی ابتداء کی ہی بات کریں تو مسلمانوں کی زندگی میں ایک عجیب و غریب افراط وتفریط کا منظر نظر آتا ہےجس سے اپنے امتیاز سے بیزاری اور دوسروں کے کلچر سے محبت کا عکس صاف جھلکتا ہے۔ غور کریں عیسوی یا انگریزی نئے سال کی آمد پرمسلمان ایسا جشن مناتے ہیں گویا یہ اُن کے لئے فرض ہواور اس کے با لمقابل اسلامی نئے سال کا استقبال تو دور ،اُن میں سے بہتوں کو اس کی آمد کی بھی خبر نہیں ہوتی۔
یہاں یہ بات واضح رہے کہ اسلام کی کوئی ایسی تعلیم نہیں ہے جس سے شمسی یعنی عیسوی کلینڈر کے استعمال کو منع کیا گیا ہو ؛بات صرف قمری یعنی اسلامی کلینڈر کے حوالے سے مسلمانوں کی بیداری اور اس کو اپنانے کی ہے؛کیونکہ مسلمانوں کے تمام مذہبی امور اسی سے طے پاتے ہیں۔ رمضان، عید، بقرعید، حج، عاشورہ ، زکوۃ، عدت اور دیگر خاص اسلامی مواقع کا فیصلہ قمری تاریخ یعنی ہجری کلینڈر سے ہی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی تاریخ کی جانکاری کو فقہائے اسلام نے فرض ِ کفایہ لکھا ہے ؛اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اسلامی کلینڈرکے حوالے سے اگر عام غفلت ہوجائے تو وقت کے ساتھ مشروط دینی امور کو صحیح ٹائم پر انجام دینا ایک مشکل امر ہوجائے گا۔
اسوقت ہم لوگ نئے اسلامی سال 1441 ہجری میں داخل ہو رہے ہیں ، جس کی ابتدا ء خلیفہ ثانی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں ہوئی۔واقعہ یہ ہوا کہ عراق وکوفہ کے گورنر حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خلیفہ کو خط لکھا کہ مختلف احکامات پر مشتمل آپ کے جو خطوط ہمیں دستاب ہوتے ہیں اُن پر کوئی تاریخ نہیں ہوتی جس کی بنیاد پر یہ سمجھ پانا مشکل ہوتا ہے کہ کونسا خط کب کا ہے،جس کی وجہ سے بسا اوقات اُن کے عمل در آمد میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔ اس کے بعدحضرت عمر رضی اللہ عنہ نےمجلسِ شوریٰ بلائی اور مختلف آرا پر غورو خوض کے بعد ہجرتِ مدینہ کو اسلامی کلینڈرکا نقطۂ آغاز تسلیم کیا گیا اور محرم الحرام کو اسلامی سال کا پہلا مہینہ طے کیا گیا ۔واضح رہے کہ ہجری تاریخ طے ہونے سے پہلے بھی عربی مہینوں کی یہی موجودہ ترتیب تھی۔
اس موقع پر اگر ہم ہجرت سے اسلامی کلینڈر کے ابتداء کی حکمت پر غور کریں گے تو ہماری زندگی اور پورے اسلامی معاشرے پر اس کا ایک خوشگوار اثر مرتب ہوگا۔ ہجرت در اصل مظلومیت کی آغوش سے اسلامی فتوحات کے شاندار باب کا آغاز تھا کیونکہ اس کے بعد ہی مسلمانوں کی مثالی ریاست مدینہ منورہ کا قیام عمل میں آیا ،جس کے سربراہ محسنِ انسانیت محمد عربی ﷺ از خود تھے۔یہاں سے اسلام نے تہذیب و تمدن ،تعلیم و تعلم،امن و رواداری اور انصاف و مساوات کی وہ تاریخ رقم کی جس سے پوری دنیا مستفیض ہوئی اور یہ سلسلہ تا قیامت جاری رہے گا۔ ان شا ء اللہ
اسلامی کلینڈر کی اہمیت واضح ہوجانے کے بعد اب ہمیں یہ طے کرنا ہے کہ ہم نئے اسلامی سال کی ابتدا ء کیسے کریں؛ تو اس تعلق سے بنیادی بات یہ ہے کہ جتنے بھی خوشی کے مواقع ہیں اُن کے لئے اسلام نے یہ رہنمائی کی ہے کہ اُن مواقع کولہو و لعب اور لایعنی باتوں میں گذار نے کے بجائے اللہ رب العزت کی شکر گزاری کا ایک بہترین موقع سمجھا جائےاور دربارِ الٰہی میں جبینِ نیاز خم کیا جائے۔ اس لئے نئے سال کی آمد پر اپنی تمام تر کوتاہیوں کے باوجود ایک حسین زندگی اور موجود وسائل کی عطا ء پر ہمیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا شکریہ ادا کرنا چاہئےاوراحتساب کے ذریعے اپنی کوتاہیوں اور لغزشوں سے توبہ کرکے معیاری اسلامی زندگی کی ہمیں دعاء مانگنی چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے۔ اس موقع پر بطورِ خاص غیروں کے اخلاق باختہ اور حیا سوز اعمال سے بچنے کا بھی ہمیں عزم کرنا چاہئے تاکہ ہم اپنے امتیازات و خصوصیات کے ساتھ زندہ رہیں اور دوسروں کے لئے ایک مثالی اسلامی زندگی کا نمونہ پیش کر سکیں۔
(مضمون نگار انگریزی رسالہ ایسٹرن کریسنٹ ،ممبئی کے اسسٹنٹ ایڈیٹر اور روزنامہ انقلاب، ممبئی میں ڈیلی کالم نگار ہیں۔(mudqasmi@yahoo.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں